- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, December 31, 2015


مولاناابو الکلام آزادؔ رحمہ اللہ 
حقیقتِ نفاق

قرآن نے ’’ کفر‘‘ کی طرح نفاق کا بھی جا بجا ذکر کیا ہے اور منافقوں کے اعمال و خصائل کی سب سے زیادہ تفصیل اسی سورت(سورۂ توبہ) میں ملتی ہے ، پس ضروری ہے کہ ٹھیک
طور پر سمجھ لیا جائے کہ نفاق کی حقیقت کیا ہے اور منافقوں کی جماعت کس طرح کی جماعت تھی ؟
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ فکر و عمل کا کوئی گوشہ ہو ،تین طرح کے آدمی ضرور ہوتے ہیں :
مستعد اور صالح طبیعتیں :یہ ہر اچھی بات کو پہچان لیتی اور قبول کر لیتی ہیں اور پھر سر گرم عمل ہوجاتی ہیں ۔ 
مفسدطبیعتیں: انہیں ہر اچھی بات سے انکار ہوتا ہے ، کوئی سیدھی بات ان کے اندر اترتی نہیں ۔
درمیانی گروہ :یہ ہر بات کو سن لیتا اور مان لینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے ، لیکن فی الحقیقت اس کے اندر تیاری نہیں ہوتی ، وہ قدم اٹھا دیتا ہے ، مگر چلنا نہیں چاہتا اورچلتا ہے تو پہلے قدم میں
لڑ کھڑاجاتا ہے ۔ اس میں پہلے گروہ کی مستعدی نہیں ہوتی کہ جو بات مان لی اسے ٹھیک مان لے 
اور عمل کرے ، اس میں دوسرے گروہ کی بے باکی و جرأت بھی نہیں ہوتی ہے کہ یکسو ہو کر صاف صاف انکار کردے ، پس گو وہ سمجھتا ہے کہ ایک راہ اختیار کرلی ہے ، لیکن فی الحقیقت دونوں راہوں میں سے کسی میں بھی نہیں ہوتا۔ جہاں تک اقرار کا تعلق ہے ، قبول کرنے والوں میں ہوتا ہے۔
جہاں تک اذعان و عمل کا تعلق ہے ، منکروں کی سی حالت میں ،مذبذبین بین ذالک لا الی ہولاء ولا الی ہٰولاء (۴؍۱۴۳)
جز م و یقین اور عزم و عمل پہلے گروہ کا خاصہ ہے ، انکار و جہود دوسرے کا اور شک وتذبذب اور بے عملی و تعطل تیسرے کا ۔ 
بعینہٖ یہی حال ایمان و عمل کے دائرے کا بھی ہے ، یہاں بھی طبیعت انسانی کی یہ تینوں حالتیں ظہور میں آتی ہیں ، مستعد طبیعتیں قبول کر لیتی اور چل کھڑی ہوتی ہیں ، یہ مومن ہیں ، مفسد انکار کرنے اور مخالفت میں سر گرم ہو جاتے ہیں ، یہ کافر ہیں ، کچھ لوگ قبول کرلیتے ہیں ، لیکن فی الحقیقت قبولیت کی روح ان کے اندر نہیں ہوتی ، یہ منافق ہیں ۔ 
قرآن نے کفر کی طرح نفاق کے اعمال و خصائص بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیے ، کیوں کہ کفر کی طرح نفاق بھی محض عہد نبوی ہی کی پیداوار نہ تھا، ہمیشہ ظہور میں آنے والی گم راہی تھی اور انسان کی گم راہیاں کسی خاص عہد و نسل کی نہیں ، بلکہ نو ع انسانی کی گم راہیاں ہوتی ہیں ۔ 
ایک عام غلط فہمی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں منافقوں کا گروہ کافروں کا کوئی خاص سازشی گروہ تھا جو جاسوسوں کی طرح بھیس بدل کر مسلمانوں میں رہنے لگا تھا ، باہر نکلتا تو مسلمان
