محمد سلمان فضل الرحمن oct-dec 2009:رد تقلید - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Tuesday, March 16, 2010

محمد سلمان فضل الرحمن oct-dec 2009:رد تقلید

رد تقلید
بزم طلبہ
محمد سلمان فضل الرحمن


اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جن چیزوں کی تعلیم دی، ان میں باہمی اتحاد و اتفاق کوخاص اہمیت حاصل ہے۔ قرآن اور احادیث شریفہ میں مختلف طریقوں سے یہ بتلایا گیا ہے کہ اتحاد کی کیا اہمیت ہے اور اتفاق کی کیا فضیلت ۔ ساتھ ہی ساتھ اختلاف و انتشار کی مذمت بھی بیان کی گئی اور ہے اس حقیقت کو ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ صفحۂ ہستی پر عزت کے ساتھ زندگی گزار نے کے لئے ایک قوم کے درمیان اتحاد شرط ہے، ورنہ ہزاروں الزام سر پر رکھ کر زندگی گزارنا انہیں اقوام و مذاہب کا شیوہ ہے جن کے اندر ہمیشہ اختلاف اور انتشارکے بادل منڈلاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو اتحاد کا درس دیا ، مگر افسوس کہ امت مسلمہ ان واضح تعلیمات کے با وجود اختلاف اور انتشار کا شکار ہے اور ’’ انما المؤمنون اِخوۃ‘‘ کے پیغام کی حامل یہ قوم مختلف فرقوں اور ٹولیوں میں بٹ گئی ہے۔
اختلاف کے اسباب و علل خواہ کچھ بھی بتائے جائیں ،لیکن یہ حقیقت ہے کے امت کے پاس کتاب و سنت کی ایسی واضح تعلیمات موجود تھیں ،جن سے ہر طرح کے اختلافات کو مٹایا جا سکتا تھا ۔جماعتِ اہل حد یث نے اسی دعوت کو پیش کیا تھا اور امت کے اتحاد کے لئے یہ بات لوگوں کے سامنے رکھدی تھی کہ قرآن اور حدیث ہی ہمارا سرمایا ہے، اور ہم عزت کی زندگی اسی کے سایہ تلے گزار سکتے ہیں۔ ایک طرف جماعت نے اس کی تبلیغ کی، تو دوسری طرف اپنا عقیدہ بھی اسی کو بنایا کہ قرآن و حدیث ہی اصل ہے اور اس کے سامنے کسی امام، عالم یا بزرگ کا قول واجب العمل نہیں ہے ۔ لیکن بہت سے گمراہ فرقوں نے اہل حدیث کی اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا، اور ان پر ہر طرح سے طعن و تشنیع کرنے لگے اور غیر مقلد کے لقب سے نوازا۔
اس مضمون میں تقلید کے مضرات اور تقلید نہ کرنے کے منافع کو اجاگر کیا گیا ہے ۔خالص کتاب و سنت کی روشنی میں یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن و سنت کی موجودگی کے باوجودتقلید ائمہ واجب ہے یا پھر بدعت ؟۔
تقلید کہتے ہیں غیر نبی کی بات بلا دلیل تسلیم کرنا، جس کی ابتداء چوتھی صدی ہجری میں ہوئی ، اور لوگوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ تقلید ائمہ اربعہ (یعنی مالک بن انس،ابو حنیفہ نعمان بن ثابت،محمدبن ادریس شافعی،احمد بن حنبل رحمہم اللہ) واجب ہے۔ چاروں ائمہ کا علمی مرتبہ بہت ہی بلند ہے اور دین اسلام میں ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، لیکن عوام پر ان کی تقلید کے واجب ہو نے کی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے نہیں ملتی ۔چوں کہ قرآن و حدیث ہی اصل دین ہے ،جب ہمیں قرآن و حدیث میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ،تو ہم اسے تسلیم بھی نہیں کر سکتے ۔کیو ں کہ ہم شریعت الٰہیہ کے تابع ہیں خانہ ساز شریعتوں کے ۔چند ناداں قسم کے لوگ آیتِ قرآن ’’فسئلوأ اھل الذکراِن کنتم لا تعلمون‘‘ (النحل: ۴۳) سے یہ جواز نکالتے ہیں کہ اس آیت میں عوام کو علماء کی تقلید کا حکم دیا گیا ہے۔
