خلیل الرحمٰن ندوی
مدرس: المعہد الاسلامی السلفی رچھا،بریلی
امام ابو داؤدؒ نے سنن ابی داؤد کے اندر حدیث نقل کی ہے :’’حدثنا عبد الرحمٰن بن بشر بن الحکم النیسا بوری اخبرنا موسی بن عبد العزیز اخبر نا الحکم بن أبان عن عکرمۃ عن بن عباس أن رسول اللہ ﷺ قال العباس بن عبد المطلب ’’یا عباس باعماہ الا أعطیک؟ الا امنحک؟ألا أحبوک؟ألا افعل بک عشر خصال؟ اذا انت فعلت ذٰلک غفر اللہ لک ذنبک اولہ و أخرہ قد بمہ و حدیثہ خطأہ و عمدہ صغیرہ و کبیرہ سرہ و علا نیتہ عشرخصال أن تصلی اربع رکعات تقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب و سورۃ فاذا فرغت من القرأۃ فی اول رکعۃ و انت قائم قلت سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر خمس عشرۃ مرّۃ ثم ترکع فتقولہا و انت راکع عشرا ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولھا عشرا ثم تھوی ساجد ا فتقولھاو انت ساجد عشراً ثم ترفع رأسک من السجود فتقولھا عشراً ثم تسجد فتقولھا عشرا ثم ترفع رأسک فتقولھا عشرا فذالک خمس و سبعون فی کل رکعۃ تفعل ذالک فی اربع رکعات ان استطعت ان تصلیھا فی کل یوم مرّۃ فا فعل فان لم تفعل ففی کل جمعۃ مرّۃ فان لم تفعل ففی کل شھرمرّۃ فان لم تفعل ففی کل سنۃ مرۃ فان لم تفعل ففی عمرک مرّۃ‘‘۔(بحوالہ عون المعبود،شرح سنن ابی داؤد ج۲جز ۳ ص:۱۲۶ حدیث نمبر ۱۲۹۳)
یعنی آپ ﷺ نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ اے چچا عباس رضی اللہ عنہ کیا میں آپ کی بہترین عطیہ اور تحفہ کی طرف رہنمائی نہ کردوں۔ اگر آپ اس کے مطابق عمل کریں گے، تو اللہ رب العالمین آپ کے دس طرح کے گناہوں کو بخش دے گا اور وہ دس طرح کے گناہ درج ذیل ہیں :
آپ کے اگلے اور پچھلے نئے اور پرانے گناہوں کو دھل دے گا، اسی طرح سے آپ سے سھواً یا عمداً کوئی غلطی ہوئی ہے یا کسی صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں یا وہ گناہ خلوت اور جلوت میں ہوئے ہوں سب کو اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔وہ عطیہ جو اتنی بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ آپ چار رکعت نماز پڑھیں ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھیں پھر جب آپ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ ہو جائیں تو رکوع میں جانے سے پہلے پندرہ مرتبہ ’’سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ‘‘پڑھیں پھر رکوع میں جائیں اور رکوع ہی کی حالت میں دس مرتبہ پھر انہیں کلمات کو دھرائیں پھر رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد بھی انہیں کلمات کا دس مرتبہ ورد کریں، اس کے بعد سجدہ میں جائیں اور سجدے کے اندر بھی انہیں کلمات کو دس مرتبہ دھرائیں پھر سجدہ سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ انہیں کلمات کو دھرائیں ،پھر دوسرے سجدہ میں جائیں اور اس میں بھی دس مرتبہ انہیں کلمات کو دھرائیں، پھر دوسرے سجدہ سے سر اٹھا نے کے بعد جلسۂ استراحت میں بھی دس مرتبہ انہیں کلمات کو دھرائیں، اس طرح ایک رکعت میں مجموعی طور پر یہ تسبیحات ۷۵؍پچھتر مرتبہ دھرائی جاتی ہیں۔ ایسے ہی پہلی رکعت کی طرح من و عن بقیہ اور رکعتوں میں بھی تسبیحات کے انہیں کلمات کو دھرائیں، اس طرح چار رکعتوں کے اندر تسبیحات کی مجموعی تعداد تین سو پہنچ جاتی ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے عم محترم اگر دن میں ایک مرتبہ پڑھنے کی استطاعت ہو تو ضرور ایسا کیجئے لیکن اگر ایسا کر نا ممکن نہ ہو، تو ہفتہ میں ایک مرتبہ پڑھا کیجئے اور ہفتہ میں بھی نہ ہو سکے تو مہینہ میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کیجئے اور اگر مہینہ میں بھی نہ ہو سکے: تو سال ہی میں ایک مرتبہ پڑھا کیجئے اور اگر سال میں بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کیجئے ۔
