- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, December 31, 2015


محمد سلطان رفعت اللہ سعدؔ السلفی 
استاذ : المعہد ،رچھا،بریلی 
اخلاص 
 اہمیت و فضیلت ، وسائل و فوائد 

اخلاص کا معنی مفہوم :اخلاص عربی زبان میں اخلص کا مصدر ہے ، جس کا مادہ خ ل ص ہے ، جو کسی چیز کی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی پر دلالت کرتا ہے۔(مفردات الراغب:ص:۱۵۴)
اصطلاحی تعریف: علامہ مناوی رحمہ اللہ اخلاص کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’تخلیص القلب من کل شوب یکدر صفاء ہ فکل ما یتصور ان یشوبہ غیرہ فا ذا صفا عن شوبہ و خلص منہ یسمی خالصاً۔(ترجمہ)دل کو ہراس ملاوٹ سے خالص، پاک و صاف کرنا جو اس کی شفافیت ، خالص ہونے کو گدلاکرے، اسی طرح ہر اس چیز سے بھی خالص کردینا جو اسے اس کے غیر کے ساتھ ملا رہی ہو، جب دل ان تمام ملاوٹ اور آمیزش سے پا ک و صاف ہوجائے تو ایسی صورت میں خالص کہاجاتا ہے ۔(التوقیف علی مہمات التعاریف للمناوی ص:۴۲)
شرعی تعریف :شرعیت اسلامیہ میں اخلاص اس نیک کام کو کہتے ہیں جو صرف اللہ کی 
رضا اورخوشنودی کے لیے کیا جائے، ریا نمود اور اپنی دنیاوی غرض اور طلب شہرت یا طلب معاوضہ اور حصول منفعت وغیرہ کے لیے ہر گز نہ ہو، اسی کو احسان بھی کہتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے :
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ ا سے پوچھا : مجھے احسان کے متعلق بتلائیے ؟تو رسول اللہ ا نے فرمایا : کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ، اگر تم نہیں دیکھتے تو اللہ تم کو ضرور دیکھتا ہے ۔ (بخاری: 4777)
اخلاص کے متعلق علماء ومفسرین کے اقوال: 
ظامام جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :الاخلاص:’’الا تطلب لعملک شاہدا 
غیرا للہ تعالی‘‘ٰ۔(نضرۃ النعیم،۲؍۱۲۴، مکتبہ شاملہ) ’’اخلاص یہ ہے کہ تم اپنے عمل کے لیے اللہ کے ماسوا کوئی گواہ طلب نہ کرو۔‘‘
ظحضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میرے لیے سب سے مشکل مسئلہ اپنی نیت کا علاج اور حل رہا ہے ۔یہ پلٹ کر مجھ پر دوڑ چڑھتی ہے ۔‘‘(جامع العلو م والحکم۱؍۱۳)
ظ ا مام یوسف بن اسباط فرماتے ہیں : یعنی’’عمل کرنے والے کے لیے نیت خراب ہونے اور اسے خالص کرنے کا معاملہ طویل مشقت سے بھی زیادہ شدید ہے ۔‘‘(العلو م والحکم۱؍۱۳)
خلوص کی دیگر تعریف : خلوص کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے : ہمیشہ اللہ کا دھیان رکھنا ، اور اپنے تمام حظوظ کو فراموش کردینا ۔( دیکھئے احیاء :۲؍۱۸۸)
ظحضرت شہر بن حوشب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک آدمی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : مجھے ایک سوا ل کا جواب دیجئے ۔اگر کوئی شخص اللہ کی رضا جوئی کے لیے نماز پڑھتاہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ نماز پڑھنے پر اس کی تعریف کی جائے(تو یہ عمل کیسا ہے؟) ۔تو عبادہ نے فرمایا : اسے کچھ نہیں ملے گا ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کہ میں بہترین حصہ دار ہو ں ،چنانچہ جو میرے ساتھ کسی اور شریک کرے ، تو ( میں اپنا حصہ بھی چھوڑ دیتا ہوں)اور وہ سب میرے شریک کار کا ہوجاتا ہے ۔ اور مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ۔(ابن کثیر ۲؍۱۱۴)
ظحضرت سریّ رحمہ اللہ فرما تے ہیں:جوشخص ان باتوں کے ساتھ مزین ہونے کی کوشش کرے،
