گوشۂ خواتین
آپ اپنی سسرال میں رہتی ہیں اور جب فرصت ملتی ہے یا موقع ملتا ہے تو اپنے والدین کے پاس بھی آجاتی ہیں اور ہر لڑکی کا رویہ اپنے ماں باپ کے گھر آنے کے بعد مختلف ہوا کر تا ہے۔
مثال کے طور پر سامعہ وہ جب بھی اپنے والدین کے گھر آتی ہے کوئی کام نہیں کر تی ۔اس کے خیال کے مطابق میکہ ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں جا کر کام کیا جائے ۔وہ اسے آرام کر نے کی آئیڈیل جگہ سمجھتی ہے ؛لیکن سامعہ ایک بنیادی بات بھول جاتی ہے کہ دنیا کے ہر رشتے کی بنیاد اور اس کا اظہار ایک خاص حد تک ہوا کر تا ہے ۔یعنی ہر رشتے کے لیے برداشت کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ سامعہ کی بھابھی ہر وقت کام کر تی رہتی ہے ۔سامعہ کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس کی بھابھی بھی بالآخر ایک انسان ہی ہے ۔پھر سامعہ کے آجانے کے بعد اس پر کام کا بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ سامعہ اپنے کام بھی اس کے حوالے کر دیتی ہے اور یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔یہ رویہ صرف ایک سامعہ کا ہی نہیں ہے ۔اس قسم کی اور نہ جانے کتنی لڑکیاں ہیں، جنہوں نے اپنے میکہ کو آرام گھر سمجھ رکھا ہے ،جہاں وہ صرف اپنی تھکن اُتار نے کے لیے جایا کرتی ہیں۔اور یہی خواتین اپنے میکہ کی فضامیں تلخیاں گھولنے کی ذمہ دار ہوا کرتی ہیں اور ان کی وجہ سے رشتوں کے درمیان دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔
ایک طرف کسی لڑکی یا عورت کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ اب اپنے گھر میں بالکل اجنبی بن گئی ہے اس کی ذمہ داریاں اس لحاظ سے بڑھ گئی ہیں کہ وہ دو خاندانوں کے درمیان تعلقات کو بحال
اور خوشگوار رکھنے کے لیے ایک پل کا کام کر رہی ہے۔ ایک وہ گھر جہاں وہ شادی سے پہلے رہا کرتی تھی اور ایک وہ گھر جہاں وہ شادی کے بعد گئی ہے۔یعنی اس کا میکہ اور اس کا سسرال۔
شادی کے بعد صورتحال میں واضح تبدیلی آجاتی ہے۔جس طرح کوئی لڑکی اپنے شوہر کے گھر کی مالکہ ہوا کر تی ہے، اسی طرح اب اس کی بھابھی اس کے بھائی کے گھر کی مالکہ ہے ۔یہ ایسی بات ہے جس کو ہر لڑکی کو سمجھ لینا چاہئے اور اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اسے بہت خوشدلی کے ساتھ قبول بھی کر لینا چاہئے، کیونکہ اس میں عقلمندی اور بھلائی ہے ۔لیکن سامعہ جیسی لڑکیاں اپنے میکہ کو آرام گھر سمجھا کر تی ہیں ۔وہ میکہ آتے ہی اپنی ساری ذمہ داریاں دوسروں پر ڈال دیتی ہیں بلکہ اپنے بچوں تک کو بھابھیوں کے حوالے کر دیتی ہیں اور خود آرام کر تی رہتی ہیں۔لیکن ایسا کب تک چل سکتا ہے، کوئی لڑکی آخر کتنے دنوں تک اس انداز سے اپنے میکہ میں رہ سکتی ہے۔یہ ایک ایسا راز ہے جس کو حل کر نے کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں ہے۔سامعہ کے برعکس قدسیہ کی مثال لیں تو وہ بہت دنوں کے بعد اپنے میکہ جایا کر تی ہے اور جب بھی جاتی ہے اس کا استقبال بہت ہی گرم جوشی اور کھلے دل کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اس لیے کے اس کی فطرت اور عادت سامعہ سے بالکل مختلف ہے ۔اس کے لیے اس کا میکہ آرام گھر نہیں ہے، بلکہ میکہ جا کر بھی وہ اس ذوق اور دلچسپی سے کام کیا کرتی ہے جس طرح اپنے سسرال میں کیا کر تی ہے۔یہ ایک ایسا مثبت رویہ ہے ،جس کا اثر بھی خوش گوار ہوا کر تا ہے ۔وہ کھانا بنانے میں اپنی بھابھی کا ہاتھ بٹاتی ہے۔اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کو نہلا دہلا کر تیار کر تی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی بھابھیوں پر بار نہیں ہو تی۔بلکہ جب بھی اس کی سسرال واپسی ہونے لگتی ہے ،بھابھیوں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔بھتیجے اور بھتیجیاں اصرار کرتے ہیں کہ وہ ابھی نہ جائے۔
