- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, December 31, 2015


عبدالولی
ریسرچ اسکالر،دارالسلام،لاہور
نعت گوئی

نبی کریم ا کی تعریف و توصیف میں کہے گئے اشعار کو اردو اور فارسی میں ’’ نعت‘‘ کہتے ہیں ۔ عربی زبان میں لفظ ’’ نعت‘‘ وصف اور بیان کے معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس مفہوم میں نہیں ، جس میں یہ لفظ اردو اورفارسی میں استعمال ہوتا ہے ۔ نبی کریم ا کی تعریف و تو صیف پر مشتمل کلام کو عربی میں ’’ مدح النبیﷺ‘‘یا’’ المدائح النبویۃ‘‘ کہتے ہیں ۔
اسلام کے اوائل سے ہی شعرا ء نے نبی ا کی مدح و توصیف کے بارے میں اشعار کہنے شروع کر دیے تھے ۔ مشہور شعراء حسان بن ثابت ، عبداللہ بن رواحہ، کعب بن زہیر ، کعب بن مالک، عباس بن مرداس رضی اللہ عنہم اور ان کے علاوہ دیگر شعراء نے آپ اکی مدح و توصیف میں قصیدے لکھے۔
شعرا ء صحابہ کرام اور ان کے بعد کے شعراء نے آپ ا کی مدح و توصیف میں کسی 
مبالغہ آمیز ی کا مظاہر ہ نہیں کیا، بلکہ قصیدے اس انداز میں لکھے جو ضابطے اور حقائق کے مطابق تھے اور آپ اکے شایان شان بھی ۔ ان قصائد و اشعار میں کسی قسم کا غلو نہ تھا کہ نبی اکو مقامِ بشریت سے اٹھا کر مقامِ الوہیت پر فائز کر دیا گیا ہو ،یا صفات الٰہیہ سے متصف کر دیا گیا ہو ۔ 
اس لئے کہ ان کے پیش نظر نبی ا کا یہ واضح اور غیر مبہم حکم تھا جو آپ ا نے ارشاد فرمایا:
’’ لا تطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم ، فانما انا عبدہ ، فقولوا: عبداللہ ورسولہ ‘‘۔
’’ میری تعریف میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام مت لو جس طرح نصاری نے عیسی ابن مریم کی تعریف میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا ( کہ اسے الٰہ اور ابن اللہ قراردیا) میں اللہ کا بندہ ہوں۔ تم میرے بارے میں یہ کہو کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘۔(بخاری:۳۴۴۵) 
لیکن اس واضح ارشاد کے باوجود ساتویں ہجری میں جب تصوف اور بدعت نے زور 
پکڑ لیا تھا ، اہل تصوف نے اسلاف کے منہج اور مدح کے طریقے کے یکسر خلاف نبی ا کی 
شانِ اقدس میں ایسے قصیدے لکھنے شروع کر دیے جن میں نبی ا کو الوہیت کے درجے پر
فائز کرنے کی کوشش کی گئی اور آپ کو صفات الٰہیہ سے متصف کر دیا گیا ۔
اس رسم بد کی ابتداء محمد بن سعید بو صیری کے ہاتھوں ہوئی، جو ۶۹۵ ھ میں اسکندریہ میں ہلاک ہوگیا تھا ۔ اس نے نبی اکے متعلق قصیدے لکھے، جن میں سے دو بہت مشہور ہوئے۔
ایک قصیدہ ہمزیہ اور دوسرا قصیدہ میمیہ۔ ان میں سے موخر الذکر کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ بوصیری نے اس قصیدے کا نام ’’ الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ ‘‘ رکھا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے اسی جیسے فاسد العقیدہ پیروکاروں نے جھوٹ اور افتراء کی بنیاد پر اس کا نام ’’ قصیدہ بردہ ‘‘ 
رکھ دیا ۔ جس میں بے بنیاد اور جھوٹے خوابوں کی تشہیر کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس قصیدے کے سننے سے نبی ا بہت خوش ہوئے اور انعام کے طور پر خواب میں اپنی چادر 
عنایت فرمائی اور پھر وہ چادر بے دار ہونے کے بعد مولف قصیدہ کے ہاتھ میں تھی ۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑگیا ۔ یہ باتیں بالکل باطل اور بے سند ہیں ۔ بہر حال بو صیری کے بعد نبی ا کی
مدح و نعت میں غلو و افراط کا عنصر شامل ہوتا گیا یہاں تک کہ بر صغیر کی نعتیہ شاعری میں غلو و افراط بھی آخری حدوں سے تجاوز کر گیا ۔ 
اگر کوئی اس کی مثال دیکھنا یا سننا چاہے تو ایمان شکن قوالیوں کی ایک جھلک دیکھے اور سنے۔
آج کے زمانے میں اکثر شعراء اور نعت گو حضرات تعریف اور مدح سرائی میں قرآن
