ختم نبوت قرآن اور حدیث کی روشنی میں - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, April 28, 2011

ختم نبوت قرآن اور حدیث کی روشنی میں

عرفان احمد بن عبد الواحد صفوی
ختم نبوت
قرآن اور حدیث کی روشنی میں
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وعلیٰ آلہ و صحبہ ومن والاہ وبعد۔
قال اللہ تعالیٰ فی کلامہ المجید، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم:
’’ما کان محمد أبا أحد من رجا لکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین‘‘ وقال النبی ﷺ: ’’أنا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ رب العالمین اس پوری کائنات کا خالق ہے، اسی نے پوری کائنات کو رچایا ،بسایا اور اس میں ہر طرح کی نعمتیں مہیا فرمائیں، انسان کی ضروریات زندگی کے تمام وسائل میسر فرمائے اور اس زمین پر اسے یک گونہ تصرف و اقتدار بخشا ۔
انسان دو چیزوں سے مرکب ہے ،جسم اور روح، زندگی میں اس روح کی بہت اہمیت ہے بغیر روح کے انسان کا جسم محض ایک لاش ہے ۔ چنانچہ انسانی زندگی بھی جسمانی اور روحانی دو قسموں میں منقسم ہے۔اس روحانی زندگی کے کچھ مقتضیات ہیں۔اللہ رب العالمین چوں کہ اس دنیا کا خالق ہے ،لہٰذا اس زمین پر وہ اپنی حکمرانی دیکھنا چاہتا ہے کہ انسان اس کا بندہ اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اس کے قوانین پر عمل کرے اور اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے ۔اللہ رب العالمین نے انسانوں تک اپنی مرضیات اور اپنے احکام و فرامین اور اوامرا و نواہی پہچا نے کے لیے رسولوں کا سلسلہ قائم کیا۔ چنانچہ اس پشت ارضی پر جو پہلا انسان وجود میں آیا وہ اللہ کا نبی تھا۔نبیوں کا یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے قائم کیا تاکہ انسانوں تک اس کے احکام پہنچ سکیں اور بنی نوع انسانی کو معلوم ہوکہ ان کا خالق ان سے کس چیز کا مطالبہ کر تا ہے، تاکہ وہ اس کے مطابق زندگی بسر کر کے اس کے نعمتوں کے مستحق بنیں اور اس کے عقاب و عتاب سے محفوظ رہیں، دنیا کے جس خطہ اور جس علاقہ میں نبی کی ضرورت محسوس ہوئی، وہاں ایک نبی ضرور مبعوث کیا گیا۔عرصۂ دراز تک نبیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا ،ہر قوم اور ہر جگہ نبی اور رسول آتے رہے، یہاں تک کہ ایسا موقع آیا اور اس کے اسباب مہیا ہوئے کہ نبیوں کا یہ مبارک سلسلہ بند کر دیا جائے اور نبی آخر الزماں محمد عربی ﷺ پر یہ سلسلہ بند کر دیا گیا، اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب آئندہ کسی نبی کی کوئی ضرورت نہیں، رہتی دنیا تک کے لیے محمد ﷺ کی نبوت کا فی ہے۔ مثلا شیان حق ان کی تعلیمات و فرامین کی روشنی میں راہ ہدایت حاصل کر سکتے ہیں ،پریشان و مضطربِ قلوب کو اس سے سکون و اطمینان ملتا رہے گا، اور پیاسی روحیں اس چشمۂ صافی سے اپنی تشنگی بجھا سکتی ہیں۔
نبی آخر الزماں محمد عربی ﷺ سے پیشتر جتنے بھی انبیاء مبعوث کئے گئے ،ان کے اپنے دور کے تین مقتضیات میں سے کسی ایک تقاضہ ہی کے تحت بھیجے گئے جب کہ حالات کا تقاضہ وہی رہتا تھا،ان ہی تین حالات کے مد نظر کوئی بھی نبی مبعوث کیا گیا ۔
۱۔ اس مقام یا جگہ پر اس سے پیشتر کوئی بھی نبی نہ مبعوث کیا گیا ہو(انہیں قوانین الٰہیہ اور مرضیاتِ رب کی جان کاری کے لیے نبی کی ضرورت ہو) ۔
