سوالات کی نوعیت اور مفتی کے آداب و فرائض apr-june 2011 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, April 28, 2011

سوالات کی نوعیت اور مفتی کے آداب و فرائض apr-june 2011

حافظ ابن القیم الجوزےۃ رحمہ اللہ
سوالات کی نوعیت اور مفتی کے آداب و فرائض
مفتی کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ استفتا کا جواب دے اور ہر مسئلے میں کتاب و سنت کے احکام کو واضح کرے،وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ غیر واقعی سوالات کے جوابات سے دامن بچائے رکھے اور مسائل کی نفسیاتی سطح کا خصوصیت سے خیال رکھے۔ چنانچہ اگر یہ محسوس کرے کہ جواب سائل کی سطح ذہنی سے اونچا ہے یا اس کے بجائے روشنی اور تسکین کے، شکوک و شبہات کی جڑیں از حد گہری ہوں گی تو اس صورت میں بھی جواب میں خاموشی اختیار کر لینا جواب دینے سے کہیں بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک مرید کے سامنے ایک آیت کی تفسیر بیان کر نے سے گریز کیا،جس کے بارے میں انہیں شبہ ہوا کہ یہ جواب کو غلط معنی پہنائے گا۔
پہلا فائدہ:
سائلوں کے سوالات عموماً چار ہی قسم کے ہوتے ہیں۔ کسی پانچویں قسم کے نہیں ہوتے۔ اول یہ کہ کسی حکم کے بابت پوچھے کہ فلاں فلاں بات کا کیا حکم ہے؟ دوسرے یہ کہ کسی حکم کی دلیل دریافت کرے۔ تیسرے یہ کہ وجۂ دلالت پوچھے۔چوتھے یہ کہ جواب کے خلاف جو دلیل ہو اس کی نسبت سوال کرے۔حکم کی بابت جو سوال کر تا ہے ،اس وقت جس سے سوال کیا جاتا ہے اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ اس مسئلے کا اسے علم ہو،دوسرے یہ کہ اسے علم نہ ہو ۔اگر وہ جاہل ہے تو اسے بے علمی کے ساتھ فتویٰ دینا حرام ہے ۔اگر کسی نے ایسا کیا، تو اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہے اور سائل کا گناہ بھی۔اگر اسے اس مسئلے میں لوگوں کے اقوال تو معلوم ہیں ،لیکن یہ نہیں معلوم کہ ان میں ٹھیک قول اور صحیح فتویٰ کیا ہے ؟تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس میں علماء کا اختلاف ہے اور اگر ہو سکتا ہے تو اس اختلاف کو بھی بیان کر دے اور اگر وہ شخص ،جو سوال اس سے کیا گیا ہے، اس کے جواب کا علم رکھتا ہے تو اب سائل کی دو حالتیں ہیں ۔ایک تو یہ کہ اس پر عمل کا وقت آگیا ہے ۔معاملہ درپیش ہے،قضیہ موجود ہے اور حاجت پڑنے پر وہ سوال کے لیے نکلا ہے، تو مفتی پر ضروری ہے کہ فی الفور اسے جواب دے۔ایسی حاجت کے وقت اس کے سامنے حکم کا بیان نہ کر نا کسی طرح جائز نہیں،نہ تاخیر جائز ہے۔ دوسری حالت یہ کہ اس نے کسی ایسے واقعہ کا سوال کیا ہے جو ابھی تک واقع نہیں ہوا،یونہی فرضی سوال ہے تو جواب دینے والے پر اس کا جواب ضروری نہیں ،بلکہ سلف صالحین کا دستور تھا کہ جب ان سے کوئی سوال کیا جاتا تو وہ دریافت فرماتے کہ ایسا واقعہ ہوا بھی ہے؟ اگر خبر ملتی کہ نہیں ہوا تو وہ کوئی جواب نہ دیتے اور فرماتے بس ہمیں عافیت سے رہنے دو۔اس لیے کہ رائے سے فتویٰ دینا تو صرف ضرورت کے وقت ہی جائز ہے،ایسے ہی جیسے اضطرار کے وقت مردہ کھا لینا۔یہ حکم اس وقت ہے جب اس مسئلے میں کوئی آیت قرآنی یا حدیثِ نبوی ﷺ یا اجماع نہ ہو،اگر یہ ہو تو اس پر اس کی تبلیغ بقدرِ امکان ضروری ہے۔ کسی سے کوئی علمی مسئلہ پوچھا جائے اور وہ اسے چھپا لے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن آگ کی لگام چڑھائے گا ۔
ہاں! اگر فتویٰ دینے والا سائل کی شرارت سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کچھ نہ بولنا اچھا ہے بہ نسبت بولنے کے۔ اس کا جواب دینے میں فتنہ ابھرے گا ،تو بے شک اسے چپ رہنا جائز ہے کیوں کہ دو فسادوں میں سے ہلکا فساد یہی ہے،اسے برداشت کر کے بڑے فساد سے بچ جائے۔چنانچہ خود نبی ﷺ نے قریشیوں کے اسلام کے نئے زمانے کی وجہ سے اور اس خوف سے کہ کہیں یہ پھر مرتد نہ ہو جائیں،کعبے کو توڑکر ابراہیمی بنا پر بنا نا موقوف کر دیا ۔اسی طرح اگر سائل کی عقل کی کمی جواب کے سمجھنے سے قاصر نظر آئے اور جواب فتنے کا سبب بن جانے کا خوف ہو تو بھی جواب سے رُک جا نا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص ایک آیت کی تفسیر پوچھتا ہے،تو آپ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے میں تجھے بتلاؤں اور پھر تو اسے نہ مانے،اس سے انکار کر جائے ،چناں چہ آپ نے نہ بتلایا۔
جواب میں سائل کے اصل فائدہ کو مد نظر رکھنا:
قرآنِ کریم نے افتا کا جو حکیمانہ انداز مقرر کیا ہے،اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ ہر حالت میں جواب میں مستفتی کا فائدہ مد نظر رہنا چاہئے۔اگر فائدہ اس میں نظر آئے کہ سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا جائے ،تو پھر ٹھیک ٹھیک جواب دینا ہی مناسب ہے۔لیکن اگر مفتی محسوس کرے کہ اس سے مستفتی کو کوئی فائدہ نہیں پہونچے گا،یہ سوال دینی نقطۂ نگاہ سے غیر متعلق ہے، تو اس کے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ موضوع سے ہٹ کر ایسی باتوں کی نشاندہی کرے، جو در حقیقت سائل کے لیے نفع مند ہوں۔ جواب میں اس جزء کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ سائل کی حاجت کے پیش نظر کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔
دوسرا فائدہ:
مفتی کو یہ بھی جائز ہے کہ مستفتی کے سوال سے ہٹ کر جواب دے اور اسے وہ بتلائے جو اس کے اصلی جواب سے زیادہ نفع دینے والا ہو،بالخصوص اس وقت جب کہ اس کے سوال کا جواب بھی ضمناً اس میں آجا تا ہو بلکہ یہ تو مفتی کے پورے علم اور اعلیٰ کمال،بہترین سمجھ اور پوری خیر خواہی کی بات ہے۔ قرآن کریم میں ہے :’’لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ تو جواب دے کہ تم جو بھی بھلی چیز نکالو وہ ماں باپ کو دو،قرابت داروں کو دو،یتیموں کو دو،مسکینوں اور مسافروں کو دو،تم جو بھی نیکیاں کروگے، اللہ تعالیٰ اس سے واقف ہے‘‘۔(البقرۃ:۲۱۵)۔
دیکھیے سوال تھا کیا خرچ کریں؟ جواب دیا گیا کہاں خرچ کریں ؟اس لیے کہ صرف سوال کے جواب میں وہ فائدہ نہ تھا ،ساتھ ہی سوال کے جواب پر بھی تنبیہ ہو گئی اور دوسری آیت میں صاف فرمادیا کہ زائد از حاجت چیز جسے دینا گراں نہ گزرے۔اسی جیسا سوال جواب آیت:’’یسئلونک عن الاھلۃ‘‘ الخ۔(البقرۃ:۱۸۹)۔ میں ہے یعنی لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں سوال کر تے ہیں،تو جواب دے کہ یہ لوگوں کو حج کے لیے مقررہ وقت بتلانے کے لیے ہے ۔سوال یہ تھا کہ چاند بالکل ہلکا اور چھوٹا سا ظاہر ہو تا ہے پھر بتدریج بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ پورا ہو جاتا ہے،پھر گھٹنے لگتا ہے،اس کا سبب کیا ہے؟ جواب میں اس کی حکمت بیان ہوئی کہ بندوں کی مصلحت اور ان کے احوال اور معاش اور عبادت کے وقت کی تعیین اس سے ہوتی ہے۔
سوال کی دو شقیں ہو سکتی ہیں،ممکن ہے کہ سائلوں کا مقصود سبب دریافت کر نا ہو اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے حکمت و مصلحت ہی دریافت کہ ہو،تو پہلی شق پر تو اصلی جواب سے بہتر جواب دیا گیا،دوسری شق پر عین سوال کا جواب ہوا ان کے سوال کے لفظ دونوں باتوں کا احتمال رکھتے ہیں، انہوں نے پوچھا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ چاند بہت باریک دکھائی دیتا ہے پھربڑھتا جا تا ہے ،یہاں تک کہ پورا ہو جاتا ہے ۔پھر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔
جواب مفصل ہو نا چاہئے
تیسرا فائدہ:
مفتی پریہ بھی جائز ہے کہ سائل کے سوال سے زیادہ جواب دے۔ یہ بھی اس کی کامل خیر خواہی،پورا علم اور بہترین ارشاد ہے۔اس پر جو لوگ طعنہ زنی کر تے ہیں اس کی وجہ صرف ان کے علم کی ،ان کے احساس کی تنگی اور ان کی خیر خواہی کی قلت ہے۔حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے کہ جو شخص سائل کو اس کے سوال سے زیادہ جواب دے،پھر ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث بیان کی ہے کہ محرم کیا پہنے؟اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کر تا نہ پہنے ،عمامہ نہ باندھے ،پاجامہ نہ پہنے،جرابیں نہ پہنے،ہاں! اگر جو تیاں نہ ہوں تو ٹخنے سے نیچے تک کی جرابیں استعمال کر سکتا ہے ،اس سے بڑی ہوں تو اسے کاٹ دے۔خیال فرمائے کہ سوال یہ ہے کہ محرم کیا پہنے؟ جواب یہ ہے کہ کیا کیا نہ پہنے،ضمناً کیا پہنے؟اس کا جواب بھی ہو گیا اور ساتھ ہی اس سے زیادہ یہ بیان ہو گیا کہ کیا کیا نہ پہنے؟اس میں حکمت یہ ہے کہ نہ پہننے کی چیزیں تو گنتی کی ہیں اور پہننے کی چیزوں کی گنتی باوجود اپنی درازگی کے پھر بھی احاطے میں لانا مشکل ہے۔
پس دونوں قسم بیان فرمادیں۔ساتھ ہی جرابوں کا مسئلہ بھی تفصیل سے دونوں شقوں سمیت سمجھا دیا۔ ٹھیک اسی طرح جب نبی ﷺ سے سمندر کے پانی سے وضو کر نے کا مسئلہ دریافت کیا
گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔

No comments:

Post a Comment