شیخ عبدالحمید رحمانی ؍رحمہ اللہ
تنظیم کی اہمیت
تحریکوں کی زندگی میں نظم واجتماعیت کی وہی اہمیت ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے۔ تحریک ومشن کے عظیم مقاصد اگر اس کی روح ہوتے ہیں تو تنظیم اس کی بقا کا سب سے اہم ذریعہ ہوتی ہے اور تنظیم کی یہ اہمیت نہ صرف یہ کہ حق وصداقت پر مبنی تحریکات واقوام کے لیے ہے بلکہ ہر تحریک وملت، خواہ وہ حق ہو یا باطل، کی موت وحیات اور ترقی وتنزل کے جو اہم اسباب وعلل کتب سماویہ میں بیان کئے گئے ہیں اور ہرانسانی سوسائٹی نے جنہیں قبول کیا ہے ان میں تنظیم اور اجتماعیت کو سب سے اہم مقام حاصل ہے۔ خارجیوں کی مٹھی بھر طاقت اور باطنیوں نیز حشاشین کے انگلیوں پر گنے جانے والے افراد اپنی مضبوط تنظیم ہی کی بدولت مسلمانوں کے لیے مدت دراز تک درد سربنے رہے اور آج یہودیوں کی معمولی سی تعداد پوری عرب دنیا کو اپنی تنظیمی روح کی وجہ سے پریشان کئے ہوئے ہے۔ قادیانی ، بہائی اور اسماعیلی آج بھی دنیا کی نظر میں اپنی تنظیم ہی کی وجہ سے بڑا وزن رکھتے ہیں۔ کمیونسٹوں کی پوری دنیا میں مٹھی بھر تعداد ہے لیکن وہ اپنی مضبوط تنظیم کی وجہ سے پوری دنیا کے امن وسلامتی کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، ماسونیت اور صہیونیت کی تنظیمی قوت سے کون واقف نہیں۔
ہندوستان میں بعض فسطائی جماعتیں معمولی سے معمولی عددی طاقت کے باجود اپنی مضبوط تنظیم کی وجہ سے پورے ہندوستان کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔
خود مسلمان جب منظم تھے تو انہوں نے تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ قیصر وکسریٰ کی مضبوط قوتیں، یورپ میں اسپین کی ظالم وجابر حکومت اور پوری عیسائیت کا لاؤلشکر بھی اسلامی قوتوں کے سامنے ان کی مضبوط تنظیم کی وجہ سے شکست وریخت کا شکار ہوکر رہ گیا۔ خود ہماری تحریک اہل حدیث ہند کے جانبازوں نے ماحول کی پوری مخالفت کے باوجود انگریزوں کی نیند حرام کردی اور انہیں اس قدر حواس باختہ کیا کہ انگریزکو ہندوستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنی جائے پناہ میں واپس جانا پڑا اور صرف یہی نہیں بلکہ ہماری اجتماعیت وتنظیم نے ملک کو اس کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صحیح اسلام سے آشنا کیا، توحید خالص کی روشنی دکھائی، اتباع سنت کا جذبہ پیداکیا، جمود وتقلید کی صدیوں سے پڑی ہوئی دبیز تہوں کو چاک کیا۔
اور آج بھی بعض اسلامی جمعیتیں اپنے ارکان اور ہمدردوں کی قلت کے باوجود اپنی مضبوط دینی تنظیم کی وجہ سے نوجوان اور پڑھے لکھے طبقہ کو کافی متاثر کررہی ہیں اور ان کے طریق فکر سے کچھ اختلافات کے باوجود ہمیں ان کی مضبوط تنظیم اور بعض اہم خدمات کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ تنظیم ، اجتماع اور ائتلاف کی اس اہمیت کا اس سے اندازہ کیجئے کہ قرآن کریم نے مختلف مراحل پر قوموں اور ملتوں کی سعادت وفیروزمندی کے لیے اسے نہایت اہم چیز قراردیا ہے اور اسے اپنی عظیم نعمتوں میں شمار کیا ہے۔ سور ۂ آل عمران میں ہے:(وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً )(آل عمران:۱۰۳) سب مل جل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور جداجدا نہ ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نعمت عطافرمائی ہے اس کی یاد سے غافل نہ ہو۔ تمہارا حال یہ تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہورہے تھے، لیکن اس کے فضل سے ایسا ہواکہ بھائی بھائی بن گئے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو تین اہم امور کی جانب متوجہ کیا گیا ہے:
(۱) اللہ کے دین اور اس کے تمام اصول وعقائد اور تعلیمات کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا؛ انہیں حرز جان بنانا۔
(۲) دین اور اس کی تعلیمات کی بابت پورے نظم ، اجتماعیت اور ائتلاف کا ثبوت بہم پہنچانا۔
(۳) افتراق وانتشار اور تشتت سے یکسر بچنا کہ یہ دین کے لیے سم قاتل ہے۔
آیت میں تین اہم اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے جو اپنے اندر بہت اہم معانی رکھتی ہیں۔ اس لیے ان کی ہلکی سی توضیح بہت مفید اور مناسب ہوگی۔
ایک لفظ ’جمیعاً‘ ہے جو ’جمع‘ سے ماخوذ ہے، ’اجتماع‘ کے معنی علماء لغت نے یہ بتائے ہیں : ضم الشئی بتقریب بعضہ من بعض‘ یعنی کچھ متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب کرکے انہیں باہم اکٹھا کردینا۔
اور دوسراکلمہ ’ألف‘ ہے جو ’تألیف‘ سے ہے۔ ’تألیف‘ اور ’ائتلاف‘ کے معنی اہل لغت کے بیان کے مطابق یہ ہیں:’’ماجمع من أجزاء مختلفۃ ورتب ترتیبا قدم فیہ ما حقہ أن یقدم وأخر فیہ ما حقہ أن یؤخر‘‘یعنی مختلف چیزوں کا اس ڈھنگ اور ترتیب سے اکٹھا ہوجانا کہ جس کا حق تقدم اور اولیت کا ہے اسے تقدم اور اولیت ملے اور جس کا حق تاخرکا ہواسے تاخر ملے، تاکہ مکمل تناسب وانسجام ہو۔
اور تیسرا لفظ ان دونوں کے مقابل اور ضد کے طورپر استعمال کیا گیا ہے اور اس سے روکا گیا ہے اور وہ ہے ’تفرق‘ اس کے معنی ’انتشار‘ ،’تشتت‘اور الگ الگ ہوجانے کے ہیں۔
آیت کا مقصود یہ ہواکہ مسلمانوں کو باہم متفق ومتحد، منظم ومجتمع رہنا چاہیے تاکہ ان میں مکمل انسجام وتقارب اور ترتیب وتنسیق پائی جائے اور انہیں باہم متفرق وپراگندہ ہونے سے بچنا چاہئے، تاکہ وہ علیحدگی وبیگانگی کے شکار نہ ہوجائیں۔
واضح رہے کہ اجتماع وجماعت سے کثرت ہر گز مراد نہیں ہے۔ عددی کثرت توبازاروں میں بھی ہوتی ہے، لیکن وہاں نہ عقائد میں وحدت ہوتی ہے نہ افکار وخیالات اور رجحانات میں ہم آہنگی۔ اس لیے اسلام کا مطلوب ازدحام اور بھیڑ اور غیر مرتب وغیرمنظم کثرت ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصود ومطلوب تووحدت وانسجام اور نظم وضبط ہے۔ چاہے تعداد کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو۔
ایک طرف تواللہ تعالیٰ نے نظم وضبط کو اپنی نعمت قراردیا ہے اور دوسری جانب تفرق وتشتت، انتشار واختلاف کو عذاب کہاہے۔ ارشاد ہے:( وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون)(آل عمران:۱۰۳) تم لوگ آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے۔اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتاہے۔ شاید کہ تم ان سے ہدایت حاصل کرو۔
