عبدالرؤف عبدالحفیظ السلفی
استاذ:المعہد،رچھا،بریلی
توہمات، بدشگونیا ں اور اسلامی تعلیمات
۲۱؍ویں صدی ؛روشن خیالی، فکری آزادی اور سائنس وتحقیق کی صدی کہلاتی ہے، یعنی یہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ اس صدی میں انسان محض قصے کہانیوں، کہاوتوں، داستانوں، اور سنی سنائی باتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے تحقیق اور تجربے کی کسوٹی پر اسے کستاہے اور جب تک سائنٹفک اور علمی وسائنسی یعنی تحقیقی طورپر ثابت نہ ہوجائے، کسی طرح کی بات اس دور میں قابل تسلیم واخذ قرار نہیں پاتی۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی چھوت چھات، بدشگونی، بے معنی باتوں سے نحوست کا نتیجہ نکالنے، توہم محض کی بنیاد پر کسی کام کے پورا ہونے، نہ ہونے کا عقیدہ رکھنے اور اندھ وشواش کے معاملے میں ہمارامعاشرہ۔خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ ہو بہواسی راہ اور نظریہ پر گامزن ہے جس پر لوگ صدیوں سے بلاغوروفکراور بغیرتحقیق وتفتیش آنکھیں بند کیے چلے آرہے ہیں۔ بڑے بڑے اپ ٹوڈیٹ، ماڈریٹ اور ڈاکٹر س وانجینئرس کو آپ دیکھیں گے کہ بلی راستے سے گذرجائے تواسے اپنے لیے فال بداور نحوست سمجھتے ہیں، گاڑیاں روک کر دوسرے کے گذرنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ کوئی دوسرا بیچارہ اس خیالی نحوست میں مبتلا ہوجائے، گھرکی چھت یا دیوارپریا آس پاس الّو کا بولنا آج بھی اسی طرح بلائے ناگہانی کا اعلان خیال کیا جاتاہے جیسے پہلے، صبح سویرے کسی کے گھر کوّے کا بولنا آج بھی کسی مہمان کی آمد کی پیشین گوئی تصورکیا جاتاہے، بعض دنوں ، بعض اوقات اور بعض لوگوں سے ملاقات ہوجانے پر جس طرح پہلے بدشگونی لی جاتی تھی آج بھی اسی طرح جاری وساری ہے، دنوں کو سعد ونحس میں تقسیم کیا جاتاہے، اس کے لیے باقاعدہ جنتر یاں شائع کی جاتی ہیں، شادی بیاہ کی تاریخ کے لیے بالاہتمام بڑی بڑی جہازی سائز کی ٹوپیوں والے حضرات مدعو کیے جاتے ہیں تاکہ وہ علم وعقل کے اندھے، ایک پل کی بھی خبر نہ رکھنے والے الّو کے پٹھے یہ متعین کریں کہ کون سی تاریخ سعد اور باعث برکت ہے اور کون سی نحس اور بے برکت، گویاغیرمسلموں میں مہورت نکالنے (نیک ساعت معلوم کرنے)اور قدیم زمانے سے پنڈتوں،جوگیوں، نجومیوں وغیرہ سے مستقبل کی خبریں معلوم کرنے کا جو بدعقیدہ پہلے رائج تھا آج بھی کسی نہ کسی شکل میں رائج ہے۔
آپ غور کریں کہ آسمانوں پر کمندیں ڈالنے، چاند پر رہائش کی بات کرنے اور علم وتحقیق کادم بھرنے والا انسان جب اس طرح کی بے بنیادبات،باطل عقیدہ، خیال محض اور اندھ وشواش میں مبتلا ہوتو کس طرح یہ کہنا زیب دیتاہے کہ یہ صدی روشن خیالی اور سائنس وتحقیق کی صدی ہے؟ سچائی یہ ہے کہ جاہلیت جس طرح پہلے اپناپاؤں پسارے ہوئے تھی اسی طرح آج بھی قائم وراسخ ہے، اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ وہ قدیم جاہلیت تھی اور یہ جدید ۔