یہ ہے صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ حدیث کی روشنی میں؛ لیکن کچھ علماء نے صلوٰۃ التسبیح کی مشروعیت میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ صلوٰۃ التسبیح کے متعلق یہ حدیث ضعیف ہے۔ شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ صاحب رحمہ اللہ نے ’’مرعاۃ المفاتیح طباعت اولیٰ،ج۲ ص:۲۵۳‘‘ کے اندر بیان کیا ہے کہ ’’واعلم انہ اختلف کلام العلماء فی حدیث صلوٰۃ التسبیح و ضعفہ جماعۃ منھم العقیلی و ابن العربی والنووی فی شرح المہذب و ابن تیمےۃ و ابن عبد الھادی و المزنی والحافظ فی التلخیص ‘‘ یعنی علماء کی ایک جماعت نے صلوٰۃ التسبیح کی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، انہیں ضعیف قرار دینے والوں میں سے العقیلی،ابن العربی،ابن تیمیہ،ابن عبد الھادی اور مزنی ہیں اسی طرح امام نوویؒ نے بھی اس حدیث کو شرح المہذب کے اندر ضعیف قرار دیا ہے،اور حافظ ابن حجر ؒ نے بھی ’’التلخیص‘‘ میں اس کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس سلسلہ میں امام نوویؒ اور حافظ ابن حجر رحمھما اللہ دونوں کے قول کے اندر کھلا ہوا تضاد پایا جا تا ہے ۔امام نوویؒ نے شر ح المہذب کے اندر بیان کیا ہے کہ’’حدیثھا ضعیف و فی استحبابھا عندی نظر لان فیھا تغییر الھأۃ للصلوٰۃ المعروفۃ فینبغی أن لا تفعل و لیس حدیثھا ثابت‘‘ یعنی صلوٰۃ التسبیح کی حدیث ضعیف ہے اور میرے نزدیک صلوٰۃ التسبیح کے استحباب میں کلام ہے، اس لیے کہ صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ عام نمازوں کی حالت سے بدلاہوا ہے اور مناسب ہے کہ صلوٰۃ التسبیح نہ پڑھی جائے ،کیوں کہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے لیکن یہی امام نووی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب تہذیب الاسماء واللغات کے اندر فرماتے ہیں:’’قد جاء فی صلوٰۃ التسبیح حدیث حسن فی کتاب الترمذی و غیرہ وذکرہ المحاملی و غیرہ من اصحابنا وھی سنۃ حسنۃ‘‘۔ ( تحفۃ الاحوذی:ج۳ ص:۱۸۸ باب صلوٰۃ التسبیح )۔
یعنی صلوٰۃ التسبیح سے متعلق ترمذی و دیگر کتابوں میں حسن حدیث پائی جاتی ہے اور محاملی اور ان کے علاوہ ہمارے دیگر شوافع بھائی بھی کہتے ہیں کہ صلوٰۃ التسبیح یہ بہترین سنت ہے، اسی طرح صلوٰۃ التسبیح کے سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام میں بھی تضاد موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص کے اندر بیان کر تے ہیں :’’والحق ان طرقہ کلہا ضعیفہ و ان کان حدیث ابن عباس یقرب من شرط الحسن الا انہ شاذۃ شدۃ الفردےۃ فیہ و عدم المتابع والشاھد من وجہ معتبر و مخالفۃ ھےئتھا لھےءۃ باقی الصلوٰت و موسیٰ بن عبد العزیز و ان کان صادقا صالحاً ولا یحمل فیہ ھذا التفرد ‘‘۔ یعنی صلوٰۃ التسبیح کے متعلق جتنی حدیثیں ہیں سب ضعیف ہیں سوائے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے آنے والی حدیث تو یہ حسن کے شرط کے قریب ہے لیکن اس کے باوجود یہ حدیث شاذ ہے کیوں کہ اس حدیث کی سند میں تفرد پایا جا تا ہے اور کسی صحیح اور معتبر روایت سے اس کی متابعت نہیں ملتی ہے، مزید صلاۃ التسبیح کا طریقہ دیگر نمازوں سے مختلف بھی ہے اور اس حدیث کی سند میں ایک راوی موسی بن عبد العزیز ہیں، جو اگرچہ فی نفسہ صدوق اور صالح ہیں، لیکن اس طرح کا تفرد ان سے قبول نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن حافظ بن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الخصال المکفرۃ للذنوب المقدمۃ والمؤخرۃ‘‘ کے اندر بیان کر تے ہیں ’’رجال اسنادہ لا باس بھم، عکرمۃ احتج بہ البخاری والحکم صدوق و موسی بن عبد العزیز قال فیہ ابن معین لا اری بہ باسا و قال النسائی کذلک قال ابن المدینی فھٰذا الاسناد من شرط الحسن فان لہ شواھد تقویہ‘‘۔ (تحفۃ الاحوذی ج۲ ص:۳۸۸)
یعنی اس حدیث کی سند میں جتنے راوی ہیں ان کے بارے میں کوئی حرج نہیں وہ لائق استدلال ہیں ۔اس حدیث کی سند میں ایک راوی عکرمہ ہیں ،امام بخاری نے ان سے حجت پکڑی ہے اسی طرح ایک راوی حکم النیساپوری ہیں جو صدوق ہیں اور ایک راوی موسی بن عبد العزیز ہیں ، ابن معین ان کے بارے میں کہتے ہیں :کہ میں ان کے بارے میں کوئی حرج نہیں سمجھتاہوں اور اسی طرح کا جملہ امام نسائی ؒ نے بھی استعمال کیا ہے اور علی ابن مدینی کہتے ہیں کہ یہ سند حسن کی شرط پر ہے، مزید اس حدیث کے بہت سے شواھد ہیں جس سے حدیث کو تقویت مل جاتی ہے ۔اسی طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر سخت کلام کیا ہے اور اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی موسی بن عبد العزیز مجہول ہے لیکن ابن الجوزی رحمہ اللہ کی یہ بات بھی درست اور صحیح نہیں ہے اس لیے کہ یحیی بن معین اور امام نسائی رحمہما اللہ نے موسی بن عبد العزیز کی توثیق کی ہے اور جن کی توثیق یحیی بن معین اور امام نسائی رحمہما اللہ کر دیں ا س کی حالت بعد میں آنے والے لوگوں پر مجہول بھی رہ جائے، تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہونچتا ہے۔
یہ تھے وہ حضرات جو صلوٰۃ التسبیح کے متعلق آنے والی اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن ان کے علاوہ علماء کی ایک جماعت اس حدیث کو صحیح یا حسن ضرور قرار دیتی ہے ،انہیں میں سے جن لوگوں نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے درج ذیل ہیں:
(۱) ابوبکر الاجری،(۲) ابو محمد عبد الرحیم المصری،(۳) حافظ ابوالحسن المقدسی،(۴) ابو داؤد صاحب السنن،(۵) امام مسلم رحمہ اللہ صاحب الجامع الصحیح،(۶) حافظ صلاح الدین العلائی،(۷) خطیب بغدادی،(۸) حافظ ابن صلاح،(۹) امام سبکی،(۱۰) سراج الدین البلقینی،(۱۱)ابن مندۃ،(۱۲)امام حاکم،(۱۳)امام منذری،(۱۴) ابو موسی المدینی،(۱۵)امام زرکشی،(۱۶)امام نووی نے تہذیب الاسماء واللغات کے اندر(۱۷)ابو سعید السمعانی،(۱۸)حافظ ابن حجر نے الخصال المکفرۃ اور امالی الاذکار میں(۱۹)ابو منصور الدیلمی،(۲۰)امام بیہقی،(۲۱)امام دار قطنی اور دیگر لوگوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے(بحوالہ: مرعاۃ المفاتیح ص:۲۵۳)امام مسلم رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’لا بروی فیھا اسناد احسن من ھٰذا بہ‘‘ (عون المعبود ‘‘ص:۱۲۴ ج:۲جز ۴)۔ یعنی صلوٰۃ التسبیح سے متعلق سب سے بہترین سند یہی ہے، ابن شاہین ترغیب کے اندر کہتے ہیں :’’سمعت ابا بکر بن ابی داؤد یقول سمعت ابی یقول أصح حدیث فی صلوٰۃ التسبیح ھٰذا‘‘ (عون المعبود ‘‘۔ص:۱۲۴ ج۲ جز ۴)۔
