- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, May 26, 2016


شیخ رضاء اللہ محمد ادریس مبارک پوری رحمہ اللہ 
تقلیدسے امت کو کیا حاصل ہوا؟

حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ جس مذہبیت (تقلید) کی آج مقلدین حضرات بڑی شیخی بگھارتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ اور یہ جھوٹا دعوی کرتے ہوئے انہیں ذرہ برابر شرم دامن گیر نہیں ہوتی کہ تقلید ائمہ پر ہر دور میں ساری امت کا اجماع رہا ہے اور خصوصاً اس دور میں اس کے بغیر اپنے دین کی حفاظت ہی ناممکن ہے ۔(ملا حظہ ہو تجاویز تحفظ سنت کانفرنس منعقدہ ۲،۳؍ مئی ۲۰۰۱ء ؁دہلی ص:۷)
حالاں کہ انہی کے بعض اکابرین نے اس سوال: ’’ مسلمان ہونے کے لیے مذہباً حنفی شافعی وغیرہ ہونا خدا اور رسول نے شرط قر ار دیا ہے کہ نہیں ؟کے جواب میں واضح طور پر فرمادیا کہ
’’ حنفی ہونا مسلمان ہونے میں شرط نہیں کیا گیا ۔۔۔ اماموں نے اپنے قول کی تقلید کی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہو۔ (فتاوی عبدالحئی ص۱۵۴، منقول از اکابر علمائے احناف کے بھولے بسرے فتوے۔ص:۳۳)
پہلے آپ اپنے اس تضاد کو دور کیجئے پھر تقلید کو ضروری قراردیجئے ، بہر حال جس تقلید کو یہ حضرات دین کی حفاظت کے لیے ضروری گردانتے ہیں ۔ اس سے امت نے سوائے اختلاف و افتراق انتشار و تحزب اور گروہ بندی و تفرقہ بازی اور اس کی پاداش میں حاصل ہونے والے خونی تصادم کے اور کچھ نہیں حاصل کیا ، اس سے دلوں میں نفرت وعداوت اور بغض و حسد پیدا ہوا اور اس حد تک پیدا ہو ا کہ خون خرابے کی نوبت آگئی جس کے نتیجہ میں آباد زر خیز بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو کر رہ گئیں ، شہر ویران ہو گئے جبکہ دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ تقلید کے ذریعہ امت کے شیرازہ کو جمع کیا جا سکتا ہے ،ملت کے صفوں میں اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کی جاسکتی ہے۔ ذیل کی سطور میں اختلاف و افتراق کے 
چند نمونے پیش کیے جارہے ہیں جو محض مذہبی(مسلکی) تعصب کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں ۔
۱۔ مساجدومصلیوں کی تقسیم : دین اسلام کے اہم ترین ستون نماز کو اتفاق اتحاد کا عظیم ترین مظہر تصور کیا جاتا ہے اس اجتماعی عبادت نے اپنے مختلف اجتماعی مظاہر کی وجہ سے بہت سے
غیر مسلموں کو اسلام کی حقانیت اور اس کی صداقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا اور ایک امام کے پیچھے نماز کی با جماعت ادائیگی کو دیکھ کر اسے اسلام لاناپڑا،اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت و یگانگت کے مظہر پر مشتمل یہ اہم فریضہ بھی تقلید کی نظر بد سے نہیں محفوظ رہ سکا ۔ چنانچہ علماء مذاہب نے یہ فتاوے صادر کیے کہ ایک مذہب (مسلک )کا ماننے والا دوسرے مذہب(مسلک ) کے ماننے والے کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اگر پڑھے گا تو اس کی نماز باطل ہوگی اور اگر فقیہ صاحب نے بہت زیادہ رواداری سے کام لیا تو اسے کراہت کے درجہ میں رکھا ۔ 