ایسی بدعقیدگی، اندھ وشواش اور توہم پرستی کے دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کو اگر کسی نے حقیقی روشن خیالی اور واقعی روشن ضمیری عطاکی ہے تو وہ صرف اور صرف مذہب اسلام ہے۔
چنانچہ مذہب اسلام نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی بڑے کھلے اور صاف لفظوں میں ایسے تمام توہمات واہیات کی پرزور تردید کی ہے، اور علم وتحقیق کا ایسا روشن اور واضح اسلوب پیش کیا ہے جس کا آج کے مدعیان سائنس وتحقیق تصور بھی نہیں کرسکتے، ضرورت ہے کہ ان اسلامی تعلیمات کو مسلم معاشرے سے لے کر غیر مسلم سماج تک عام کیا جائے تاکہ بھٹکتی او ردردر ٹھوکریں کھاتی ہوئی انسانیت اپنے منزل مقصود تک جلد از جلد پہونچ کرسکون اور اطمئنان کی سانس لے سکے، آیئے اس حوالے سے بعض اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں:
* عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ا قال: ’’لا عدوی ولا ھامۃ ولا نوء ولا صفر‘‘ (صحیح مسلم:۲۲۲۱)
* عن جابر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ا:’’لا عدوی ولا طیرۃ ولا غول‘‘ (صحیح مسلم:۲۲۲۲)
مذکورہ دونوں احادیث سے میں ایسی چھ چیزوں کی نفی کی گئی ہے جن کا تعلق جاہلیت قدیم کی بدعقیدگیوں اور توہمات سے ہے۔
(۱)لا عدوی:یعنی مرض کے منتقل ہونے کا عقیدہ بے اصل اور فاسد ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اگر کوئی صحت مند آدمی کسی مریض آدمی کے پاس زیادہ اٹھتابیٹھتاہے تو وہ مرض (خود سے، اللہ کی مرضی ومشیئت کے بغیر) اس صحت مند شخص میں منتقل ہوجاتاہے۔
تنبیہ!مرض دو قسم کا ہوتاہے، ایک حسی یعنی محسوس کیا جانے والا، مثلاً چیچک، بخار، برص اور دیگر امراض اور دوسرا معنوی یعنی جسے اعضاء حاسّہ کے ذریعہ محسوس تو نہ کیا جاسکے مگر عقل ودماغ اس سے آگاہ ہوجائے مثلاً برے شخص کی برائی کا مرض ،کہ اس کا ادراک ہاتھ زبان وغیرہ سے تو نہیں کیا جاسکتامگر چھٹی حس اس کا ادراک کرلیتی ہے۔بشرطیکہ وہ خود مریض نہ ہو!
اسلام میں دونوں قسم کے مرض کے حکم الہٰی کے بغیر متعدی ہونے کا خیال باطل قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک صحابی نے رسول اکرم اسے سوال کیا کہ اگر مرض متعدی نہیں ہوتاتو خارش زدہ اونٹوں کے درمیان رہنے والے اونٹ کو خارش کیسے ہو جاتی ہے؟ توآپ انے بڑا مختصر اور جچا تلا جملہ ارشاد فرمایا: ’’فمن اعدی الاول؟‘‘ یعنی اگر آپ کے خیال میں دوسرے اونٹ پہلے والے خارش زدہ اونٹ کی وجہ سے خارش میں مبتلا ہوگئے ہیں تو یہ بتاؤ کہ پہلا اونٹ کس کی وجہ سے خارش زدہ ہواتھا؟ (بخاری:۵۷۱۷) گویا آپ ایہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس ذات نے پہلے اونٹ کو خارش زدہ کیا تھا، دوسروں کو خارش زدہ کرنے میں بھی اسی کی قدرت شامل حال ہے۔رہی بات بعض امراض کے متعدی ہونے کی؛تو اسلام اس کا منکر نہیں ہے، اسلام توصرف خود سے متعدی ہونے اور دوسروں میں سرایت کرنے کے عقیدہ کی تردیدکرتاہے۔
ہاں! اسلام اس بات کی تعلیم ضرور دیتاہے کہ ایسے مریض کے پاس نہ رہا جائے جس کا مرض متعدی سمجھا جاتاہے، یاتواس لیے تاکہ مرض بحکم الہٰی دوسروں میں سرایت نہ کرجائے یا اس لیے تاکہ خواہ مخواہ کا وہم وگمان نہ ہو اور اگر بمرضئ الہٰی مرض متعدی ہوجائے تو جاہلیت کے تعدی کا عقیدہ نہ پیدا ہوجائے۔
