ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ
نظريۂ افراط و تفریط
کیا خوب فرمایا ہے حجت الاسلام علامہ ابن قیم نے اعلام میں ،اور گویا ایک ایسا اصل الاصول بتلا دیا ہے،جس کے بعد اس راہ کی ساری مشکلات معدوم ہو جاتی ہیں کہ،’’لابد من امرین ،احدھما اعظم من الاٰخرۃ وھو النصیحۃ للہ ولرسولہ و کتابہ (ودینہ) وتنزیھہ عن الاقوال الباطلۃ المناقضۃ[۔۔۔۔۔۔]والثانی معرفۃ ائمۃ الاسلام ومقادیرھم وحقوقھم ومراتبھم،وان فضلھم [وعلمھم و نصحھم اللہ و رسولہ]لا یوجب قبول کل ماقالوہ[۔۔۔۔۔۔]ولا یوجب اطراح اقوالھم[جملۃ]۔۔۔۔۔۔الخ‘‘۔
یعنی صحیح راہ حق و اعتدال کی یہ ہے کہ دو اصل ہیں،اور دونوں کا ملحوظ رکھنا ضروری۔ایک یہ کہ ہر حال میں کتاب و سنت ونصوص شرعیہ کو مقدم رکھنا چاہئے اور اسی پر حکم و عمل کر نا چاہئے۔دوسری یہ ہے کہ تمام ائمہ اسلام اور علمائے حق سے حسن ظن اور محبت وارادت رکھنی چاہئے اور ان کے مراتب و حقوق کی رعایت سے کبھی غافل نہ ہو نا چاہئے۔یہی دو اصل ہیں جن کے توازن و تناسب کو با عتدال ملحوظ نہ رکھنے سے ساری مصیبتیں پیش آتی ہیں،اور بد بختانہ لوگوں نے ہمیشہ انہی میں افراط تفریط کی ہے ،یا دونوں میں سے صرف کسی ایک ہی کے ہورہے ہیں۔ایک جماعت احکام و نصوص شرعیہ کے اتباع و تقدیم کا یہ مطلب سمجھتی ہے کہ جہاں کسی اہل علم و حال کا کوئی قول بظاہر کسی حکم و نص کے خلاف نظر آیا ،بلا تامل تضلیل و تکفیر پر آمادہ ہو گئے اور جھٹ حکم لگا دیا کہ وہ منکر شریعت ہے ، اگر چہ اس نے اپنی ساری زندگی شریعت کے علم و عمل میں بسر کر دی ہے۔دوسری جماعت نے ائمہ و اکابر دین کی پیروی اور محبت و اعتقاد کے یہ معنی سمجھے کہ احکام و نصوص کو ان کاتابع و محکوم بنا دیا،اور چند غیر معصوم انسانوں کی خاطر کتاب و سنت کو ترک کر کے’’اتخذ و احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ ‘‘ کی سرحد سے قریب ہو گئے،اس دوسری جماعت کا عجیب حال ہے۔یہ جب کبھی اپنے پیشواؤں کے کسی قول کو احکام و نصوص شرعیہ کے خلاف دیکھتی ہے،تو اس کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتی کہ قرآن و سنت کو مقدم رکھ کر اس قولِ مخالف کی تاویل کرے، اور اس طرح شریعت الٰہی کو بھی اپنی جگہ چھوڑنے کی زحمت نہ دے اور پیشوایانِ اسلام کے دامن کو بھی مخالفت شریعت کے دھبے سے بچا لے، بلکہ برعکس اس کے کوشش کر تی ہے کہ اپنے پیشواؤں کی باتوں اور رایوں کو مقدم رکھ کر کسی نہ کسی طرح قرآن و حدیث کو ان کے مطابق کر دکھائے، اگرچہ ایسا کر نے میں تاویلِ نصوص تک پہنچ جائے ! پہلی راہ بہ اعتبار اصل کے راہِ یہود ہے اور دوسری راہِ نصاریٰ ، اور اسلام نے دونوں کو بند کر نا چاہا’’غیر المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘۔ اور ایک حدیث میں مجددین امت کا یہ کام بتلایا کہ ’’ینفون عنہ تحریف الغالین و انتحال المبطلین و تاویل الجاھلین‘‘ سو پہلی راہ انتحال المبطلین کی ہے، اور دوسری تاویل الجاہلین کی ۔پہلی جماعت کو گمراہی نے بغض و انکار کاچہرادکھلا کر بھٹکا یا،اور دوسری کو محبت و اتباع کے نقاب میں آکر ؛ اور دنیا میں جس وقت سے نوعِ انسانی آباد ہوئی ہے، ہمیشہ گمراہی کے یہی دو بھیس رہے ہیں۔ یا افراطِ بغض نے لوگوں کو گمراہ کیا ہے یا افراطِ محبت نے:
ناہید بغمزہ کشت و مریخ بقہر
لیکن اہل حق کی صراط مستقیم دونوں سے الگ ہے:
میانِ کعبہ و بت خانہ را ہیست!