نبی اکرم ا نے بھی مختلف مواقع پر اتفاق واتحاد اور نظم وضبط کا حکم دیا ہے اور تفرق وانتشار کی شدید مذمت کی ہے ۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:’’علیکم بالجماعۃ وایاکم والفرقۃ فان الشیطان مع الواحد وھو من الاثنین أبعد‘‘۔(سنن ترمذی)جماعت کے ساتھ رہو اور اختلاف سے بچو کیوں کہ جب کوئی الگ ہوجاتاہے تو شیطان اس کا ساتھی بن جاتاہے۔ دو آدمی بھی مل کر رہیں توشیطان ان سے دور رہتاہے۔ جماعت سے علیحدگی کو آپ نے جاہلیت سے تعبیر فرمایا ہے اور امیر جب تک صلاۃ قائم کرے اس کی اطاعت فرض قراردی گئی ہے۔ چاہے وہ غیر مستحق، فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح تنظیم واجتماعیت کی روح برقرار رکھنے کے لیے صلاۃ باجماعت فرض کی گئی۔ صفوں کے برابر اور سیدھی رکھنے کا حکم دیا گیا۔ جمعہ ، عیدین اور حج مشروع کئے گئے جو اجتماعیت کی عملی تفسیر یں ہیں۔
ایک مرتبہ نبی اکرم ا نے مسلمانوں کے نظم، اتحاد وانسجام کی تصویر درج ذیل الفاظ میں کھینچی: مثل المؤمنین فی توادھم وتعاطفھم کمثل الجسد الواحد اذااشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسھر والحمی‘‘۔ (صحیح بخاری ومسلم) اور ’’المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا‘‘(صحیح بخاری ومسلم)باہمی محبت وشفقت میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی ہے کہ جب اس کے کسی بھی عضو میں درد ہو تو سارا جسم اس کو محسوس کرتااور تپ آلود ہوجاتاہے۔
اور ’ان کی مثال دیوار کی سی ہے کہ اس کا بعض حصہ دوسرے کو تقویت اور سہارادیتاہے‘۔
مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند تقریباً پون صدی پرانا تبلیغی واصلاحی ادارہ ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے کچھ تنظیمی اصول ومبادی ہیں جن پر چلتے ہوئے جماعت نے اسلام اور مسلمانوں کی عظیم الشان خدمات انجام دیں ہیں۔
جماعت کے افراد میں فکر وعمل کی پوری قوتیں موجود ہیں۔انہوں نے تقسیم کے بعد بھی ہندوستان میں ہر اسلامی پروگرام اور رفاہی کام نیز اجتماعی جدو جہد میں بھر پورحصہ لیا ہے۔ دینی تعلیمی کونسل، مجلس تحقیقات شرعیہ، مسلم مجلس مشاورت سے لے کر فرقہ وارانہ فسادات کے ریلیف فنڈ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مسلم پرسنل لا، اقلیتی حقوق اور دوسرے مشترک دینی وملی مسائل میں انہوں نے پوری قوت ونشاط کا ثبوت دیاہے۔
لیکن اس ادارہ کی تنظیمی قوت میں ناقابل تصور حد تک کمزوری پیداہوچکی ہے اور اختلاف وانتشار کے باعث جماعتی ساکھ گرچکی ہے، حتی کہ ہمارے مخلص وباحمیت افراد مشترک ملی مسائل میں جو اہم اور شاندار کارنامے انجام دیتے ہیں ہماری اجتماعی کمزوری کے باعث ان کا کریڈٹ بھی دوسروں کو مل جاتاہے جو ہماری جماعتی زندگی کے لیے ایک حادثہ ہے اور جب تک جماعت کے افراد اپنے ذاتی ومقامی اغراض سے بلند ہوکر جماعت کے اعلیٰ مقاصد کی خاطر مکمل قربانی نہ دیں گے تب تک تنظیمی روح کادوبارہ بیدار ہونا محال ہے۔
کسی بھی تحریک کے افراد کی عددی قوت، علمی بلندی، فکری پختگی، مالی بہتری اور دوسری اعلیٰ صلاحیتیں اسی وقت اس تحریک کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں جب وہ نظم وضبط اور پوری ہم آہنگی کے ساتھ اجتماعیت کی روح سے سرشار ہوکر جماعت کے جسم میں مناسب جگہ پر ایک عضوکی طرح فٹ ہوجائیں اور تحریک کا ہر فرد اپنی قوت کواللہ کی امانت سمجھتے ہوئے جماعت کی ترقی کی راہ میں صرف کرنا اپنے لیے باعث عزت وفخر سمجھے۔
ہماری جماعت کی تنظیمی روح جس اضمحلال وضعف کا شکار ہوچکی ہے اس کا ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہئے اور از سر نو جماعتی تنظیم کے لیے ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment