apr-jun 2011بشریتِ رسول اللہ ﷺ اور علمائے احناف - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, April 28, 2011

apr-jun 2011بشریتِ رسول اللہ ﷺ اور علمائے احناف

اعجاز شفیق ریاضی

بشریتِ رسول اللہ ﷺ اور علمائے احناف

رسول اللہ ﷺ بشر تھے یا نوری مخلوق ؟ یہ سوال اکثر موضوعِ بحث رہتا ہے ۔مسلک ’’اعلیٰ حضرت‘‘ کے حامیان نبی ﷺ کو نوری مخلوق ماننے پر مصر نظر آتے ہیں ،مختلف قصوں،اشعار، غلط تاویلوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ہمارے ان بھائیوں کا یہ دعوی بھی ہے کہ یہ حنفی یا اہل سنت والجماعت ہیں ۔اپنے علاوہ دوسروں کو مسلمان نہ سمجھنے کی غلط عادت بھی اعتقادی حیثیت رکھتی ہے، جو شخص بھی ان کے امتیازی عقیدوں؛انبیاء و اولیاء کا علم غیب کلی،تصرف،سماع موتی،یا پھر نبی کے نور ہو نے کا اعتقاد وغیرہ سے ذرہ برابر بھی اختلاف رکھتا ہو وہ فوراً خارج از اسلام کر دیا جاتا ہے ۔ ملعون،مردود،گستاخ،بد مذہب جیسے بد نما القاب نواز دئیے جاتے ہیں ۔ زیر نظر مضمون میں ہم قرآن و حدیث اور اقوالِ علمائے احناف کی روشنی میں مسئلہ کی اصل حقیقت جاننے کی کوشش کریں گے ۔ قارئین انصاف و حق پسندی کی نگاہ سے خود فیصلہ کرلیں کہ صحیح یا غلط کیا ہے۔
انبیاء بشر نہیں ہو سکتے ! یہ عقیدہ کس کا ہے؟
جب جب بھی اللہ نے کسی قوم میں کوئی رسول بھیجا تو اس کی قوم نے محض اس لیے اس کو رسول ماننے سے انکار کر دیا کہ وہ ان کی نظر میں انہیں جیسا بشر تھا،وہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی رسول بشر نہیں ہو نا چاہئے ،رسول تو کوئی غیر بشر ذات ہو۔چناں چہ قوم نوح کے کافروں نے کہا:’’مانرأک الا بشرا مثلنا‘‘ ہم تم کو اپنے جیسا بشر دیکھ رہے ہیں ۔قومِ عاد و ثمود کے کافروں نے بھی یہی بات کہی’’ان انتم الا بشر مثلنا‘‘تم ہمارے ہی جیسے انسان ہو(رسول نہیں) قومِ نوح کے بعد کے سارے کافروں کا قول ذکر کر تے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ماھذا الا بشر مثلکم یاکل مما تاکلون منہ و یشرب مما تشربون و لئن اطعتم بشراً مثلکم انکم اذ لخا سرون‘‘یہ (جو خود کو رسول کہہ رہا ہے)تمہاری ہی طرح کا انسان ہے جو تم کھاتے پیتے ہو، وہی یہ کھاتا پیتا ہے اور اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کرلی(رسول مان لیا) تو تم گھاٹا اٹھا نے والوں میں سے ہو جاؤگے۔ اللہ نے مزید ارشاد فرمایا: ’’وما منع الناس أن یومنوا اذجاء ھم الھدی الا أن قالوا أبعث اللہ بشراً رسول*اقل لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیہم من السماء ملکا رسولا‘‘(اسراء: ۹۴۔۹۵)۔
ہدایت آجانے کے بعد لوگوں کو ایمان لانے سے صرف اس بات نے روکا کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے انسان کو رسول بنا کر بھیج دیا، آپ ان سے کہیں کہ اگر زمین پر فرشتے باطمینان چل رہے ہوتے (رہتے ہوتے) تو ہم آسمان سے فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجتے۔ یعنی ہدایت سے محرومی کا سبب صرف یہ رہا کہ انہوں نے بشر کو رسول یا بالفاظ دیگر رسول کو بشر ماننے سے انکار کر دیا۔
قارئین ملاحظہ کر رہے ہیں کہ یہ عقیدہ کن لوگوں کا تھا کہ کوئی بشر رسول یا رسول بشر نہیں ہو سکتا؟
قرآن نے رسول اللہ ﷺ کو بشر کہا ہے:
تین آیات بہ غور پڑھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے یہ اعلان کرایا کہ آپ ﷺ بشر ہیں۔
