- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Saturday, October 21, 2017

محمد جعفر أنوارالحق الہندی
جامعہ اسلامیہ، دریاباد
معرکۂ کربلا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ)(البقرۃ:۱۵۴)اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔
اور دوسری جگہ فرمایا:(وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَاء عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُون)(آل عمران:۱۶۹)جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں۔
یہ اسلام میں شہادت کا مقام ومرتبہ اور شہید کی فضیلت وعظمت کا بیان ہے۔ جن لوگوں کو اللہ اس عظیم شرف سے نوازتاہے کہ کلمہ الہٰی کی سربلندی، اسلام کے غلبہ اور دین کی سرفرازی کے لیے اپنی جان دشمنوں کے ہاتھ گنواتے ہیں، وہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ ان کے انعامات وفضائل کتاب وسنت میں بے شمار ہیں۔ نبی کریم ا نے ایک حدیث میں فرمایا: ’’شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں رہتی ہیں اور وہ جہاں چاہتی ہیں جنت میں چرتی پھرتی ہیں۔(مسلم:۱۸۸۷) اقبال نے کہا تھا ؂ 
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام جہاد وشہادت کے زریں واقعات سے مزین ہے۔ اسلام میں عظیم ترین اور نمایاں ترین شہادتوں کو اگر جمع کیا جائے تو وقت کی کمی اور صفحات کی تنگی کا شکوہ ہوگا۔ یاسر وسمیہ کی شہادت سے لے کر سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب کی شہادت سے گزرکر عمروعثمان اور علی وابن زبیر رضی اللہ عنہم کی شہادتوں تک ہی اگر دیکھ لیا جائے توایک خوبصورت سلسلہ نظر آئے گا، مگر ۶۱ ؍ہجری میں سرزمین کوفہ میں دریائے دجلہ کے کنارے شہادت کا ایک ایسا سانحہ رونماہوا جس سے پوری اسلامی تاریخ کی شہادتیں اور قربانیاں پس پردہ چلی گئیں اور اسے عظمت محرم کا نشان اور معرکۂ حق وباطل کی علامت سمجھا جانے لگا۔ مگر معلوم ہونا چاہیے کہ محرم کی عظمت آسمان وزمین کی پیدائش کے دن سے ہے، اس مہینے میں رونما ہونے والی شہات حسین رضی اللہ عنہ سے اس کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔
تاریخ اسلام میں شہادت حسین ہی سب سے عظیم شہادت نہیں ہے بلکہ اس سے قبل عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت تاریخ اسلام کا ایک دردناک باب ہے جس سے امت مسلمہ پر فتنوں کا دروازہ چوپٹ کھل گیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت انہیں رونما ہونے والے فتنوں کا امتداد ہے اور خود حسین رضی اللہ عنہ کے باپ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کی شہادتیں ان کی شہادت سے کہیں زیادہ سنگین اور اہم ہیں، یہ بات مسلم ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت اور ان سے عقیدت جزو ایمان ہے۔ نبی انے فرمایا:’’من أحبھما فقد أحبنی ومن أبغضھما فقد أبغضنی‘‘(مسند احمد:۲؍۵۳۱) جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ اسی طرح آپ ا نے فرمایا:’’حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے دوسردار ہیں‘‘(مسند احمد :۵؍۳۹۱) نیز آپ انے فرمایا:’’یہ دونوں دنیا کے میرے دوخوشبودار پھول ہیں‘‘ (بخاری:۳۷۵۳) مگر حسین رضی اللہ عنہ اپنے باپ علی اپنے بہنوئی عمر اور اپنے خالو عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین سے نہ تو افضل وبرتر ہیں اور نہ ہی ان کی شہادت میں امت کا وہ نقصان ہے جو دوسری شہادتوں میں تھا۔
یہ حق ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کو نہایت مظلومانہ اور انتہائی سفاکانہ قتل کیا گیا تھا مگر ان کا مکہ سے کوفہ جانا غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔ اسی لیے ان کے محبین، رشتہ داروں اور بہی خواہوں نے انہیں منع کیا تھا۔ (دیکھیں: سیرأعلام النبلاء:۳؍۲۹۲) مگر شاید اللہ تعالیٰ کو ان کے مقام کی رفعت وبلندی مقصود تھی کہ خاندان رسول کے دوسرے افراد کو جہاد، قربانی اور اشاعت اسلام کے سبب جو مقام بلند حاصل ہواتھا اللہ تعالیٰ نے ان کے دامن کو انہیں فضائل ودرجات سے پرکرنے کے لیے ان کو اس مقام بلند سے نوازا۔ اور ویسے بھی نبی ا نے ان کے قتل کی پیشین گوئی پہلے ہی سے کردی تھی۔ (دیکھیں: مسند احمد:۶؍۲۹۴) اور پھر معرکۂ کربلا کفر واسلام اور حق وباطل کی جنگ نہیں تھی کیوں کہ اگر ایساتھا تو:
* اس وقت موجود صحابۂ عظام اور تابعین نے ان کی نصرت کیوں نہ کی؟ نہ شہادت سے قبل ان کے ساتھ جنگ کیا اور نہ شہادت کے بعد یزید کے خلاف بغاوت کیا۔