بن جاتا ، اکیلے میں ہوتا تو اپنے اصلی بھیس میں لوٹ آتا ۔ حالانکہ ایسا سمجھنا قرآن و احادیث کی صاف صاف تصریحات کو جھٹلانا ہے ۔ ان لوگوں نے اسلام بطور اپنے دین و اعتقاد کے اسی طرح اختیار کرلیا تھا جس طرح دوسرے مسلمانوں نے ، چنانچہ اسی سورت(سورۂ توبہ)کی آیت ۷۴ ؍میں ہے کہ :’’وکفروا بعداسلامہم‘‘ اسلام لا کر پھر کفر کی باتیں کیں ۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے ، ان کی بیویاں انہیں مسلمان سمجھتی تھیں ، ان کے بچے انہیں مسلمان سمجھتے تھے ، ان کے گھر کا ہر فرد یقین کرتا تھا کہ ہم مسلمان ہیں ۔ و ہ نماز پڑھتے تھے ، روزہ رکھتے تھے ، اسلام کے طور طریقے پر اولاد کی پرورش کرتے تھے ۔جہاں تک کسی دین کو بطور ایک دین کے اختیار کر لینے کا تعلق ہے کوئی بات ایسی نہ تھی جو بظاہر ان کے مسلمان ہونے کے خلاف ہو ۔ تاہم قرآن نے فیصلہ کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں ، کیوں کہ اسلام کا گھونٹ تو انہوں نے پی لیا تھا ، لیکن حلق کے نیچے اترا نہیں تھا ۔ کسی تعلیم کو اختیار کر لینے کے بعد یقین و عمل کی جو روح پیدا ہونی چاہیے اس سے یک قلم محروم تھے ۔ اخلاص اور صداقت کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جگہ نہیں تھی ۔ وہ اللہ کا کلام سنتے مگر اس لیے نہیں کہ عمل کریں،بلکہ اس لیے کہ محض سنتے رہیں ۔ وہ نماز پڑھتے مگر بے دلی کے ساتھ ۔ خیرات کرتے مگر مجبور ہوکر ۔ ان کے دلوں میں دین سے زیادہ دنیا کا عشق تھا ۔ اسلام کے جو احکام ان کے شخصی اغراض کے خلاف نہ ہوتے ان پر خوش خوش عمل کرتے ، جو خلاف ہوتے ان سے نکل بھاگنا چاہتے ، 
جب کبھی خوش حالیوں کا موقع ہوتا تو وہ سب سے پہلے مومن تھے ۔ جب کبھی قربانیوں کا موقع آجاتا تو سب سے آخر ی صفوں میں بھی دکھائی نہ دیتے ۔ جہاد کے تصور سے ان کی روحیں لرز جاتیں ۔
نفاق کا حکم ان کے لیے موت کا پیام ہوتا ۔ اسلام کے دشمنوں سے ساز گاریاں رکھنے میں انہیں کچھ تامل نہ ہوتا ، وہ سمجھتے تھے دونوں طرف ملے رہنے ہی میں مصلحت ہے ۔ اگر بازی الٹ پڑی اور دشمن فتح مند ہو گئے تو ا ن کے پاس بھی اپنی جگہ بنی رہے گی۔ 
ایمان و کفر کی طرح نفاق کی تمام حالتیں بھی یکساں نہیں تھیں ۔ چوں کہ اصل کے
اعتبار سے یہ حالت بھی انکار ہی کی ایک اقرار نما صورت ہے ، اس لیے جب بڑھتی ہے تو انکار قطعی ہی کی طرف بڑھتی ہے اور اسی کے خصائص رونما ہونے لگتے ہیں ، کسی میں کم ، کسی میں زیادہ ، چنانچہ اس عہد کے منافقوں کی حالت نفاق یکساں نہ تھی، عبداللہ بن ابی کا نفاق ہر منافق کا نفاق نہ تھا ۔ 
خود قرآن نے اسی سورت(سورۂ توبہ) کی آیت :۱۰۱؍میں اس طرف اشارہ کیا ہے :’’ وممن حولکم من الاعراب منافقون‘‘ ’’ ومن اھل المدینۃ مردو ا علی النفاق‘‘۔کسی کے نفاق کا رخ زیادہ تر اس طرف تھا کہ ہجرت سے جی چراتے تھے، کسی پر انفاق مال شاق تھا ،کوئی جہاد سے بچنا چاہتا تھا ،کسی پر نماز کا قیام سخت گزرتا تھا ،کوئی ایسا بھی تھا کہ احکام الٰہی اور آیات قرآنی کی ہنسی اڑاتا تھا اور اس تاک میں تھا کہ اگر مسلمانوں پر کوئی آفت آپڑے تو کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھ ہوجائے ۔ تاہم یہ قطعی ہے کہ ان سب نے اسلام بطور اپنے دین و طریقے کے قبول کر لیا تھا
اور مسلمانوں ہی میں سمجھے جاتے تھے ۔ یہ بات نہ تھی کہ محض ایک سازشی گروہ بھیس بدل کر مسلمانوں میں آملا ہو اور مسلمانوں میں سے نہ ہو ۔ 
اب غور کرو، یہاں(سورۂ توبہ میں) منافقوں کے اعمال و خصائص کیا کیا بیان کیے گئے ہیں :
1 ۔ جب راہ حق میں جان و مال کی قربانی کا وقت آتا تو طرح طرح کے حیلے بہانے نکالتے اور کہتے ہمیں گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مل جائے ۔ 