چنانچہ رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا:’’وفرمن المجذوم کما تفر من الاسد‘‘ (بخاری:۵۷۰۷)جذام کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔
اور آپ ا نے مزید فرمایا:’’لا تدیموا النظر الی المجذومین‘‘ (ابن ماجہ:۳۵۴۳، حسن صحیح)جذام والوں پر نظریں نہ گڑائے رکھو۔ اسی طرح طاعون زدہ علاقے میں جانے سے بھی منع کردیا گیا ہے۔ (بخاری:۳۴۴۳)
(۲) ولاھامۃ:’’ہامہ‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کی دو تفسیر کی گئی ہے:
(۱) عرب والوں کا یہ عقیدہ تھا کہ’ہامہ‘ الو یااس کے مثل ایک پرندہ ہوتاہے، جو کسی کے ناحق قتل کردیئے جانے پر اس وقت تک برابر اڑتااور چیختا چلاتا رہتاہے جب تک اس کے خون کا بدلہ نہ لے لیا جائے، بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ وہ الّو مقتول کی کھوپڑی ہی سے نکلتاہے جب کہ بعض عرب کا خیال تھا کہ وہ پرندہ نہیں بلکہ مقتول کی روح ہوتی ہے جو پرندے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
(۲) ’ہامہ‘ سے مراد الو نامی پرندہ ہے۔ عرب والے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ الو کا کسی کے گھر پر بولنا اس کے یہاں کسی کے مرنے یا کسی ناگہانی مصیبت سے دوچار ہونے کی علامت ہوتاہے۔
(۳) ولانوء: نوء سے مراد منازل قمر یعنی نچھتر ہیں، اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ بارش منازل قمر اور نچھتروں کے ذریعہ ہوتی ہے،یعنی بارش برسانے میں منازل قمر کا عمل دخل ہوتاہے۔ اسی لیے وہ بارش کی نسبت منازل قمر کی طرف کیا کرتے تھے، جس طرح فی زماننا لوگ کرتے ہیں۔ اسلام نے اس کی تردید کی ہے، بلکہ ایک روایت میں نوء کے قائلین کی نسبت کفر کی طرف کی ہے۔ (صحیح مسلم:۷۱)
ہاں! اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ بارش تو اللہ تعالیٰ برساتاہے مگر اللہ کی مرضی سے عموماً فلاں موسم یا فلاں نچھتر میں بارش ہوتی ہے، توایسا شخص شرک میں تو مبتلا نہیں ہوگا مگر احتیاطاً ایسی ظاہری اور ایک گونہ جاہلی عقیدہ سے مشابہت رکھنے والی نسبتوں سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
(۴) ولاصفر:صفر کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اس کی تین تفسیر کی گئی ہیں:
(۱) صفر سے اسلامی کلنڈر کا دوسرا مہینہ مراد ہے۔ عرب والے اس ماہ کو منحوس تصور کرتے تھے، اور اس میں شادی بیاہ، سفراور دوسرے اہم کاموں سے اجتناب کرتے تھے، جیسے آج محرم وغیرہ کو شادی وغیرہ کے لیے منحوس سمجھا جاتاہے۔ اسلام نے ان کے اس عقیدے کی تردید کی ہے کہ یہ سب بکواس اور بیہودہ باتیں ہیں، ماہ صفر کسی اعتبار سے، کسی کام کے لیے قطعاً اسی طرح منحوس نہیں، جس طرح دوسرے مہینے ۔