۲۔ اس سے پہلے کوئی نبی تو مبعوث کیا گیا ہو ،مگر اس کے قوانین و ضوابط اور اس کی دعوت و تعلیمات مٹ چکی ہوں ،وہاں کی عوام اس کو فراموش کر چکی ہو، ایسے میں گذشتہ رسول کی تعلیم کی تجدید کے لیے کسی نبی کو بھیجا جائے۔
۳۔ کسی قوم میں نبی موجود ہو ،مگر حالات کا لحاظ کر تے ہوئے کسی نبی کو معاون کے طور پر بھیجا جائے (معاون نبی ایک بھی ہو سکتا ہے اور ایک سے زائد بھی ہو سکتے ہیں)۔
ان تینوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت اگر موجود نہ ہو، تو ایسے میں کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جاتا ،چناں چہ نوح اور ابراہیم علیہما السلام پہلی صورت کے لحاظ سے نبی بنا کر بھیجے گئے ،ان کے پیشتر ان کی قوم میں کوئی نبی نہ تھا،اکثر انبیائے بنی اسرائیل دو سری صورت کے لحاظ سے مبعوث کئے گئے۔ جب کہ ہارون اور یحییٰ علیہما السلام اپنے اپنے دور کے نبیوں کی تائید و تعاون کے لیے بھیجے گئے۔ نبیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا بالآخر انسان ترقی کر تے کرتے اس مقام تک پہنچ گیا کہ ایک ہی نبی کی تعلیم کی ساری دنیا میں اشاعت کی جاسکے ،چناں چہ سابقہ انبیاء کے برعکس ایک نبی کو بھیجا گیا اور اسے ساری دنیا کے لیے نبی بنا یا گیا ۔نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ ﷺ کو جب اللہ نے مکہ میں بھیجا، تو یہ اعلان کیا کہ بس یہ نبی ساری دنیا کے لیے ہیں ،کسی دور ،قوم یا جگہ کی کوئی قید نہیں، حکم دیا گیا کہ ساری دنیا میں اعلان کرو:
’’انی رسول اللہ الیکم جمیعاً‘‘
دوسری جگہ فرمایا: ’’وما أرسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘
صرف اس پر بس نہ کیا گیا، اس بات کا بھی اعلان کیا گیا کہ چوں کہ یہ اسلام ساری دنیا اور رہتی دنیا تک کے لیے ہے ،لہٰذا اس کا جو لازمی تقاضہ ہے، یعنی اس کی حفاظت،تو اس کا بھی بند وبست کر دیا جا رہا ہے اور یہ دین محفوظ رہے گا فرمایا:
’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘
اس یقین دہانی کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، کیوں کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اس نے لے لیا ہے۔ جب یہ دین محفوظ ہے تو نئے نبی کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔سابقہ تمام انبیاء ایک مخصوص دور اور مخصوص زمانہ کے لیے رہتے تھے یہی وجہ تھی کہ نہ تو ان کی کتابیں محفوظ رکھنے کا وعدہ لیا گیا اور نہ محفوط رکھی جاسکیں، بل کہ مبدل و محرف ہو کر اپنی اصلیت کھو چکیں، اصلی اور نقلی میں کوئی تمیز نہ رہا ۔اس کے برعکس قرآن و حدیث بموجب وعدہ الٰہی حرف بحرف آج تک محفوظ ہے ۔
سابقہ شریعتیں اور نبوتیں مخصوص دور کے لیے رہتی تھیں، لہٰذا کسی بھی شریعت کی تکمیل یا اتمام کا اعلان نہ کیا گیا ،اس کے برعکس چوں کہ شریعت اسلامیہ ابد الآباد تک رہنے والی تھی اور آئندہ کسی بھی نبی کا آنا ممتنع تھا ،بنابریں اس چیز کا اعلان کر دیا گیا کہ اللہ اپنے احکام اور فرامین مکمل طور سے بندوں تک بھیج چکا ہے، انہیں احکام پر رہتی دنیا تک عمل کر نا ہے اور اسی کے ذریعہ رضائے الٰہی کا حصول ممکن ہے۔ فرمایا گیا:
’’الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا‘‘
اس کا بھی اعلان کر دیا گیا کہ اسلام کے علاوہ کوئی دیگر چیز نا قابل قبول ہے فر مایا :
