- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, May 26, 2016


عامر محمد عامر الھلالی
ترجمانی :حافظ عبداللہ سلیم
مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں؟ 

گیارہواں طریقہ:آگاہ رہو! بے شک مستقبل میں تمہیں وہی تکلیف و مصیبت پہنچے گی جو اللہ نے تیرے نصیب میں لکھی ہوگی۔
صرف وہی کچھ وقوع پذیر ہوگا جو اللہ کا ارادہ ہے اور جو اس نے تمہارے مقدر میں کیا ہے ، پس تم مستقبل سے اور نہ ہی کسی ایسی چیز سے ڈرو جس کامستقبل میں تمہیں پہنچنے کا امکان ہے ، لہٰذا اس سے نہ ڈرو کہ تمہیں فقر و فاقہ آجائے ، نہ اس سے کہ تمہیں کوئی بیماری لگ جائے گی اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی چیز کا خوف کھاؤ ، بلکہ جان رکھو ! تمہیں صرف وہی کچھ لاحق ہوگا جو تیرے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے اور اگر
روئے زمین کے جن اور انسان مل کر تمہیں کوئی ایسی تکلیف دینا چاہیں جو اللہ نے تمہارے مقدر میں نہیں لکھی تو وہ کبھی تمہیں وہ تکلیف نہیں د ے سکیں گے ۔ 
پس تم ا س عظیم قاعدے اور نسخے کو یادرکھو تمہارا دل مطمئن اور پرسکون ہوجائے گا اور جو اللہ کل تمہارے غم میں تمہیں کافی ہواتھا وہ مستقبل کے غم میں بھی تمہیں کافی ہوگا ، لہٰذا تم ٹھنڈی آنکھوں اور مطمئن دل کے ساتھ سو رہو جب تک تمہیں یقین ہو کہ بلا شبہ تمہارا مستقبل اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قُل لَّن یُصِیْبَنَا إِلاَّ مَا کَتَبَ اللّہُ لَنَا ہُوَ مَوْلاَنَا وَعَلَی اللّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُون۔(التوبۃ:۵۱)
’’ کہہ دے ہمیں ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ، وہی ہمارا مالک ہے اورلازم ہے کہ ایمان والے اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔‘‘
بلاشبہ اس ایمان میں دل کا اطمینان اور بدن ، نفس اور اعصاب کا سکون ہے اور غم و فکر سے چھٹکارا ہے ، پس میرا نفس نہیں بکھر ے گا ، میرے اعصاب میں تناؤ نہیں آئے گا اور مجھے کسی قسم کی وحشت وتنہائی اور توڑ پھوڑ محسوس نہیں ہوگی، بلکہ مجھے تو صرف رضا و خوشنودی ، اطمینان ، سعادت ، راحت ، سکون ، یقین کی پختگی ، آنکھوں کی ٹھنڈک ، ضمیر کا اطمینان ، سینے کا کھل جانا اور اللہ کی رحمت عدل علم اور حکمت پر اطمینان جیسی چیزیں حاصل ہوں گی جو وسوسوں اور کھٹکوں سے بچاتی ہیں ۔(ایمان، محمد نعیم یاسین ص۱۲۸،۱۲۹)
پس مستقبل پر کوئی خوف نہیں رہتا اور نہ ہی مستقبل میں کسی چیز کے متوقع ہونے سے ڈر رہتا ہے ، بلکہ روشن خیال و آرزو اور نہ ڈگمگانے والا یقین ہوتا ہے کہ مستقبل صر ف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ، کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ۔
اے مومن!بلاشبہ اکثر جس چیز کا ڈر ہوتا ہے وہ نہیں ہوتی اور غالباً جس نا پسند چیز کے متعلق
سنا جاتا ہے وہ وقوع پذیر نہیں ہوتی ۔ لہٰذا اللہ ہی کافی ہے ، وہی سب کی حفاظت کرتا ہے اور اسی کی طرف سے مدد آتی ہے ۔ (لاتحزن للدکتور عائض القرنی ص:۳۷۸)
بارہواں طریقہ:آگاہ رہو!بلا شبہ مصیبت کا ایک مقرر وقت اور محدود عمر ہے لہٰذا اس کے زائل ہونے کی جلدی نہ کرو۔ 
بلا شبہ مصائب کی مدت پر ایمان؛ منتشر اور پریشان لوگوں کے لیے تسلی بخش چیز ہے اور تکالیف کی مدتوں کی تصدیق مصیبت زدہ لوگوں کے لیے تسلی کا باعث ہے ، بلاشبہ ہر مصیبت کا ایک وقت مقر ر ہے جس سے زیادہ دیر وہ نہیں رہ سکتی ، پس تمہارا اس کے وقت سے پہلے اس کو زائل کرنے کا حیلہ و تدبیر کرنا ایک قسم کا پاگل پن اور وسوسہ کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ۔ 