ٍٍ یعنی ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے پنے والد کو فرماتے ہوئے سنا کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق سب سے صحیح حدیث یہی ہے، اس طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے :’’کان عبد اللہ ابن المبارک یصلیھا و تداولھا الصالحون بعضھم عن بعض و فیہ تقوےۃ للحدیث‘‘ ۔(عون المعبود:ج۲ ص:۱۲۴ج۲ جز ۴)
یعنی عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ بھی صلوٰۃ التسبیح کا اہتمام کر تے تھے اور سلف صالحین سے بھی صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ منقول ہے جس کی وجہ سے حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اسی طرح سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی آئی ہو ئی ہے جس میں موسیٰ بن عبد العزیز کی متابعت ابراہیم بن حکم نے کی ہے اور عکرمہ کی متابعت عطاء اور مجاھد نے کی ہے۔(بحوالہ عون المعبود :ج۲ص:۱۳۵ جز۴) اور صرف یہی نہیں کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق وارد ہو نے والی حدیث اکیلے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بلکہ بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی حدیث وارد ہوئی ہے ،مثلاً حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ،عبد اللہ بن عمرو، عبد اللہ بن عمر،علی بن ابو طالب، جعفررضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن جعفر اسی طرح ابو رافع، ام سلمۃ اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بھی یہ حدیث منقول ہے ۔(بحوالہ مرعاۃ المفاتیح:ص۲۵۲)
خلاصہ کلام یہ کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل کر نا بالکل درست اور جائز ہے ۔شیخ الحدیث عبید اللہ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’والحق عندی ان حدیث ابن عباس لیس بضعیف فضلاً عن ان یکون موضوعاً اوکذبا بل ھو حسن لا شک فی ذالک عندی فسندہ لا ینحط عن درجۃ الحسن بل لایبعدان یقال انہ صحیح لغیرہ بما ورد من شوا ھدہ و بعضھا لا بأس‘‘۔ یعنی میرے نزدیک عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ضعیف نہیں چہ جائے کہ وہ موضوع اور من گھڑت ہو بل کہ اس حدیث کے حسن ہو نے میں کوئی شک نہیں بل کہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ دیگر شواھد کی بنیاد پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے تو کوئی بعید بات نہیں ہے۔(مرعاۃ المفاتیح ج۲ ص: ۲۵۳)۔
مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی تحفۃ الاحوذی ج۲ کے اندر بیان کیا ہے:’’والظاھر عندی لا ینحط عن درجۃ الحسن‘‘ یعنی میرے نزدیک بھی یہ حدیث حسن کے درجہ سے کم نہیں ہے۔یہی علامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی نظریہ ہے کہ ’’صلوٰۃ التسبیح‘‘ سے متعلق حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث صحیح ہے۔
*****
مدرس: المعہد الاسلامی السلفی رچھا،بریلی
صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ اوراسکی شرعی حیثیت
نماز قرب الٰہی کا سب سے بہترین اور مؤثر ذریعہ ہے، اسی لیے آپ ﷺ فر مایا کر تے تھے :’’قرۃ عینی فی الصلوٰۃ‘‘ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور آپ ﷺ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی اہتمام کر تے تھے، ساتھ ہی ساتھ امت کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ انہیں نوافل نمازوں میں سے جن کی آپ ﷺ ترغیب دیتے تھے ایک نماز صلوٰۃ التسبیح ہے اور اس نماز کو صلوٰۃ التسبیح کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں کثرت سے تسبیحات پڑھی جاتی ہیں، آپ ﷺ نے اس نماز کی بڑی فضیلت بیان کی ہے اور فرمایا: کہ جو شخص اس نماز کو پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اگلے ،پچھلے، نئے،پرانے گناہوں کو مٹا دے گا خواہ وہ گناہ غلطی سے سرزد ہو تے ہو ںیا جان بوجھ کر، خواہ چھوٹے گناہ ہوں یا بڑے گناہ ہوں ،خواہ اس کا ارتکاب خلوت میں ہوا ہو یا جلوت میں، سب کو اللہ رب العالمین مٹادے گا۔