جو اس میں نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتا ہے ۔اخلاص تو وہ چیز ہے جو دل کی ٹھنڈ ک ،خوشی اور سرور آنکھوں کا نور ہے ، اگر آپ کا عمل دل میں تاثیر اور سینے میں فراخی کا باعث نہ ہو تو جان لیجئے کہ دال میں کچھ (یا زیادہ )کالا ضرور ہے ۔ 
ظ حضرت سہل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اخلاص یہ ہے کہ بندے کی تمام حرکات وسکنات اللہ کے لیے خالص ہو جائیں ۔ یہ انتہائی جامع کلمہ ہے جو اخلاص کی غرض و غایت کا احاطہ کرتا ہے ۔ 
ظ ابو علی الد قا ق رحمہ اللہ کہتے ہیں :یعنی اپنے عمل کو مخلوق کی نظروں سے بچانا اخلاص ہے ، جب کہ اسے نفس کے علائق سے شفاف رکھناصد ق ہے ، چنانچہ مخلص وہ ہے جس میں کوئی ریا کاری نہ ہو ،
اور صادق وہ ہے جس میں خود پسندی نام کو بھی نہ ہو ۔ (فوائد ۲؍۴۸۱)
ظ حضرت سلیمان درانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ جب بندہ اخلاص پید ا کر لیتا ہے تو اس سے وسوسے اور ریا نمود کی کثرت ختم ہوجاتی ہے‘‘ ۔ (مدارج السالکین ابن القیم الجوزیۃ۲؍۹۲ )
ظ امام ا بن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اخلاص اور اتباع کے بغیر عمل کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسافر اپنا توشہ دان ریت سے بھر لے اور اس کے نقل و حمل کی تکلیف سہنے کے باوجود کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے ۔‘‘ (الفوائد لابن القیم :فصل بما رای المتیقضون ۔۔۔،۱؍۴۹،دیکھئے نضرۃ النعیم ۲؍۱۴۹)
ظ حضرت یوسف بن حسین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:دنیا میں نایا ب ترین چیز اخلاص ہے ، اور میں اپنے دل سے ریاکاری نکالنے کی بہت کوشش کرتا ہوں لیکن ریا کاری ہے کہ ایک نئے رنگ میں دوبار ہ پیدا ہوجاتی ہے ۔(مدارج السالکین ابن القیم الجوزیۃ، باب :حقیقۃ الاخلاص ۲؍۹۲)
ظ حضرت الجنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اخلا ص اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ایک ایسا راز ہے جسے کوئی فرشتہ نہیں جانتا کہ وہ اسے لکھے اور نہ کوئی شیطان کہ اسے فاسد کردے ۔‘‘
(مدار ج السالکین۲؍۹۲،رسا لۃ القشیریۃ،۲؍۳۶۱،المکتبۃ الشاملۃ)
ظ حضر ت فضیل بن ایاض رحمہ اللہ: فرماتے ہیں :۔۔۔ اور خالص وہ عمل ہے جو صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو ، جب کہ صواب و درست وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو ۔(اور دونوں کا پایا جانا قبولیت کے لیے شرط ہے) 
پھر اللہ کا یہ فرمان پڑھا:فمن کان یرجوا لقاء ربہ۔۔۔الآیۃ(مدارج السالکین 
باب:حقیقۃ الاخلاص۲؍۹۲)جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو تو چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے ۔
ظ حضرت سہل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا : نفس پر سب سے گراں (بوجھل ) کون سی چیز ہے ؟فرمایا: اخلاص۔ کیوں کہ اس میں نفس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے ۔ (مدارج السالکین ۲؍۹۲)
ظ حضرت حذیفہ مرعشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اخلاص یہ ہے کہ بندے اعمال ظاہر و باطن میں
یکساں ہوجائیں ۔
نیز یہ بھی کہا گیا کہ اعمال کے دکھلاوے سے اغماض برتنا اخلاص ہے ۔آج اکثر لو گ جن مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں یہ سب نیتوں کے ضیاع اور اخلاص کے کمزور ہوجانے کا نتیجہ ہے ۔
حقیقی اخلاص کیا ہے؟
’’التبری عن کل ما دون اللہ ‘‘اللہ کے علاوہ تمام سے براء ت کا اظہار کرنا 
حقیقی اخلاص ہے ۔(تاج العروس ۱۷؍۲۵۶،نضرۃ النعیم فی مکارم اخلاق الرسول۲؍۱۲۴ )
دین میں اخلاص یہ ہے کہ اسلام کے علاوہ تمام ادیان سے براء ت کا اظہار کیا جائے۔ جیسا کہ ارشاد ہے : واخلصوادینہم للہ ۔(نساء :۱۴۶)