(۲) صفر سے ماہ صفرکی تعیین میں ’’عمل نسئی‘‘ کرنا مراد ہے،یعنی عرب والے اس حرمت کے مہینے کو اپنی ضرورتوں کے اعتبار سے کبھی حرمت والا اور کبھی غیر محرم کرلیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس ماہ کو بازیچۂ اطفال بنانے اور مطلب برآری کے لیے اسے تبدیل کرنے سے منع فرمایا۔
(۳) اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتاہے، جب انسان بھوکا ہوتاہے یا جماع کرتاہے تو وہ ایذاء پہونچاتاہے اور دوسروں کے جسم میں بھی منتقل ہوجاتاہے۔جس کا نام ’صفر‘ ہے۔اسلام نے ایسی واہیات باتوں کی تردید فرمائی اور اس خیال کو غلط محض قراردیا۔
(۵) ولاطیرۃ: بدشگونی وبدفالی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آج کی اس جاہلیت جدیدہ کی طرح جاہلیت قدیمہ میں بھی بہت سی چیزوں کو دیکھ کر یا سن کر بدشگونی لینے کا عقیدہ پایاجاتا تھا۔ بلکہ جس طرح آج راشی پھل نکالا جاتاہے اسی طرح اچھا یا برا شگون معلوم کرنے کے لیے وہ کبھی مختلف بے پرکے تیر استعمال کرتے ، (اس کی شکل یہ ہوتی کہ لا اور نعم کے نام سے دو تیروں کو موسوم کرتے، اگر لا والا تیر نشانہ پر لگ جاتا تواپنے ارادہ کیے ہوئے کام سے رک جاتے ورنہ اپنا کام شروع کردیتے)تو کبھی پرندوں کو اڑاتے، اس کی شکل یہ ہوتی کہ پہلے سے یہ خیال باندھ لیتے کہ فلاں پرندہ اگر بائیں طرف اڑے گا تو نحس ورنہ سعد۔ اور اسی کے مطابق سعد اور نحس کا فال نکالتے۔
یہ سب اور اسی طرح فال نکالنے کی دیگرتمام شکلوں ،سعد ونحس کی تعیین کرنے کے طریقوں کو اسلام نے کالعدم بلکہ شرک قراردیا ہے۔ آپ ا نے فرمایا: ’’الطیرۃ شرک الطیرۃ شرک‘‘ (سنن ابو داؤد:۳۹۱۰) طیرہ شرک ہے، طیرہ شرک ہے۔
ایک حدیث میں آپ ا نے ارشاد فرمایا: جسے بدشگونی اس کاکام پوراکرنے سے روک دے اس نے شرک کیا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول اس کا کفارہ کیا ہے؟ آپ ا نے فرمایا: اس کا کفارہ یہ دعاہے: ’’اللھم لا خیر الا خیرک ولا طیر الاطیرک ولا الٰہ غیرک‘‘(مسند احمد:۷۰۴۵۔ الصحیحۃ:۱۰۶۵) اے اللہ خیراسی میں ہے جس میں تو خیرودیعت فرمادے اور نحوست اسی میں ہے جس میں تو نحوست ڈال دے اور تیرے سواکوئی معبود حقیقی نہیں۔
(۶) ولا غول: اور ’غول‘ کا عقیدہ باطل ہے۔ غول جن وشیاطین کی ایک قسم کا نام ہے ، جن کے بارے میں عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ شیاطین صحراؤں میں گھومتے رہتے ہیں اور اپنی شکل بدل بدل کر مسافروں کو ڈراتے اور انہیں راستہ بھٹکاتے رہتے ہیں۔ اسی لیے اہل عرب جب کہیں دوران سفر پڑاؤ ڈالنا چاہتے تو وہاں کے جنوں کو مخاطب کرکے ان کی پناہ طلب کرتے تھے۔ اسلام نے اس خیال کی تردید فرمائی۔ مگر یہ مراد نہیں کہ غول کا وجود ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ کشیدکیا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ خواہ مخواہ یہ تصور بٹھالینا کہ راستے شیاطین ہی بھٹکاتے ہیں اور پھر اس خیال سے ان سے ڈرنا اور ان کی پناہ طلب کرنا بے جا اور غلط ہے۔
یہ ہے اس اسلامی تعلیم کی ایک جھلک جس نے عرب اور تمام اہل اسلام کو جاہلیت کے اندھ وشواش، اندھی تقلید، بدشگونی، بدفالی اور توہمات باطلہ سے نکال کر عقیدۂ توحید ، نظریۂ قضاوقدر اور رب العالمین کی عالمگیر حاکمیت، اس کے تصرف اور کلی اختیار کا ایک واضح اور روشن اصول دیا۔