علامہ ابن الھمام لکھتے ہیں : ’’ ابو الیسر نے کہا: کسی شافعی کے پیچھے کسی حنفی کا نماز پڑھنا جائزنہیں ہے ، کیوں کہ مکحول نسفی نے اپنی کتاب’’ الشعاع‘‘میں روایت کیا ہے کہ نماز میں رکوع کرتے وقت یا رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا نماز کو فاسد کردیتا ہے کیوں کہ یہ عمل کثیر میں داخل ہے ۔ بعض دیگر فقہا ء جیسے قاضی خان وغیرہ شافعی امام کی اقتدا کی صحت کے لیے شرط عائد کرتے ہیں کہ وہ متعصب نہ ہو ،اپنے ایمان میں شک کرنے والا نہ ہو اور اختلاف کے مقام میں احتیاط برتنے والا ہو ۔ (ملاحظہ ہو فتح القدیر ۱؍۱۸۹)
کتنی تعجب خیر ، قابل افسوس اور متضاد بات ہے کہ ایک ایسا عمل جس کے بارے میں خود ان کے ماہرین فقہ جن کو اطبا ء قرار دیا جاتا ہے اس بات کے قائل ہیں کہ یہ نبی کریم ا سے ثابت ہے ۔ اسی عمل کو عمل کثیر کہہ کر اس سے نماز کے بطلان کا فتوی صادر کیا جارہا ہے ۔ یہی ہے
کتاب و سنت کا نچوڑ جس کو ان کے فقہائے کرام نے کافی مغز ماری اور عرق ریزی کے بعد امت کے سامنے پیش کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہو اکہ خود نبی کریم ا کی نماز بھی اسی عمل کثیر کی وجہ سے باطل قرارپائے گی، نعوذ باللہ من ذالک۔
یہاں مولانا رشید احمد گنگوہی کا ایک فتوی نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے، معلوم ہونا چاہیے آپ ہی ہیں جن کی زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی غیر مقلد ہمارے پاس جماعت میں کھڑا ہو اور رفع الیدین اور آمین بالجہر کرتا ہو تو اس کے پاس کھڑے ہونے سے ہماری نماز میں کچھ خرابی نہ آئے گی ، یا ہماری نماز میں بھی کچھ فساد واقع ہوگا ؟ جواب دیتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں : کچھ خرابی نہ آئے گی، ایسا تعصب اچھا نہیں، وہ بھی عامل بالحدیث ہے ،
اگر چہ نفسانیت سے کرتا ہے ، مگر فعل تو فی حدذاتہ درست ہے ۔(فتاوی رشیدیہ :۱؍۱۱۱)
علامہ ابن الہمام جس عمل کے بارے میں اپنے فقہائے کرام سے نقل کرتے ہوئے مفسد صلاۃ ہونے کا فتوی صادر کرتے ہیں اسی عمل کو مولانا رشید احمد گنگوہی فی حد ذاتہ درست قرار دیتے رہے ہیں اور اسے عمل بالحدیث سے تعبیر کر رہے ہیں ، شاید تقلید (مذہبیت) کا اتحاد و اتفاق اور کتاب و سنت کا نچو ڑ اسی نوعیت کا ہوتا ہے ، ساتھ ہی مولانا کا عمل الحدیث کو نفسانیت سے تعبیرکرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے ؟نماز ہی کے تعلق سے ان کا ایک اور متضاد فتوی ملاحظہ فرمالیجئے، 
مولانا کفایت اللہ مفتی عالم دیوبندیت کی ایک معروف و مشہور علمی شخصیت ہے ، محمد پنجابی نامی ایک شخص نے کچھ سوالات کیے ، جن میں سے بعض غیر مقلدین کی امامت سے بھی متعلق ہیں ۔ پہلے سوال میں کہتا ہے : زید فرضی(فرض والی) جماعت کے برابر منفرد نماز پڑھتا ہے ، اس کے ساتھ نہیں ملتا کیا اس کی نماز ہوتی ہے یا نہیں ؟ وجہ یہ ہے امام غیر مقلد ہے ۔
دوسرا سوا ل یہ ہے کہ کیا موجودہ وہابیوں یا غیر مقلدوں کے خلف(پیچھے) نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں ؟ اثبات و نفی کی وجہ تحریر فرمائیں ۔
پہلے سوال کے جواب میں موصوف مفتی صاحب فرماتے ہیں : نماز تو ہوجاتی ہے مگر وہ ترک جماعت کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے ، امام کا غیر مقلد ہونا جماعت میں شریک نہ ہونے کے لیے عذر صحیح نہیں ‘‘۔
دوسرے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : غیر مقلدوں کے پیچھے حنفی کی نماز ہوجاتی ہے ۔
(کفایت المفتی ۱؍۲۳۴، منقول از بھولے بسرے فتوے ص:۲۸۔۲۹)
لیکن مولانا رشید احمد گنگوہی جن کی زبان فیض ترجما ن پر سوائے حق بات کے اور کوئی چیز جاری ہی نہیں ہوتی غیر مقلدین کی امامت پر بحث کرتے ہوے لکھتے ہیں :’’ ان کی امامت