کچھ لڑکیاں ایسی بھی ہو تی ہیں جو اپنے میکہ آخر بھابھیوں پر رعب جمانے لگتی ہیں ۔جیسے وہ ان کی باس ہوں اور یہی لڑکیاں اپنے میکہ کو آرام کر نے کا ٹھکانا سمجھا کر تی ہیں ۔ان کا نظریہ یہ ہو تا ہے کہ جب وہ اپنے سسرال میں کام کر تی رہتی ہیں تو پھر ان کا حق بنتا ہے کہ میکہ میں جا کر آرام
کریں ۔یہ محض ایک خیال ہے ۔ایک وہم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس طرح وہ خود اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال لیتی ہیں۔جب کوئی لڑکی سسرال میں8 کام کر تی ہو اور میکہ جا کر آرام کرے، اس کے کچھ دنوں کے بعد پھر سسرال چلی جائے، تو اس کے لیے پریشانیاں شروع ہو جاتی ہیں، کیونکہ اس کے کام کر نے کی عادت ختم ہو چکی ہو تی ہے ۔اسی لئے وہ دوبارہ کام کا آغاز کرتی ہے، تو پھر اس وقت اس کے لیے مسائل جنم لینا شروع کر دیتے ہیں۔
شادی شدہ لڑکی کے لئے اپنی ماں اور بھابھی کی نگرانی میں کام سیکھ لینا زیادہ آسان ہوا کر تا ہے ،بہ نسبت اپنی سسرال کے جہاں اس کی ساس اور نندیں اگر سخت مزاج کی ہوئیں تو طرح طرح کے کیڑے اس کے کام میں نکالے جاتے ہیں ۔ایسی لڑکیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی سسرال سیکھنے کی جگہ نہیں ہے ۔بلکہ سیکھنے کی جگہ ان کا میکہ ہی ہے ،جہاں اس سے محبت کر نے والے اور اس کا دھیان رکھنے والے رشتے موجود ہیں ۔جو نرمی اور توجہ سے اسے سکھا سکتے ہیں ۔اگر یہ بات دھیان میں رکھیں، تو میکہ میں کام کر نے کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے۔
کرن سلطانہ میکہ کبھی پرایا نہیں ہو تا
میکہ میں بھاوج کا ہاتھ بٹانا نندوں کو عزت بڑھا دیتا ہےآپ اپنی سسرال میں رہتی ہیں اور جب فرصت ملتی ہے یا موقع ملتا ہے تو اپنے والدین کے پاس بھی آجاتی ہیں اور ہر لڑکی کا رویہ اپنے ماں باپ کے گھر آنے کے بعد مختلف ہوا کر تا ہے۔
مثال کے طور پر سامعہ وہ جب بھی اپنے والدین کے گھر آتی ہے کوئی کام نہیں کر تی ۔اس کے خیال کے مطابق میکہ ایسی جگہ نہیں ہے، جہاں جا کر کام کیا جائے ۔وہ اسے آرام کر نے کی آئیڈیل جگہ سمجھتی ہے ؛لیکن سامعہ ایک بنیادی بات بھول جاتی ہے کہ دنیا کے ہر رشتے کی بنیاد اور اس کا اظہار ایک خاص حد تک ہوا کر تا ہے ۔یعنی ہر رشتے کے لیے برداشت کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ سامعہ کی بھابھی ہر وقت کام کر تی رہتی ہے ۔سامعہ کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس کی بھابھی بھی بالآخر ایک انسان ہی ہے ۔پھر سامعہ کے آجانے کے بعد اس پر کام کا بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔کیونکہ سامعہ اپنے کام بھی اس کے حوالے کر دیتی ہے اور یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔یہ رویہ صرف ایک سامعہ کا ہی نہیں ہے ۔اس قسم کی اور نہ جانے کتنی لڑکیاں ہیں، جنہوں نے اپنے میکہ کو آرام گھر سمجھ رکھا ہے ،جہاں وہ صرف اپنی تھکن اُتار نے کے لیے جایا کرتی ہیں۔اور یہی خواتین اپنے میکہ کی فضامیں تلخیاں گھولنے کی ذمہ دار ہوا کرتی ہیں اور ان کی وجہ سے رشتوں کے درمیان دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔
ایک طرف کسی لڑکی یا عورت کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ اب اپنے گھر میں بالکل اجنبی بن گئی ہے اس کی ذمہ داریاں اس لحاظ سے بڑھ گئی ہیں کہ وہ دو خاندانوں کے درمیان تعلقات کو بحال
اور خوشگوار رکھنے کے لیے ایک پل کا کام کر رہی ہے۔ ایک وہ گھر جہاں وہ شادی سے پہلے رہا کرتی تھی اور ایک وہ گھر جہاں وہ شادی کے بعد گئی ہے۔یعنی اس کا میکہ اور اس کا سسرال۔