(۱) ’’قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحد‘‘ ۔
کہہ دیجئے(اے نبی ﷺ) بے شک میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں ،مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ (لوگو) تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔( کہف: ۱۱۰)
(۲) ’’قل سبحان ربی ھل کنت الا بشراً رسولا‘‘۔
کہیں کہ میرے رب کی ذات پاک ہے ،میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں ۔(اسراء:۹۳)
(۳) ’’قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحد‘‘۔(فصلت:۶)
کہہ دیں کہ بے شک میں تم جیسا انسان ہوں ،مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے۔
قارئین دیکھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے کس طرح اپنے نبی سے ان کی بشریت کا اعلان کرایا، لیکن ہمارے بھائی آپ کو نوری مخلوق ماننے پر بضد ہیں ؂
آرہا ہے آدمی بن کر، فرشتہ نور کا پڑگیا ہے طائر سدرہ کو چسکا نور کا
لیکن اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہو سکتی ہے؟؟؟؟
احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے خود کو بشر کہا:
فی الحال آٹھ حدیثیں ملاحظہ کریں، جن میں رسول اللہ نے اپنے آپ کو بشر کہا ہے نوری مخلوق نہیں۔
(۱) ’’انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون فاذ انسی احدکم فلیسجد سجدتین و ھو جالس ‘‘۔(مسلم ج۱ : ۲۱۳،لائن نمبر ۳؍ اور ۵)
بے شک میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جا تا ہوں ، اگر تم میں سے کوئی نماز میں بھول جائے، تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔
(۲) ’’انما انا بشر اذا امر تکم بشئی من دینکم فخذوابہ و اذا امر تکم بشی من رأی فانما انا بشر‘‘۔( صحیح الجامع :حدیث نمر: ۲۳۳۸)۔
(۳) ’’ انما انا بشر تدمع العین ویخشع القلب ولا نقول مایسخط الرب واللہ یا ابراہیم انا بک لمخرونون‘‘۔ (صحیحۃ :حدیث نمبر ۱۷۳۲، صحیح الجامع الصغیر حدیث نمبر: ۲۳۴۰)۔
(۴) انما انا بشر و انی اشترطت علی ربی عزوجل ای عبد من المسلمین شتمتۃ أو سببتہ أن یکون ذلک لہ زکاۃ و أجراً‘‘۔(صحیح الجامع:حدیث نمبر: ۲۳۴۳)۔
(۵) انما انا بشر مثلکم و ان الظن یخطی و یصیب ولکن ما قلت لکم قال اللہ فلن اکذب علی اللہ‘‘۔ (صحیح الجامع: حدیث نمبر: ۲۳۴۲)۔
(۶) انکم تختصمون الی انما انا بشر فلعل بعضکم أن یکون الحن بحجتہ من بعض ‘‘۔ (بخاری شریف : کتاب الاحکام حدیث نمبر :۷۱۶۹)۔
(۷) ’’اللھم انما محمد بشریغضب کما یغضب البشر ‘‘۔ (مسند أحمد ج۲ ص:۴۹۳ ) ۔
(۸) ’’الایا ایھا الناس انما انا بشر یوشک أن یا تینی رسول ربی عزوجل فاجیب‘‘۔ (مسلم شریف ج۲ ص ۲۷۹ لائن نمبر: ۲۰)۔
اے لوگو! خبر دار بے شک میں بشر ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد (ملک الموت) آئے اور میں لبیک کہہ دوں ۔
قارئین ! پیش کی گئی حدیثوں میں جن الفاظ پر لائن کھینچی گئی ہے ان پر غور کریں۔ آپ نے یہی کہا کہ میں انسان ہوں، بشر ہوں یا بعض احادیث میں یہ کہا کہ تم جیسا بشر ہوں۔ اب احادیث کی روشنی میں آپ سوچیں کہ کیا رسول اللہ ﷺ بشر تھے ،یا نوری مخلوق؟۔
اقوال علمائے احناف:
حال آں کہ قرآن و حدیث کے بعد اقوال علمائے کی ضرورت تو ہم محسوس نہیں کرتے، مگر ہم اپنے ان بھائیوں کو بھی مایوس نہیں کر نا چاہتے جو قرآن و سنت کے بعد حنفی علمائے کی تصریحات کے متلاشی رہتے ہیں۔ دیکھیں کہ حنفی علمائے نے بھی نبی ﷺ کے بشر ہو نے کی صراحت کی ہے۔ اس ضمن میں سات اقوال ملاحظہ ہوں :