چنانچہ اسلام نے اول روز سے انسانیت کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ:
(۱) ( قُل لَّن یُصِیْبَنَا إِلاَّ مَا کَتَبَ اللّہُ لَنَا ہُوَ مَوْلاَنَا وَعَلَی اللّہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُون) (التوبۃ:۵۱) اے رسول! آپ کہہ دیجئے کہ کوئی بھی مصیبت نہیں لاحق ہوتی ہے مگر اللہ نے اسے ہمارے لیے لکھ رکھاہے، (یعنی اتفاقاً یا سوء اتفاق سے کوئی کام نہیں ہوتا، یہ غلط تکیۂ کلام ہے، ہرکام کے ہونے نہ ہونے کا ایک خاص وقت آسمان وزمین کی پیدائش سے قبل ہی لوح محفوظ میں درج کردیا گیا ہے) وہی ہمارا کارساز ومولیٰ ہے ،اس لیے مومنین صرف اسی پر توکل کرتے ہیں۔
(۲) (مَا أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّہِ )(التغابن:۱۱)کوئی بھی مصیبت اللہ تعالیٰ کے اذن وحکم کے بغیرلاحق نہیں ہواکرتی۔
(۳) (انما طائرکم معکم )تم لوگوں کی نحوست تمہارے ساتھ ہے۔
(۴) (قَالَ طَاءِرُکُمْ عِندَ اللَّہ)(النمل:۴۷)تمہاری نحوست اور بے برکتی اللہ کے پاس لکھی ہوئی ہے۔
(۵) (مَا أَصَابَ مِن مُّصِیْبَۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فِیْ أَنفُسِکُمْ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَہَا إِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللَّہِ یَسِیْر)(الحدید:۲۲) زمین وآسمان میں اور تمہاری اپنی ذات میں کوئی مصیبت لاحق نہیں ہوتی مگر ایک کتاب (لوح محفوظ) میں اس (مصیبت) کی تخلیق سے پہلے ہی ہم نے اس (کی ساری تفاصیل) کو درج کررکھا ہے۔ بلاشبہ یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے۔
یہ اور ان جیسی اسلامی تعلیمات نے اگرایک طرف رب العالمین کی کامل ربوبیت، اس کے مکمل اختیارات اور اس کی لامحدود قدرتوں کا نظر یہ پیش کیا تودوسری طرف قضاء وقدر اور پھر اسباب ومسبب الأسباب کا ایک ایساواضح اصول پیش کیا کہ جس کی وجہ سے جاہلیت کے تمام واہیات وخرافات، عقائد باطلہ اور توہمات فاسدہ کی دھجیاں بکھر گئیں اور ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں آیا جس میں واہیات وتوہمات اور بدشگونی کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ملتا۔حالت یہ تھی کی کبھی خانۂ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کو منہ کے بل گرایا، اوندھے منہ نکال کر باہر پھینکاجارہاہے، کون سے بت؟ وہی بت جن کی ذراسی گستاخی اپنے وجود کے لیے موجب ہلاکت و تباہی تصور کیا جاتاہے، کبھی آپ جذام کے مریض کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھارہے ہیں کبھی خالدبن ولید بلا خوف وخطر زہرکی پڑیا پھانک لیتے ہیں، مگر عقیدہ توحید اور توکل کا یہ عالم کہ نہ کسی خطرے اور بلائے ناگہانی کا خیال ذہن میں آیا نہ کسی دوا علاج کی ضرورت محسوس کی گئی ،سچ تو یہ ہے کہ
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
No comments:
Post a Comment