مکروہ تحریمی ہے اور دانستہ ان کو امام بنانا حرام ہے ، اگر چہ نماز مقتدیوں کی بکراہت تحریمہ ادا ہوجاوے، اور نماز بھی جب ادا ہو کہ کوئی مفسد نماز نہ ہووے ورنہ یہ گروہ تو اس سے بھی پاک نہیں ہے،
قے ہونے اور خون نکلنے سے یہ لوگ وضو نہیں کرتے اور ان کو ناقض وضو نہیں جانتے بھلا اگر ایسے وضو سے امام ہوں گے تو حنفیہ کی نماز کب ان کے پیچھے ہو سکتی ہے ؟(تذکرۃ الر شید:۱؍۱۸۷۔۱۷۹)
غیرمقلدین کی امامت کو مکروہ تحریمہ قرار دینے پر موصوف نے جو وجہ جواز پیش کیا ہے وہ ان کا تقیہ کرنا ، حنیفہ کو مشرک گرداننا ، تقلید شخصی کو شرک کہنا اوردروغ گوئی سے کام لینا ہے ، اس سلسلے میں مشہور زمانہ کتاب جامع الشواہد جو اہل حدیثوں کے خلاف لکھی گئی ہے پر کافی اعتماد کیا ہے ، چونکہ موصوف حق کے علاوہ کچھ لکھتے نہیں ، اس لیے ان کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت و جرات نہیں ، لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ کیا آپ کی مذہبیت(تقلید ) اسی اتحاد و یگانگت کی دعوت دیتی ہے اور تقلید کے ذریعہ ملت کی صفوں میں اسی قسم کا اتحاد آپ پیدا کرنا چاہتے ہیں ؟ جس میں ہر قدم پر آپ کے اکابرین کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے ۔ 
اور یہی آپ کے فقہا ء کرام کا نچوڑ ہے جس کو انہوں نے کتاب و سنت سے کافی
عرق ریزی اور محنت و مشقت کے بعد حاصل کر کے امت کے سامنے پیش کیا ہے ؟ اگر اسی قسم کا اختلاف اہل حدیث علماء کے مابین رونما ہوجاتا تو مولانا ابو بکر غازی پوری جیسی مذہبیت کی پختہ شخصیت محو حیرت ہو جاتی ہے اور علمائے اہل حدیث جن کو غیر مقلدین کہتے ہیں کووہ بنا تھکے مختلف صلواتیں سنانے لگتے ہیں ۔ ذرا ان کو اپنے ان علماء حق کے بار ے میں لب کشائی کرنی چاہیے 
بہر حال ان کے عقلمندوں کی عقلمندی کی ایک معمولی جھلک پیش کی گئی جس پر ان کو بڑ ا فخر و ناز ہے ۔
اگر ایک جانب علمائے احناف نے حنفی مقتدی کی شافعی امام کے پیچھے نماز کے بطلان یا کراہت کا فتوی دیا تو دوسری جانب علماء شوافع نے بھی شافعی مقتدی کی حنفی کے پیچھے نماز کے بطلان کا فتوی دیا ۔ چنانچہ علامہ نووی جیسے حدیث سے شغل رکھنے والے عظیم عالم نے بھی فقہ سے متعلق اپنی معروف کتا ب میں اس بحث کو چھیڑا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں ایک حنفی شخص نے وضو کیا اور شافعی شخص نے اس کی اقتدا میں نماز ادا کی چونکہ حنفی وضو ء میں وجوب نیت کا قائل نہیں ہے جب کہ شافعی وجوب نیت کا قائل ہے ایسی حالت میں تین وجہیں(شکلیں) ہیں ، پہلی وجہ (شکل)جس کو ابو اسحاق اسفرائینی نے اختیا ر کیا ہے، اس کے مطابق شافعی کی اقتداء درست نہیں ہے خواہ حنفی امام نے نیت ہی کیوں نہ کی ہو اس لئے کہ عدم وجوب کا اعتقاد رکھنے کی وجہ سے اسے معدوم سمجھا جائے گا لہٰذا اس کی طہارت درست ہی نہیں ہوئی ۔ (المجموع:۱؍۲۵۸۔۲۵۹)
مزید لکھتے ہیں : اگر کسی حنفی شخص نے عورت کو چھو دیا یا نماز میں اطمینان وغیرہ نہیں کیا تو قفال کے نزیک شافعی کے لیے اس کی اقتداء جائز ہے لیکن جمہور اس کے بر خلاف عدم جواز کے قائل ہیں اور یہی صحیح ہے ۔ (المجموع:۱؍۱۸۴۔۱۸۵)