شادی کے بعد صورتحال میں واضح تبدیلی آجاتی ہے۔جس طرح کوئی لڑکی اپنے شوہر کے گھر کی مالکہ ہوا کر تی ہے، اسی طرح اب اس کی بھابھی اس کے بھائی کے گھر کی مالکہ ہے ۔یہ ایسی بات ہے جس کو ہر لڑکی کو سمجھ لینا چاہئے اور اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اسے بہت خوشدلی کے ساتھ قبول بھی کر لینا چاہئے، کیونکہ اس میں عقلمندی اور بھلائی ہے ۔لیکن سامعہ جیسی لڑکیاں اپنے میکہ کو آرام گھر سمجھا کر تی ہیں ۔وہ میکہ آتے ہی اپنی ساری ذمہ داریاں دوسروں پر ڈال دیتی ہیں بلکہ اپنے بچوں تک کو بھابھیوں کے حوالے کر دیتی ہیں اور خود آرام کر تی رہتی ہیں۔لیکن ایسا کب تک چل سکتا ہے، کوئی لڑکی آخر کتنے دنوں تک اس انداز سے اپنے میکہ میں رہ سکتی ہے۔یہ ایک ایسا راز ہے جس کو حل کر نے کے لیے کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں ہے۔سامعہ کے برعکس قدسیہ کی مثال لیں تو وہ بہت دنوں کے بعد اپنے میکہ جایا کر تی ہے اور جب بھی جاتی ہے اس کا استقبال بہت ہی گرم جوشی اور کھلے دل کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اس لیے کے اس کی فطرت اور عادت سامعہ سے بالکل مختلف ہے ۔اس کے لیے اس کا میکہ آرام گھر نہیں ہے، بلکہ میکہ جا کر بھی وہ اس ذوق اور دلچسپی سے کام کیا کرتی ہے جس طرح اپنے سسرال میں کیا کر تی ہے۔یہ ایک ایسا مثبت رویہ ہے ،جس کا اثر بھی خوش گوار ہوا کر تا ہے ۔وہ کھانا بنانے میں اپنی بھابھی کا ہاتھ بٹاتی ہے۔اپنے بھتیجے اور بھتیجیوں کو نہلا دہلا کر تیار کر تی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی بھابھیوں پر بار نہیں ہو تی۔بلکہ جب بھی اس کی سسرال واپسی ہونے لگتی ہے ،بھابھیوں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔بھتیجے اور بھتیجیاں اصرار کرتے ہیں کہ وہ ابھی نہ جائے۔
کچھ لڑکیاں ایسی بھی ہو تی ہیں جو اپنے میکہ آخر بھابھیوں پر رعب جمانے لگتی ہیں ۔جیسے وہ ان کی باس ہوں اور یہی لڑکیاں اپنے میکہ کو آرام کر نے کا ٹھکانا سمجھا کر تی ہیں ۔ان کا نظریہ یہ ہو تا ہے کہ جب وہ اپنے سسرال میں کام کر تی رہتی ہیں تو پھر ان کا حق بنتا ہے کہ میکہ میں جا کر آرام
کریں ۔یہ محض ایک خیال ہے ۔ایک وہم ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس طرح وہ خود اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال لیتی ہیں۔جب کوئی لڑکی سسرال میں8 کام کر تی ہو اور میکہ جا کر آرام کرے، اس کے کچھ دنوں کے بعد پھر سسرال چلی جائے، تو اس کے لیے پریشانیاں شروع ہو جاتی ہیں، کیونکہ اس کے کام کر نے کی عادت ختم ہو چکی ہو تی ہے ۔اسی لئے وہ دوبارہ کام کا آغاز کرتی ہے، تو پھر اس وقت اس کے لیے مسائل جنم لینا شروع کر دیتے ہیں۔
شادی شدہ لڑکی کے لئے اپنی ماں اور بھابھی کی نگرانی میں کام سیکھ لینا زیادہ آسان ہوا کر تا ہے ،بہ نسبت اپنی سسرال کے جہاں اس کی ساس اور نندیں اگر سخت مزاج کی ہوئیں تو طرح طرح کے کیڑے اس کے کام میں نکالے جاتے ہیں ۔ایسی لڑکیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی سسرال سیکھنے کی جگہ نہیں ہے ۔بلکہ سیکھنے کی جگہ ان کا میکہ ہی ہے ،جہاں اس سے محبت کر نے والے اور اس کا دھیان رکھنے والے رشتے موجود ہیں ۔جو نرمی اور توجہ سے اسے سکھا سکتے ہیں ۔اگر یہ بات دھیان میں رکھیں، تو میکہ میں کام کر نے کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے۔
بہت خوب
ReplyDeleteبھائی عبدالصبور صاحب ! آپ ماشاءاللہ بہت اچھا لکھتے ہیں ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ کچھ مقالات میرے پاس بھی مجلہ مصباح کے لیے ارسال کرتے۔صوت التیمی کے دائیں جانب اس کا لنک بھی دیا گیا ہے آپ اُسے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ نے اپنے مقالات بھیجا تو بہت نوازش ہوگی ۔
ReplyDelete