(ھکذاحدثنا الزمان؛ص:۲۲۴،دکتور عائض القرنی )
سختی اور مصیبت بیماری کی طرح ہے اور بیماری کے لیے لازمی طور پر ایک مدت ہے جس کے بعد وہ زائل ہوجائے گی ، جس نے اس کے زائل ہونے میں جلدی سے کام لیا تو عنقریب وہ بیماری بڑھ جائے گی اور سنگین ہوجائے گی ۔ اسی طرح مصیبت اور سختی کا بھی ایک وقت مقر ر ہے جس کے گزرجانے پر اس کے نشانات مٹ جائیں گے ، لہٰذا مصیبت میں مبتلا شخص پر واجب ہے کہ وہ صبر سے کام لے ، مصیبت کے ٹل جانے کا انتظار کرے اور مسلسل دعا کرتا رہے ۔ (لاتحزن للدکتور عائض القرنی ص:۹۶)
اور جس نے آزمائش کے ٹلنے کو جلدی طلب کیا جبکہ اس آزمائش کا زمانہ لمبا ہوگیا اور اس کا ٹلنا دور ہوگیا تو وہ بے چین و مضطرب رہ کر بزدل بن جائے گا اور اپنے آپ کو برباد کرلے گا ۔ کیوں کہ وہ یہ ایمان ہی نہیں رکھتا کہ مصیبت کا ایک محدود زمانہ ہے اس سے پہلے ختم ہونے والا نہیں ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَإِن کَانَ کَبُرَ عَلَیْْکَ إِعْرَاضُہُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِیَ نَفَقاً فِیْ الأَرْضِ أَوْ سُلَّماً فِیْ السَّمَاء فَتَأْتِیَہُم بِآیَۃٍ وَلَوْ شَاء اللّہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدَی فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْجَاہِلِیْن۔ (الانعام: ۳۵)’’ اور اگر تجھ پر ان کا منھ پھیرنا بھاری گزرا ہے تو اگر تو کرسکے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ نکالے ، پھر ان کے پاس کوئی نشانی لے آئے تو لے آ اور اگر اللہ چاہتا تو یقیناً انہیں ہدایت پر جمع کر دیتا ۔ پس تو جاہلوں میں سے ہر گز نہ ہو ۔ ‘‘
لہٰذا تم آزمائش کے ٹلنے میں جلدی نہ کرو ، کیوں کہ اس کا ٹل جانا قریب ہے ۔ 
تیرہواں طریقہ:جان لو! بلا شبہ تم اکیلے ہی آزمائش وتکلیف میں مبتلا نہیں ہو ۔
ہر مومن جان لے کہ اس سے پہلے بھی نیک لوگوں کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو مختلف قسم کی آزمائشوں میں مبتلا کرتا رہا ہے ۔ 
پس ہر بستی میں ایسے لوگ ہیں کہ اگر وہ دائیں جانب دیکھیں تو اسے صرف سختی و مصیبت ہی دکھائی دے گی ، پھروہ دائیں جانب مڑ کر دیکھیں تو اس کو آزمائشوں میں مبتلا لوگ ہی نظر آئیں گے خواہ پسند یدہ چیز کے چھن جانے سے یا نا پسندیدہ چیزکے حاصل ہونے سے ۔ اور یقیناًدنیا کی خوشیاں ایک خواب ہیں یا ڈھلتی چھاؤں ہے ، اگر وہ اس کو تھوڑا سا ہنسا لیں تو پھر اس کو بہت زیادہ رلائیں گی اور اگر انہوں نے اس کو ایک دن خوش کردیا تو زمانہ بھر اس کو ناگواری میں مبتلا کریں گی ، اور اگر تھوڑا سافائدہ پہنچایا ہے تو لمبا عرصہ اس کو محرومیوں کا شکا ر کریں گی اور ان خوشیوں نے کبھی کسی کو بھلائی سے نہیں بھرا کہ پھر بعد میں اس کو عبرت کے سامان سے نہ بھرا ہو اور نہیں خوش کیا انہوں نے اس کو ایک خوش کن دن کے ساتھ مگر اس کے لیے ایک برا دن بھی چھپا رکھا ہے ۔ (زاد المعاد۱؍۷۴،۷۵)
پس تم صرف اکیلے ہی مصیبت میں مبتلا نہیں کیے گئے ، تم سے پہلے اور تمہارے بعد لوگ آزمائشوں میں ڈالے گئے اور ڈالے جائیں گے اور تم اللہ کی زمین میں جدھر بھی نگاہ دوڑاؤ گے تمہیں آزمائشوں میں مبتلا لوگ نظر آئیں گے ، اللہ تعالیٰ جو آزمائش بھی کسی کے مقدر کرتا ہے اس میں اس کی کمال حکمت پنہاں ہوتی ہے ۔ 
بلا شبہ انبیاء و صالحین آزمائشوں میں مبتلا کئے گئے ۔ ا ن میں سے کسی کو قید کیا گیا اور کسی کو بیمار ی میں مبتلا کیا گیا ، کسی کو اس کے شہر و ملک سے نکال دیا گیا ، ان میں سے کسی کو مارا پیٹا گیا اور کسی سے دشمنی کی گئی اور تکلیفیں دی گئیں ۔ سیکڑوں افراد ایسے ہوں گے جن کو معزول کیا گیا یادھتکارا گیا یا بیماری یا فقر و فاقہ اور دیگر تکلیفوں میں مبتلا کیا گیا ، پس تم کو اکیلے ہی مصیبت نہیں پہنچی اور نہ ہی تم اکیلے آزمائش میں مبتلا ہوئے ۔ 