حالانکہ نادانوں کا اس آیت سے تقلید کا جواز نکالنا اللہ پر ایک طرح سے جھوٹ باندھنا ہے، جس پر انہیں ذرہ برابر بھی شرم نہیں آتی ۔کیوں کہ سورۂ نحل کی اس آیت کا ماقبل اور مابعد اس بات کی صاف وضاحت کرتا ہے کہ یہاں اہل الذکر سے مراد اہل انجیل ہیں ،ناکہ امتِ محمدیہ کے علماء۔ گرچہ یہ نادان مقلد اس آیت سے اپنے باطل گمان میں جوازِ تقلید ثابت کردیتے ہیں ،لیکن ہمارا سوال ان کو پریشان کرنے کے لئے کافی ہے کہ اس آیت سے اپنے چارمزعومہ ائمہ کی تقلید کا بھی ثبوت دو کہ ’’اہل ذکر‘‘سے صرف یہی چار ائمہ مراد ہیں ۔ اور یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ مذکورہ بالا آیت سے مراد قرآن و حدیث کا حکم دریافت کرنا ہے، ناکہ لوگوں کی باتیں مان لینے کا حکم۔حقیقت یہی ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگوں کو سب سے زیادہ بر گشتہ کر نے والی بدعت یہی ہے کہ ائمہ کی تقلید کی وجہ سے لوگ سنن و اقوال و افعالِ نبویہ کو ترک کردیں اور ان لوگوں کے اقوال و افعال کی پیروی کرنے لگیں، جن کی تقلید کا حکم نہ تو اللہ نے دیا ہے اور نہ ہی اس کے رسولﷺ نے ،کیوں کہ وہ محض امتی تھے، نبی نہ تھے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تقلید چوتھی صدی ہجری میں شروع ہوئی، تو وہ مسلمان جو بغیر تقلید پر عمل کئے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے ان کا کیا بنے گا ،مثلاً صحابہ،تابعین( تبع تابعین) نتیجہ یہ نکلا کہ تقلید سراسر بدعت ہے۔
یہ مقلدین جن ائمہ کی تقلید کرنا واجب گردانتے ہیں ،وہ ائمہ بذاتِ خود اس تقلید سے باز رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ،جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’ حرام علی من لم یعرف دلیلی ان یفتی بکلامی‘‘ (میزان شعرانی: ۳۸)
میری بات کی دلیل جسے نہ معلوم ہو کہ وہ قرآن سے متعلق ہے یا احادیث سے، اس کے لئے میرے کلام پر فتویٰ دینا حرام ہے ، جب کہ درمختار میں ہے ، ’’اذا اصح الحدیث فھو مذہبی ان توجد لکم دلیل فقولوابہ‘‘ یعنی صحیح حدیث سے جو مسئلہ ثابت ہو جائے وہی میرا مذہب ہے، اگر تم کو کوئی دلیل قرآن و حدیث میں مل جائے تو اسی پر عمل کیا کرو اور اسی پرفتویٰ دو۔
امام مالک فرماتے ہیں: ’’انما انا بشر اخطئی واصیب فانظروافی رأئی فکلّ ماوافق الکتاب والسنہ فخذوہ وکل مالم یوافق فاترکوہ‘ ‘‘یعنی میں بھی ایک انسان ہوں ،کبھی میری بات ٹھیک ہو تی ہے، کبھی غلط، تو تم میری اسی بات کو لو جو کتاب و سنت کے موافق ہو، اور جو اس کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔
امام شافعی فرماتے ہیں: ’’اذاصح الحدیث فھو مذہبی واذارأیتم کلامی یخالف الحدیث فاعملوا با لحدیث واضربوا کلامی الحائط‘‘یعنی صحیح حدیث میں جو کچھ بھی ہے ،وہی میرا مذہب ہے ،جب تم میرے کلام کو پاؤ تو حدیث پر عمل کرو اور میرے قول کو دیوار پر مار دو،نیز آپ فرماتے ہیں کہ: تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جب بھی کسی پر سنتِ رسول اللہ ﷺ ظاہر ہو جائے تو اس شخص کے لئے اس سنت کو چھوڑ کر اوروں کے قول پر عمل کرنا حرام ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’لیس لاحد مع اللہ ورسولہ کلام‘‘یعنی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں کسی کا کلام کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ شاہ ولی اللہ صاحب مزید نقل فرماتے ہیں کہ امام احمدرحمہ اللہ نے فرمایا! ’’لاتقلدونی ولا تقلّدونِّ مالکاً ولا الا وازعیّ ولا الثوریّ و خذوا الاحکام من حیث اخذوا من الکتاب والسنۃ‘‘یعنی خبردار !ہرگز ہرگز نہ میری تقلید کرنا ،نہ امام مالک کی ،نہ اوزاعی کی، نہ ثوری کی، بلکہ یہ بزرگ جہاں سے احکام لیا کرتے تھے ،وھیں سے تم بھی لو ،یعنی قرآن اور حدیث سے۔