* خود ان کے خاندان کے پورے لوگوں نے ان کا ساتھ کیوں نہ دیا؟ محمد بن الحنفیہ ان کو سمجھانے کے بعد نہ صرف خود مکہ میں رک گئے بلکہ اپنے بچوں کو بھی روک لیا۔ اور مسلم بن عقیل کی موت کی خبر ملنے کے بعد بعض افراد پلٹ گئے۔ اور جب جنگ ناگزیرہوگئی تورات میں سب ساتھیوں کو انہوں نے اختیار دیا کہ جو چاہے رکے اور جو چاہے چلاجائے۔ کیا حق کی حمایت میں یہ اختیار مناسب تھا؟ اور پھر ان لوگوں کا چلاجانا کیا درست مانا جائے گا؟!
* راستے میں اپنے چچیرے بھائی مسلم کے قتل کی خبر سننے کے بعد آپ واپس کیوں ہونا چاہتے تھے؟ کیا یہ حق کی حمایت سے دستبرداری کا مظاہرہ نہیں تھا؟
* عمر بن سعد بن ابی وقاص جو عبید اللہ بن زیاد کی فوج کے کمانڈرتھے اس کے سامنے آپ نے جو تین شرطیں رکھیں تھیں ان میں کہیں بھی حق کی حمایت اور باطل سے بغاوت کا جذبہ نہیں جھلکتاہے۔ انہوں نے کہا تھا:
(أ)میں جہاں سے آیاہوں مجھے وہاں واپس چلے جانے دو(کیا یہ حق کی حمایت سے دست برداری ہے؟)
(ب) مجھے مسلمانوں کی سرحد پر چلے جانے دو۔
(ج) مجھے یزید کے پاس چلے جانے دو۔ (دیکھیں: التاریخ الاسلامی:۴؍۱۲۷) 
تمام سنی اور شیعی تاریخوں نے اس گفتگو اور شرط کا ذکرکیا ہے۔
کیا اس سے کسی بھی صورت میں ظاہر ہوتاہے کہ حسین رضی اللہ عنہ اپنے اس اقدام کو حق وباطل کی جنگ سمجھتے تھے اور کیا وہ اسے کفر واسلام کی لڑائی قراردیتے تھے؟!
برصغیر میں چونکہ جذباتی سیاست زیادہ کارگر ہوتی ہے اور جذبات کی رو میں بہہ جانے کے بعد حقیقت روپوش ہوجائے توکوئی حرج نہیں ہوتا، حسینی لشکر کو حق کی علامت، یزید اور یزیدی لشکر کو باطل کی نشانی قراردینا اسی جذباتی فکر کا غماز ہے، جو حقیقت سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح:
چڑھ جائے کٹ کے سرتیرا نیزے کی نوک پر لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
یہ اور اس طرح کے دوسرے اشعار سب اسی غیر واقعی اور جذباتی فکر کے آئینہ دار ہیں۔ اس طرح کی شائعات کے مقبول ہونے میں جہاں پروپیگنڈہ کا دخل ہے وہیں خاندان رسول ا سے مسلمانوں کی محبت بھی ایک سبب ہے۔ نیز انسان ہمیشہ مصیبت زدہ انسان کی ہی مدد کرتا اور اسی سے ہمدردی ظاہر کرتاہے۔ اس لیے خاندان رسول ا کے ساتھ پیش آنے والے ظلم وستم اور مصائب کا تجزیہ ضروری ہے تاکہ معلوم ہوسکے، اس میں اجتہاد کتنا ہے، مبالغہ کتنا ہے؟ غلطیاں کتنی ہیں، اور جذبات کی کارفرمائی کتنی ہے؟(دیکھیں: التاریخ الاسلامی محمود شاکر:۴؍۴)
علامہ محمود شاکر فرماتے ہیں:’’ان کا (عراق) جانا غلط تھا۔ اس لیے کہ عراق میں فتنوں کا دور دورہ تھا۔ اور معاملہ ابھی تک واضح بھی نہ تھا۔اور وہ اپنی عورتوں اور گھر والوں کے ساتھ نکلے تھے۔ حالاں کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ آمادۂ جنگ وقتال ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ یہ حاکم کے خلاف بغاوت تھی، مگر حسین سے ہماری محبت، کیوں کہ اس وقت وہ روئے زمین پر موجود تمام انسانوں میں سب سے افضل تھے۔ وہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ پیش آنے والا دردناک اور جگر خراش حادثہ، ہمیں اسباب سے صرف نظرکرکے نتائج پر نظر رکھنے کی راہ دکھاتاہے، اسی کے ساتھ ان قاتلوں کی تحریریں بھی ہیں جنہیں شیعہ ہونے کا دعویٰ ہے جنہوں نے اس حادثے کی تصویر کشی میں مبالغہ آرائی کرکے دلوں کو زخمی کیا۔ اور بالخصوص اس صورت میں کہ ان تحریروں کے علاوہ دوسری تحریریں لوگوں کے درمیان رواج نہ پاسکیں، اس لیے لکھنے والوں نے انہیں تحریروں کو بکثرت ذکر کیا۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ان کے والد محترم کو قتل کیا گیا جو جنت کی بشارت سے بہرہ ور اور ان سے افضل تھے مگر ان کے قتل کے بارے میں یہ تمام چیزیں بیان نہیں کی جاتیں، اور اس سے قبل عثمان بن عفان اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کو بھی قتل کیا گیاتھا‘‘۔(التاریخ الاسلامی:۴؍۱۲۶)
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے قبل تاریخ اسلام کی دوسری عظیم الشان شہادتوں کو نظرانداز کرکے صرف اسی کو نادر الوجود حادثہ قراردینا جہاں تاریخ اسلامی کے ساتھ زیادتی ہے وہیں دوسری طرف ان اسلامی شخصیات کے حقیقی مرتبہ اور عظیم الشان درجہ سے صرف نظر کرنا بھی ہے۔ اور اگر قتل حسین رضی اللہ عنہ ظلم ہے (اور یقیناہے) تو عمر وعثمان اور علی رضی اللہ عنہم کا قتل اس سے کہیں زیادہ ظالمانہ اور وحشیانہ ہے۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقائق کے ادراک کی توفیق عطافرمائے۔ آمین!

No comments:

Post a Comment