ٓٓٓٓٓ8ں حضرت ایوب علیہ السلام طویل مدت تک بیماری میں مبتلا رہے ۔ 
ٓٓٓٓٓ8ں طویل عرصہ تک یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے (حضرت یوسف علیہ السلام ) کو گم کیے رہے ۔
ٓٓٓٓٓ8ں حضرت یوسف علیہ السلام کو قید میں ڈالا گیا �آ8ں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سخت تکلیف میں مبتلا کیا گیا اور ان کو ایک جبار و سر کش دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔آ8ں حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیمی کی حالت میں فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی ، آپ اکو جھٹلایا گیا ، آپ ا کو جادوگر ، مجنون اور شاعر کہا گیا اور آپ ا کا مذاق اڑایا گیا ۔ اور سجدے کی حالت میں آپ ا 
کی پشت پر اونٹ کی اوجھڑی پھینکی گئی ، آپ اکو اپنے شہر سے نکالاگیا ۔ آپ ا کو اپنے پیاروں اور 
صحابہ رضی اللہ عنہم کی وفات کا صدمہ پہنچتا رہا ۔ 
اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں اور انہوں نے بہت ساری سختیوں اور مصیبتوں کا سامنا کیا اور بلا شبہ ہر دور میں اور ہر جگہ علماء و صالحین کو آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا ۔ 
چو دہواں طریقہ:آگاہ رہو !تمہارا آزمائش میں مبتلا ہونا اس میں مبتلا نہ ہونے سے بہتر ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تُحِبُّواْ شَیْْئاً وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (البقرۃ:۲۱۶)’’ اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسندکرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُواْ النِّسَاء کَرْہاً وَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُواْ بِبَعْضِ مَا آتَیْْتُمُوہُنَّ إِلاَّ أَن یَأْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً۔(النساء:۱۹) ’’شاید کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے ۔‘‘
ابن الفرضی کہتے ہیں کہ میں نے ذوالنون کو یہ کہتے ہوئے سنا : ’’ آزمائش مومن کے لیے ایک خوش نما اورجاذب نظر چیز ہے ، جب اس پر آزمائش نہیں ہوتی تو اس کی حالت بگڑ جاتی ہے ۔
(تہذیب حلیۃ الاولیاء ۳؍۲۳۴، اعداد: صالح الشامی )
اور جب بندے کو اپنے رب تعالیٰ کے متعلق معرفت تامہ حاصل ہوجاتی ہے تو وہ یقینی طور پر یہ جان لیتا ہے کہ بلا شبہ وہ ناپسندیدہ سختیاں اور مصیبتیں جو اس کو پہنچی ہیں ان میں اس کے لیے کئی قسم کی مصلحتیں اور فائدے ہیں جو اس کے علم اور اس کی سوچ و فکر میں نہیں آسکتے ، بلکہ بلاشبہ بندے کے لیے اس چیز میں جس کو وہ نا پسند کرتا ہے ، عظیم مصلحت ہوتی ہے ، اس چیز کی نسبت جس کو وہ پسندکرتا ہے ، پس لوگوں کی عام مصلحتیں ان کی ناپسندیدہ چیزوں میں ہوتی ہیں ، جیسا کہ ان کی عام تکلیفیں اور نقصان اور ان کی ہلاکتوں کے اسباب ان کی پسندیدہ چیز و ں میں ہوتے ہیں ۔ (الفوائد: ص:۱۰۴،۱۰۵)
جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کو ان آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے جن کو وہ نا پسند کرتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اللہ کی طرف سے ان کی حفاظت کرتے ہوئے ، ان پر احسان کرتے ہوئے اور ان کے ساتھ لطف و کرم کا بر تاؤ کرتے ہوئے ان کے آزمائشوں میں مبتلا نہ ہونے سے بہتر ہوتا ہے ۔ اگر ان کو اپنے نفسوں کے لیے اختیار کی قدرت دے دی جاتی تو وہ اپنے علم ارادے اور عمل کے ساتھ اپنی مصلحتوں کے قیام سے عاجز آجاتے ، لیکن اللہ عزوجل نے اپنے علم ، عدل اور رحمت کے ساتھ ان کے معاملات کی تدبیر از خود کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے ، خواہ وہ اس کو پسند کریں یا نا پسند ۔