اختلا ف و افتراق کا دائرہ مرور زمانہ کے ساتھ اتنی وسعت اختیار کرتا گای کہ مسجد و محراب بھی اس کی ذد میں آگئے چنانچہ مساجد جن کو اللہ کا گھر بیوت اللہ کا نام دیا جاتا ہے ا ن میں بھی تقسیم ہوگئی اور ہر مذہب کے ماننے والوں نے الگ الگ اپنی مساجد بنانی شروع کردیں ۔ اگر کسی مسجد پر دو یا دو سے زیادہ مختلف جماعتوں کا دعوی رہا تو اسی ایک مسجد کے اندر دو یا دو سے زائد بلکہ چا ر الگ الگ ہر مذہب کے لیے محراب بنائی گئی ، ایک وقت کی نماز الگ الگر اماموں کے پیچھے اپنے اپنے مذہب کے مطابق مختلف اوقات میں ادا کی جائے لگی یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے عظیم مرکز اور
قبلہ اول مسجد حرام میں مقلدین مذاہب کے لئے چار الگ الگ مصلے قائم کر دیئے گئے کسی بھی مذہب کا ماننے والا اپنے ہم مذہب امام کے پیچھے ہی نماز ادا کرتا یہ اس جگہ کا حال ہوگیا تھا جہاں جاکر تمامسلمانوں کو اپنے تمام امتیازات اور فرق کو بھلادینے کا حکم دیا گیا تھا ۔ امت مسلمہ کے لیے اس سے بڑھ کر حرمان نصیبی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ شہادتین کے بعد دین اسلام کا سب سے بڑا بنیادی رکن نماز اللہ کے سب سے عظیم گھر خانہ کعبہ میں بھی تقلیدی مذاہب کی تفرقہ بازیوں سے محفوظ نہ رہ سکا چنانچہ ماضی قریب تک ایک اللہ ایک رسول ایک قرآن پر ایمان رکھنے والی ایک امت ایک وقت کی ناز ایک اللہ کے گھرمیں ایک قبلہ کی طرف چار الگ الک محرابوں میں چار امام کے پیچھے
ادا کرنے میں شاداں و فرحاں تھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سعودی حکومت کا قیام عمل میں آیا اور ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ کی جدو جہد اور حکمت عملی سے ملت اسلامیہ کی پیشانی سے یہ بد نما داغ ختم ہوا لیکن مذہبیت میں پختگی کے دعودیدار حضرات آج بھی اس دور کو یاد کرکے سرد آہیں ھرتے ہوئے سعودی حکومت کو کوس رہے ہیں اور اس زریں دور ؟ کے واپسی کی تمناائیں کر رہے ہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تقلید کے رواج کے ساتھ ہی اس کا ظہور نہیں ہو گیا تھا بلکہ بہت بعد کے ادوار میں جب تقلید کی جڑیں خوب مضبوط ہوگئیں لوگوں کے اندر اپنے اپنے مذہب سے اتنی وابستگی پیدا ہو گئی کہ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے اماموں کے پیچھے نماز کی ادائیگی حرام یا مکروہ سمجھی جانے لگی اور آگے چل کر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ ناصر فرج بن بر قوق نے حرم مکہ میں چاروں مذاہب کے لیے الگ الگ محرابیں قائم کر دیں اور ہر مذہب کے لیے ایک امام متعین کر دیا ۔( ملا حظہ ہو البدر الطالع ۲؍۲۶۔۲۷،و ایضاح المحجۃ للعمرۃ والحجۃ مولفہ نواب صدیق حسن ص:۱۶،سواء الطریق مولفہ مولانا ابو القاسم سیف بناری ص:۱۰ )
۲۔شادی بیاہ میں تفریق :اختلاف کا سلسلہ مسجد و محراب تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ شادی بیاہ تک پہنچ گیا اور فتوی صادر کیا گیا کہ کوئی حنفی کسی شافعی عورت سے نکاح نہیں کرسکتا اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ایمان کے مسئلے میں ان شا ء اللہ کہنے میں دونوں مذہب کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، چنانچہ ایک حنفی کہتا ہے میں حقیقتہً مومن ہوں اور شافعی کہتا ہے میں ان شا ء اللہ مومن ہوں ۔ (یہ عقیدہ ایک معروف و مشہور مختلف فیہ مسئلہ ہے ،کوئی شخص اپنے ایمان کے بارے میں ان شاء اللہ کہہ سکتا یا نہیں، احناف کے یہاں اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں ان شاء اللہ مومن ہوں تو اس کا یمان مشکوک مانا جائے گا ،تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: شرح العقیدۃ الطحاویہ:ص:۴۹۴،وما بعد تحقیق د؍الترکی والارناووط)
