عبدالوکیل ناصر
قائلینِ عید میلاد النبی کی نہایت مضبوط دلیل
ابولہب کے عذاب میں تخفیف ۔ حقیقت کے آئینے میں
میلاد النبی اکے موقع پر عید کا سا ، سامان کرنے والے اور جلوس نکالنے والے کہتے ہیں کہ ابو لہب نے میلاد النبی اپر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لونڈی آزاد کی تھی اور اس کی وجہ سے اس کے عذاب میں ہر پیر کو کمی کی جاتی ہے ۔ اور اسے پیاس بجھانے کے لیے پانی بھی دیا جاتاہے،
اور یہ بات صحیح بخاری میں بیان ہوئی ہے ۔
جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے، جس کی تفصیل بیان کر دینا مقصود ہے،
تاکہ’’ لیہلک من ھلک عن بینۃ و یحی من حی عن بینۃ‘‘ کا مصداق ہوجائے ۔ مگر تفصیل سے قبل اس روایت کو بیان کر دینا ضروری ہے جس سے استدلا ل کرتے ہوئے عیدمیلاد النبی ا پر جلوس و جشن کا اہتمام ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت آشکار کرنا ضروری ہے کہ بخاری میں آنے والی یہ روایت کس انداز سے روایت کی گئی ہے ، کیا یہ وہی صحیح ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ؟
روایت یہ ہے (طوالت سے بچنے کے لیے صرف ترجمہ پیش خدمت ہے )
’’ حضرت ام المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میری بہن (ابوسفیان کی لڑکی )سے نکاح کر لیجئے۔ آپ ا نے فرمایا :کیا تم اسے پسند کروگی ؟( کہ تمہاری بہن ہی تمہاری سوکن بنے ) (وہ کہتی ہیں )میں نے عرض کیا ہاں میں پسند کرتی ہوں، اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پھر پسند نہ کرتی ، اگر میرے ساتھ میری بہن بھلائی میں شریک ہو تو میں کیوں کر نہ چاہوں گی ۔ (غیروں سے تو بہن ہی اچھی ہے ) آپ ا نے فرمایا: وہ میرے لیے حلال نہیں ۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ اے اللہ کے رسول ا!
لوگ کہتے ہیں کہ آپ ابو سلمہ کی بیٹی( جو ام سلمہ کے بطن سے ہے)سے نکاح کرنے والے ہیں ۔ آپ انے فرمایا اگر وہ میری ربیبہ اور میری پرورش میں نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی ) جب بھی میرے لیے حلال نہ ہوتی ، وہ دوسرے رشتے سے میری دودھ بھتیجی ہے،مجھ کو اور ابو سلمہؓ
کو (یعنی اس لڑکی کے باپ کو ) ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے ۔ دیکھو ایسا مت کرو ، اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ سے نکاح کرنے کے لیے نہ کہو۔‘‘
حضرت عروہ رحمہ اللہ نے کہا ثوبیہ ابو لہب کی لونڈی تھی ۔ ابو لہب نے اسے آزاد کردیا تھا ، اس نے نبی کریم اکو دودھ پلایا تھا ۔ جب ابولہب مرگیا تو اس کے کسی عزیز نے اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں ، کبھی آرام نہیں ملا،
مگر ذرا سا پانی پلایا گیا تھا بمقدار اس کے (یعنی اس نے اشارہ کیا اس گڑھے کی طرف جو انگلی اور انگوٹھے کے درمیان ہوتا ہے ۔) اور یہ ثوبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے تھا ۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح )
یہ حدیث کہیں مختصر اً اورکہیں مطولاًکتاب النکاح کے علاوہ بھی وارد ہوئی ہے ۔
دیکھئے احادیث نمبر:۵۱۰۶،۵۱۰۷،۵۱۳۳اور ۵۳۷۲ ۔
اب پچھلے دعاوی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس حدیث پر غور کریں !