2۔ مسلمانوں میں ہمیشہ فتنہ پھیلاتے ، کم زور اور نا سمجھ آدمیوں کو گم راہ کرتے ، اِدھر کی بات اُدھر لگاتے ۔ 
3۔ جب کبھی جماعت کے لیے کوئی نازک وقت آجاتا تو اس طرح کی باتیں نکالتے کہ دوسروں کے دل بھی کمزور پڑ جاتے اور کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھ کھڑاہوتا ، چنانچہ احد میں انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس موقع پر بھی کمی نہیں کی ۔
4۔ دین داری کے بھیس میں اپنا نفاق چھپاتے اور کہتے : اس کام میں ہمارے لیے فتنہ ہے ،
اس لیے شریک نہیں ہوسکتے ۔ 
5۔ مسلمانوں کی مصیبت ان کے لیے مصیبت نہیں ہوتی اور نہ ان کی خوشی ان کے لیے خوشی ۔ 
6۔ جب کوئی جماعتی معاملہ پیش آجاتا تو اس کا ساتھ نہ دیتے اورطرح طرح کی فتنہ سازیاں کرتے، اگر کوئی حادثہ پیش آجاتا تو کہتے : ہم نے تو پہلے ہی یہ بات معلوم کر لی تھی ، اسی لیے ساتھ نہیں دیا تھا ۔ اور پھر بجا ئے اس کے کہ قوم کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھیں ، دل میں خوش ہوتے کہ چلو اچھا ہوا کام یاب نہ ہوئے۔ 
7۔ نماز پڑھیں تو اس بے دلی سے کہ معلوم ہوگا کہ ایک بوچھ آپڑا ہے اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پٹک کر الگ ہوجائیں ۔
8۔ نیکی کی راہ میں خوش دلی سے کبھی خرچ نہ کریں ۔ کنجوسی ان کی سب سے بڑی علامت ہے۔ 
9۔ قسمیں کھا کھا کر یقین دلائیں گے کہ ہمیں مخالف نہ سمجھو ، حالانکہ دل میں نفاق بھرا ہوا ہے ۔ 
10۔ چونکہ دلوں میں کھوٹ ہے ، اس لیے ڈرے سہمے رہتے ہیں اور بہت سے کام دل کی خواہش سے نہیں بلکہ محض جماعت کے خوف سے کرتے ہیں ۔ 
11۔ چونکہ راہ حق کی آزمائشیں پیش آتی رہتی ہیں اور دل میں اخلاص و یقین نہیں ہے،اس لیے
بسا اوقات صورت حال سے ایسے مضطرب ہو جاتے ہیں کہ اگر چھپ بیٹھنے کی کوئی جگہ مل جائے تو فوراً 
رسی تڑا کربھاگ کھڑے ہوں ۔ 
12۔ غرض کے بندے ہیں ۔ ان کی خوشنودی اور ناراضگی کا سارادار و مدار دنیا اور دنیا کا
حصول ہے۔ اگر صدقات کی تقسیم میں انہیں بھی کچھ دے دیا جائے تو خوش رہیں گے ،نہ دیا جائے 
تو بگڑ بیٹھیں گے ۔ 
13۔ چوں کہ ایما ن و راستی سے محروم ہیں ، اس لیے حق ونا حق کی کچھ پروا نہیں ۔ جس طرح بھی ملے مال و دولت حاصل کرنی چاہتے ہیں ۔ صدقات و خیرات کے مستحق نہیں ، لیکن اس کے حصول کے خواہش مند رہتے ہیں ۔
14۔ اگر ان کی ہوا ء نفس کے خلاف کوئی فیصلہ ہو تو فوراً طعنہ زنی پر اتر آئیں کہ دوسروں کی
طرف داری کی جاتی ہے ۔ 
15۔ پیغمبر اسلام مخلص مومنوں کا اخلاص پہچانتے اور انہیں قابل اعتماد سمجھتے تھے ۔ یہ بات منافقوں پر شاق گزرتی ، حتی کہ بعضوں نے کہا : وہ کان کے کچے ہیں ، لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں ۔
16۔ جب دیکھتے ہیں کہ ان کی منافقانہ روش پر عام برہمی پیدا ہوگئی تو قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلانے اور انہیں اپنے سے راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے : ان کی حق فراموشی دیکھو! انہیں خدا کی توکچھ پروا نہیں کہ بد عملیاں کیے جاتے ہیں ، لیکن انسانوں کی اتنی پروا ہے کہ جو ں ہی ان کی نگاہیں 
بدلی ہوئی نظر آئیں ، لگے خوشامد کرنے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے ۔ 