گویا ان شاء اللہ کہنے کی وجہ سے شافعی کے ایمان میں شک واقع ہوگیا ، لہٰذا اس کا ایمان مشکوک مانا جائے گا اسی بنا ء پر دونوں کے مابین شادی نہیں ہوسکتی ایک حنفی مفتی جن کو مفتی الثقلین کا لقب حاصل ہے ان کا فتوی ہے کہ ایک حنفی مرد شافعی عورت سے اس بنا پر شادی کر سکتا ہے کہ وہ
اہل کتاب کے درجے میں ہے ۔ (البحر الرائق لابن نجیم، منقول از بدعۃ التعصب المذہبی ص:۲۰۵ نیز ملاحظہ ہو حاشیہ ابن عابدین ۴؍۱۵۸،طبعہ جدیدہ محققہ)
یہ مسئلہ بھی صرف کتابوں کی زینت نہیں ہے بلکہ ایسے معاشروں میں جہاں مذہبیت پختہ انداز میں پائی جاتی ہے کچھ اسی قسم کا ماحول پایاجاتاہے، اور ارباب حل وعقد اختلاف مذہب کی وجہ سے ازدواجی رشتے میں مربوط بعض خاندانوں کو طلاق کے ذریعہ منتشر کرو اکر ہی دم لیتے ہیں
یا طے شدہ رشتوں کو منسوخ کرادیتے ہیں اور اسے دین کی اہم خدمت سمجھتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اجرو ثواب کی توقع رکھتے ہیں اور یہی وہ مثالی اتفاق و اتحاد ہے جسے یہ مقلدین حضرات تقلید کے ذریعہ امت میں قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ 
۳۔ مذاہب کی تنقیص و توہین میں مبالغہ آمیزی: مقلدین ظاہری طور پر مذاہب اربعہ کی حقانیت اور ان کے بر حق ہونے کا ڈنکا پیٹتے ہیں، اس کے باوجود ان کے مابین اپنے مذہب کے لیے زبر دست تعصب پایا جاتا ہے ، ہر ایک اپنے مذہب کو افضل و بر تر ثابت کرنے کے لیے دیگر مذاہب کو مطعون کرنے اور اس کی توہین و تذلیل کرنے میں حد رجہ غلو اور مبالغہ سے کام لیتا ہے ، اس سے بڑھ کر تذلیل و تحقیر کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک مذہب دوسرے مذہب کو اہل کتاب کے درجہ میں رکھتے ہوئے ان کی لڑکیوں سے شادی کی اجازت دیتے ہیں مگر اپنی لڑکیاں ان کو دینے کی اجازت نہیں دیتے ،تحقیر و تذلیل کا ایک نمونہ ملاحظہ فرما لیجئے ۔’’ حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح‘‘ حنفی مذہب کی ایک معروف و مشہو ر کتاب ہے اس میں مندرجہ ذیل مسئلہ مذکور ہے :
اگر کسی کنویں میں کوئی جانور گر کر مر گیا اور پھول گیا اس کنویں کے پانی کے استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا گیا ہے : اگر اس کنویں کے پانی سے آٹا گوندھ دیا گیا ہو تو اسے کتوں کو ڈال دیا جائے گا یا چوپایوں کو کھلا دیا جائے گا اور بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ کسی شافعی کے ہاتھ فروخت کر دیا جائے گا ۔ (حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح ، شرح نور الایضاح ص:۲۵)
دیکھا آپ نے کس طرح اس فقیہ اعظم نے کتوں اور شافعیوں کو ایک درجہ میں رکھ دیا ہے،دمشق کے حنفی قاضی محمد بن موسی البلا ساغونی (ف ۶۰۶ ھ) کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے ’’ اگر میرا بس چلے تو میں شافعیوں سے جزیہ وصول کروں ۔ (میزان الاعتدال
۴؍ ۵۱،۵۲،لسان المیزان ۵؍۴۰۲)
