أبو عائشہ جمال احمد السلفی
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ناک خاک آلود ہو،پھر ناک خاک آلود ہو ،پھر ناک خاک آلود ہواس شخص کی ،جس نے بڑھا پے میں اپنے والدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو پایا اور پھر (ان کی خدمت کرکے )جنت میں نہیں گیا۔
مذہب اسلام نے جملہ مسلمانوں کو ترغیب دی ہے اور اس پر رحمتِ الہٰی اور بخشش اخروی کا وعدہ فرما یا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے بشارت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ صلہ رحمی کرنے والوں کی روزی میں برکت دیتا اور ان کی عمر دراز کرتا ہے ۔ویسے تو سارے ذوی الارحام کے ساتھ حسن سلوک موجب سعادت ہے ،مگر والدین کی خدمت ،ان کی اطاعت اور ان کے ادب و احترام کا مقام سب سے بڑھ کر ہے ۔اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ جوڑکر ثابت کر دیا ہے کہ ربوبیت الہٰی کے تقاضوں کے ساتھ حقوق والدین کے تقاضوں کی ادائیگی ضروری ہے ۔حدیث مذکورہ میں ایسے بدنصیب کے لیے بد دعا یا اس کے انجام بد کی خبر ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت کر کے اپنے رب کو راضی نہیں کر تا ۔والدین کی خدمت تو ہر عمر میں ضروری ہے ،وہ جوان ہوں تب بھی ،مگر بڑھا پے میں چونکہ والدین کے جسمانی اعضاء کمزور اور عقل و فہم کی صلاحیت ناقص ہو جاتی ہے اس لیے دیکھ بھال کے زیادہ محتاج ہو جاتے ہیں ،انہیں حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔اگر کوئی شخص ان کے ساتھ حسن سلوک سے جی چراتا ہے ،تو وہ شریعت کی نظر میں ذلیل و شقی ہے اور اس حرکت کی وجہ سے وہ جنت سے محروم ہو سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت کی توفیق دے کر اخروی سعادت سے نوازے۔ آمین
خدمتِ والدین سے اعراض
انجامِ بد کا باعث ہے
’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ رغم أنف ،ثم رغم أنف ،ثم رغم أنف من أدرک أبویہ عند الکبر،أحدھما أو کلیھما،فلم یدخل الجنۃ۔‘‘ (رواہ مسلم ج۲ ص۳۱۴ کتاب البرو الصلۃ) انجامِ بد کا باعث ہے
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ناک خاک آلود ہو،پھر ناک خاک آلود ہو ،پھر ناک خاک آلود ہواس شخص کی ،جس نے بڑھا پے میں اپنے والدین میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو پایا اور پھر (ان کی خدمت کرکے )جنت میں نہیں گیا۔
مذہب اسلام نے جملہ مسلمانوں کو ترغیب دی ہے اور اس پر رحمتِ الہٰی اور بخشش اخروی کا وعدہ فرما یا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے بشارت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ صلہ رحمی کرنے والوں کی روزی میں برکت دیتا اور ان کی عمر دراز کرتا ہے ۔ویسے تو سارے ذوی الارحام کے ساتھ حسن سلوک موجب سعادت ہے ،مگر والدین کی خدمت ،ان کی اطاعت اور ان کے ادب و احترام کا مقام سب سے بڑھ کر ہے ۔اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ جوڑکر ثابت کر دیا ہے کہ ربوبیت الہٰی کے تقاضوں کے ساتھ حقوق والدین کے تقاضوں کی ادائیگی ضروری ہے ۔حدیث مذکورہ میں ایسے بدنصیب کے لیے بد دعا یا اس کے انجام بد کی خبر ہے، جو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت کر کے اپنے رب کو راضی نہیں کر تا ۔والدین کی خدمت تو ہر عمر میں ضروری ہے ،وہ جوان ہوں تب بھی ،مگر بڑھا پے میں چونکہ والدین کے جسمانی اعضاء کمزور اور عقل و فہم کی صلاحیت ناقص ہو جاتی ہے اس لیے دیکھ بھال کے زیادہ محتاج ہو جاتے ہیں ،انہیں حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔اگر کوئی شخص ان کے ساتھ حسن سلوک سے جی چراتا ہے ،تو وہ شریعت کی نظر میں ذلیل و شقی ہے اور اس حرکت کی وجہ سے وہ جنت سے محروم ہو سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں والدین کی خدمت کی توفیق دے کر اخروی سعادت سے نوازے۔ آمین
No comments:
Post a Comment