ظکیا اس میں یہ ہے کہ ابو لہب نے لونڈی (ثوبیہ ) کو میلاد النبی اکے دن آزاد کیا تھا اور اس کی وجہ میلاد النبی کی خوشی تھی؟
ظکیا اس میں یہ ہے کہ جو پانی اسے پلایا گیا تھا اس سے اس کے عذاب میں تخفیف (کمی ) آئی تھی؟
ظکیا اس میں یہ ہے کہ ہر سوموار (پیر ) کو پانی پلایا جاتا ہے ؟
یقیناًاس میں کسی سوال کا جواب بھی ہاں میں نہیں ہوسکتا ۔ تو پھر ہمیں ماننا ہوگا کہ اقارب اور اجانب کے زبان زد عام دعوے بلا دلیل ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ان دعووں کی کوئی دلیل نہیں، اجانب کو تو جانے دیں حیرت تو ان اقارب پر ہے جو بلا دلیل بات نہ کرنے نہ سننے اور نہ ہی ماننے کے دعوے دار ہیں ۔ وہ بھی ابو لہب اور اس کی لونڈی کے بارے میں ایسا کچھ بیان کرتے ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
ع ہم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے
احباب علم و دانش کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ذمہ دار اسٹیجوں سے آج غیر ذمے دارانہ بیانات بڑھتے جارہیں ہیں!!!
اب آئیے اس روایت کی حقیقت کی طرف ، مگر اس سے قبل یہ سمجھ لیجئے کہ ائمہ محدثین
و دیگر اہل علم وفضل نے صحیح بخاری شریف کی مرفوع متصل روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے ، نہ کہ
معلقات و مرسلات اور منقطع روایات کو ۔ کما لا یخفی علی اہل العلم والمعرفۃ۔
روایت کی حقیقت:
(۱) یہ روایت مرسل ہے ، جیسا کہ اس کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے ۔ قال عروہ....... کے الفاظ پر غور کیجئے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے : ’’مرسل،ارسلہ عروۃ ولم یذکر من حدثہ بہ‘‘
(فتح الباری ) یعنی یہ خبر مرسل ہے، عروہ رحمہ اللہ نے اسے مرسل بیان کیا ہے اور یہ بیان نہیں کیا کہ ان سے کس نے اس خبر کو بیان کیا ہے ۔
شیخ ابو بکر الجزائری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : یہ خبر مرسل ہے، اور مرسل سے نہ احتجاج (استدلال ) کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی عقیدہ و عبادت ثابت ہوتی ہے ۔ (الانصاف فیما قیل فی المولد من ا لغلو والاحجاف)
ڈاکٹر طاہر القادری بھی لکھتے ہیں : ’’یہ روایت اگر چہ مرسل ہے ، لیکن مقبول ہے‘‘۔ (میلاد النبی صفحہ:۳۹۳)
یاد رہے کہ فقہ حنفی میں رد و قبول کے پیمانے بھی جناب(ڈاکٹر طاہر القادری) کی طرح شوخ ہوسکتے ہیں ۔ وہاں آیات کو اپنے احباب کے نظریئے کی مخالفت میں دیکھ کر منسوخ قرار دے دیا جاتا ہے ۔ (اصول کر خی دیکھئے )
تنبیہ: یہ جو مرسل کی بات ہورہی ہے تو اس سے مراد صرف وہ ٹکڑا ہے جو قال عروہ سے شروع ہوکر آخرتک چلا جاتا ہے ۔ پوری روایت نہیں ، کہ وہ تومتصل ہی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
(۲) دوسری با ت یہ ہے کہ اگر یہ خبر متصل بھی ہوتی تو دلیل نہیں بن سکتی تھی ، کیوں کہ یہ ایک خواب کا معاملہ ہے ۔ یہ بات بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھ رکھی ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ائمہ نے تصریح کی ہے کہ خواب کے ذریعہ شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے ۔ چند سطور کے بعد(مزید) لکھتے ہیں : اگر سویا ہوا آدمی خواب میں دیکھے کہ نبی علیہ السلام اسے کسی چیز کا حکم دے رہے ہیں تو کیا اس کی تعمیل ضروری ہے یا یہ ضروری ہے کہ اسے ظاہری شرع پر پیش کیا جائے ؟(یعنی اس کام کے جواز اور عدم جواز کی دلیل تلاش کی جائے ) فرماتے ہیں دوسری بات قابل اعتماد ہے ۔ (فتح الباری )