(واضح ہونا چائیے کہ ان علماء مقلدین نے اپنے مذہب، امام مذہب،علماء مذہب اور کتب مذہب کی افضلیت و برتری ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی چنانچہ امام مذہب کو وہ مقام عطا کیا جو شاید سید الانبیاء کو بھی حاصل نہ ہو ، آپ کی مخالفت کرنے والوں پر ذرات کے مثل لعنت سنائی گئی، کتابوں کا سلسلہ اللہ تعالیٰ تک پہنچا یا گیااور بعض کتابوں کی تصنیف حضور اکرم ا کی صریح اجاز ت سے عمل میں لائی گئی ،یہ تمام باتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی جا چکی ہیں(دیکھئے
’’ مضامین مبارکپوری‘‘) اس کے بعد بھی تشفی نہیں ہوئی اور دل نہیں بھر ا تو دوسرے مذہب کی
تحقیر و تذلیل اورتنقیص و توہین کو روا رکھا گیا ، ان کو دین اسلام سے خارج کرکے اہل کتاب اور ذمیوں میں شمار کیا گیا لیکن حسرت پوری نہیں ہوئی لہٰذا ان کو جانوروں اور چویایوں کے زمرہ میں رکھنے کی کوشش 
کی گئی، کیا اس کے بعد بھی چاروں مذہب کے بر حق ہونے کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے؟ اس سے بھی زیاد ہ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کی روشنی میں ان کی فقہ کے بر خلاف کسی امام کے مسئلہ پر گفتگو کرتا ہے توان کے یہاں بھونچال آجاتا ہے ۔ اسے اپنے مذہب میں نقب زنی پر محمول کرتے ہوئے اسلام کو ہی خطرے میں محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ گفتگو کرنے والوں کو گستاخی ، بد تمیزی ، مطالعہ کی محدودیت ،فکر کی سطحیت اور قلب کی بیماری جیسے اوصاف سے متصف کرنے لگے ہیں ، لیکن ان کے کسی عمل سے کوئی فرق نہیں پڑتا خواہ وہ کسی امام مذہب کی مبینہ تنقیص و توہین ہی کیوں نہ ہو ، بلکہ کتاب
و سنت میں ہی خرد برد پر کیوں نہ مشتمل ہو ۔ )
تحقیر تذلیل کا دائرہ صرف متبعین مذہب تک نہیں محدود رہا بلکہ امام مذہب امام محمد بن ادریس شافعی (ف ۴۰۴ ھ ) رحمہ اللہ تک اس کو وسعت دے دی گئی ، اور انتہا درجہ کی جرأت
و بے باکی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اور رسول اکرم ا کی وعید شدید کے باوجود آپ کے نام پر حدیثیں وضع کی گئیں جن میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو سراج امت اور امام شافعی رحمہ اللہ کو (نعوذ باللہ ) 
فتنہ پرور اور امت کے حق میں ابلیس سے زیادہ نقصان دہ اور مضرت رساں بتلایا گیا ۔ قارئین کی اطلاع کے لیے ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے جس کو علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے
تذکرۃ الموضوعات میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سند اًروایت کیاہے ۔ 
عن انس رضی اللہ عنہ : قال رسول اللہ ﷺ یکون فی امتی رجل یقال لہ محمد بن ادریس اضر علی امتی من ابلیس ویکون فی امتی رجل یقال لہ
ابو حنیفۃ ہو سراج امتی ہو سراج امتی ۔ 
یعنی میری امت میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام محمد بن ادریس ہوگا وہ میری امت کے لیے ابلیس سے زیادہ مضر ہوگا ، اور میر ی امت میں ایک شخص ایسا پیدا ہوگا جس کا نام ابو حنیفہ ہوگا وہ میری امت کے لیے سراج (اسی موضوع حدیث کے پیش نظر آپ کو سراج الامت کا لقب حاصل ہوگیا ۔
بالکل اسی طرح کی ایک دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے اس میں فتنۃ علی امتی اضر من ابلیس کا لفظ وارد ہے ، یعنی اس کا فتنہ میری امت کے لیے ابلیس سے بھی زیادہ مضرت رساں ہوگا ۔
پہلی حدیث کی سند میں مامون اور جویباری نامی دو شخص پائے جاتے ہیں انہی دونوں کے بارے میں محدثین کا خیال ہے کہ انہوں نے ہی اس حدیث کو وضع کیا ہے دوسری حدیث کی سند میں