وہ ہر حال میں احکامِ شریعت اور ظواہرکتاب و سنت کو مقدم رکھتے ہیں، اور اس تمام کائنات ہستی میں صرف انہی کو واجب الاطاعت یقین کر تے ہیں، مگر ساتھ ہی تمام اہل علم و ائمہ اسلام سے حسن ظن و عقیدت بھی رکھتے ہیں اور ان کے جواقوال و آراء یا احوال و سوانح بظاہر نصوص کتاب و سنت کے خلاف معلوم ہو تے ہیں،ان کی وجہ سے یکایک سرگرمِ انکار و تضلیل نہیں ہو جاتے،بلکہ حتی الوسع ان کی تاویل کر تے ہیں اور ایسی راہِ تعبیر ڈھونڈھتے ہیں،جو نصوص شریعت کے مطابق ہو اور اگر دیکھتے ہیں کہ کسی طرح اختلاف دور نہیں ہو سکتا،تو ان کی خاطر نصوصِ شرعیہ کو اپنی جگہ چھوڑ کر مُأوّل ہو نے کی زحمت نہیں دیتے کہ یہی بنیادِ تحریف ہے ،بلکہ یاتو ان عذرات کو معلوم کر نے کی کوشش کرتے ہیں،جن کی وجہ سے وہ اس اختلاف پر مجبور ہوئے ،اور یا پھر ان کے اقوال و آراء سے چشم پوشی کر کے ان کا معاملہ عالم السرائر کے حوالے کر دیتے ہیں ،مگر نہ تو ان کی پیروی و حمایت کر تے ہیں اور نہ ان کی وجہ سے صاحبِ قول و حال کے حقوقِ اسلامی و مراتبِ فضیلتِ علم و عمل نظر انداز کر کے، آمادۂ انکار و تضلیل ہو جاتے ہیں۔کیوں کہ کسی غیر معصوم کا قابلِ احترام و اتباع ہو نا اس کے لیے مستلزم نہیں کہ اس کا ہر قول و حال حجت ہو،اور نہ کسی غیر معصوم کے کسی ایک قول و اجتہاد کا غلط ہو نا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کے تمام محاسنِ اقوال و اعمال کو ترک کر دیا جائے۔
قرآنِ حکیم نے سچے مومنوں کی جو شان بتلائی ہے وہ ان کی اس طلب و دعا سے ظاہر ہے: ’’لا تجعل فی قلوبنا غلاً للذین آمنوا‘‘ پس جب عام مومنوں کی نسبت یہ حکم ہے، تو اصحابِ علم و فضیلت کی طرف سے دل میں غلّ و بُغض کا ہوناکب جائز ہو سکتا ہے!