فی الحقیقت انسانی گم راہی کی بو العجبیوں میں سے ایک عجیب بو العجبی یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا مدعی ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا مدعی ہے اور جانتا ہے کہ اس (اللہ)کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ، تاہم ہر طرح کی معصیتیں کیے جائے گا اور ایک لمحے کے لیے اسے خیال نہ ہوگا کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔ لیکن جوں ہی انسانوں کی نظر میں اس کی معصیتیں نمایاں ہوئیں ، اس کے ہوش و حواس گم ہو جائیں گے اور ہزار طرح کے جتن کرے گا کہ کہیں وہ اسے برا نہ سمجھنے لگیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت اسے خدا کی ہستی کا یقین نہیں ، کیوں کہ اگر یقین ہوتا ، اسی درجے کا یقین، جس درجے کا یقین انسانوں کی موجودگی پر رکھتا ہے تو ممکن نہ تھا کہ اس سے بے پروا ہوجاتا ۔قرآن کہتا ہے’’ :یہی حالت نفاق کی حالت ہے‘‘ ۔ 
17۔ دین کے بارے میں ان کی زبانیں جھوٹی ہیں ، لیکن جب پکڑے جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے بطور تفریح اور مزاح کے ایک بات کہہ دی تھی ، سچ مچ کو ہمارا یہ مطلب نہ تھا ۔ قرآن کہتا ہے : یہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے ، کیوں کہ اس سے معلوم ہوا تم اللہ کی اوراس کی آیتوں کی اور اس کے رسول کی ہنسی اڑاتے ہو۔ 
18۔ جس طرح مومن مرد اور عورتیں راہ حق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں، اسی طرح منافق راہ نفاق میں ایک دوسرے کے رفیق ومعاون ہیں ۔
19۔ کذب گوئی ان کا شعار ہے ، صریح ایک بات کہیں گے اور پھر انکار کردیں گے ۔ 
20۔ بعضوں کا یہ حال ہے کہ عہد کرتے ہیں : خدایااگر تو ہم پر فضل کرے تو ہم تیری راہ میں خیرات کریں گے اور نیکی کی زندگی بسرکریں گے ۔ لیکن جب اللہ فضل کرتا ہے تو پھر بے تامل بخیلی پر اتر آتے ہیں اور کچھ اس کی را ہ میں نہیں نکالتے ، اس کی طرف سے رخ پھیر ے رہتے ہیں ۔
21۔ ان کا ایک وصف یہ ہے کہ خود تو کچھ کریں گے نہیں ، لیکن کرنے والوں کے خلاف
زبان کھولنے میں ہمیشہ بے باک رہیں گے ۔ مثلاً اگر خوش حال آدمیوں نے بڑی بڑی رقمیں راہ حق میں نکلالیں تو کہیں گے : دکھاوے کے لیے یا کسی دنیوی غرض کے لیے ایسا کرتے ہیں ۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی محنت مزدوری کی کمائی میں سے چار پیسے نکال کر رکھ دے گا تو اس کی
ہنسی اڑائیں گے کہ واہ اچھی خیرات کی ۔
22۔ راہ حق میں محنتیں مشقتیں برداشت کرنا ان کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ غزوۂ تبوک کا معاملہ سخت گرمی میں پیش آیا اس لیے لوگوں سے کہتے تھے : اس گرمی میں کہاں جاتے ہو؟
23۔ ایمان کے ضعف نے انہیں مردانگی کے احساس و غیر ت سے بھی محروم کردیا ۔ جب لوگ
قوم وملت کی راہ میں جان و مال قربان کرتے ہیں تو وہ عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے ۔ 
24۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو نفاق کی حالت میں شب و روز رہتے رہتے بڑے مشّاق ہوگئے ہیں، دوسرے اتنے مشّاق نہیں، جو مشّاق ہیں تم انہیں تاڑ نہیں سکتے ۔ 
