علامہ عبد الجبار محدث کھنڈیلوی
’’روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری جبرائیل نے امامت کرائی بیت اللہ کے پاس دو مرتبہ، تو انہوں نے نماز پڑھائی مجھ کو ظہر کی جب کہ سورج ڈھل گیا اور سایہ بقدرتسمہ جوتی کے ہو گیا تھا، اور نماز پڑھائی مجھ کو عصر کی جب سایہ ہر چیز کا اس کے برابر ہو گیا تھا‘‘۔
یہ حدیث صریح دلالت کر تی ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر ہو جاتا ہے، جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو عصر کی نماز ایک مثل ہو جانے پر پڑھائی۔ قرآن مجید میں جہاں اور نمازوں کی محا فظت کی تاکید فرمائی ہے، وہاں عصر کی نماز کی خصوصیت سے تاکید فرمائی ہے۔قال اللہ تعالیٰ: ’’حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘(البقرۃ:۲۳۸)۔ ’’مسلمانو! تمام نمازوں کی محافظت کرو اور خاص کر نماز وسطیٰ( عصر )کی‘‘۔
ظاہر ہے کہ نمازوں کی حفاظت ان کے اوقات کی بھی محافظت ہے۔چنانچہ آنحضرت ﷺ عشاء کی نماز کے علاوہ اور سب نماز پنجگانہ اول وقت پر پڑھتے تھے۔ چنانچہ سید الطائفہ احنافِ دیوبند مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہاں وقت مثل، بندہ کے نزدیک زیادہ قوی ہے۔روایت حدیث سے ثبوت مثل کا ہوتا ہے۔دو مثل کا ثبوت حدیث سے نہیں، بناء علیہ ایک مثل پر عصر ہو جاتی ہے۔گو احتیاط دوسری روایت میں ہے‘‘۔(مکاتیب رشیدیہ ص: ۲۲)
نیز مولانا موصوف اپنے فتاویٰ رشیدیہ ص۹۸ میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’ایک مثل کا مذہب قوی ہے ،لہٰذا اگر ایک مثل پر عصر پڑھے تو ادا ہو جاتی ہے۔اعادہ نہ کرے ‘‘۔
و اللہ تعالیٰ اعلم۔
نیز آپ کی سوانح عمری ’’تذکرۃ الرشید‘‘ کے ص:۱۴۶؍ج۱ میں لکھا ہے:
’’کہ بعد ایک مثل کے وقت عصر ہو جانا مذہب صاحبین اور ائمہ ثلاثہ علیہم الرحمۃ کا ہے‘‘یہی مولانا موصوف اپنے ’’مکاتیب رشیدیہ‘‘ ص:۸۹ میں دربارۂ مذاہب ائمہ ثلاثہ امام شافعی ،امام مالک، و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ لکھتے ہیں:
’’مذاہب سب حق ہیں مذہب شافعی پر عند الضرورت عمل کر نا کچھ اندیشہ نہیں، مگر نفسانیت اور لذت نفسانی سے نہ ہو، عذر یا حجت شرعیہ سے ہو کچھ حرج نہیں۔ سب مذاہب کو حق جانے، کسی پر طعن نہ کرے سب کو اپنا امام جانے‘‘۔
بنابریں بقول مولانا جب عصر کا وقت مثل پر ہو نا امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ کا مذہب ہوا، تو اب اس کے حق و صحیح ہو نے میں کیا شک و شبہ ہے ،بلکہ یہی مذہب امام ابو یوسف و امام احمد و امام ابو حنیفہ علیہم الرحمۃ کا ایک روایت سے ثابت ہے، جیسا کہ شامی و غیرہ کتب فقہ میں لکھا ہے۔
مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ حنفی محدث احنافِ دیوبند لکھتے ہیں:
’’انی لم اجد حدیثاً صحیحاً او ضعیفاً یدل علی ان وقت الظہر الی ان یصیر الظل مثلیہ و عن الامام ابی حنیفۃ قولان‘‘۔ (آثار السنن عربی:ص۴۳؍ج۱)
’’ میں نے کوئی حدیث صحیح یا ضعیف ایسی نہیں پائی جس سے یہ ثابت ہو کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ،بلکہ امام ابو حنیفہ سے بھی اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں (ایک روایت دو مثل اور دوسری روایت ایک مثل کی )۔
مولانا قاضی رحمت اللہ صاحب راندیری حنفی دیوبندی فر ماتے ہیں:
’’والانصاف فی ھٰذا المقام ان احادیث المثل صریحۃ صحیحۃ و اخبار المثلین انما ذکرفی تو جیہ احادیث استنبط منھا ھٰذا الامروا لامر المستنبط لا یعارض الصریح ‘‘۔(کحل البصر فی ذکر وقت العصر:ص۹)
’’انصاف یہی ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل پر ہو نا احادیث صریحہ صحیحہ سے ثابت ہے اور جو روایات مثلین کی ہیں وہ غیر صریح ہیں۔صرف استنباطی طور سے ان روایات سے مثلین کو ثابت کیا جاتا ہے اور یہ (مسلم اصول ہے)کہ امر مستنبط، امر صریح کا معارض نہیں ہو سکتا ‘‘۔
معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت ہو جاتا ہے جیسا کہ اہل حدیث کا عمل ہے۔
نمازِ عصر کا وقت ایک مثل پر
