ابو عبید السلفی
سیرت طیبہ کے بعض گم نام گوشے
سیرت طیبہ کی وسعت اور ہمہ گیریت:انسان اور انسانیت کی ہمہ جہت اور مکمل فلاح و بہبود کے لیے اگر کسی شخصیت کو اسوہ اور نمونہ بنانا ممکن ہے تو وہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ ا کی ذات مقدسہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے رسول اکرم ا کو بالعموم، بلا تخصیص وتقیید اسوہ قراردیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔۔۔‘‘ (الأحزاب:۲۱) بلاشبہ تمہارے لیے رسول اللہ ا کی زندگی میں (ہرکام کے لیے) بہترین نمونہ موجود ہے، اور خود رسول اکرم اکا بھی فرمان ہے: ’’ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ سنۃ نبیہ‘‘(موطاامام مالک:۲۶۱۸) یعنی میں تم لوگوں کے درمیان دو چیزیں چھوڑ کے جارہاہوں، جب تک تم لوگ ان دونوں چیزوں کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے قطعاً گمراہ نہیں ہو سکتے ہو یعنی کتاب اللہ اوراللہ کے نبی کی سنت بلفظ دیگر رسول اکرم اکی سیرت طیبہ۔
چنانچہ جس نے عالمی مصلحین، انبیاء، ریفارمرز اور دیگر سربرآوردہ شخصیات کا مطالعہ کیا ہے وہ خوب جانتاہے کہ سب کی زندگی، سب کی فکر وفہم، سب کا زاویۂ اصلاح ایک خاص نکتہ اور محدود دائرہ میں محصور رہاہے، اور بعد کے حالات ،واقعات اور درپیش مسائل پر ا نہیں منطبق کرنا اور ان سے رہنمائی لینا قطعاً ممکن نہیں ہے، اس کے برخلاف آپ ا کی زندگی انسان اور انسانیت کے جمیع مسائل اور معاملات کا اس طرح احاطہ کیے ہوئے ہے کہ گویا ایک سورج ہے جو بہت دور ہونے کے باوجود سب کے پاس ہے، اور بالواسطہ یا بلاواسبطہ ہر شئی پر اثراندازہورہاہے، کوئی چیز اس کے اثر سے مستغنی نہیں! میری یہ باتیں صرف ایک کلمہ گواور معتقد کی عقیدت نہیں ؛ساڑھے چودہ سو سال کے انسانی تجربات کی شہادت ہے۔
حالت زار: مگر افسوس !سیرت طیبہ کی اس وسعت اور لا محدود یت کے باوجود ہم مسلمانوں نے آپ ا کی سیرت کو چند نکات میں محدود ومحصور کرکے رکھ دیا ہے، سیرت کا نام لیتے ہی ایسا محسوس ہونے لگتاہے کہ گویا اب آپ کی ولادت، شادی بیاہ ،وفات، رضاعت، شق صدر وغیرہ چیزیں ضرور بیان ہوں گی اور بس! یقیناًیہ سب باتیں بھی سیرت طیبہ کا اہم جزء ہیں مگر انہیں باتوں میں سیرت کو قید کردینا کہاں کا انصاف ہے؟
آیئے اسی وسعت وہمہ گیریت کو ذہن میں رکھتے ہوئے سیرت طیبہ کے چند گم نام اور حالات حاضرہ کے لیے بالخصوص اہم تر نکات کا مطالعہ کرتے ہیں:
(۱)شجاعت وشہامت:آپ ا کی سیرت طیبہ کا ایک نہایت روشن باب شجاعت وشہامت، بہادری اور حوصلہ مندی بھی ہے، اس تعلق سے آپ کی عملی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پہلے چنداقوال نبوی یعنی احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں ، جن سے شجاعت وبہادری کی فضیلت ، کمزوری اور بزدلی کی مذمت واضح ہوجائے۔
* عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ا : المؤمن القوی خیر واحب الی اللہ من المؤمن الضعیف فی کل خیر۔۔۔ (صحیح مسلم : کتاب القدر ، باب فی الامر بالقوۃ وترک العجز:۲۶۶۴)
ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا: طاقت ور مومن۔ بہ نسبت کمزور اور بزدل مومن کے۔ اللہ کی نظر میں زیادہ بہتر اور زیادہ محبوب ہے، حالاں کہ خیروبھلائی توکمزور وقوی دونوں میں ہے۔ جو (جائز) چیز تمہارے لیے نفع بخش ہو اس کے حریص اور متمنی بن جاؤ، ہر کام شروع کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور( پھر اس کام کے لیے تگ ودوکرنے اور اسباب وذرائع اختیار کرنے میں )کمزوری عاجزی نہ دکھلاؤ (بلکہ پوری جاں فشانی اور جوانمردی کا مظاہرہ کرو)
اس حدیث میں جہاں ایک طرف قوت وشوکت ، شجاعت وبسالت کا ہنر پیداکرنے کے لیے ترغیبی انداز میں قوی اور ضعیف کا تفاوت بیان کیا گیا ہے وہیں بزدلی، کمزوری، عاجزی اورپست ہمتی سے گریز اور فرار کا صاف حکم بھی دیا گیا ہے، جس سے یہ سمجھنا بالکل آسان ہوجاتاہے کہ اسلام کی نظر میں قوت وشجاعت کو کیا مقام حاصل ہے جبکہ بزدلی اور کمزوری کس قدر قابل مذمت اور لائق گریز ہے۔
* کان سعد یعلم بنیہ ھولاء الکلمات کما یعلم الغلمان الکتابۃ ویقول ان رسول اللہ ﷺ کان یتعوذ منھن دبرالصلاۃ: اللھم الی اعوذ بک من الجبنواعوذبک ان ارد الی ارذل العمر واعوذبک من فتنۃ الدنیا واعوذبک من عذاب القبر۔ (بخاری:۲۸۲۲)
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کو یہ کلمات اسی طرح سکھاتے تھے جس طرح استاذ بچوں کو لکھنا سکھاتاہے؛ اللھم انی اعوذ بک من الجبن۔۔۔ الخ اے اللہ میں بزدلی اور پست ہمتی سے تیری پناہ چاہتاہوں۔
یہ روایت حدیث کی اکثر کتابوں میں مروی ہے، بلکہ بخاری ہی کی حدیث نمبر: ۶۳۶۳ میں ’یکثرأن یقول‘ کے الفاظ وارد ہیں یعنی آپ ا یہ دعا اکثر کیاکرتے تھے۔
معلوم ہوا کہ آپ ا کی نظر میں بزدلی ، عاجزی ،سستی اورکم ہمتی جیسی عادتیں اس قدر مذموم اور قابل اجتناب تھیں کہ آپ زیادہ تر اللہ سے اس کی پناہ مانگاکرتے تھے، یقیناًآپ کی حسن تربیت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ یہ دعا نہات اہتمام سے اپنی اولاد کو سکھلایا کرتے ہیں۔ اے کاش!ہم نے بھی اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی ہوتی!
اسی طرح جب ہم آپ کی عملی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو قدم قدم پر شجاعت وشہامت اور حوصلہ مندی کی ایسی روداد دکھائی پڑتی ہے جس کی نظیر پیش کرنا مشکل ہے۔
مکی دور میں کفار کی طرف سے مختلف اذیتیں، حوصلہ شکنیاں، بائیکاٹ، دھمکیاں، قتل کی سازشیں او ر اس طرح کے بے شمار ایسے سلوک و رویے ایک طرف؛ اور نبی اکرم اکی حوصلہ مندی ایک طرف، نہ کبھی دعوت کے مشن میں کمزوری وسستی پیداہوئی، نہ کبھی خوف وہیبت طاری ہوئی، نہ کبھی کفار کی دھمکیاں آپ کا راستہ روک سکیں، گویا ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی کشتی ہے مگر سمندروں کی طغیانوں اور طوفانہائے بدتمیزیوں کی پر واہ کیے بغیر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔
ہجرت کے موقعہ پر غارثور میں کفار آپ کے سرپر کھڑے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں خوف کا احساس پیداہوتاہے، رسول اکرم ا کو کفار کی موجودگی کی خبر دیتے ہیں، مگر قربان جایئے آپ کی شجاعت اور حوصلے پر؛ پیشانی پر بل تک آنے پائے اور فرمایا:’’لاتحزن ان اللہ معنا‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میدان جنگ میں لڑائی اپنے شباب پر ہوتی اور لوگ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے تو ہم اللہ کے رسول ا کی آڑلیتے، آپ ا سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ (احمد:۳۴۳؍۲، حسن)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ : رسول اللہ ا سب سے زیادہ خوبصورت چہرے والے، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے دشمن کی آمد کے خطرے سے گھبراہٹ میں مبتلا ہوگئے اور آواز کی طرف بڑھے، (مگر یہ کیا؟) ابھی لوگ باہر نکلنے کی تیاری کر رہے تھے کہ نبی اکرم ا کو ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار مدینہ کے باہر سے آتا ہوا پایا، آپ تلوار حمائل کئے ہوئے تھے اور فرمارہے تھے، گھبراؤ نہیں، کوئی بات نہیں، میں دیکھ آیاہوں۔
اس طرح کے بے شمار واقعات بدر واحد سے لے کر خندق وتبوک تک،فتح خیبر ومکہ سے لے کر حنین تک تاریخ و سیرت کے صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں، جن سے یہ بات اظہرمن الشمس ہوجاتی ہے کہ شجاعت وبسالت اور نازک سے نازک حالات میں حوصلہ مند رہنا اور کسی بھی حالت میں شکستہ دلی، بزدلی اور پستی جیسی صفات مذمومہ کو قریب نہ آنے دینا آپ کی سیرت کا بڑا واضح اور روشن باب ہے،اور ظاہر سی بات ہے کہ آپ ا جس طرح نماز وروزہ اور دیگر معاملات وعبادات میں ہمارے لیے اسوہ اورنمونہ ہیں اسی طرح شجاعت کے باب میں بھی آپ مثال اور آئیڈیل ہیں، لہٰذا ہم مسلمانوں کو اس معاملے میں بھی آپ کی زندگی سے سبق لینے کی اشد ضرورت ہے، مگر مشاہدہ یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود بعض دفعہ بلکہ فی زماننا اکثر وبیشتر آدمی بزدلی اور پستی کا شکارہوکر بات بات پر ہمت ہار بیٹھتاہے، اس لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شجاعت وبسالت پیداکرنے کے اور بزدلی سے نجات پانے کے کیا اسباب ووسائل ہیں۔
بزدلی سے نجات پانے اور شجاعت پیداکرنے کے اسباب:
* بزدلی اور پست ہمتی کی ایک وجہ جہالت اور ناواقفیت ہوتی ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کام جس کے آغاز وانجام، طریقۂ استعمال، فوائد ونقصانات وغیرہ امورسے ایک شخص جب واقف ہوجاتاہے تو اس کے لیے ایسے بڑے بڑے کام انجام دینا اور ایسے خطرناک امور بلا تأمل کرنا آسان ہوجاتاہے جنہیں ایک ناواقف کے لیے جوئے شیر نکالنے کے مترادف سمجھاجاتاہے۔ مثلاً ایک آدمی جوبم جیسے خطرناک ہتھیار کے تارپودسے واقف ہے، بچاؤ کے طریقے جانتاہے وہ بلاخوف نہ صرف بم کے پاس کھڑارہ سکتاہے بلکہ اس کے تارپورد بکھیرکر اسے ناکارہ بھی بنادیتاہے، جب کہ ایک عام اور ناواقف آدمی کے لیے بم کا نام ہی اسے حواس باختہ کرنے کے لیے کافی ہوتاہے۔