اس لیے میں مناسب سمجھتا ہو ں کہ صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ حدیث کی روشنی میں ذکرکر کے اس سلسلہ میں علماء کے اقوال کی وضاحت کر دوں۔امام ابو داؤدؒ نے سنن ابی داؤد کے اندر حدیث نقل کی ہے :’’حدثنا عبد الرحمٰن بن بشر بن الحکم النیسا بوری اخبرنا موسی بن عبد العزیز اخبر نا الحکم بن أبان عن عکرمۃ عن بن عباس أن رسول اللہ ﷺ قال العباس بن عبد المطلب ’’یا عباس باعماہ الا أعطیک؟ الا امنحک؟ألا أحبوک؟ألا افعل بک عشر خصال؟ اذا انت فعلت ذٰلک غفر اللہ لک ذنبک اولہ و أخرہ قد بمہ و حدیثہ خطأہ و عمدہ صغیرہ و کبیرہ سرہ و علا نیتہ عشرخصال أن تصلی اربع رکعات تقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب و سورۃ فاذا فرغت من القرأۃ فی اول رکعۃ و انت قائم قلت سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر خمس عشرۃ مرّۃ ثم ترکع فتقولہا و انت راکع عشرا ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولھا عشرا ثم تھوی ساجد ا فتقولھاو انت ساجد عشراً ثم ترفع رأسک من السجود فتقولھا عشراً ثم تسجد فتقولھا عشرا ثم ترفع رأسک فتقولھا عشرا فذالک خمس و سبعون فی کل رکعۃ تفعل ذالک فی اربع رکعات ان استطعت ان تصلیھا فی کل یوم مرّۃ فا فعل فان لم تفعل ففی کل جمعۃ مرّۃ فان لم تفعل ففی کل شھرمرّۃ فان لم تفعل ففی کل سنۃ مرۃ فان لم تفعل ففی عمرک مرّۃ‘‘۔(بحوالہ عون المعبود،شرح سنن ابی داؤد ج۲جز ۳ ص:۱۲۶ حدیث نمبر ۱۲۹۳)
یعنی آپ ﷺ نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ اے چچا عباس رضی اللہ عنہ کیا میں آپ کی بہترین عطیہ اور تحفہ کی طرف رہنمائی نہ کردوں۔ اگر آپ اس کے مطابق عمل کریں گے، تو اللہ رب العالمین آپ کے دس طرح کے گناہوں کو بخش دے گا اور وہ دس طرح کے گناہ درج ذیل ہیں :
آپ کے اگلے اور پچھلے نئے اور پرانے گناہوں کو دھل دے گا، اسی طرح سے آپ سے سھواً یا عمداً کوئی غلطی ہوئی ہے یا کسی صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں یا وہ گناہ خلوت اور جلوت میں ہوئے ہوں سب کو اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔وہ عطیہ جو اتنی بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہ یہ ہے کہ آپ چار رکعت نماز پڑھیں ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھیں پھر جب آپ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ ہو جائیں تو رکوع میں جانے سے پہلے پندرہ مرتبہ ’’سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ‘‘پڑھیں پھر رکوع میں جائیں اور رکوع ہی کی حالت میں دس مرتبہ پھر انہیں کلمات کو دھرائیں پھر رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد بھی انہیں کلمات کا دس مرتبہ ورد کریں، اس کے بعد سجدہ میں جائیں اور سجدے کے اندر بھی انہیں کلمات کو دس مرتبہ دھرائیں پھر سجدہ سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ انہیں کلمات کو دھرائیں ،پھر دوسرے سجدہ میں جائیں اور اس میں بھی دس مرتبہ انہیں کلمات کو دھرائیں، پھر دوسرے سجدہ سے سر اٹھا نے کے بعد جلسۂ استراحت میں بھی دس مرتبہ انہیں کلمات کو دھرائیں، اس طرح ایک رکعت میں مجموعی طور پر یہ تسبیحات ۷۵؍پچھتر مرتبہ دھرائی جاتی ہیں۔ ایسے ہی پہلی رکعت کی طرح من و عن بقیہ اور رکعتوں میں بھی تسبیحات کے انہیں کلمات کو دھرائیں، اس طرح چار رکعتوں کے اندر تسبیحات کی مجموعی تعداد تین سو پہنچ جاتی ہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے عم محترم اگر دن میں ایک مرتبہ پڑھنے کی استطاعت ہو تو ضرور ایسا کیجئے لیکن اگر ایسا کر نا ممکن نہ ہو، تو ہفتہ میں ایک مرتبہ پڑھا کیجئے اور ہفتہ میں بھی نہ ہو سکے تو مہینہ میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کیجئے اور اگر مہینہ میں بھی نہ ہو سکے: تو سال ہی میں ایک مرتبہ پڑھا کیجئے اور اگر سال میں بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کیجئے ۔
یہ ہے صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ حدیث کی روشنی میں؛ لیکن کچھ علماء نے صلوٰۃ التسبیح کی مشروعیت میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ صلوٰۃ التسبیح کے متعلق یہ حدیث ضعیف ہے۔ شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ صاحب رحمہ اللہ نے ’’مرعاۃ المفاتیح طباعت اولیٰ،ج۲ ص:۲۵۳‘‘ کے اندر بیان کیا ہے کہ ’’واعلم انہ اختلف کلام العلماء فی حدیث صلوٰۃ التسبیح و ضعفہ جماعۃ منھم العقیلی و ابن العربی والنووی فی شرح المہذب و ابن تیمےۃ و ابن عبد الھادی و المزنی والحافظ فی التلخیص ‘‘ یعنی علماء کی ایک جماعت نے صلوٰۃ التسبیح کی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، انہیں ضعیف قرار دینے والوں میں سے العقیلی،ابن العربی،ابن تیمیہ،ابن عبد الھادی اور مزنی ہیں اسی طرح امام نوویؒ نے بھی اس حدیث کو شرح المہذب کے اندر ضعیف قرار دیا ہے،اور حافظ ابن حجر ؒ نے بھی ’’التلخیص‘‘ میں اس کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس سلسلہ میں امام نوویؒ اور حافظ ابن حجر رحمھما اللہ دونوں کے قول کے اندر کھلا ہوا تضاد پایا جا تا ہے ۔امام نوویؒ نے شر ح المہذب کے اندر بیان کیا ہے کہ’’حدیثھا ضعیف و فی استحبابھا عندی نظر لان فیھا تغییر الھأۃ للصلوٰۃ المعروفۃ فینبغی أن لا تفعل و لیس حدیثھا ثابت‘‘ یعنی صلوٰۃ التسبیح کی حدیث ضعیف ہے اور میرے نزدیک صلوٰۃ التسبیح کے استحباب میں کلام ہے، اس لیے کہ صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ عام نمازوں کی حالت سے بدلاہوا ہے اور مناسب ہے کہ صلوٰۃ التسبیح نہ پڑھی جائے ،کیوں کہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے لیکن یہی امام نووی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب تہذیب الاسماء واللغات کے اندر فرماتے ہیں:’’قد جاء فی صلوٰۃ التسبیح حدیث حسن فی کتاب الترمذی و غیرہ وذکرہ المحاملی و غیرہ من اصحابنا وھی سنۃ حسنۃ‘‘۔ ( تحفۃ الاحوذی:ج۳ ص:۱۸۸ باب صلوٰۃ التسبیح )۔