البتہ اصل مرکزِ حق و یقین کتاب و سنت ہے۔ یہ مرکز اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا؛ سب کو اس کی خاطر اپنی جگہ سے ہل جا نا پڑیگا۔ اس چوکھٹ کو کسی کی خاطر نہیں چھوڑاجا سکتا،سب کی چوکھٹیں اس کی خاطر چھوڑ دینی پڑیں گی۔ ’’لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وو لدہ والناس اجمعین‘‘ جب نصِ رسول کے مقابلے میں کسی دوسرے انسان کی پاسداری کی ، تو رسول ’’احب ‘‘کب باقی رہا؟ ارباب افراط و غلو کی ساری غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے غیر معصوم پیشواؤں کے اقوال و احوال کو بمنزلۂ اصل مرکز بنا لیتے ہیں،جس کو کسی حال میں اس کی جگہ سے نہیں ہلایا جا سکتا،اور پھر چاہتے ہیں کہ وحی الٰہی و صاحبِ وحی کی نص کو اس کی جگہ سے ہٹا کر اپنے خود ساختہ مرکز تک لے جائیں،اور نہ جا سکے تو زبردستی کھینچ کر لے جائیں۔ اس پر ستم یہ کہ اس طریق کو طریقِ توفیق وتطبیق کے نام سے تعبیر کر تے ہیں۔ اگر یہ تطبیق ہے، تو ’’والذی نفسی بیدہ‘‘ کہ پھر دنیا میں تحریف کا وجود باقی نہ رہا اور نہ کبھی اہل کتاب نے اس دنیا میں تحریف کی۔اس مقام پر رشتۂ سخن بہت دراز ہے، ہزار چاہتا ہوں کہ موقعہ اطناب کا نہیں،جلد آگے بڑھ جاؤں؛ لیکن یہ رشتہ ایسا ہے کہ ایک مرتبہ کھُل جائے تو پھر جلد نہیں لپیٹا جا سکتا:
ایں رشتہ با نگشت نہ پیچی کہ دراز ست!
یہ اصول جو ہمارے رگ و پے میں سرایت کر گئے ہیں اور ان کا اس اسراف کے ساتھ استعمال ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے کہ قریب ہے کہ اصلیت کا پتہ لگانا دشوار ہو جائے کہ ’’الاصل ان کل اٰ ےۃ تخالف قول اصحابنا فانھا تحمل علی النسخ اوعلی الترجیح والاولیٰ ان تحمل علی التاویل۔ والاصل ان کل خبر یجئی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ او علی انہ معارض بمثلہ او یحمل علی التاویل‘‘ تو گو ابتدا میں اس کا مقصد دوسرا تھا مگر بالآخر بات وہی ہو گئی کہ اصل مرکز حق و یقین غیر معصوم پیشواؤں کے اقوال و آراء ہو گئے اور ہر حال میں معصوم کے نصوص کو ان کی خاطر ماَوّل و مصروف ہوکر متروک ہو نا پڑا۔ یا نسخ ہے یا ترجیح ہے؛ یا تعارض ہے، یا ماول ہے؛ یا چناں ہے، یا چنیں ہے؛ یہ سب کچھ کہا جائے گا،مگر ایک بات نہیں کہی جائے گی کہ اصل میں وہ قول ہی ماول ہے ،یا غلط ہے،اگر ایسا ہو گیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی
من و دل گر فنا شدیم، چہ باک؟
غرض اندر میاں سلامت او ست
تعارض سے تو کتاب و سنت پاک ہے اور جس کو تعارض قرار دیا گیا،وہ تعارض نہیں۔ترجیح اسی حال میں ہوگی جب عدمِ تساوی قوت ہو،لفظاً یامعناً اور قوی کے سامنے ضعیف کا حکماً وجود ہی نہیں ۔پس نص وہی خبر ہے،جو مرجح ثابت ہوئی ۔رہا نسخ اور حقیقت و مجاز و تقیید وغیرہ ذٰلک،تو اس سے انکار نہیں لیکن کتاب و سنت کی منسوخات بہت قلیل اور گنی ہوئی ہیں۔ قرآن کی منسوخ آیتیں (مصطلحۂ متاخرین) گھٹتے گھٹتے اتقان میں بیس تک پہنچیں اور فوز الکبیر میں پانچ تک۔ حدیث کی منسوخات ابنِ جوزی کی تحقیق میں اکیس،علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک دس،اور علامہ ابنِ قیم کہتے ہیں کہ اس سے بھی کم،و ہنوز مجال سخن باقی۔