’’ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ‘‘
اس کے بعد بھی اگر شبہ باقی رہتا، تو اس کی بھی نفی کے لیے یہ اعلان کر دیا گیا کہ یہی دین اللہ کا محبوب اور پسندیدہ دین ہے، اس کے علاوہ جتنے بھی ادیان ہیں وہ دین ہی نہیں ہیں۔ فرمایا:
’’ان الدین عند اللہ الاسلام ‘‘
یہاں اس بات کی صراحت کر دی گئی ہے کہ دین تو صرف اسلام ہی ہے جسے لے کر نبی آخر الزماں ﷺ آئے ہیں اور اس کی تکمیل ان کی زندگی ہی میں ہو چکی ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ اس رسول کی بعثت کا مقصد سارے ادیان پر غلبہ حاصل کر نا ہے، وہ دین خواہ قدیم ہو یا جدید، اس سے پہلے آچکا ہو یا بعد میں یاکوئی خود ساختہ دین پیش کرے، بہرحال وہ مغلوب ہی رہے گا ۔فرمایا: ’’ھو الذی أرسل رسولہ با لھدی و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون‘‘
ان ساری وضاحتوں کے بعد بھی اگر کسی کے دل میں کوئی شک پیدا ہو، تو اس کا بھی خاتمہ کر کے صاف صاف لفظوں میں اعلان کیا گیا:
’’ما کان محمدأبا أحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین‘‘
اس آیت میں پوری دنیا کو اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ دیکھو یہ ہمارا آخری رسول ہے جو ہمارا آخری پیغام لے کر تمہاری طرف آیا ہے، ہوش و خردسے کام لے کر اس کی اتباع کر تے ہوئے دنیا و دین اور معاد و آخرت کو درست کر لو،کہ اس کے بعد پھر کوئی جدید آسمانی تعلیم یا آسمانی رسول زمین والوں کے لیے نہ بھیجا جائے گا، کوئی جدید نبی مبعوث نہ کیا جائے گا، اب دین و دنیا کی اصلاح صرف اسی رسول کی تصدیق،اقرار اور اتباع پر موقوف ہے ۔ اللہ رب العالمین کی طرف سے یہ ایک آخری وار ننگ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس آیت کریمہ نے تمام مدعیان نبوت اور متبعین کی امنگوں و تمناؤں کو ختم کردیا، جس کی بنا پر زمانۂ قدیم سے آج تک جتنے بھی کذاب پیدا ہوئے سب نے اس کو اپنا تختۂ مشق بنایا ۔ یہ آیت ہر ایک کے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہوئی ہے ۔سب سے پہلے اس آیت کی تحریف و تاویل میں اپنا پورا زور صرف کیا ہے ،مگر یہ ایک ایسا برھان قاطع ہے کہ یہاں کسی کی دال نہ گل سکی اور سبھی یہاں پر سرٹیک کے رہ گئے ۔مناسب معلوم ہو تا ہے کہ اس آیت کی ایک حد تک تسلی اور تشفی بخش ،سیر حاصل بحث کر دی جائے، تاکہ کسی کو وسوسہ یا اندیشہ نہ ہو۔
آیت مندرجہ بالا کے الفاظ ’’ولکن رسول اللہ‘‘ کے معنی سب پر بیان ہیں درج ذیل سطور میں خاتم النبیین کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔
خاتم:۔ ائمہ قرا ء ت نے اس لفظ کو دو طرح سے پڑھا ہے:
(۱) خَاتَم۔ ت پر فتحہ کے ساتھ۔۔۔۔ یہ عاصم اور حسن بصری کی قراء ت ہے۔
(۲) خاتِم۔ ت پر کسرہ کے ساتھ۔۔۔ ان دونوں کے بعدبقیہ تمام قراء کی یہی قراء ت ہے۔
یہ دونوں الفاظ کلامِ عرب میں کئی معانی پر بولے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(۱) نگینۂ مہر جس میں نام وغیرہ کندہ ہوتے ہیں۔
(۲) انگوٹھی
(۳) گھوڑے کے پاؤں کی تھوڑی سی سفیدی۔
(۴) گدی کے نیچے گڈھا۔
(۵) آخری قوم، آخر ی فرد۔ ان پانچ معانی پر دونوں ہی کلمے بولے جاتے ہیں۔
(۶) خاتِم: ختم کرنے والا۔
(۷)خاتُم: مہر کا نقش۔