غور کیجئے کہ حالت خواب میں دیا جانے والا حکم نبی ا بھی موجود ظاہر شرع پر پیش کیاجائے گا !(چہ جائے کہ کسی امتی کا خود دیکھا ہوا کوئی خواب!) یاد رہے کہ خواب کا حجت شریعہ
نہ ہو نا خود مکتب بریلی کے یہاں بھی مسلمہ ہے ۔ (دیکھئے میلاد النبی از سعید احمد کاظمی)
آج بہت سے احناف نے اپنے معتقدات کی دلیل خوابوں کوہی بنا رکھا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کی خدمت میں ایک خواب عرض کیا جاتا ہے جو سنداً صحیح ثابت ہے ۔ دیکھتے ہیں یہ خواب ان کے یہاں کیا حیثیت رکھتا ہے ۔
مشہور ثقہ امام قاضی ابو جعفر احمد بن اسحاق بن بہلول بن حسان بن سنان ا لتنوخی ا لبغدادی رحمہ اللہ (متوفی۳۱۸ھ) نے کہا کہ میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے نبی اکرم ا کو خواب میں دیکھا ۔ آپ نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ آپ پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے ۔ (سنن دار القطنی حدیث :۱۱۱۲)
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سندہ صحیح‘‘۔ اس کی سند صحیح ہے ۔
(موطا امام مالک بروایۃ ابن القاسم ) تحت حدیث ۱۲۱ صفحہ ۲۰۹ ۔
اب ظاہر ہے کہ حنفی کہلوانے والے حضرات اس سچے اور نیک آدمی کے خواب کو کبھی بھی صحیح باور نہیں کریں گے ۔ تو معلوم ہوا کہ کسی امتی کا خواب حجت نہیں ہوسکتا ،اگر چہ وہ رسول اللہ ا
کو دیکھ لینے کا دعویٰ ہی کیوں نہ کرے۔(اور اگر حجت و دلیل مانتے ہو تو رفع الیدین شروع کردو)
(۳) تیسری بات یہ ہے کہ اس مرسل خبر میں ظاہری الفاظ سے یہ معنی لیا جاسکتا ہے
کہ ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنا نبی کریم اکو دودھ پلانے سے قبل تھا ، مگر یہ بات اہل سیر کی بیان کردہ حقیقت کے خلاف ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ابو لہب کے لونڈی آزاد کرنے میں اور نبی علیہ السلام کے دودھ پلانے کی مدت میں ایک طویل عرصہ حائل ہے ۔ (یہ بات بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے
لکھی ہے ۔فتح الباری )
اس بات کی وضاحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے’’ الاصابۃ‘‘ میں اس طرح کی ہے :
یعنی’’ ابن سعد کہتے ہیں کہ ہمیں واقدی نے ایک سے زیادہ اہل علم سے یہ خبر نقل کی ہے کہ وہ کہتے تھے : ثوبیہ نبی اکرم اکی مرضعہ تھیں ، اور آپ ا مکے میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ صلہ رحمی فرمایا کرتے تھے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا بھی ثوبیہ کا اکرام کیا کرتی تھیں تا حال کہ وہ (ابھی ) ابولہب کی ملکیت ہی میں تھیں ،سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے ابو لہب سے کہا اسے (یعنی ثوبیہ کو ) مجھے بیچ دو ،
تو ابو لہب نے اس بات سے انکار کردیا ۔ جب نبی کریم انے (مدینہ ) ہجرت فرمائی اس وقت
ابو لہب نے ثوبیہ کو آزاد کردیا۔۔۔‘‘۔ (الاصابۃجزء:۴)
طبقات ابن سعد کا مطالعہ کرنے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کی تائید ملتی ہے ۔
نیز حافظ ابن عبدالبر اور امام ابن جوزی کے کلام سے بھی اہل سیر کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے الاستیعاب فی اسماع الاصحاب میں لکھا ہے کہ ثوبیہ نے رسول ا للہ ا ،
حمزہ بن عبدالمطلب اور ابو سلمہ بن عبدالاسد کو دودھ پلایا تھا ۔ نبی کریم ا ثوبیہ کا اکرام فرماتے ،
ثوبیہ نبی علیہ السلام کے پاس آیا جایا کرتی تھیں، جب کہ نبی علیہ السلام سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرما چکے تھے ۔ سیدہ خدیجہ بھی ان کے اکرام واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتیں۔ جب نبی مکرم ا نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو (اس وقت ) ابو لہب نے ثوبیہ کو آزاد کردیا ۔۔۔(ملخصاً ۔ الاستیعاب )
امام المحب الطبری رحمہ اللہ نے’’ ذخائر العقبی فی مناقب القربی‘‘ میں اس کلام کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے ۔
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے’’الوفا فی احوال المصطفی‘‘ میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے نبی مکرم ا کو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے (چند دن) دودھ پلایا تھا ۔ پھر حلیمہ سعدیہ تشریف لائیں ۔۔۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نکاح کے بعد ثوبیہ نبی مکرم اکے پاس آیا جایا کرتی تھیں۔ آپ او ر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ( ثوبیہ کا) اکرام فرماتے اور وہ( ثوبیہ ) اس وقت بھی ابو لہب کی لونڈی تھیں ، پھر اس کے بعد ابو لہب نے انہیں آزاد کر دیا۔۔۔
ان تمام دلائل و براہین سے بالکل واضح ہے کہ ابو لہب کا لونڈی کو میلاد النبیا کے دن خوشی میں آزاد کرنا ثابت ہی نہیں بلکہ سیدہ خدیجہ سے شادی کے بعد بلکہ ہجرت مدینہ کے بھی بعد، کسی وقت ابو لہب نے کسی خوشی اور غمی کے موقع پر ثوبیہ کو آزاد کردیا تھا ۔
اس کے برعکس اگرکسی نے ثوبیہ کی آزادی کو پیدائش نبی اکرم اکے دن کے ساتھ خاص مانا ہے تو اسے شدید مغالطہ لگا ہے یا پھر اہل بدعت نے دیدہ دانستہ حقیقت کو پردہ میں چھپادیا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی مکرم ا کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے ازدواجی زندگی کا آغاز آپ کی عمر کے پچیس سال مکمل ہونے کے بعد ہوا اور اس وقت ثوبیہ ابو لہب کی ملکیت میں تھیں، آزادانہ تھیں ، کما مرآنفا۔۔۔
(۴) چوتھی بات یہ ہے کہ اس مرسل خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کو اس کا عمل صالح (مرنے کے بعد )نفع دیتا ہے ( یعنی کبھی کبھی ) مگر یہ بات تو نصوص قرآنی کے بالکل خلاف ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’ وقد منا ا لی ما عملوا من عمل فجعلناہ ہبآ ء منثورا‘‘۔ (سورہ فرقان: ۲۳) ترجمہ : اور جوعمل ان کافروں نے کئے ہوں گے ، ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی ہوئی خاک بنادیں گے۔
اور ابو لہب کے مال کا اس کو نفع نہ دینا تو قرآن سے ہی ثابت ہے ۔ تبت یدا ابی لہب وتب ، ما اغنی عنہ مالہ وما کسب (سورہ لہب:۲) ترجمہ : ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ و برباد ہوجائے نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کا عمل ۔
قرآن مجید نے صراحت کردی ہے کہ ابو لہب کو اس کے مال و عمل نے کوئی نفع نہیں پہنچایا۔لہٰذا اس صراحت کو مرسل خبر عروہ سے ہر گز ہرگز رد نہیں کیا جا سکتا اور تما م اہل علم جانتے ہیں کہ لونڈی بھی مال کی ایک شکل ہے ، اگر خوشی میں آزاد بھی کی ہوتی تو اسے مرنے کے بعد نفع نہ دیتی جب کہ یہاں تواس موقع خاص پر آزاد کرنا تو ثابت ہی نہیں ،جس کی تفصیل گزر چکی ہے ۔ قرآن کے ظاہر سے ٹکرا کر صحیح روایات کو رد کردینے والے کس طرح مرسل خبر کو حجت قرار دیتے ہیں ؟!