(۱) امام محمد بن محمد الکردری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ولان النبی بشر والبشر جنس یلحقھم المعرۃ الا من اکرم اللہ ‘‘۔ (فتاویٰ بزازیہ ج۶ ص: ۳۱۱،برھامش عالمگیری طبع مصر بحوالہ تنقید متین)۔
اور اس لیے کہ نبی بشر ہیں اور بشر ایک ایسی جنس ہے جس کو تکلیف بھی لاحق ہو سکتی ہے،مگر جس پر اللہ اپنا اکرام کر دے۔
(۲) ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ان النبی انسان بعثہ اللہ لتبلیغ ما أوحی الیہ وکذا الرسول فلا فرق‘‘۔ (المسایرۃ مع المسامرہ ج۲: س:۸۳بحوالہ تنقید متین)۔
نبی وہ انسان (بشر) ہے ،جس کو اللہ نے اپنی وحی کی تبلیغ کے لیے بھیجا ہوا اور اسی کو رسول کہتے ہیں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
(۳) شیخ اکبر محےئ الدین ابن عربی کہتے ہیں:’’ وقال رسول اللہ ﷺ فی کل وقت و ھو فی مرتبۃ الرسالۃ والخلافۃ انما انا بشر مثلکم فلم تحجبہ المرتبۃ عن معرفۃ نشا تہ ‘‘۔ (فتوحات مکیہ ج۳: ۲۳)۔
رسول اللہ ﷺنے ہر وقت جب کہ آپ ﷺ منصب رسالت و خلافت پر فائز تھے، یہی کہا کہ میں تمہارے ہی طرح کا ایک انسان ہوں ۔
یہ ابن عربی کون ہیں؟
جناب احمد رضاء صاحب نے ان کو اپنا مستدل بنایا اور سید المکاشفین و رضی اللہ عنہ جیسے سابقوں ولاحقوں سے ان کا تذکرہ کیاہے ،فرماتے ہیں: میں نے یہ دونوں وقت (۱۸۲۷ھ میں سلطنت اسلامیہ کامٹنا اور ۱۹۰۰ھ میں امام مھدی کا ظہور) سید المکا شفین حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ عنہ کے کلام سے اخذ کیے ہیں۔ (الملفوظ حصہ اول ؍ص: ۹۲)۔
جب احمد رضاء صاحب ان کو سید المکاشفین مانتے ہوئے ان کے کلام کو دلیل و حجت سمجھتے ہیں تو آخر مسئلہ زیر بحث میں کون سا مانع ہے جو خاں صاحب کو اپنے پیر مغاں کی بات ماننے سے روک رہا ہے ،یہاں وہ اپنے شیخ اکبر کی بات تسلیم کرتے ہوئے نبی کو بشر کیوں نہیں مان لیتے،کیوں آپ کے نوری مخلوق ہو نے پر مصر ہیں ؂
آرہا ہے آدمی بن کر فرشتہ نور کا پڑگیا ہے طائر سدرہ کو چسکا نور کا
(حدائق بخشش)
(۴) جلال الدین رومی جو خان صاحب بریلوی کے نہایت مستند و معتبرمرجع ہیں اپنی مثنوی میں ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ؂
زاں بود جنس بشر پیغمبراں تابہ جنسیت دہنداز ناؤداں
یہاں بھی پیغمبر کو بشر کہا گیا ہے۔
(۵) محمد بن عبد الباقی زرقانی، جن کے حوالہ سے خانصاحب نے الملفوظ حصہ سوم : ص:۲۸ پر قبر میں نبیوں کے لیے ازواج مطہرات پیش کیے جانے اور ان سے شب باشی فرمانے کا عقیدہ درج کیا ہے ، وہی زرقانی فرماتے ہیں: آنحضرت کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہی بشر ہے۔ (شرح مواہب ج۳ ص:۱۲۴)
زرقانی سے خان صاحب نے بشریت رسول کا عقیدہ کیوں نہ لیا؟گویا:
میٹھا میٹھا،ہپ ہپ ،کڑوا کڑوا، تھو تھو۔
(۶) ابن عابدین حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بشر کی تین قسمیں ہیں، خواص جیسے حضرت انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور درمیان قسم کے جیسے صحابہ کرام اور عوام جیسے دیگر لوگ۔
مصر) ۔یہاں انبیاء کرام کو بشر کہا گیا ہے۔
(۷) شیخ احمد سر ہندی فرماتے ہیں :’’ اے برادر محمد ﷺ بآں علو شان بشر بود، و بداغ حدوث و امکان متسم ۔( مکتوب ۱۷۳ دفتر اول ،۱۷۷ طبع امرت سر)