پھر اس کی کیا ضرورت ہے کہ قواعد و اساسات کی شکل میں یہ اصول ٹھہرا لیے جائیں کہ ہر آیت و حدیث جو ہمارے اصحاب و مشائخ کے قول کے خلاف ہو گی ضرور ہے کہ یا منسوخ ہو یا مرجوح یا ماول؟ یعنی وہ قول ماول نہیں ہو سکتا مگر کتاب و سنت اس کی خاطر ضرور ماول ہو نگے! تو معلوم ہوا کہ اصل مرکز حق قول فقہاء و مشائخ ہے۔ وہ کسی حال میں چھوڑا نہیں جا سکتا،کسی نہ کسی طرح کتاب و سنت کو اس کا ساتھ دینا ہی پڑے گا! ’’فیا للمصیلبۃ و یا للرزےۃ!‘‘ صاف صاف بات تو یہ تھی کہ فقہاء و اعلام کا جو قول کسی آیت غیر منسوخ یا خبر صحیح کے خلاف ہو گا تو یا اس کی تاویل کی جائے گی، یا ایسے اقوال میں سے سمجھاجا ئے گا، جن کو ترجیح نہیں،کہ کتاب و سنت کے منسوخات سے علماء کے اقوالِ مرجوحہ کہیں زیادہ ہیں۔ اور یا متروک قرار پائے گا، کیونکہ اصل کتاب و سنت ہے، اور فقہاء و علماء کا قول انہی کی نسبت سے فرعاً مقبول۔ پس جب اصل و فرع میں تعارض ہوا،تو فرع کو اصل کی خاطر چھوڑ دیا گیا، اور مطلوبِ شارع: ’’اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول‘‘ ہے اور بس
فدع عنک نھباً صیح فی حُجَراتہ
وھاتِ حدیثاً ما حدیث الرواحلِ
یہاں یہ دیکھنا نہیں ہے کہ ان اصول کا مقصد اصلی کیا تھا؟ دیکھنا صرف یہ ہے کہ ان باتوں کو اصل قاعدہ بنا نے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہی کہ کتاب و سنت کی حکومت باقی نہیں رہتی اور حقِ مرکزیت ،وحی و صاحبِ وحی کی جگہ غیر معصوموں کو مل جاتا ہے۔ فالی اللہ المشتکی ثم الی اللہ المشتکی!
اور یاد رہے کہ یہی فرق حکمائے سؤ اور حکمائے حق کے طریقِ تطبیق عقل و نقل میں بھی ہے۔ پہلا گروہ انسانی نظریات و ظنون کو باہم علم مرکزِ حق و یقین قرار دے کر و حی الٰہی سے اس کے چاروں طرف طواف کرانا چاہتا ہے، اور دوسرا گروہ مرکزِ حق و یقین وحی الٰہی اور حکمتِ نبوی کو قرار دیتا ہے اور تمام انسانی معلومات و افکار کو اس کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے اور راہِ مطابقت پیدا کر لیتا ہے۔ تطبیق دونوں دیتے ہیں اور رفاقتِ علم و عقل کے دونوں مدّعی،مگر دونوں کے طریق سیر و وصول میں زمین و آسمان کا فرق ہے
نزلوا بمکۃ فی قبائل ھاشم
و نزلت و فی البیداء أبعد منزلِ
یعنی صحیح راہ حق و اعتدال کی یہ ہے کہ دو اصل ہیں،اور دونوں کا ملحوظ رکھنا ضروری۔ایک یہ کہ ہر حال میں کتاب و سنت ونصوص شرعیہ کو مقدم رکھنا چاہئے اور اسی پر حکم و عمل کر نا چاہئے۔دوسری یہ ہے کہ تمام ائمہ اسلام اور علمائے حق سے حسن ظن اور محبت وارادت رکھنی چاہئے اور ان کے مراتب و حقوق کی رعایت سے کبھی غافل نہ ہو نا چاہئے۔یہی دو اصل ہیں جن کے توازن و تناسب کو با عتدال ملحوظ نہ رکھنے سے ساری مصیبتیں پیش آتی ہیں،اور بد بختانہ لوگوں نے ہمیشہ انہی میں افراط تفریط کی ہے ،یا دونوں میں سے صرف کسی ایک ہی کے ہورہے ہیں۔ایک جماعت احکام و نصوص شرعیہ کے اتباع و تقدیم کا یہ مطلب سمجھتی ہے کہ جہاں کسی اہل علم و حال کا کوئی قول بظاہر کسی حکم و نص کے خلاف نظر آیا ،بلا تامل تضلیل و تکفیر پر آمادہ ہو گئے اور جھٹ حکم لگا دیا کہ وہ منکر شریعت ہے ، اگر چہ اس نے اپنی ساری زندگی شریعت کے علم و عمل میں بسر کر دی ہے۔دوسری جماعت نے ائمہ و اکابر دین کی پیروی اور محبت و اعتقاد کے یہ معنی سمجھے کہ احکام و نصوص کو ان کاتابع و محکوم بنا دیا،اور چند غیر معصوم انسانوں کی خاطر کتاب و سنت کو ترک کر کے’’اتخذ و احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ ‘‘ کی سرحد سے قریب ہو گئے،اس دوسری جماعت کا عجیب حال ہے۔