’’عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ ﷺ امنی جبرائیل عند البیت مرّتین فصلّٰی بی الظہر حین زالت الشمس وکانت قدر الشراک و صلی بی العصر حین صار ظل کل شئی مثلہ ‘‘۔ (رواہ ابوداؤد و الترمذی (مشکوٰۃ ص:۵۹ج۱)’’روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری جبرائیل نے امامت کرائی بیت اللہ کے پاس دو مرتبہ، تو انہوں نے نماز پڑھائی مجھ کو ظہر کی جب کہ سورج ڈھل گیا اور سایہ بقدرتسمہ جوتی کے ہو گیا تھا، اور نماز پڑھائی مجھ کو عصر کی جب سایہ ہر چیز کا اس کے برابر ہو گیا تھا‘‘۔
یہ حدیث صریح دلالت کر تی ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر ہو جاتا ہے، جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو عصر کی نماز ایک مثل ہو جانے پر پڑھائی۔ قرآن مجید میں جہاں اور نمازوں کی محا فظت کی تاکید فرمائی ہے، وہاں عصر کی نماز کی خصوصیت سے تاکید فرمائی ہے۔قال اللہ تعالیٰ: ’’حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ‘‘(البقرۃ:۲۳۸)۔ ’’مسلمانو! تمام نمازوں کی محافظت کرو اور خاص کر نماز وسطیٰ( عصر )کی‘‘۔
ظاہر ہے کہ نمازوں کی حفاظت ان کے اوقات کی بھی محافظت ہے۔چنانچہ آنحضرت ﷺ عشاء کی نماز کے علاوہ اور سب نماز پنجگانہ اول وقت پر پڑھتے تھے۔ چنانچہ سید الطائفہ احنافِ دیوبند مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہاں وقت مثل، بندہ کے نزدیک زیادہ قوی ہے۔روایت حدیث سے ثبوت مثل کا ہوتا ہے۔دو مثل کا ثبوت حدیث سے نہیں، بناء علیہ ایک مثل پر عصر ہو جاتی ہے۔گو احتیاط دوسری روایت میں ہے‘‘۔(مکاتیب رشیدیہ ص: ۲۲)
نیز مولانا موصوف اپنے فتاویٰ رشیدیہ ص۹۸ میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’ایک مثل کا مذہب قوی ہے ،لہٰذا اگر ایک مثل پر عصر پڑھے تو ادا ہو جاتی ہے۔اعادہ نہ کرے ‘‘۔
و اللہ تعالیٰ اعلم۔
نیز آپ کی سوانح عمری ’’تذکرۃ الرشید‘‘ کے ص:۱۴۶؍ج۱ میں لکھا ہے:
’’کہ بعد ایک مثل کے وقت عصر ہو جانا مذہب صاحبین اور ائمہ ثلاثہ علیہم الرحمۃ کا ہے‘‘یہی مولانا موصوف اپنے ’’مکاتیب رشیدیہ‘‘ ص:۸۹ میں دربارۂ مذاہب ائمہ ثلاثہ امام شافعی ،امام مالک، و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ لکھتے ہیں:
’’مذاہب سب حق ہیں مذہب شافعی پر عند الضرورت عمل کر نا کچھ اندیشہ نہیں، مگر نفسانیت اور لذت نفسانی سے نہ ہو، عذر یا حجت شرعیہ سے ہو کچھ حرج نہیں۔ سب مذاہب کو حق جانے، کسی پر طعن نہ کرے سب کو اپنا امام جانے‘‘۔
بنابریں بقول مولانا جب عصر کا وقت مثل پر ہو نا امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ کا مذہب ہوا، تو اب اس کے حق و صحیح ہو نے میں کیا شک و شبہ ہے ،بلکہ یہی مذہب امام ابو یوسف و امام احمد و امام ابو حنیفہ علیہم الرحمۃ کا ایک روایت سے ثابت ہے، جیسا کہ شامی و غیرہ کتب فقہ میں لکھا ہے۔
مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ حنفی محدث احنافِ دیوبند لکھتے ہیں:
’’انی لم اجد حدیثاً صحیحاً او ضعیفاً یدل علی ان وقت الظہر الی ان یصیر الظل مثلیہ و عن الامام ابی حنیفۃ قولان‘‘۔ (آثار السنن عربی:ص۴۳؍ج۱)
’’ میں نے کوئی حدیث صحیح یا ضعیف ایسی نہیں پائی جس سے یہ ثابت ہو کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ،بلکہ امام ابو حنیفہ سے بھی اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں (ایک روایت دو مثل اور دوسری روایت ایک مثل کی )۔
مولانا قاضی رحمت اللہ صاحب راندیری حنفی دیوبندی فر ماتے ہیں:
’’والانصاف فی ھٰذا المقام ان احادیث المثل صریحۃ صحیحۃ و اخبار المثلین انما ذکرفی تو جیہ احادیث استنبط منھا ھٰذا الامروا لامر المستنبط لا یعارض الصریح ‘‘۔(کحل البصر فی ذکر وقت العصر:ص۹)
’’انصاف یہی ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل پر ہو نا احادیث صریحہ صحیحہ سے ثابت ہے اور جو روایات مثلین کی ہیں وہ غیر صریح ہیں۔صرف استنباطی طور سے ان روایات سے مثلین کو ثابت کیا جاتا ہے اور یہ (مسلم اصول ہے)کہ امر مستنبط، امر صریح کا معارض نہیں ہو سکتا ‘‘۔
معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت ہو جاتا ہے جیسا کہ اہل حدیث کا عمل ہے۔
No comments:
Post a Comment