ابو عبداللہ البورقی نامی شخص ہے ، اس نے دوسری حدیث گھڑی ہے ۔ (تذکرۃ الموضوعات۲؍۴۸،۴۹)
تمام علماء کا اس حدیث کے موضوع اور من گھڑت ہونے پر اتفاق ہے ۔ اس کا اعتراف کرتے ہوئے بھی علامہ زاہد کوثری نے حدیث کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے ، کیوں کہ اس حدیث کے مختلف طر ق اور متعدد سندیں ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی کوئی اصل اور حقیقت ضرور ہے ۔ (تانیب الخطیب ص:۴۵)
موصوف کثرت طرق کا اعتبار کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کر گئے کہ حددرجہ ضعیف یا موضوع حدیث کے کثرت طرق یا کثرت سند سے تقویت حاصل ہونے کے بجائے حدیث کا ضعف شدید سے شدید ہوجتا ہے ، یا اس کا بطلان مزید واضح ہوجاتا ہے ۔ (ملاحظہ ہو: نصب الرایۃ للزیلعی ۱؍۲۵۹، مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص:۵۲)
زاہد الکوثر ی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امام شافعی کی تنقیص اور ان کے مرتبہ کو گھٹانے کے لیے آپ کے حسب و نسب ، عربی دانی، فصاحت لسانی ، ثقاہت اور فقہ کو بھی مطعون کرنے کی کوشش کی ہے ۔(تانیب الخطیب ص:۴۵)
علامہ یحییٰ معلمی رحمہ اللہ نے تنکیل (التنکیل،۲؍۳۹۷،۴۰۴،۳۰۱۴،۳۱۶،۴۲۰)اور مولانا محمد رئیس ندوی حفظہ اللہ ونے اللمحات میں شیخ کوثری کے بیشتر اتہامات کا سخت نوٹس 
لیتے ہوئے کافی وشافی جواب دے دیا ہے ۔
دوسری جانب سے شافعیوں نے بھی احناف کے رویہ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف توہین آمیز رویہ اپنایا ۔ چنانچہ امام الحرمین ابو المعالی الجوینی نے حنفی مذہب کی عیب جوئی اور تنقیص و توہین میں ایک کتاب ہی بنام ’’ مغیث الخلق فی ترجیح ا لمذہب الحق ‘‘ تصنیف کر ڈالی۔
اما م موصوف اسی کتاب میں فرماتے ہیں : ’’ اگر کسی شخص نبیذکے گڈھے میں ایک ڈبکی لگائی اور کتے کا غیر مدبوغ چمڑا پہن لیا ، تکبیر تحریمہ کے کلمات کو ترکی یا ہندی زبان میں ترجمہ کر کے
ادا کیا ،اور نماز کی نیت سے کھڑا ہوا ، قرأت میں سور ہ رحمن کی آیت مدہامتان کے ترجمہ پر اکتفا کیا ،
پھر رکوع کو چھوڑ کر سجدہ میں کوے کی طرح دو چونچیں ما ر لیں ، دونوں سجدوں کے مابین جلسہ نہیں کیا ، اور تشہد بھی نہیں پڑھا، سلام کے بجائے آخر میں قصداً گوز ماردیا، تو اس کی نماز صحیح ہوجائے گی ، اگر کہیں اس سے تھوڑی سی غفلت ہوگئی اور بغیر قصد کے از خودگوزنکل گیا تو درمیان نماز ہی دوبارہ اسے وضو کرنا پڑے گا ۔‘‘
حنفی مسلک کے مطابق نماز کی تصویر کشی کے بعد موصوف مزید فرماتے ہیں :’’ ہر دیندار کو قطعی طور پر اس بات پر اعتماد جازم رکھنا چاہیے کہ اس قسم کی نماز دے کر للہ تعالیٰ کسی بھی نبی کو مبعوث نہیں فرماسکتا ،اور نہ رسول اکرم اکو اس نوعیت کی نماز کی دعوت دینے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے، اور نماز ہی حقیقت میں اسلام کا اہم ستون اور دین کی اصل بنیاد ہے ، لیکن امام ابو حنیفہ (رحمہ اللہ )نے اسی مقدار کو اقل واجب قرار دیا ہے ، اور یہی وہ نماز ہے جس کو لے کر رسول اکرم ا دنیا میں تشریف لائے تھے ، بقیہ امور آداب اور سنن میں داخل مانے جائیں گے ۔ 
مزید فرماتے ہیں : ’’ اگر یہی نماز جس کو(امام) ابو حنیفہ (رحمہ اللہ) صحیح قرار دیتے ہیں کسی عامی شخص پر پیش کی جائے اس وضاحت کے ساتھ کہ نماز ہی دین کی اصل بنیا د ہے ، تو اسے