یہ جب کبھی اپنے پیشواؤں کے کسی قول کو احکام و نصوص شرعیہ کے خلاف دیکھتی ہے،تو اس کی جرأت اپنے اندر نہیں پاتی کہ قرآن و سنت کو مقدم رکھ کر اس قولِ مخالف کی تاویل کرے، اور اس طرح شریعت الٰہی کو بھی اپنی جگہ چھوڑنے کی زحمت نہ دے اور پیشوایانِ اسلام کے دامن کو بھی مخالفت شریعت کے دھبے سے بچا لے، بلکہ برعکس اس کے کوشش کر تی ہے کہ اپنے پیشواؤں کی باتوں اور رایوں کو مقدم رکھ کر کسی نہ کسی طرح قرآن و حدیث کو ان کے مطابق کر دکھائے، اگرچہ ایسا کر نے میں تاویلِ نصوص تک پہنچ جائے ! پہلی راہ بہ اعتبار اصل کے راہِ یہود ہے اور دوسری راہِ نصاریٰ ، اور اسلام نے دونوں کو بند کر نا چاہا’’غیر المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘۔ اور ایک حدیث میں مجددین امت کا یہ کام بتلایا کہ ’’ینفون عنہ تحریف الغالین و انتحال المبطلین و تاویل الجاھلین‘‘ سو پہلی راہ انتحال المبطلین کی ہے، اور دوسری تاویل الجاہلین کی ۔پہلی جماعت کو گمراہی نے بغض و انکار کاچہرادکھلا کر بھٹکا یا،اور دوسری کو محبت و اتباع کے نقاب میں آکر ؛ اور دنیا میں جس وقت سے نوعِ انسانی آباد ہوئی ہے، ہمیشہ گمراہی کے یہی دو بھیس رہے ہیں۔ یا افراطِ بغض نے لوگوں کو گمراہ کیا ہے یا افراطِ محبت نے:
ناہید بغمزہ کشت و مریخ بقہر
لیکن اہل حق کی صراط مستقیم دونوں سے الگ ہے:
میانِ کعبہ و بت خانہ را ہیست!
وہ ہر حال میں احکامِ شریعت اور ظواہرکتاب و سنت کو مقدم رکھتے ہیں، اور اس تمام کائنات ہستی میں صرف انہی کو واجب الاطاعت یقین کر تے ہیں، مگر ساتھ ہی تمام اہل علم و ائمہ اسلام سے حسن ظن و عقیدت بھی رکھتے ہیں اور ان کے جواقوال و آراء یا احوال و سوانح بظاہر نصوص کتاب و سنت کے خلاف معلوم ہو تے ہیں،ان کی وجہ سے یکایک سرگرمِ انکار و تضلیل نہیں ہو جاتے،بلکہ حتی الوسع ان کی تاویل کر تے ہیں اور ایسی راہِ تعبیر ڈھونڈھتے ہیں،جو نصوص شریعت کے مطابق ہو اور اگر دیکھتے ہیں کہ کسی طرح اختلاف دور نہیں ہو سکتا،تو ان کی خاطر نصوصِ شرعیہ کو اپنی جگہ چھوڑ کر مُأوّل ہو نے کی زحمت نہیں دیتے کہ یہی بنیادِ تحریف ہے ،بلکہ یاتو ان عذرات کو معلوم کر نے کی کوشش کرتے ہیں،جن کی وجہ سے وہ اس اختلاف پر مجبور ہوئے ،اور یا پھر ان کے اقوال و آراء سے چشم پوشی کر کے ان کا معاملہ عالم السرائر کے حوالے کر دیتے ہیں ،مگر نہ تو ان کی پیروی و حمایت کر تے ہیں اور نہ ان کی وجہ سے صاحبِ قول و حال کے حقوقِ اسلامی و مراتبِ فضیلتِ علم و عمل نظر انداز کر کے، آمادۂ انکار و تضلیل ہو جاتے ہیں۔کیوں کہ کسی غیر معصوم کا قابلِ احترام و اتباع ہو نا اس کے لیے مستلزم نہیں کہ اس کا ہر قول و حال حجت ہو،اور نہ کسی غیر معصوم کے کسی ایک قول و اجتہاد کا غلط ہو نا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کے تمام محاسنِ اقوال و اعمال کو ترک کر دیا جائے۔
قرآنِ حکیم نے سچے مومنوں کی جو شان بتلائی ہے وہ ان کی اس طلب و دعا سے ظاہر ہے: ’’لا تجعل فی قلوبنا غلاً للذین آمنوا‘‘ پس جب عام مومنوں کی نسبت یہ حکم ہے، تو اصحابِ علم و فضیلت کی طرف سے دل میں غلّ و بُغض کا ہوناکب جائز ہو سکتا ہے!
