مولانا حمید اللہ الندوی
’’یاداؤد اِنا جعلناک خلیفۃ فی الارض فا حکم بین الناس بالحق ولا تتبع الہویٰ فیضلک عن سبیل اللہ ، اِن الذین یضلون عن سبیل اللہ لہم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب۔(سورہ ص پ؍۳۲،آیت؍۶۲) ترجمہ:۔ اے داؤد ! ہم نے تم کو روئے زمین پر خلیفہ بناکر بھیجا،تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو،اور خواہشاتِ نفسانی کی پیروی نہ کروکہ یہ چیز تم کو اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹکا دے گی،بے شک جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک گئے ہیں ،ان کے لئے سخت ترین عذاب ہے یہ اس لئے کے انہوں نے حساب وکتاب (آخرت) کے دن کو فراموش کر دیا ہے۔
تشریح : ۔ مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے ایک برگزیدہ نبی حضرت داؤد علیہ السلام کو کہ جن کو اللہ پاک نے نبوت اور حکومت دونوں نعمتوں سے نوازا تھا،مخاطب کرتے ہوئے فرمارہاہے کہ لوگوں کے معاملات میں فیصلہ دیتے وقت نفس پرستی اور مفاد پرستی کا غلبہ نہیں ہونے دینا چاہئے ،کیوں کہ اس سے عدل و انصاف کا دامن چھوٹ جاتاہے ،اور حق اوجھل ہوتاہے ۔اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی صاحب اقتدار ہو تا ہے تو چوں کہ اپنے ماتحتوں کے مقابلہ میں جو اس کے زیر تسلط ہوتے ہیں ،اختیارات زیادہ پائے ہوئے ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہر طرح کے قوانین سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے اور اس بالا دستی کے نشہ میں چُور ہوکر غیروں کا استئصال کرنے اور اپنے سے کمتر کی تذلیل و تحقیر کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ،پھر یہیں سے اس کے اندر گمراہی پیدا ہونے لگتی ہے ،جبر و استبداد کا خوگر ہونے لگتا ہے ،اور عذاب الہٰی کا حقدار بن جاتا ہے ۔
بلاشبہ حکومت و اقتدار ہر انسان کی فطری چاہت ہوتی ہے ،اور بہت سارے لوگ اس کے حصول کے لئے کوشاں ہو تے ہیں ،بل کہ موجودہ دور میں جب کہ دین و مذہب کی گرفت لوگوں پر کمزور ہو چکی ہے ،اور یوم حساب پر یقین متزلزل ہو چکا ہے، ایسی حالت میں دولت و حکومت ،جاہ و منصب کوپانے کے لئے ایسے ہتھکنڈے اپنا تے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے۔جیسا کہ آج کل سیاسی پارٹیوں، مذہبی جماعتوں اور دینی اداروں میں دیکھا جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ دین پرست حضرات ہمیشہ اس سے دور بھاگتے رہے ہیں ،اور اگر انہیں کبھی یہ دولت ہاتھ لگ بھی گئی تو قیامت کے دن کی مسؤلیت کے ڈرسے حقوق کی پوری پاسداری کی اور عدل و انصاف پر آنچ نہ آنے دی،اور ان سات خوش نصیب لوگوں کے زمرہ میں آگئے، جن کے لئے عرش الہٰی کا سایہ اس دن ہوگا کہ جس دن اس کے علاوہ کو سایہ نہ ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان خوش نصیب لوگوں کے صف میں کردے: آمین
******
نفس پرست صاحب منصب گمراہی کا شکار ہوتا ہے
’’یاداؤد اِنا جعلناک خلیفۃ فی الارض فا حکم بین الناس بالحق ولا تتبع الہویٰ فیضلک عن سبیل اللہ ، اِن الذین یضلون عن سبیل اللہ لہم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب۔(سورہ ص پ؍۳۲،آیت؍۶۲) ترجمہ:۔ اے داؤد ! ہم نے تم کو روئے زمین پر خلیفہ بناکر بھیجا،تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو،اور خواہشاتِ نفسانی کی پیروی نہ کروکہ یہ چیز تم کو اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹکا دے گی،بے شک جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک گئے ہیں ،ان کے لئے سخت ترین عذاب ہے یہ اس لئے کے انہوں نے حساب وکتاب (آخرت) کے دن کو فراموش کر دیا ہے۔
تشریح : ۔ مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے ایک برگزیدہ نبی حضرت داؤد علیہ السلام کو کہ جن کو اللہ پاک نے نبوت اور حکومت دونوں نعمتوں سے نوازا تھا،مخاطب کرتے ہوئے فرمارہاہے کہ لوگوں کے معاملات میں فیصلہ دیتے وقت نفس پرستی اور مفاد پرستی کا غلبہ نہیں ہونے دینا چاہئے ،کیوں کہ اس سے عدل و انصاف کا دامن چھوٹ جاتاہے ،اور حق اوجھل ہوتاہے ۔اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی صاحب اقتدار ہو تا ہے تو چوں کہ اپنے ماتحتوں کے مقابلہ میں جو اس کے زیر تسلط ہوتے ہیں ،اختیارات زیادہ پائے ہوئے ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہر طرح کے قوانین سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے اور اس بالا دستی کے نشہ میں چُور ہوکر غیروں کا استئصال کرنے اور اپنے سے کمتر کی تذلیل و تحقیر کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ،پھر یہیں سے اس کے اندر گمراہی پیدا ہونے لگتی ہے ،جبر و استبداد کا خوگر ہونے لگتا ہے ،اور عذاب الہٰی کا حقدار بن جاتا ہے ۔
بلاشبہ حکومت و اقتدار ہر انسان کی فطری چاہت ہوتی ہے ،اور بہت سارے لوگ اس کے حصول کے لئے کوشاں ہو تے ہیں ،بل کہ موجودہ دور میں جب کہ دین و مذہب کی گرفت لوگوں پر کمزور ہو چکی ہے ،اور یوم حساب پر یقین متزلزل ہو چکا ہے، ایسی حالت میں دولت و حکومت ،جاہ و منصب کوپانے کے لئے ایسے ہتھکنڈے اپنا تے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے۔جیسا کہ آج کل سیاسی پارٹیوں، مذہبی جماعتوں اور دینی اداروں میں دیکھا جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ دین پرست حضرات ہمیشہ اس سے دور بھاگتے رہے ہیں ،اور اگر انہیں کبھی یہ دولت ہاتھ لگ بھی گئی تو قیامت کے دن کی مسؤلیت کے ڈرسے حقوق کی پوری پاسداری کی اور عدل و انصاف پر آنچ نہ آنے دی،اور ان سات خوش نصیب لوگوں کے زمرہ میں آگئے، جن کے لئے عرش الہٰی کا سایہ اس دن ہوگا کہ جس دن اس کے علاوہ کو سایہ نہ ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان خوش نصیب لوگوں کے صف میں کردے: آمین
******
No comments:
Post a Comment