ہر گز ہرگز قبول نہ کر ے گا، لہٰذا نمازکے باب میں (امام )ابو حنیفہ (رحمہ اللہ )کے مسلک کا واضح بطلان ان کے پورے مذہب کے بطلان کے لیے کافی ہے ۔(مغیث الخلق ص:۵۹)
شافعی عالم کفال نے محمود بن سبکتگین کے دربار میں اسی طرح کی نماز پڑھ کر اسے
مذہب حنفی سے بر گشتہ کر کے شافعی مسلک اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ (ایضا ص:۵۷۔۵۹)
نوٹ : ہمہ دانی کا دعوی کیے بغیر اپنے ناقص مطالعہ سے جو بات ذہن میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اس قسم کے بیشتر مسائل میں ائمہ کرام نے اقل واجب ، جواز عد م جواز ، اور نفاذ و عدم نفاذ کی اپنے قیاس و اجتہاد سے جو شکلیں یا حدیں متعین کی تھیں؛ اصحاب مذہب بعد میں چل کر انہیں شکلوں اور حدوں کو قطعی اور آخری شکل قرار دے کر ان پر اس طرح عمل پیر ہوگئے کہ دوسرے رخ کی جانب توجہ کرنا بھی غیر ضروری سمجھا جانے لگا ، مثال کے طور پر رکوع و سجود کے تعلق سے انہوں نے یہ کہا کہ مجرد انحناء یا زمین پر پیشانی رکھ دینے کا نام رکوع یاسجود ہے نماز میں اعتدال فرض نہیں ہے ، لہٰذا مذہبیت کی پختگی کے مظاہرہ نیز مخالفین کے رد عمل میں اعتدال متروک ہو گیا ، رکوع اور سجود میں اتنے ہی پر اکتفا کیا گیا جس سے لغوی اعتبار سے رکوع و سجود کا نام ہوجائے ۔ یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ اعتدال و اطمینان کے بارے میں ائمہ کرام نے کیا فرمایا ہے ۔ اس سے زیادہ واضح مثال ایک مجلس کی تین طلاق کے نفاذ یاعدم نفاذ کے تعلق سے ائمہ کرام نے تینوں طلاقوں کو نافذ ماناہے ۔ ساتھ یہ بھی وضاحت کردی کہ طلاق دینے کا یہ صحیح طریقہ نہیں ہے بلکہ طلاق سنی ، طلاق بدعی کی الگ الگ تعریفات فقہ کی کتابوں میں ملتی ہیں ۔ لیکن اہل حدیثوں کی ضد میں ان لوگوں نے طلاق بدعی کو اسی طرح دانتوں سے پکڑ لیا ہے اور اس کی اتنی وکالت کی کہ شاید ہی عوام میں کسی کو یہ معلوم ہو کہ ایک مجلس میں بیک زبان تینوں طلاق کے گولے داغنا طلاق کا مسنون طریقہ نہیں ہے کیوں کہ انہیں اہل حدیثوں کی رد میں اس کا موقعہ ہی نہیں ملا کہ عوام کو یہ بتلائیں کہ طلاق کا یہ مناسب و مسنون طریقہ نہیں ہے ۔ اگرکسی نے اس کے نا مناسب ہونے کی جانب اشارہ بھی کیا ہے تو اس کو مثالوں کے ذریعہ ایسی شکل دے دی کہ اس کی غیر مسنونیت کی جانب ذہن ہی منتقل نہ ہو، چنانچہ کہا گیا کہ اگر چہ ایک مجلس کی تین طلاق غیر مسنون ہے لیکن ان کو نافذ مانا جائے گا اور تینوں کے نفاذ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص بذریعہ ٹرین بلا ٹکٹ کہیں کا سفر کرتا ہے جو نامناسب ہے
غیر مناسب ہونے کے باوجود وہ شخص اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے ۔فقیہ صاحب نے بظاہر اس خوش نما و خوش کن مثال کے ذریعہ تینوں طلاقوں کے نفاذ کو خدا داد قیاسی و اجتہادی صلاحیت کے ذریعہ حل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی اور حاضرین مجلس سے سبحان اللہ! سبحان اللہ !کے
فلک شگاف گونج کے ساتھ داد تحسین بھی حاصل کی ہوگی ، لیکن فقیہ محترم کے اجتہاد نے انہیں خواہ وہ جتنی بھی خداداد اجتہادی صلاحیتوں کے مالک ہوں یہاں جل دے دیا ، کیوں کہ یہ بھول گئے کہ کہیں مجسٹریٹ چیکنگ ہوگئی تو منزل مقصود کے بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بطور سرکاری مہمان ان کو پہنچایا جائے گا اور ان کی خوب آو بھگت بھی کی جائے گی ۔

No comments:

Post a Comment