یعنی صلوٰۃ التسبیح سے متعلق ترمذی و دیگر کتابوں میں حسن حدیث پائی جاتی ہے اور محاملی اور ان کے علاوہ ہمارے دیگر شوافع بھائی بھی کہتے ہیں کہ صلوٰۃ التسبیح یہ بہترین سنت ہے، اسی طرح صلوٰۃ التسبیح کے سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام میں بھی تضاد موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص کے اندر بیان کر تے ہیں :’’والحق ان طرقہ کلہا ضعیفہ و ان کان حدیث ابن عباس یقرب من شرط الحسن الا انہ شاذۃ شدۃ الفردےۃ فیہ و عدم المتابع والشاھد من وجہ معتبر و مخالفۃ ھےئتھا لھےءۃ باقی الصلوٰت و موسیٰ بن عبد العزیز و ان کان صادقا صالحاً ولا یحمل فیہ ھذا التفرد ‘‘۔ یعنی صلوٰۃ التسبیح کے متعلق جتنی حدیثیں ہیں سب ضعیف ہیں سوائے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے آنے والی حدیث تو یہ حسن کے شرط کے قریب ہے لیکن اس کے باوجود یہ حدیث شاذ ہے کیوں کہ اس حدیث کی سند میں تفرد پایا جا تا ہے اور کسی صحیح اور معتبر روایت سے اس کی متابعت نہیں ملتی ہے، مزید صلاۃ التسبیح کا طریقہ دیگر نمازوں سے مختلف بھی ہے اور اس حدیث کی سند میں ایک راوی موسی بن عبد العزیز ہیں، جو اگرچہ فی نفسہ صدوق اور صالح ہیں، لیکن اس طرح کا تفرد ان سے قبول نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن حافظ بن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الخصال المکفرۃ للذنوب المقدمۃ والمؤخرۃ‘‘ کے اندر بیان کر تے ہیں ’’رجال اسنادہ لا باس بھم، عکرمۃ احتج بہ البخاری والحکم صدوق و موسی بن عبد العزیز قال فیہ ابن معین لا اری بہ باسا و قال النسائی کذلک قال ابن المدینی فھٰذا الاسناد من شرط الحسن فان لہ شواھد تقویہ‘‘۔ (تحفۃ الاحوذی ج۲ ص:۳۸۸)
یعنی اس حدیث کی سند میں جتنے راوی ہیں ان کے بارے میں کوئی حرج نہیں وہ لائق استدلال ہیں ۔اس حدیث کی سند میں ایک راوی عکرمہ ہیں ،امام بخاری نے ان سے حجت پکڑی ہے اسی طرح ایک راوی حکم النیساپوری ہیں جو صدوق ہیں اور ایک راوی موسی بن عبد العزیز ہیں ، ابن معین ان کے بارے میں کہتے ہیں :کہ میں ان کے بارے میں کوئی حرج نہیں سمجھتاہوں اور اسی طرح کا جملہ امام نسائی ؒ نے بھی استعمال کیا ہے اور علی ابن مدینی کہتے ہیں کہ یہ سند حسن کی شرط پر ہے، مزید اس حدیث کے بہت سے شواھد ہیں جس سے حدیث کو تقویت مل جاتی ہے ۔اسی طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر سخت کلام کیا ہے اور اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی موسی بن عبد العزیز مجہول ہے لیکن ابن الجوزی رحمہ اللہ کی یہ بات بھی درست اور صحیح نہیں ہے اس لیے کہ یحیی بن معین اور امام نسائی رحمہما اللہ نے موسی بن عبد العزیز کی توثیق کی ہے اور جن کی توثیق یحیی بن معین اور امام نسائی رحمہما اللہ کر دیں ا س کی حالت بعد میں آنے والے لوگوں پر مجہول بھی رہ جائے، تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہونچتا ہے۔
یہ تھے وہ حضرات جو صلوٰۃ التسبیح کے متعلق آنے والی اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن ان کے علاوہ علماء کی ایک جماعت اس حدیث کو صحیح یا حسن ضرور قرار دیتی ہے ،انہیں میں سے جن لوگوں نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے درج ذیل ہیں:
(۱) ابوبکر الاجری،(۲) ابو محمد عبد الرحیم المصری،(۳) حافظ ابوالحسن المقدسی،(۴) ابو داؤد صاحب السنن،(۵) امام مسلم رحمہ اللہ صاحب الجامع الصحیح،(۶) حافظ صلاح الدین العلائی،(۷) خطیب بغدادی،(۸) حافظ ابن صلاح،(۹) امام سبکی،(۱۰) سراج الدین البلقینی،(۱۱)ابن مندۃ،(۱۲)امام حاکم،(۱۳)امام منذری،(۱۴) ابو موسی المدینی،(۱۵)امام زرکشی،(۱۶)امام نووی نے تہذیب الاسماء واللغات کے اندر(۱۷)ابو سعید السمعانی،(۱۸)حافظ ابن حجر نے الخصال المکفرۃ اور امالی الاذکار میں(۱۹)ابو منصور الدیلمی،(۲۰)امام بیہقی،(۲۱)امام دار قطنی اور دیگر لوگوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے(بحوالہ: مرعاۃ المفاتیح ص:۲۵۳)امام مسلم رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’لا بروی فیھا اسناد احسن من ھٰذا بہ‘‘ (عون المعبود ‘‘ص:۱۲۴ ج:۲جز ۴)۔ یعنی صلوٰۃ التسبیح سے متعلق سب سے بہترین سند یہی ہے، ابن شاہین ترغیب کے اندر کہتے ہیں :’’سمعت ابا بکر بن ابی داؤد یقول سمعت ابی یقول أصح حدیث فی صلوٰۃ التسبیح ھٰذا‘‘ (عون المعبود ‘‘۔ص:۱۲۴ ج۲ جز ۴)۔