و سنت سے ہٹ کر مبالغہ سے کام لیتے ہوئے نبی ا کو صفاتِ بشریت سے نکال کر الو ہیت و رُبوبیت کے درجے میں پہونچا دیتے ہیں ۔ لازم ہے کہ ہمارے شعراء اس نہایت اہم اور حساس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ دیں اور امام الانبیاء کی تعریف و توصیف کو ان خرافات سے پا ک رکھیں ۔
ظ اپنے اشعار میں آپ ا کے اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کا تذکر ہ کریں ۔
ظ آپ ا کی تعلیمات عالیہ (توحید ، عبادات و معاملات کی صفائی اور اخلاق حسنہ ) اپنانے کی ترغیب دیں ۔
ظ معجزات کا ذکر واقعی اور حقیقی انداز میں ہو کہ یہ معجزات اللہ تعالیٰ کا فعل ہیں اور نبی اکے ہاتھ پر ان کا صدور ہوا ہے، معجزات آپ اکے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتے ہیں ۔
ظآپ اکی رفعتِ شان کا تذکرہ اس انداز میں نہ ہو کہ اس سے دیگر انبیائے کرام کی تنقیص اور توہین لازم آئے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ ایک یہودی نے ان الفاظ کے ساتھ قسم اٹھائی: ’’لا ، والذی اصطفی موسی علی البشر‘‘ نہیں ، قسم اس ذات کی جس نے موسیٰ کو بشریت پر فضیلت دی ہے ۔ ‘‘ ایک انصاری نے الفاظ سنے تو اس نے یہودی کو تھپڑ مارا اور کہا کہ تو یہ کہتا ہے حالانکہ اللہ کے رسول ا ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ ‘‘ یہودی نے نبی اکے پاس آکر شکایت کی ۔ نبی ا نہایت غصہ ہوئے اور فرمایا : ’’لا تفضلوا بین انبیاء اللہ ‘‘ اللہ کے نبیوں کے درمیان ایک کو دوسرے پر فضیلت مت دو اور فرمایا : ولا اقول ان احدا افضل من یونس بن متی علیہ السلام ۔’’ اور میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی یونس بن متی 
(مچھلی والے نبی)سے افضل ہے ۔ (صحیح مسلم : ۱۳۷۳)
اسلامی نظمیں:
عصر حاضر میں اسلامی نظموں یا ’’ اناشید اسلامیہ‘‘ کے سننے سنانے کا رواج 
چل پڑا ہے ، اس بارے میں محقق علماء کی رائے یہ ہے کہ نظمیں اشعار کی طرح ہیں ، لہٰذا اگر نظموں میں مضمون صحیح و سلیم بیان ہوا ہو تو نظم صحیح ہے ورنہ غلط۔ بنیادی طور پر نظموں میں بذات خود خرابی نہ ہو تو اسے ممنوع نہیں قراردیا جاسکتا ، یعنی ان کا سننا سنانا مباح ہے لیکن ان میں چند شرطیں ملحوظ رکھی جائیں :
ظ یہ نظمیں غلو اور افراط سے خالی ہوں۔(اور اسی طرح تنقیص اور توہین سے بھی )
ظنظمیں سننے سنانے والے اسے اپنی عادت مستمر ہ نہ بنائیں کہ قرآن اور وعظ و نصیحت سے زیادہ اسے ہی سنتے رہیں۔
ظ نظمیں گانوں کے طرز پر نہ ہوں، نہ ہی فاسق و فاجر لوگوں کی آوازوں میں یا ان کے انداز میں ہوں ۔
ظ آلات سرود و موسیقی کا استعمال اس میں نہ ہو ۔ اور نہ ہی ساؤنڈ سسٹم کو اس طرز پر استعمال کیا گیا ہو کہ بعینہ دف طبلہ کی طرح آوازیں اس میں سے نکلیں یا وہ آلات موسیقی کے مشابہ ہوجائیں۔
ظ مردوں کے لیے یہ کلام عورتوں کی آواز میں نہ ہو ۔ اسی طرح عورتوں کے لیے بھی فتنہ انگیز
مردانہ آواز و انداز میں کوئی کلام نہ ہو ۔ 
ظ یہ نظمیں آواز کی اس فتنہ انگیزی سے بھی خالی ہوں جس کی وجہ سے توجہ ساری آواز کی طرف جائے اور مضمون و معنی کی طرف دھیا ن نہ جا سکے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے فتاوی اسلامیہ ۴؍۵۳۳، وتحریم آلات الطرب للالبانی ، ص:۱۸۱، مجموع الفتاویٰ ۱۱؍۵۶۵، اور مجموع فتاویٰ الشیخ ابن باز ۳؍۴۳۷)
نعت گوئی بڑا نازک فن ہے ۔ بعض نے اسے تلوار کی دھار قرار دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے 
کہ نعت میں تھوڑا سا بھی غلو ہوگا تو اس کے ڈانڈے الوہیت سے جا ملیں گے جو شاعر کے خرمنِ ایما ن کو جلا کر خاک اور اس کی آخرت کو بر باد کردیں گے ۔ اس لیے نعت کہنے اور سننے کے لیے ان آداب کا التزام شرطِ لازم کی حیثیت رکھتا ہے جن کی جناب رسالت مآب ا نے تاکید فرمائی ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین سمجھنے اور اس پر صحیح طور پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین!

No comments:

Post a Comment