اعجاز شفیق ریاضی
استاذ : المعہد ،رچھا،بریلی
قتل نفس ایک سنگین جرم
قال تعالیٰ:(۔۔۔وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً*وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ عُدْوَاناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَاراً وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللّہِ یَسِیْراً)(نساء:۲۹۔۳۰)
ترجمہ: اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقیناًاللہ تم پر نہایت مہربان ہے اور جو شخص ظلم وسرکشی کی بنیاد پر ایسا کرے گا ،تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ کے لیے بڑا آسان ہے۔
تشریح: اسلام میں جان بالخصوص انسانی جان کی بڑی اہمیت وقدر ومنزلت ہے۔ یوں تو بلاوجہ کسی جانور کو ماردینا بھی مستحسن نہیں؛ لیکن انسانی جان کا اپنا الگ مقام ہے۔ کسی انسانی جان کو ضائع کردینا اللہ رب العزت کو قطعاًپسند نہیں بلکہ اس کی نگاہ میں یہ سخت معیوب اور قابل مواخذہ جرم ہے، جس پر اس نے مختلف انداز کی وعیدیں سنائی ہیں اور ہرا س جذبہ کی حوصلہ شکنی کی ہے،جو قتل نفس تک لے جاسکتاہے، اس کے لیے تمام ضروری ہدایات بیان کیں، قوانین وضع کئے اور احکامات صادر کئے، جن سے حفظ جان کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
سردست یہ ملاحظہ کریں کہ قرآن نے قتل نفس کی تمام شکلوں کو ممنوع قرار دیتے ہوئے ان کی سخت مذمت کی ہے، چنانچہ کسی بھی انسان کے بلاوجہ وناحق قتل کو تمام انسانیت کا قتل قراردیا ۔ ارشاد ہے ’’جس نے کسی انسان کو ناحق یا زمین میں فساد پھیلانے کی خاطر قتل کردیا ،تو سمجھو اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک انسان کو مرنے سے بچالیا ،تو سمجھو اس نے سارے انسانوں کو حیات بخش دی۔(مائدہ:۳۲)
کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردینے پر جہنم میں مدت دراز کے سخت عذاب کا فرمان صادر کیا۔ ارشاد ہوا:’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے گا تواس کا بدلہ جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اور اس کی لعنت بھی اور اس کے لیے اللہ نے بڑا عذاب تیار کررکھا ہے‘‘۔(نساء:۹۳)
عام حالات اور دیگر گناہوں میں خطاونسیان معاف ہے۔ مگر قتل مسلم کی سنگینی دیکھئے کہ اس سلسلے میں خطاپر بھی بازپرس ہے اور نہ صرف یہ کہ باز پرس بلکہ سزابھی۔ قرآن کہتاہے: ’’اور اگر کسی نے کسی مسلمان کو نہ چاہتے ہوئے بھی مار دیا تو (بطورسزا) ایک غلام آزاد کرے اور مقتول کے ورثاء کو دیت اداکرے‘‘۔(نساء :۹۲) اور یہ دیت سواونٹ ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ اپنی خود کی اولاد کو ماردینا بھی اسلام میں حرام اور قابل مواخذہ جرم ہے، (وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُم)کے الفاظ میں اس فعل مذموم کی ممانعت ہے تو (وَإِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُءِلَتْ)میں کڑے حساب کی دھمکی، جب کہ(قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُواْ أَوْلاَدَہُمْ سَفَہاً بِغَیْْرِ عِلْمٍ)کا ربانی حکم ایسے ظالموں کے خائب وخاسر ہونے کا معلن ہے۔
اسلام کسی دوسرے کی تو کیا خود اپنی جان لینے کا بھی اختیار نہیں دیتا اور نہ اس کی اجازت دیتاہے بلکہ صاف الفاظ میں یہ سمجھا دیتاہے کہ’’ اپنے آپ کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر بڑا مہربان ہے اور جو ظلماً ایسا کرے گا تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے اور یہ اللہ کے لیے بڑا آسان ہے‘‘۔ (نساء: ۲۹۔۳۰)
بہر حال اسلام کسی انسان کو ناحق تلف کرنے یا مارنے کی اجازت نہیں دیتا،غورکریں جب خود کی جان اور خود کی اولاد کو ماردینے کی اجازت نہیں تو کسی اور کو ماردینے کا حق اسلام کیوں کردے سکتاہے۔ لہٰذا بے حد احتیاط کی ضرورت ہے ،قوت برداشت پیداکریں، غصہ پر کنٹرول اور عفو ودرگذر کی خواپنائیں اور احترام نفس کے عادی بنیں ۔ اللہ صحیح سمجھ عطاکرے۔
No comments:
Post a Comment