ان معانی میں کے صرف دو معانی پانچواں اور ساتواں معنی ہی اس آیت میں صحیح ہو سکتا ہے ۔ آیت کے سیاق و سباق کے لحاظ سے ان دونوں کے علاوہ کوئی معنی یہاں پر درست نہیں ہو سکتا ،ان دونوں معنوں کا بھی سبب یہی ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ سب سے آخری رسول ہیں ۔علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’فمعنی خاتم النبیین الذی ختم النبیون بہ فھو آخر النبیین‘‘
علامہ آلوسی کے علاوہ تمام اسلافِ مفسرین اور ائمہ نے اس آیت کا یہی معنی لکھا ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ آیت مندرجہ بالا میں الف لام استغراقی حقیقی ہے ۔ اس معنی کی تعیین عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس قراء ت سے بھی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے آیت اس طرح پڑھی ہے:
’’ولکن نبیا ختم النبیین‘‘
علاوہ ازیں مذکورہ بالا تمام آیات نیز درج ذیل آیت بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔
’’وما أرسلناک الا کافۃ للناس بشیراو نذیرا‘‘
حسن آیت ’’و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین ‘‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ختم اللہ النبیین بمحمد ﷺ وکان آخر من بعث‘‘
قتادہ فرماتے ہیں:
’’ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ای آخر ھم‘‘
رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اب کوئی نہ نیا نبی آسکتا ہے نہ رسول، نہ تشریعی نہ غیر تشریعی،غرض کہ ہر طرح کی نبوت و رسالت کا خاتمہ نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی پر ختم ہو چکا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے متعدد احادیث میں صاف صاف لفظوں میں اس کی صراحت فرمادی ہے ۔ذیل میں احادیث درج کی جا رہی ہیں، جن سے روز و روشن کی طرح ختم نبوت (ہر طرح کی نبوت) ثابت ہوتی ہے:
۱۔ ’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال ان مثلی و مثل الانبیاء کمثل رجل بنی بتیافحسنہ و اجملہ الا موضع لبنۃ من زاوےۃ فجعل الناس یطوفون بہ و یعجبون لہ و یقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ قال فکنت أنا سددت موضع اللبنۃ و ختم بی انبیاء و ختم بی الرسل و فی بعض الفاظہ و أنا خاتم النبیین‘‘۔
اس حدیث میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں تشریعی و غیر تشریعی نبی کی تقسیم کامیاب نہیں ہو سکتی ہے ،کیوں کہ اس میں تمام سابقہ انبیاء کی تمثیل ایک محل کے دی گئی ہے ان انبیاء میں صاحب شریعت جدیدہ اور غیر تشریعی سابقہ شریعتوں کے متبع بھی شامل ہیں، تاہم نبوت کا یہ محل تعمیر ہو چکا ہے اب اس میں ایک اینٹ بھی رکھنے کی گنجائش نہ رہی۔
ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے :ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔
’’انا آخر الانبیاء و انتم آخر الامم‘‘
اس حدیث میں وضاحت سے کہا گیا کہ نبی کریم ﷺ سب انبیاء میں سے آخری اور سب کے ختم کرنے والے نبی ہیں اور اسی پر بس نہیں کیا گیا، اس کا اعلان کیا گیا کہ تم آخری امت ہو جس سے یہ بات بھی صاف ہو تی ہے کہ آئندہ کوئی شخص اس امت کے لیے نبی بنا کر نہ بھیجا جائے گا جس کے لیے دوسری امت ہو ۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:
’’فضلت علی الانبیاء بست، اعطیت جوامع الکلم و نصرت با لرعب و احلت لی الغنائم و جعلت لی الارض مسجدا و طہورا و اُرسلت الی الخلق کافۃ و ختم بی النبیون‘‘۔
