دیباچۂ کتاب’جاء الحق‘: تعارف و تجزیہ - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, April 28, 2011

دیباچۂ کتاب’جاء الحق‘: تعارف و تجزیہ

مولانا عبد الرؤف عبد الحفیظ سلفی
استاذ: المعہد الاسلامی السلفی رچھا،بریلی

دیباچۂ کتاب’جاء الحق‘: تعارف و تجزیہ
زیرِ نظر کالم میں( جو قسط وار شائع ہوگا)احمد یار خاں گجراتی کی کتاب ’’جاء الحق‘‘ کے جزء ثانی کا تجزیہ شروع کیا جا رہا ہے۔ ’’جاء الحق ‘‘ ایک مشہور کتاب ہے جس میں احقاق باطل اور ابطالِ حق کی جی توڑ کوشش کی گئی ہے ۔تہمت،تاویل،تحریف کی نادر مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ضرورت تھی کے اس کتاب کی حقیقت و اشگاف کی جائے اور عوام کو مصنف اور ان کی کتاب کے اصل چہرہ سے روشناس کرایا جائے ۔ ہمارے فاضل دوست جناب مولانا عبد الرؤف صاحب سلفی استاذ المعہد نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہی اس کتاب پر توجہ دی تھی اور فضیلت کا مقالہ اسی کتاب مذکور کے تجزیہ پر تحریر کیا تھا۔ مو صوف نے بڑی جانفشانی سے اس تجزیہ کو مرتب کیا ہے، جس میں احمد یار خاں صاحب کے تمام مغالطوں کا مختصرمگر مسکت جواب تحریر کیا ہے ۔ جسے ادارہ ترجمان السنہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے ،امید کہ قارئین کو یہ سلسلہ پسند آئے گا۔ ان شاء اللہ
 
مصنف جاء الحق احمد یار خاں صاحب نے جاء الحق حصہ دوم کا آغاز جس دیباچہ سے کیا ہے وہ دو صفحات پر مشتمل ہے ،جس میں مؤلف نے بریلویت ،پیری مریدی،درگاہ بندرگاہ ہی کو مسلمانوں کے ایمان سنبھالنے کا موجودہ واحد ذریعہ قرار دیا ہے اور اہل حدیث کو موجودہ دور کے عظیم فتنوں میں سے ایک فتنہ قراردیتے ہوئے قارئین کو یہ تاثر دینے کی کوشش و جہد مسلسل کی ہے کہ اہلحدیث کوئی مستقل مکتب فکر نہیں بل کہ ماضی قریب کی پیدا وار ہے جو اتباع سنت کے پردے میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے معرض وجود میں آئی ہے،پھر عوام کو مزید بد ظن کر نے کے لیے موصوف نے چند ساختہ بلکہ اپنے امتیازی و خصوصی عقائد کے فائل سے چند نکات نکال کرجماعت اہل حدیث کے سر تھوپ دیے ہیں، اس لیے ہم بالاِختصار انہیں نکات کے تجزیہ پر اکتفا کریں گے، جو معقولیت سے عاری نہ ہوں گے یا جن کا ذکر دورانِ تجزیہ نہ آیا ہو گا، نکات مع تجزیہ ملاحظہ ہوں:
*(۱) اس وقت وہی ایمان سنبھال سکتا ہے جو کسی مقبول بارگاہ بندے کے دامن سے وابستہ ہو۔
تجزیہ:۔ لائق قدر مصنف ایک پیرا گراف میں بھی اپنی فطرت سلیمہ ضبط نہ کر سکے اور موقع پاتے ہی درگاہ و بندرگاہ سے ہوتے ہوئے مقبولِ بارگاہ کی تلاش کرنے لگے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جو گروہ عوام کے پیر میں تقلیدی سلاسل ڈالے ہوئے بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی منشاء کے مطابق نچا رہا ہے، وہی عوام کو مقبول وغیر مقبول کے تفریق کی دعوت دے رہا ہے۔ شاید کسی خربوزہ شاہ (بنارس) کتّا شاہ (بریلی) گھوڑا شاہ (دربھنگہ) ہرے بھرے شاہ(دہلی ) وغیرہ کا بازار رقص و سرور، ازد ہام مکرو فریب کچھ ماند پڑ گیا ہو، جس کی پرچار کے لیے اسے ایمان سنبھالنے کا واحد ذریعہ قرار دے دیا ہو۔ اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا
اجتنابہ۔ آمین۔ میں پوچھنا چاہوں گا مریدین مؤلف سے کہ کیا کتاب و سنت اور اس میں وارد احکام ،اس کے اندر بتلائی گئی فوز و فلاح کی باتیں مفقود ہو چکی ہیں یا منسوخ یا کسی خاص زمانے کے لیے ان کا نزول و ورودہواتھا ،جس کی خبر صرف آپ کو اور آپ کی ہمنوا گروہ کو دیدی گئی ہے، کیا اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان:
’’یا ایھا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا‘‘ میں آج کا زمانہ اور آج کے لوگ شامل نہیں ہیں؟ بلا شبہ شامل ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ؂
اے کمائی یہ تیرے دم سے ہیں سارے جھگڑے نہ تو ہو تی تو یہ دل نہ یہ ارمان ہوتا
* ’’فتنوں میں سے ایک خطرناک فتنہ وہابیت نجدیت غیر مقلدیت کا ہے ،جو اتباع سنت کے پردے میں نمودار ہوا ہے ،یہ لوگ اہل حدیث کے نام سے لوگوں کو فریب دیتے ہیں‘‘۔
تجزیہ:۔ اس نکتہ کے تحت خان صاحب یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اہلحدیث کوئی مستقل مکتب فکر نہیں بلکہ بعد میں نمودارہونے والا ایک فتنہ ہے، اس لیے مناسب معلوم ہو تا ہے کہ مؤلف اور ان کے ہم نوا ؤں کی آنکھیں کھول دی جائیں۔ ذیل میں چند ایسے بیانات نقل کئے جارہے ہیں جو مؤلف کے دل پر حاوی دبیز پردے کو ہٹا نے اور یہ ثابت کرنے میں کہ اہل حدیث ایک مستقل مکتب فکر کا نام ہے ،جس کا وجود اتناہی قدیم ہے جتنا کہ خود اسلام کا وجود ،نہ صرف کافی و شافی ہوں گے ،بلکہ با غیرت افراد کے لیے مسکت و مصمت بھی ہوں گے، چوں کہ مؤلف اور ان کے اتباع و مریدین کا دل ہماری طرف سے میلہ ہے اس لیے مذاہب اربعہ کے چند شواھد نقل کر رہا ہوں،جنہیں بر حق کہتے ہوئے مقلدین کی زبان نہیں تھکتی۔
علماء احناف کی تصدیق:
(۱) صاحب ’’التوضیح و التلویح‘‘علامہ تفتازانی رحمہ اللہ متوفی ۷۹۲ ؁ اجماع کی بحث میں لکھتے ہیں: ’’و علیہ عامۃ اہل الحدیث‘‘(التوضیح والتلویح،مطبوعہ مصر:۲؍۴۶)
(۲) علامہ ابن الہمام متوفی ۶۶۱ ؁ھ فتح القدیر شرح ہدایہ میں قنوتِ نازلہ کی بحث میں رقمطراز ہیں :
’’ وبہ قال جماعۃ من اہل الحدیث‘‘(فتح القدیر لاِبن الہمام :۱؍۱۸۸و۱؍۴۱۱)
نیز ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:
’’ کما ھو قول الحنابلۃ و بعض اہل الحدیث‘‘ ۔(شرح فقہ اکبر لملاّ علی قاری (بحث علم کلام)
(۳) ملا علی قاری شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں :’’الی التحریم ذھب الشافعی و مالک و احمد و سفیان و جمیع ائمۃ الحدیث‘‘ ۔
علماء شافعیہ کی تصدیق:
شارح صحیح مسلم امام نووی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ وقال ابوحنیفہ و احمد رضی اللہ عنہما و جمہور الفقہاء و اہل الحدیث تشہد ابن مسعود افضل۔۔۔‘‘۔(صحیح مسلم مع نووی مطبوعہ ہند :۱؍۱۷۳)
(۵) امام موصوف ایک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں:’’وقال الحاکم والثوری و ابو عبیدۃ و طائفۃ من اہل الحدیث۔۔‘‘۔(حوالۂ سابق: ۲؍۳۲)
علماء مالکیہ کی تصدیق:
علامہ زرقانی مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وبہ قال الاوزاعی والشافعی و احمد و اسحاق والطبری و جماعۃ من اہل الحدیث‘‘۔(شرح المؤطا للزرقانی :۱؍۱۴۳)
جید حنبلی عالم کی تصدیق:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ منہاج السنہ میں لکھتے ہیں: ’’فاِ عتقاد اہل الحدیث ھو السنۃ المحضۃ لأنہ ھو الاعتقاد الثابت عن النبی ﷺ‘‘۔(منہاج السنہ جلد اول)
یہ علمائے مذاہب کے بعض اقوال ہیں جو بطور نمونہ ذکر کئے گئے ہیں ،تفصیل کا موقع نہیں پوری تفصیل و توضیح کے لیے ردّ المختار ،حجۃ اللہ البالغہ،الملل والنحل،اصول الدین، تاریخ سندھ،تاریخ التقلید،نتائج التقلید،اور وفیات الأعیان کے متعلقہ مباحث کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
البتہ جہاں تک اتباعِ سنت کے پردے میں نمودار ہو نے کا مسئلہ ہے، تو اس کی حقیقت ان شاء اللہ قارئین کے لیے خود بخود واضح ہو جائے گی اور یہی حال فریب دہی کے باطل اتہام کا ہے ،تعجب تو اس پر ہے کہ جو جماعت فریب کاری ،آبلہ فریبی میں سرتاپیر ملوث ہو، جس کے پچاس فی صد سے زائد مسائل کتا ب و سنت سے متصادم اور مبنی بر شرک و بدعت ہوں ،جس کے یہاں صرف قبر پرستی ،پیر پرستی،رجال پرستی ہی نہیں بلکہ عبادت کے لیے بت بنانا بھی خلافِ ایمان و اسلام نہیں وہی جماعت حق پرستوں کو فریب دہی کا الزام دے رہی ہے ۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔
* اپنے سوا سب کو مشرک سمجھتے ہیں۔
تجزیہ:۔ یہ ایک اتہام محض ہے، جس کا کو ئی ثبوت پیش کر نا سوئی کی ناکے سے اونٹ گزار نے کا مرادف ہو گا؛لیکن المیہ یہ ہے کہ چور خود کوتوال کو نہ صرف ڈانٹ رہا ہے، بلکہ اسے مجرم ثابت کر نے اور اپنے آپ کو بری الذمہ کرنے میں ایڑی سے چوٹی کا زور صرف کر رہا ہے۔ مؤلف اور ان کے مقتدا اعلیٰ احمد رضا خان صاحب بلکہ پوری جماعت پورے زور کے ساتھ تکفیر المسلمین کی تحریک چلا رہی ہے حتی کہ جب اپنے مقابل کے تمام افراد کو کافر و مشرک قرار دے ڈالا تو یہ نشترتکفیر اپنے افراد و ہمنوا ؤں پر بھی آزمانے سے گریز نہ کیا ،تفصیل کا موقع نہیں ورنہ اس قسم کی سیکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ، میں بطور نمونہ ذیل کی سطور میں صرف ایک مثال پیش کر نے پر اکتفا کروں گا ،تفصیل کے لیے فتاوی رضویہ،نیز مطالعۂ بریلویت،بریلویت تاریخ و عقائد،مسئلہ قراء ت کی حقیقت، ابلیس کا رقص،سالم میاں کے لر کھڑا تے قدم (جو خاص الخاص فرقۂ بریلویہ ضالّہ کے بعض افراد پر بعض کی طرف سے ’’شب خون‘‘ کا مصداق ہے) وغیرہ کتب کی طرف رجوع کریں۔ مثال موعود جو در اصل ایک استفتاء کا جواب ہے،مع استفتاء درج ذیل ہے:
ٍ ’’کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ ایک طر ف تو زید اپنے آپ کو سنی ظاہر کرتا ہے اور مسلک اعلیٰ حضرت بریلوی کا ٹھیکیدار بھی بنتا ہے ،مگر دوسری طرف قاری طیب معزول وآنجہانی مہتمم مدرسہ دیوبند کو اپنی کتاب میں ان القاب و آداب کے ساتھ ذکر کر تا ہے ’’قبلہ قاری صاحب‘‘ اور’’حضرت قبلہ قاری جی ‘‘ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید نے ایسے کھلے وہابی کو ’’حضرت قبلہ‘‘ جیسے تعظیمی کلمات لکھے ہیں،زید کے لیے شرعی حکم کیا ہے ؟ اگر وہ مفتی ہے تو اس سے فتویٰ لینا کیسا ہے ؟ اگر وہ کسی سلسلے کا خلیفہ ہے تو اس کی خلافت کا حشر کیا ہوگا اور اگر وہ مقرر ہے تو اس کی اجلاس میں شرکت کیسی ہے ،اگر مصنف ہے تو اس کی کتابوں کا پڑھنا اور اشاعت کر نا کیسا ہے نیز اگر زید یہ کہے کہ میں نے استہزاً لکھا ہے، تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ہوگا؟ جواب صواب
سے شاد فرمائیں۔ فقط۔ شریف احمد نوری،شہر کہنہ ،بریلی شریف ۲۵؍شوال المکرم ۱۴۰۸ ؁ھ۔
الجواب: بعون الملک الوہاب برحمۃ حبیبہ الانتخاب علیہ الصلاۃ والسلام الی یوم الحساب۔
فی الواقع وہابی پر مذکورہ الفاظ ’’حضرت قبلہ‘‘کا اطلاق ایسا ہی ہے جیسے ان کا ایمان مان لینا اگر چہ جس پر اطلاق کیا اسے مومن نہ جانا بہرحال’’حضرت‘‘ اور’’قبلہ‘‘ کا اطلاق نا جائز حرام کفر انجام ہے۔ جیسے وہابی کو مومن جان کر ’’قبلہ حضرت‘‘ کہنا کفر ہے ایسے ہی ان الفاظ کا اطلاق وہابی پر نا جائز و حرام کفر انجام ہے۔ زید کا یہ کہنا کہ استہزاً کیا ہے گناہ بد تراز گناہ ،مینہ سے بھاگنے پر نالے کے نیچے کھڑے ہو نے والے کی مانندہے اس طرح دین سے امان اٹھ جائے گا ہر شخص حضرت ابو جہل صاحب قبلہ اور حضرت شیطان صاحب قبلہ لکھنے لگے اور جب گرفت کی جائے تو کہنے لگے کہ میں نے تو استہزاً لکھا تھا۔
یہ نہ حقیقتاً درست نہ مجازاً نہ استہزاءً جب تک زید توبہ،تجدید ایمان وغیرہ نہ کر لے اس وقت تک اس سے فتویٰ لینا اس سے مرید ہونا(بلکہ مرید ہو چکا ہے تو بیعت بھی فسخ ہے) اس کی تصنیفات کی اشاعت نا جائز و حرام ہے ،اس کے جلسے میں شرکت بھی نا جائز و حرام ہے اور اگر وہ خلیفہ ہے تو خلافت بھی فسخ ہو گی۔ مسلمانان اہل سنت کو ایسے دوست نما دشمنوں سے احتراز لازمی اور ضروری ہے ۔ فقط اللہ تعالیٰ ورسولہ الاعلیٰ اعلم جل مجدہ ﷺ۔ کتبہ :۔ محمد انتخاب قدیر نعیمی قدیری اشرفی عفاعنہ البصیر بانی و مہتمم جامعہ قدیریہ نعیمیہ تخت والی مسجد، محلہ کسرول،شہر مرادآباد شریف ۲۹؍شوال المکرم ۱۴۰۸ ؁ھ۔
شائع کنندہ: انجمن تحفظ عظمت مسلک اعلیٰ حضرت ،شہر کہنہ،بریلی شریف۔
جس کے گھر کی یہ حالت ہو کہ اپنے علاّتی بھائی(دیوبندی) کو تعظیمی کلمات کہہ یا لکھ دینے پر تکفیری بلڈزور چلا دیا جاتا ہو، اس کے باہر کی حالت اور باہر والوں پر تکفیری بلڈوز چلانے کا کیا عالم ہوگا، اسے ہر ادنیٰ ذی عقل سمجھ سکتا ہے،اب اس کے بعد مؤلف کے قول و اتہام کی تشریح کی کوئی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے فیصلہ قارئین کے حوالہ ہے!
ان نکات کے علاوہ اور بھی بہت سے نکات ہیں جو قابل تجزیہ و لائقِ مواخذہ ہیں؛ لیکن یا تو وہ ایسے اتہام محض ہیں جن کی نہ تو کوئی دلیل مؤلف نے دی اور نہ مجھے ہی دستیاب ہو سکی ، یا وہ ہیں جن کا ذکر مقدمہ میں یا آگے چل کر مستقلاً کیا گیا ہے، اس لیے اسے بالتفصیل اس کے موقع پر ہی ذکر کر کے حقیقت آشکار کر نے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ ۔
۔۔۔۔۔۔جاری

No comments:

Post a Comment