اے بھائی! محمد ﷺاپنی بلند شان کے باوجود بشر ہیں۔
قارئین یہ ہیں حنفی علماء کے اقوال جو رسول کی بشریت کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں، مگر ہمارے بھائی آپ ﷺ کو نوری مخلوق کہنے پر مصر ہیں اور جو ان کی طرح رسول کے نوری مخلوق ہو نے کا عقیدہ نہ رکھے اس کو وہ کافر،بد مذہب، جہنمی، جیسے تمغہ بانٹتے ہیں، مگر سوچیں کیا ان کی اس زبان درازی کا شکار یہ علمائے احناف اور خود صحابہ نہ ہوں گے؟پھر صحابہ وعلمائے سلف کودرپردہ گستاخ و کافر کہنے والا خود کتنا بڑا گستاخ و بد مذہب ہوگا، اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے ؂
تمہاری ’تکفیر‘ اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا
بشریت رسول کا انکار کفر ہے:
علمائے احناف نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ بشریت رسول کا انکار کفر ہے، فتاوی عالمگیری، خود محمد بن عبد الباقی شرح المواہب ج۶:ص؍۱۶۸ طبع مصر اور سیدمحمود آلوسی حنفی وغیرہ کے اقوال اس ضمن میں موجود ہیں تا ہم صرف سید محمود آلوسی کی عبارت کے نقل پر اکتفا کریں گے۔ ’’وقد سئل الشیخ ھل العلم بکونہ ﷺ بشراً ومن العرب شرط فی صحۃ الایمان اومن الفروض الکفاےۃ فاجاب بأنہ شرط فی صحۃ الایمان فلو قال شخص أو من برسالۃ محمد الی جمیع الخلق لکن لا ادری ھل ھو من البشر او من الملائکۃ او من الجن ولا أدری ھل ھو من العرب او العجم فلا شک فی کفرہ لتکذیبہ القرآن وجحدہ ما تلقتہ قرون الاسلام خلفاً عن سلف و صار معلوماً با لضرورۃ عند الخاص والعام ولا اعلم فی ذلک خلافاً، فلو کان غبیا لا یعرف ذلک وجب تعلیمہ ایاہ فان جحدہ بعد ذلک حکمنا بکفرہ‘‘۔( تفسیر روح المعانی ج۴ ص؍۱۰۱)۔
خلاصہ عبارت مذکور یہ کہ بشریت رسول کا اعتقاد صحت ایمان کے لیے شرط ہے، جو آدمی یہ کہے کہ وہ رسول کے بشر یا فرشتہ یا عرب و عجم ہو نے کے بارے میں نہیں جاننا تو اس کے کفر میں اس لیے شبہ نہیں کہ وہ قرآن و سنت کو جھٹلا رہا ہے اور اجماعِ امت کا بھی منکر ہے، اور جس آدمی کو رسول کی بشریت کا علم نہ ہو تو اس کو رسول کی بشریت کے بارے بتلا نا واجب و ضروری ہے، اور بتلا نے کے بعد وہ (بشریت رسول کا) انکار کردے، تو اس پر کفر کا حکم لگا یا جائے گا۔
قارئین دیکھ رہے ہیں کہ علماء احناف نے کس طرح بشریت رسول کے منکر پر کفر کا فتویٰ لگا یا ہے۔
اعتراف:
تعجب تو یہ ہے کہ ہمارے یہ بھائی بھی جو نبی کو نوری مخلوق یانور،نور کہتے نہیں تھکتے انہوں نے بھی بشریت رسول کا اعتراف کر لیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
جناب احمد رضاء صاحب لکھتے ہیں: ’’جس طرح اجماع اہل سنت ہے کہ بشر میں انبیاء علیہم السلام کے سوا دوسرا کوئی معصوم نہیں ، جو دوسرے کو معصوم مانے اہل سنت سے خارج ہے‘‘ ۔ (دوام العیش فی أن الأئمۃ من قریش ج۱: ص؍۲۷) یہاں اعلی حضرت نے انبیاء کو بشر مانا ہے۔
نیز فرماتے ہیں:
خطیب نے المتفق والمفترق میں عبد اللہ بن مسعود سے روایت ذکر کی ہے کہ’’ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔ میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما ایک ہی خاک(مٹی )سے پیدا ہوئے ہیں‘‘۔ (فتاویٰ افریقہ ص: ۱۰۱ طبع جدید)
امجد علی گھوسوی فرماتے ہیں :
’’انبیاء سب بشر تھے اور مرد، نہ کوئی جن نبی ہوا اور نہ عورت ‘‘۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۹)