(۵) پانچویں بات یہ ہے کہ ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنا اگر تسلیم کر لیا جائے تو اس کا یہ عمل ایک طبعی خوشی کے نتیجے میں تھا کہ آپ ا اس کے بھتیجے تھے نہ کہ اس نے آپ کی نبوت ورسالت کو تسلیم کرتے ہوئے اور اس خوشی کا اظہار کیا تھا ، فقط ذاتِ رسول اسے محبت کا دعوی ، اور باتِ رسول ا
سے انکار و عداوت ہی ابو لہب کی تباہی کا سبب بنی تھی اور آج لو گ اس خبر مرسل کو دلیل بنا کر فقط ایک مخصوص دن عید و جشن کا اظہار کرتے ہیں! کیا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی فقط ذاتِ رسول ا سے محبت کے دعوے دار ہیں؟؟؟؟
ویسے ان کا عمل بھی اسی کی عکاسی و غمازی کرتا ہے کیوں کہ ذات رسول ا میں تو اس طرح جشن و جلوس اور خود ساختہ تیسری عید پر کوئی دلیل نہیں ملتی ؟؟؟
اور اس جلوس و جشن کا عید شرعی نہ ہونا تو خود طاہر القادری شوخ الاسلام کو بھی تسلیم ہے ۔ (دیکھئے : میلاد النبی از طاہر القادری )
طاہر القادری کا اسے عید فرحت قرار دینا بھی خود ساختہ شریعت سازی ہے کیوں کہ اسلام میں جو دو عید یں بتائی گئی ہیں وہ عید نفرت و عداوت یا عید رنج و الم نہیں بلکہ جہاں وہ عبادت کا درجہ رکھتی ہیں وہاں وہ فرحت و سرور کا باعث بھی ہیں ۔
(۶) چھٹی بات یہ ہے کہ جہاں تک ابو لہب کے عذاب میں تخفیف و کمی آجانے کا معاملہ ہے، تو یہ بات کہیں ہے ہی نہیں ، حتی کہ اس خبر مرسل میں بھی نہیں جسے لوگ دلیل کا درجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ غیر انی سقیت ۔۔۔مجھے( فقط) پانی پلایا گیا ہے ۔
نہ سوموار کا ذکر ہے اور نہ ہی اس پانی کی بدولت عذاب میں کمی کا کوئی ذکر ہے ؟!
یہ تخفیف ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ ابو لہب تو ’’ سیصلی نار ذات لہب ‘‘کے بمصداق نارِ جہنم میں ہے اور وہاں تو پانی بھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔
وان یستغیثوا یغاثوا بما ء کالمھل یشوی الوجوہ ، بئس الشراب۔۔۔ ترجمہ: اور اگر وہ(کافر ،جہنمی) جہنم میں فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم اور جو چہروں کو بھون ڈالے گا ،بہت برا
یہ پینے کاپانی ہوگا ۔ (سور �ۂکہف :۲۹)
اور مزید فرمایا گیا :’’ تسقی من عین انیہ‘‘ ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی ان کو دیا جائے گا۔
(سور ۃ الغاشیۃ)’’وسقوا مآء حمیما‘‘ اور وہ کھولتا ہوا پانی پلائے جائیں گے ۔ (سور ہ محمد:۱۵ )
اس سے واضح ہوا کہ خبر مرسل سے لفظ پانی کو لے کر عذاب کی تخفیف کا دعوی نصوص قرآنی سے متصادم ہے لہٰذا سراسر باطل ہے ۔ پھر مرسل میں تو تخفیف کا بیان ہی نہیں ۔ فافہم !
جہنم میں جنت کا پانی نہیں ملے گا جو کہ پیاس بجھانے اور سیراب کرنے والا ہوگا ۔ اور دوزخی بہشتیوں سے (گڑ گڑا کر ) کہیں گے کہ تھوڑا سا ہم پر پانی بہادو جو رزق اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے اس میں سے (کچھ ہمیں بھی دو ) ۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کر دیا ہے ۔ (سورۃ الاعراف : ۵۰)
تنبیہ: ابو طالب کے عذاب میں تخفیف علیحدہ مسئلہ ہے کہ و ہ تو نصوص سے ثابت ہے ۔
قارئین کرام ! یہ اس واقعہ کی حقیقت تھی جو بفضل اللہ بیان کر دی گئی ہے، کسی بھی
واعظ و خطیب سے مذکورہ واقعہ سنیں اور اس تفصیل کے برعکس ہو تو ضرور بالضرور اسے اس حقیقت سے آگاہ کریں ۔ جزا کم اللہ خیرا۔
تفصیل کے لیے دیکھئے :رسائل فی حکم الاحتفال بالمولد النبی ، جزء
ثانی، طبع رئاسۃ ادارۃ البحوث العلمیۃ والافتا، الریاض، السعودیۃ۔
No comments:
Post a Comment