علماء کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اطاعت و فرماں برداری میں ریاکاری کو چھوڑ دینا اخلاص ہے ۔ (التعریفات للجرجانی :۱۳ )
اخلاص کے درجات : 
اخلاص کے کئی درجات ہیں،بعض مندرجہ ذیل ہیں :
ظعمل سے دکھلاوہ نکال دینا : اس پر (مخلوق سے)کوئی عوض نہ چاہنا اور اس پر ناراض و خفانہ ہونا، پوری دل جمعی کے ساتھ مکمل کوشش کے با وجود اپنے عمل پر شرمندہ رہنا ۔ اور اپنے عمل کو
سراپا سخاوتِ باری تعالیٰ،اس کی توفیق اور فیض کا نتیجہ سمجھنا۔
ظعلم شرعی کے مطابق عمل کرنا اور حکم قدری کو ملحوظ رکھنا :یعنی آپ ہمیشہ اوامر و نواہی کے پابند رہیں ،
اور اللہ کی قضاو قدر کا مشاہدہ کرتے رہیں۔ 
ان دو آیات میں عبودیت کا مقام یہی دو چیزیں ہیں:لمن شاء منکم ان یستقیم ۔۔۔یعنی تم میں سے جو بھی چاہے سیدھی راہ پر چلے ، اور اللہ رب العالمین کے چاہے بغیر تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے ۔
ظ مخلوق سے بالکل آزاد ہوجائے:اس طرح کہ نہ کوئی مقام مانگے اور نہ کسی مکا شفے یا کسی اور چیز کا مطالبہ کرے ۔( تفصیل کے لیے دیکھئے مدارج۲؍۹۲۔۹۷)
اخلاص کی اہمیت کتاب وسنت کی روشنی میں:
کتاب وسنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اخلاص کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے ۔
جا بجا مومنین کو اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے کا حکم دیا گیا ، مومنین کے اوصاف میں سے اہم صفت اخلاص قرار دیا گیا ہے ، نیز اخلاص سے متصف لوگوں کی مدح سرائی کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں قرآن
و حدیث میں بے شمار نصوص وارد ہوئے ہیں ۔ 
ظ فرمان نبوی اہے :اللہ تعالیٰ تمہاری صور توں اورجسموں کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ وہ تو تمہارے دلوں
( یعنی اخلاص کو )اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (کہ وہ مطابق سنت ہیں یا نہیں)( مسلم:۲۵۶۴ )
ظ نیز آپ ا نے ارشاد فرمایا : بے شک بندہ کچھ اعمال کرتا ہے ۔ پھر فرشتے اسے مہر بلب صحیفوں میں لے کر اوپر چڑھ جاتے ہیں ،اور اللہ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں ۔لیکن اللہ فرماتا ہے :اس صحیفے کو پھینک دو ،کیونکہ اس میں موجود اعمال کے ذریعہ اس نے میری رضا نہیں چاہی ، پھر فرشتوں کو آواز دیتا ہے: اس فلاں کے لئے فلاں فلاں عمل لکھ دو۔ اس کے لئے فلاں اور فلاں نیکی لکھ دو ۔ فرشتے کہتے ہیں : اے ہمارے رب اس نے تو ان میں سے کوئی عمل نہیں کیا ۔۔تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس نے ان کی نیت کی ہے ۔ (دارقطنی۔ بطریق حسن)
ظ اخلاص ہر نیک عمل کی اساس اور بنیاد ہے ،اس کے بغیر کوئی بھی عمل اللہ کے نزیک قابلِ قبول نہیں ۔ جیسا کہ نبی کریم انے فرمایا : ’’ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے‘‘ ۔ (متفق علیہ)
ظ اخلاص نیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ محض ایک شخص اپنی
نیت خالص کے ذریعہ اچھے اور برے اعمال میں شریک ہوجاتا ہے ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر
آپ ا نے ارشاد فرمایا : بے شک مدینہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جو راستہ یا وادی بھی طے کرتے ہو ،وہ تمہارے ساتھ رہتے ہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا : حالانکہ وہ مدینہ میں ہیں ۔فرمایا: ہاں ! جب کہ وہ مدینہ میں ہیں۔کیونکہ انہیں مرض نے روک رکھا ہے ۔ ’’ انہیں عذرنے روک رکھا ہے ۔ (بخاری،کتاب الجہاد، من حبسہ ا لعذر،مسلم کتاب الامارۃ)