(الفوائد: ص:۱۰۵،۱۰۶)
آپ ا نے فرمایا : عجبا لامر المؤمن ان امرہ کلہ خیر ، ولیس ذلک لاحد الا للمؤمن ، ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ ، وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرالہ ۔(صحیح مسلم :۲۹۹۹)’’ مومن کا معاملہ بہت قابل تعجب ہے ، بلا شبہ اس کا معاملہ سارے کا سارا اس کے لیے بہتر ہے ، اور یہ سعادت صرف مومن کو ہی حاصل ہے ،اگر اس کو خوش حالی ملے تووہ اس پر شکریہ ادا کرتا ہے ، پس یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ۔ ‘‘
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ بلاشبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندے کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے خواہ اس کو یہ فیصلہ بر الگے یا اچھا ، پس اس کا فیصلہ اپنے مومن بندے کے حق میں کسی چیز سے محرومی کی شکل میں ہوتو وہ محرومی کی شکل میں ہونے کے باوجود اللہ کا عطیہ ہی ہے ۔ اور اللہ کی طرف سے محرومی نعمت ہی ہے اگر چہ وہ سختی اور مصیبت کی صورت میں ہو ، اور اس کی طرف سے آزمائش صحت و عافیت ہے اگر چہ وہ آفت کی صورت میں ہو ، لیکن یہ بندے کی جہالت اور ظلم ہے کہ وہ عطیہ ، نعمت اور عافیت اسی کو شمار کرتا ہے جس سے وہ جلدی لذت حاصل کرسکے اور وہ اس کی طبیعت کے موافق ہو ، اگر اس کو معرفت کا کافی زیادہ حصہ ملا ہو تو وہ محرومی کونعمت اور آزمائش کو رحمت شمار کرے گا اور عافیت کی نسبت آزمائش سے زیادہ لذت پائے گا اور غنی وامید سے بڑھ کر فقر و فاقہ میں لذت محسوس کرے گا اور وہ قلت و کمی کی حالت میں کثرت 
و فراوانی کی حالت سے زیادہ شکر بجا لا ئے گا ۔ (المدارج۲؍۲۰۷)
بلا شبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے اسی چیز کو منتخب کرتے ہیں جس میں اس کی اصلاح اور بہتر ی ہوتی ہے ، لہٰذا اس کو ہر آنے والی آزمائش پر راضی و خوش رہنا چاہیے کیوں کہ وہ آزمائش اس ذات کی انتخاب کردہ ہے جو اس کو اس سے زیادہ جانتا ہے اور اس پر اس کی جنم دینے والی ماں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔ جس شخص کو اس کی معرفت حاصل ہو گئی اور اسے اس پر یقین آگیا تو اس پر مصیبتیں آسان ہوجاتی ہیں اور وہ آسانی کے ساتھ ان کا مقابلہ کر لیتا ہے ۔ 
بلکہ مومن کو اپنے اوپر نازل ہونے والی آزمائش ہلکی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ وہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اچھی چیز ہی منتخب کی ہے اور اس کو بہتر تو فیق دی ہے ۔ 
امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے کہا : ’’ بلا شبہ مومن کی آزمائش ایسے ہے جیسے اس کی دوائی ، جو اس سے ایسی ایسی بیماریوں کو نکال باہر کرتی ہے کہ اگروہ اس کے اندر رہیں تو اس کو ہلاک کردیں یا اس کے ثواب کو کم کردیں اور اس کا درجہ و مقام گھٹادیں ۔ آزمائش و امتحان اس سے وہ بیماریاں دور کر دیتا ہے اور اس کو پورے اجر اور بلندی مقام کے لائق اور قابل بنا دیتا ہے ۔ اوریہ بات معلوم ہے کہ اس آزمائش و امتحان کا وجود ان کے عدم وجود سے افضل اور بہتر ہے ۔۔۔۔ پس اس آزمائش و امتحان سے اللہ کی طرف سے مکمل نصرت و مدد ، عزت و قوت اور صحت و عافیت حاصل ہوتی ہے ۔ (اغاثۃ اللہفان ۲؍۲۰۱)

No comments:

Post a Comment