25۔ بعض لوگ دین داری کے بھیس میں ایسی راہیں نکالتے ہیں کہ مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے ۔ مثلاً ایک مسجد بنائی اور پیغمبر اسلام سے عرض کیا: آپ اس میں نماز پڑھادیں تو ہمارے لیے برکت و سعادت ہو ۔ مقصود یہ تھا کہ اپنے اجتماع کے لیے ایک 
نیا حلقہ پیدا کریں اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو ۔ 
26۔ کوئی سال نہیں گزرتا کہ ان کے لیے تنبیہ و اعتبار کی کوئی نہ کوئی بات ظہور میں نہ آجاتی ہو ۔ لیکن غفلت کا یہ حال ہے کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں ، نہ عبرت پکڑتے ہیں ۔
ظ سورۂ آل عمران ، نساء ، انفال ، احزاب ، محمد ، فتح ، حدید ، مجادلہ اور حشر میں بھی منافقوں کے اعمال و خصائص بیان کیے گئے ہیں اور ایک پوری سورت ’’ منافقون‘‘ انہیں کے حالات میں ہے۔ چاہیے کہ اس موقع پر(ترجمان القرآن کی) فہرست سے مدد لے کر وہ تمام مقامات بھی دیکھ لیے جائیں ۔ 
ظ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۸؍ ’’ ومن الناس من یقول آمنا باللہ وبالیوم الآخر وما ہم بمؤمنین‘‘میں اور اس کے بعد کی آیتوں میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مقصود منافقوں کی یہ جماعت نہیں ہے ، بلکہ یہود ونصاری ہیں 
جو ایمان باللہ کا دعویٰ کرتے تھے مگر حقیقتاًایمان کی روح ان میں باقی نہیں رہی تھی ۔ فی الحقیقت 
یہ حالت بھی نفاق ہی کی حالت ہے جو ایک مدت کے جمود و اعراض کے بعد پیروان مذاہب پر
طاری ہوجاتی ہے ۔ لیکن مقصود اس سے مدینہ کے منافق نہیں ہیں ۔
ظ یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ا ن احادیث کا مطلب کیا ہے جن میں نفاق کی خصلتیں بیان کی گئی ہیں اور فرمایا ہے : جس میں یہ خصلت ہو تو سمجھ لو نفاق کی خصلت آگئی ۔
مثلاً’’ اربع من کن فیہ کان منافقا خالصا، ومن کانت فیہ خصلۃ منہن کانت فیہ خصلۃ من النفاق‘‘۔(البخاری)’’ولو صلی و صام وزعم انہ مسلم‘‘( مسلم)
یعنی ’’ چارخصلتیں ہیں ، جس میں یہ چاروں جمع ہوجائیں وہ پورا منافق ہے اورجس میں کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی ۔ صحیح مسلم میں یہ بھی ہے
’’ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو ،روزہ رکھتا ہو اور اس زعم میں ہو کہ مسلمان ہے ‘‘۔پھر وہ خصلتیں بیان 
کی ہیں جو سچے مومن میں نہیں ہونی چاہیے، مثلاً امانت میں خیانت ، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی ، 
غصے میں آکر بے قابو ہوجانا۔
تو معلوم ہوا نفاق کوئی ایسی حالت نہ تھی جو صرف آنحضرت کے زمانے ہی میں ظہور پذیر ہوئی ہو اور نہ منافقوں کا گروہ کوئی ایسا گروہ تھا جو محض چھپے کافروں کا ایک سازشی گروہ ہو ۔ یہ ایمان وعمل کی کمزوری کی ایک زیادہ سخت حالت ہے اور جس طرح اس زمانے میں تھی اسی طرح ہر زمانے میں 
ہو سکتی ہے اور ہوتی رہی ہے ۔ 
اگر آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے ایمان وعمل کا احتساب کرے تو اسے معلوم ہوجائے کہ نفاق کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اور کسی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ، وہ اپنے ہی وجود میں اسے دیکھ لے سکتی ہے ۔ (ترجمان القران، مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ،۳؍۴۴۲۔۴۵۵)

No comments:

Post a Comment