امجد علی گھوسوی احمد رضاء صاحب کے شاگرد خاص ہیں اور یہ کتاب خاں صاحب کی نگرانی ہی میں لکھی گئی ہے۔
نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں:
یہ آیت ’’وما ارسلنامن قبلک الا رجالا‘‘ مشرکین مکہ کے جواب میں نازل ہوئی جنہوں نے سید عالم کی نبوت کا اس طرح انکار کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے برتر ہے کہ وہ کسی بشر کو رسول بنائے ۔انہیں بتایا گیا کہ سنت الٰہی اسی طرح جاری ہے، ہمیشہ اس نے انسانوں میں مردوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا ۔ (تفسیر نعیمی : ص؍۳۹۳ ف ۸۹)۔
المیزان بمبئی کے امام احمد رضاء نمبر میں ہے: ’’بہت برے ہیں وہ لوگ جو حضور کی بشریت کے منکر ہیں، خارج از اسلام ہیں وہ ہمارے گروہ میں شامل نہیں، ہم اہل سنت نہ بشریت مصطفی کے منکر اور نہ انہیں ایسا بشر کہنے کے قائل جو عجز و نادانی میں دوسروں کے برابر ہوں ‘‘۔
( ص: ۱۴۲)۔
حضرات ! یہ ہیں بریلوی زعماء کے اعترافات ،رسول کے بشر ہونے کے ۔ وہ لوگ جو رسول کو بشر کہنے والوں پر فتوے داغتے ہیں، ان علمائے بریلویہ کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟ ہم ہنوز منتظر ہیں۔
ہمارا اعتقاد:
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ کوئی عام بشر اوصاف و کمالات،مقام و مرتبہ،اخلاق و کردار،اللہ سے ربط، حسن،عظمت،معاملات و عبادات میں رسول اللہ ﷺ جیسا نہیں ہو سکتا ۔ البتہ جس طرح ہم مٹی سے بنے، کھانے ،پینے، سونے،جاگنے،قضائے حاجات،شادی بیاہ، کی ضرورت عام انسانوں کو ہو تی ہے ،سب کی طرح آپ ﷺ کو بھی یہ انسانی ضرورتیں لاحق تھیں اور جس طرح ہم اللہ کے بندے ،اس کی عطاء ورحمت کے محتاج ہیں، اسی طرح آپ ﷺ بھی اللہ کے بندے اور اس کی عطاء و رحمت کے طلب گار تھے۔ اس معنی میں آپ ہم جیسے انسان تھے اور بس۔ ورنہ رسول کی برابری کا عقیدہ تو کوئی مسلمان رکھ ہی نہیں سکتا۔ اللھم ارنا الحق حقا وار زقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنا بہ۔ آمین۔

*****

1 comment:

  1. اہلسنت و الجماعت حنفی بریلوی نبی پاک کی نہ تو بشریت کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی نبی پاک کی نورانیت کا انکار کرتے ہیں. اور یہی ایک مسلمان کا حق ہے.

    ReplyDelete