البتہ اصل مرکزِ حق و یقین کتاب و سنت ہے۔ یہ مرکز اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا؛ سب کو اس کی خاطر اپنی جگہ سے ہل جا نا پڑیگا۔ اس چوکھٹ کو کسی کی خاطر نہیں چھوڑاجا سکتا،سب کی چوکھٹیں اس کی خاطر چھوڑ دینی پڑیں گی۔ ’’لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وو لدہ والناس اجمعین‘‘ جب نصِ رسول کے مقابلے میں کسی دوسرے انسان کی پاسداری کی ، تو رسول ’’احب ‘‘کب باقی رہا؟ ارباب افراط و غلو کی ساری غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے غیر معصوم پیشواؤں کے اقوال و احوال کو بمنزلۂ اصل مرکز بنا لیتے ہیں،جس کو کسی حال میں اس کی جگہ سے نہیں ہلایا جا سکتا،اور پھر چاہتے ہیں کہ وحی الٰہی و صاحبِ وحی کی نص کو اس کی جگہ سے ہٹا کر اپنے خود ساختہ مرکز تک لے جائیں،اور نہ جا سکے تو زبردستی کھینچ کر لے جائیں۔ اس پر ستم یہ کہ اس طریق کو طریقِ توفیق وتطبیق کے نام سے تعبیر کر تے ہیں۔ اگر یہ تطبیق ہے، تو ’’والذی نفسی بیدہ‘‘ کہ پھر دنیا میں تحریف کا وجود باقی نہ رہا اور نہ کبھی اہل کتاب نے اس دنیا میں تحریف کی۔اس مقام پر رشتۂ سخن بہت دراز ہے، ہزار چاہتا ہوں کہ موقعہ اطناب کا نہیں،جلد آگے بڑھ جاؤں؛ لیکن یہ رشتہ ایسا ہے کہ ایک مرتبہ کھُل جائے تو پھر جلد نہیں لپیٹا جا سکتا:
ایں رشتہ با نگشت نہ پیچی کہ دراز ست!
یہ اصول جو ہمارے رگ و پے میں سرایت کر گئے ہیں اور ان کا اس اسراف کے ساتھ استعمال ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے کہ قریب ہے کہ اصلیت کا پتہ لگانا دشوار ہو جائے کہ ’’الاصل ان کل اٰ ےۃ تخالف قول اصحابنا فانھا تحمل علی النسخ اوعلی الترجیح والاولیٰ ان تحمل علی التاویل۔ والاصل ان کل خبر یجئی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ او علی انہ معارض بمثلہ او یحمل علی التاویل‘‘ تو گو ابتدا میں اس کا مقصد دوسرا تھا مگر بالآخر بات وہی ہو گئی کہ اصل مرکز حق و یقین غیر معصوم پیشواؤں کے اقوال و آراء ہو گئے اور ہر حال میں معصوم کے نصوص کو ان کی خاطر ماَوّل و مصروف ہوکر متروک ہو نا پڑا۔ یا نسخ ہے یا ترجیح ہے؛ یا تعارض ہے، یا ماول ہے؛ یا چناں ہے، یا چنیں ہے؛ یہ سب کچھ کہا جائے گا،مگر ایک بات نہیں کہی جائے گی کہ اصل میں وہ قول ہی ماول ہے ،یا غلط ہے،اگر ایسا ہو گیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی
من و دل گر فنا شدیم، چہ باک؟
غرض اندر میاں سلامت او ست