* بزدلی کی ایک اہم وجہ ناتجربہ کاری ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عام آدمی سانپ کا نام سن لے تو گویا اسے سانپ سونگھ جاتاہے جب کہ سپیروں اور جوگیوں سے بچے نہایت خطرناک اور مہلک سانپوں کو اپنے گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں، معلوم ہواکہ اگر کسی کام سے خوف اور اسے انجام دینے میں کمزوری وبزدلی محسوس ہوتی ہے تواسے بار بار کرنے، اس سے مانوس ہونے اور مشق وتدریب کرنے کی کوشش کریں، خوف وہراس جاتارہے گا۔ ان شاء اللہ ۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک خطیب جب پہلی بار منبر پر کھڑاہوتاہے تونہ صرف اس کی زبان بلکہ اس کے قدم تک لڑکھڑاجاتے ہیں مگر وہی کام بار بار کرنے سے وہ مشاق اور درانہ خطیب بن کر ابھرتاہے۔
* شکست وریخت کا گمان وشک بھی بزدلی کے اسباب میں سے ایک ہے، کیوں کہ شجاعت کا محل دل ہے، اگر دل مضبوط ہے عزم وحوصلہ بلندہے، فتح وکامیابی کا ولولہ موجود ہے، تونہ صرف آدمی خود اپنے اندر شجاعت اور فتح مندی کا ولولہ محسوس کرے گا بلکہ اپنے مقابل کوخوف زدہ اور زیر کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دنیا میں پسپائی اختیار کرنے اور خوف زدہ رہنے والوں کو ہر موقع پر ،ہر جگہ موت کے گھاٹ اترتے اور ٹوٹتے بکھرتے، بے عزت ہوتے ہوئے دیکھیں گے جب کہ ہمت وحوصلہ سے کام لے کر مقابل میں ڈٹ جانے والے اور آگے بڑھ کر لڑنے والے لوگ ہی اکثر اپنے مقصد میں کامیاب اور اپنے دشمن کو دھول چٹانے والے ہوتے ہیں۔
معلوم ہواکہ شجاعت پیداکرنے کا ایک اہم سبب بلاوجہ کے خوف اور وہم سے دل ودماغ کو آزاد کرنا بھی ہے۔ اسی بات کا اشارہ قرآن یوں کرتاہے:(وَلاَ تَہِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن) (آل عمران:۱۳۹) اپنے آپ میں پستی اور کمزوری ،وہم وخوف پیدانہ کرو اور مافات کی فکر نہ کرو، مومن بن کر رہو، کامیابی تو تمہارے قدم میں ناک رگڑ کے آئے گی۔
* بزدلی پیداکرنے کے اسباب میں سے تقدیر پر ایمان نہ لانا بھی ہے، کیوں کہ جو آدمی تقدیر پر ایمان رکھتاہے اسے معلوم ہوتاہے کہ دشمن کتنا ہی ہیکل اور زور آور کیوں نہ ہو، بہادری میں رستم وسہراب کا ہم پلہ کیوں نہ ہو، اس کا اٹھنے والاہر ہاتھ، اس کا ہر وار اور داؤں ،آغاز اور انجام، فتح اور شکست ؛الغرض پوری تفصیل اور ساری جزئیات وکلیات تقدیر کے مطابق ہی واقع ہوتی ہیں، اس علم وایمان کی بدولت اس کا دل ہر قسم کے خوف وبزدلی کے احساس سے پاک اور ہمت وحوصلہ کے جذبات سے لبریز ہوجاتاہے، اسلامی جنگیں اور ان جنگوں کے مسلم سورماؤں کی حقیقی داستانیں اس کی واضح مثال ہیں۔
خلاصۂ کلام: یہ کہ شجاعت وبہادری، عزم وحوصلہ اسلام کا مطلوب اور نبی کریم ا کی سیرت طیبہ کا تابناک اور روشن باب ہے، ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ خود بھی شجاعت وبہادری پیداکریں، اس کے اسباب ووسائل سے تعلق بڑھائیں، اپنے بچوں کو نبی اکرم ا اور اسلاف کی شجاعت کے واقعات سنائیں، انہیں بھی بہادروشجاع بنائیں، بلکہ ماؤں اور بہنوں کو بھی اس کی طرف مائل کریں کیوں کہ بزدل قومیں، کم ہمت وپست ذہن مائیں صرف ناکارہ اور کائر وبزدل نسلیں ہی پیداکرسکتی ہیں جب کہ اسلام کو پہلے بھی اور آج بالخصوص ایسی نسلوں ،ایسے نوجوانوں، ایسی جوانمرد وبلند حوصلہ بہنوں اور بیٹیوں کی ضرورت ہے جو حمزہ وعلی، بوبکر وعمر اور صفیہ وخنساء رضی اللہ عنہم کا نمونہ اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ رکھتی ہوں۔ اللھم آمین!
No comments:
Post a Comment