ٍٍ یعنی ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے پنے والد کو فرماتے ہوئے سنا کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق سب سے صحیح حدیث یہی ہے، اس طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے :’’کان عبد اللہ ابن المبارک یصلیھا و تداولھا الصالحون بعضھم عن بعض و فیہ تقوےۃ للحدیث‘‘ ۔(عون المعبود:ج۲ ص:۱۲۴ج۲ جز ۴)
یعنی عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ بھی صلوٰۃ التسبیح کا اہتمام کر تے تھے اور سلف صالحین سے بھی صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ منقول ہے جس کی وجہ سے حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اسی طرح سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی آئی ہو ئی ہے جس میں موسیٰ بن عبد العزیز کی متابعت ابراہیم بن حکم نے کی ہے اور عکرمہ کی متابعت عطاء اور مجاھد نے کی ہے۔(بحوالہ عون المعبود :ج۲ص:۱۳۵ جز۴) اور صرف یہی نہیں کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق وارد ہو نے والی حدیث اکیلے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بلکہ بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی حدیث وارد ہوئی ہے ،مثلاً حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ،عبد اللہ بن عمرو، عبد اللہ بن عمر،علی بن ابو طالب، جعفررضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن جعفر اسی طرح ابو رافع، ام سلمۃ اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بھی یہ حدیث منقول ہے ۔(بحوالہ مرعاۃ المفاتیح:ص۲۵۲)
خلاصہ کلام یہ کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل کر نا بالکل درست اور جائز ہے ۔شیخ الحدیث عبید اللہ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’والحق عندی ان حدیث ابن عباس لیس بضعیف فضلاً عن ان یکون موضوعاً اوکذبا بل ھو حسن لا شک فی ذالک عندی فسندہ لا ینحط عن درجۃ الحسن بل لایبعدان یقال انہ صحیح لغیرہ بما ورد من شوا ھدہ و بعضھا لا بأس‘‘۔ یعنی میرے نزدیک عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ضعیف نہیں چہ جائے کہ وہ موضوع اور من گھڑت ہو بل کہ اس حدیث کے حسن ہو نے میں کوئی شک نہیں بل کہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ دیگر شواھد کی بنیاد پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے تو کوئی بعید بات نہیں ہے۔(مرعاۃ المفاتیح ج۲ ص: ۲۵۳)۔
مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی تحفۃ الاحوذی ج۲ کے اندر بیان کیا ہے:’’والظاھر عندی لا ینحط عن درجۃ الحسن‘‘ یعنی میرے نزدیک بھی یہ حدیث حسن کے درجہ سے کم نہیں ہے۔یہی علامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی نظریہ ہے کہ ’’صلوٰۃ التسبیح‘‘ سے متعلق حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث صحیح ہے۔
*****
السلام علیکم اسی طرح دوسری نوافل پر بھی لکھے
ReplyDelete