معلوم ہو ا کہ اگر دل میں جہاد کی نیت اور جذبہ موجود ہو لیکن کسی عذر شرعی کی وجہ سے شرکت سے معذور ہو ، تو اللہ اسے گھر بیٹھے ہی جہاد کا ثواب عطا فرما دے گا ۔ 
ظ اخلاص سے سخت سے سخت فتنے دب جاتے ہیں :( نسائی :۳۱۸)
ظ خالص عمل کے وسیلے سے اگر در پیش مصیبت و آفت کو دورکرنے کی دعا کی جائے تو اس کی برکت کی وجہ سے مصیبت و پریشانی دور ہوجاتی ہے ۔ دلیل : غار والے تین آدمیوں کا قصہ جو بخار ی مسلم میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔ 
ظ اللہ تعالیٰ نے تمام شریعت میں اخلاص کا تاکید ی حکم دیا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ہے:ترجمہ:’’ اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ، اس کے لیے عبادت کو خالص کرکے یکسو ہوکر، اوروہ نماز قائم کریں ،اور زکوٰۃ دیں ،اور یہی نہایت درست دین ہے ۔(سورۃ البینہ :۵)
ظ اللہ سے خوشگوار ملاقات کے لیے عمل میں اخلا ص اولین شرط ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ہے : ترجمہ:’’ توجو شخص اپنے رب سے ملنے کا یقین رکھتا ہے ،اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے ،
اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ‘‘۔ (کہف:۱۱۰) 
ظ اخلا ص کے لیے ہی تمام ابنیاء و رسل کی بعثت عمل میں آئی، جیسا کی ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
ترجمہ: ’’اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ، ان پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، اس لیے تم میری ہی عبادت کرو‘‘۔(الانبیاء : ۲۵)
ظ نبی کریم ا کو اپنے دین میں اخلاص پیدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،جیسا کہ ارشاد ہے:
ترجمہ:’’ کہہ دیجئے کہ میں اللہ کے لیے اپنی بندگی کو خالص کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتا ہوں‘‘ ۔(زمر: ۱۴)
ظ اخلاص کے بغیر کوئی بھی عمل اللہ کی بار گا ہ میں قابل قبول نہیں ۔
جیسا کہ نبی کریم ا نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ میں تمام شریکوں سے بڑھ کر
اپنے حصے سے بے نیا ز ہوں ۔جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے جس میں وہ میرے ساتھ میرے غیر کو شریک کرتا ہے(یعنی غیر کی خوشی اور ریاکاری کی بھی نیت رکھتا ہے) تو میں اسے اور اس کے مقرر کردہ حصے کو چھوڑ دیتا ہوں اور میں اس سے لا تعلق ہوجاتا ہوں‘‘ ۔ (مسلم شریف :۲۹۸۵ )
ظ اپنے اندر اخلاص پیدا کرلینے والوں کا شمار مؤمنین میں ہوگا ۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ’’ہاں جنہوں نے توبہ کی اور اپنی حالت کو درست کیا اور اللہ (کی رسی) کو مضبوط پکڑا اور خالص اللہ کے فرمانبردار ہو گئے تو ایسے لوگ مومنوں کے زمرے میں ہوں گے اور اللہ تعالیٰ عنقریب مومنوں کو
بڑا ثواب دے گا‘‘۔(نساء: ۱۴۶)
ظ اخلاص نیت کے ساتھ لاالٰہ الا اللہ پڑھنے والے پر جہنم کی آگ حرام ہوجاتی ہے۔ (بخاری )
اخلاص کے بغیر بڑے سے بڑا عمل بھی بے کار اوربے سود ہے خواہ جہاد ہی کیوں نہ ہو ۔ جیسا کہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : کہ رسول اللہ اسے سوا ل کیا گیا کہ ایک آدمی بہادری کے جو ہر دکھانے کے لیے، دوسر ا خاندانی اور قبائلی حمیت کے لیے اور تیسرا ریاکاری کے لیے
لڑتا ہے، ان میں سے اللہ کی راہ میں لڑنے والا کون ہے ؟رسول اللہا نے فرمایا : جو شخص صر ف اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ (دین)بلند ہو ، وہ اللہ کی راہ میں لڑنے والا ہے ۔ (متفق علیہ ) (جاری)

No comments:

Post a Comment