تعارض سے تو کتاب و سنت پاک ہے اور جس کو تعارض قرار دیا گیا،وہ تعارض نہیں۔ترجیح اسی حال میں ہوگی جب عدمِ تساوی قوت ہو،لفظاً یامعناً اور قوی کے سامنے ضعیف کا حکماً وجود ہی نہیں ۔پس نص وہی خبر ہے،جو مرجح ثابت ہوئی ۔رہا نسخ اور حقیقت و مجاز و تقیید وغیرہ ذٰلک،تو اس سے انکار نہیں لیکن کتاب و سنت کی منسوخات بہت قلیل اور گنی ہوئی ہیں۔ قرآن کی منسوخ آیتیں (مصطلحۂ متاخرین) گھٹتے گھٹتے اتقان میں بیس تک پہنچیں اور فوز الکبیر میں پانچ تک۔ حدیث کی منسوخات ابنِ جوزی کی تحقیق میں اکیس،علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک دس،اور علامہ ابنِ قیم کہتے ہیں کہ اس سے بھی کم،و ہنوز مجال سخن باقی۔پھر اس کی کیا ضرورت ہے کہ قواعد و اساسات کی شکل میں یہ اصول ٹھہرا لیے جائیں کہ ہر آیت و حدیث جو ہمارے اصحاب و مشائخ کے قول کے خلاف ہو گی ضرور ہے کہ یا منسوخ ہو یا مرجوح یا ماول؟ یعنی وہ قول ماول نہیں ہو سکتا مگر کتاب و سنت اس کی خاطر ضرور ماول ہو نگے! تو معلوم ہوا کہ اصل مرکز حق قول فقہاء و مشائخ ہے۔ وہ کسی حال میں چھوڑا نہیں جا سکتا،کسی نہ کسی طرح کتاب و سنت کو اس کا ساتھ دینا ہی پڑے گا! ’’فیا للمصیلبۃ و یا للرزےۃ!‘‘ صاف صاف بات تو یہ تھی کہ فقہاء و اعلام کا جو قول کسی آیت غیر منسوخ یا خبر صحیح کے خلاف ہو گا تو یا اس کی تاویل کی جائے گی، یا ایسے اقوال میں سے سمجھاجا ئے گا، جن کو ترجیح نہیں،کہ کتاب و سنت کے منسوخات سے علماء کے اقوالِ مرجوحہ کہیں زیادہ ہیں۔ اور یا متروک قرار پائے گا، کیونکہ اصل کتاب و سنت ہے، اور فقہاء و علماء کا قول انہی کی نسبت سے فرعاً مقبول۔ پس جب اصل و فرع میں تعارض ہوا،تو فرع کو اصل کی خاطر چھوڑ دیا گیا، اور مطلوبِ شارع: ’’اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول‘‘ ہے اور بس
فدع عنک نھباً صیح فی حُجَراتہ
وھاتِ حدیثاً ما حدیث الرواحلِ
یہاں یہ دیکھنا نہیں ہے کہ ان اصول کا مقصد اصلی کیا تھا؟ دیکھنا صرف یہ ہے کہ ان باتوں کو اصل قاعدہ بنا نے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہی کہ کتاب و سنت کی حکومت باقی نہیں رہتی اور حقِ مرکزیت ،وحی و صاحبِ وحی کی جگہ غیر معصوموں کو مل جاتا ہے۔ فالی اللہ المشتکی ثم الی اللہ المشتکی!
اور یاد رہے کہ یہی فرق حکمائے سؤ اور حکمائے حق کے طریقِ تطبیق عقل و نقل میں بھی ہے۔ پہلا گروہ انسانی نظریات و ظنون کو باہم علم مرکزِ حق و یقین قرار دے کر و حی الٰہی سے اس کے چاروں طرف طواف کرانا چاہتا ہے، اور دوسرا گروہ مرکزِ حق و یقین وحی الٰہی اور حکمتِ نبوی کو قرار دیتا ہے اور تمام انسانی معلومات و افکار کو اس کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے اور راہِ مطابقت پیدا کر لیتا ہے۔ تطبیق دونوں دیتے ہیں اور رفاقتِ علم و عقل کے دونوں مدّعی،مگر دونوں کے طریق سیر و وصول میں زمین و آسمان کا فرق ہے
نزلوا بمکۃ فی قبائل ھاشم
و نزلت و فی البیداء أبعد منزلِ
No comments:
Post a Comment