یہ ائمہ اربعہ کے اقوال ہیں جو تقلید سے لوگوں کو منع کرتے ہیں ،گویا ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تقلید حرام ہے اور بقول شاہ ولی اللہ یہ اجماع امت کی علامت ہے ۔ اب مقلد ین ہی اپنے گریبان میں منھ ڈال کر فرمائیں کہ وہ اس اجماع کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ،خصوصاً حنفیہ جب کہ ان کی مذہبی کتابوں میں بھی تقلید سے روکا گیا ہے ،جیسا کہ شیخ ابن الھمام الحنفی، فتح القدیر (۳۔۲۴۷) میں فرماتے ہیں کہ ’’فلادلیل علی وجوب اتباع المجتھد المعین بالزام نفسہ ذٰلک قولا او نےۃ‘‘یعنی کسی ایک ہی مجتھد اور امام کی ہر ایک بات اپنے اوپر لازم اور واجب کر لینے کی دلیل قطعاً نہیں ہے۔
لہٰذا ائمہ کے ان اقوال کے پیشِ نظر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سلف صالحین اتباع سنت کوکس قدر مضبوطی سے تھامنے کی تلقین و نصیحت فرماتے، خلافِ قرآن و سنت خیالات کو دھتکارنے کی نصیحت کرتے ،اور اپنی رائے سے فتویٰ دینا اللہ کی زمین پر ایک نیا دین ایجاد کرنے کے مترادف گردانتے تھے۔ لیکن آج کے اس دور کے نام ونہاد علماء تقلید شخصی کو واجب گردانتے ہیں اور اس کے بغیر ایک آدمی کے ایمان کو نا مکمل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جماعتِ اہل حدیث جو سنت کی اتباع کرنے اور ائمہ کرام کے ان تمام اقوال کو جو سنت کے خلاف ہوں ترک کرنے کی دعوت دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ کرام کے اقوال کو بالکلیہ ترک کر دیا جائے اور ان کے آراء سے کوئی استفادہ نہ کیا جائے ۔
حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور اس اشکال کا حق و صواب سے کچھ بھی رشتہ نہیں ہے ،کیوں کہ اہل حدیث کی دعوت تو یہ ہے کہ کسی امام کے مذہب کو دین نہ بنالیا جائے اور اس کو کتاب و سنت کا درجہ نہ دیا جا ئے ۔ فروعی مسائل میں اختلاف کا معاملہ ہو یا جدید مسائل کے لئے استنباطِ احکام کا اسی مذہب کی طرف رجوع کیا جائے ،جیسا کہ آج کل کے نام و نہام فقہاء کر رہے ہیں ۔ چناں چہ انہوں نے ائمہ کے اقوال و مذاہب کا پابند بن کر پرسنل لاء نکاح و طلاق وغیرہ کے لئے جدید قوانین وضع کئے ہیں اور اس سلسلے میں کتاب و سنت کی طرف رجوع چنداں ضروری نہیں سمجھا (اللہ ہمیں ایسے دین فروش علماء سے محفوظ رکھے۔)
ائمہ کرام کی تاریخ اور ان کے اصول کے سرسری جائزے سے یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ جماعت اہل حدیث ائمہ سے محبت ان کی قدر اور ان کی اتباع کرتی ہے ، کیوں کہ وہ ہمارے رہنما سلف صالح میں سے ہیں، اہل حدیثیت کے حقیقی داعی ہیں، اہل حدیث کی دعوت بعینیہ اسلام کی دعوت ہے ،جب کہ تقلید کی دعوت ایک غیر اسلامی دعوت ہے، لہٰذا ہمیں اس سے بچنا چاہئے اور کتاب سنت کادامن پکڑنا چاہئے!اللہ ہمیں نیک توفیق دے۔
اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلائے ! آمین

No comments:

Post a Comment