ثوبان رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں :
’’لا تقوم الساعۃ حتی یبعث دجالون کذابون کلھم یزعم انہ نبی و أنا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘۔
ایک اور روایت میں ہے:
’’کانت بنی اسرائیل تولھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی و انہ لا نبی بعدی‘‘۔
یہ حدیث نبوت تشریعیہ کے انقطاع کے لیے واضح دلیل ہے اور اسی سے ہر قسم کی نبوت کے اختتام کا پتہ چلتا ہے ،یہاں تک کہ اگر لغوی نبوت بھی کوئی چیز ہو تی ہے تو وہ بھی ان روایات سے نفی کی زدمیں آجاتی ہے۔لاء نفی جنس استغراق اور عموم کے لیے آتا ہے اس سے ہر قسم کی نبوت لغوی،عرفی،تشریعی،غیر تشریعی ،ظلی ہر ایک کی نفی ہو جاتی ہے۔
یہاں کسی کے ذہن میں یہ شبہ پیدا نہ ہو کے اس سے نزول عیسی کی تردید ہوتی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ خاتم المہاجرین آخر المہاجرین کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب سابقہ تمام مہاجرین کی وفات ہو گئی، بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ یہ اس وصف ہجرت کے ساتھ آخری مہاجرین ان کے بعد کسی نے ہجرت نہیں کی ،لہٰذا عیسی علیہ السلام کی وفات کا شبہ لا یعنی ہے۔
ایک اورحدیث پیش کی جارہی ہے اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
’’انا محمد انا احمد و انا الماحی الذی محی اللہ بی الکفر و انا ا لحا شر الذی یحشر الناس علی عقبی و انا العاقب الذی لیس بعدہ نبی‘‘۔
ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ:’’یا ایھا الناس انہ لم یبق من النبوۃ الا المبشرات‘‘۔
اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نبوت بالکلیہ ختم ہو چکی سلسلۂ وحی منقطع ہو گیا البتہ اس کا ایک جزء رویا صالحہ (مبشرات) باقی ہے۔یہ حدیث مدعیان نبوت بڑے زور و شور سے پیش کر تے ہیں حال آں کہ ان کی خام خیالی ہے اس سے انقطاع نبوت کا ثبوت ملتا ہے بقاء نبوت کا نہیں ،رہا ایک جزء کا باقی رہنا تواس سے کسی بھی طرح ثابت نہیں ہو تا ہے کہ کوئی لغوی یا ظلی نبی آسکتا ہے، کیوں کہ صاف ظاہر ہو تا ہے کہ جزء کا اطلاق کل پر نہیں کیا جا سکتا ہے ،نمک کو پلاؤ اور اینٹ کو مکان کہنا بہت ہی غلط ہو گا ۔اس حدیث میں صرف رویات صالحہ کا ثبوت ملتا ہے اور کسی بھی چیز کا ثبوت نہیں ملتا ۔
چنانچہ جزئی ،کلی،حقیقی،عرفی،ظلی،تشریعی،غیر تشریعی،مستعلی،غیر مستعلی اور لغوی ہر ایک کی نفی ہو جاتی ہے۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:
’’ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی‘‘
اس حدیث میں نبوت و رسالت کے منقطع یعنی بند ہو جانے کا ذکر ہے، اس میں تاویل وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں۔بہرحال قرآن و سنت کے نصوص اسی بات پر شاہد ہیں کہ محمد عربی ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں ان کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آئے گا اور جو بھی نبی ہونے کا دعوی کرے گا وہ کذاب اور جھوٹا ہو گا۔ ’’اور جب اللہ نے رسولوں سے عہد لیا کہ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے ساتھ کی چیزوں کی تصدیق کرنے والا ہو تو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا‘‘۔(آل عمران:۸۱)
*****

No comments:

Post a Comment