مولانا ابوالکلام آزاد ؍رحمہ اللہ
ہجرت اور سنہ ہجری کا آغاز(۱)
واقعہ ہجرت کی عظمت: آج جب کہ یہ سطریں لکھ رہاہوں ، محرم کی تیرہویں تاریخ ہے۔ پورے تیرہ دن اس واقعے پر گزرچکے ہیں کہ پچھلا ہجری سال ختم ہوچکا اور نیا سال شروع ہوچکا ہے لیکن ہزاروں لاکھوں مسلمانوں میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جس نے غورکیا ہوگا کہ اس سالانہ اختتام وآغاز میں تاریخ عالم کے کیسے عظیم اور انقلاب انگیز واقعے کی یاد پوشیدہ ہے؟ وہ عظیم واقعہ، جس کی یاد آوری سے بڑھ کر تاریخ اسلام کے کسی بھی واقعے میں ہمارے لیے عبرت کی عظمت اور موعظت کی سرچشمگی نہیں تھی، مگر جس واقعے سے بڑھ کر تاریخ اسلام کا کوئی بھی واقعہ ہماری یاد داشت سے دور اور ہمارے دل کی اثر پذیریوں سے مہجور نہیں ہوگیا۔
جماعتی حافظہ اور اس کا مزاج: انفرادی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے اخلاق اور سیرۃ (کیریکٹر) کا اندازہ اس کے حافظے کی رفتارسے کرلیا جاسکتاہے۔ ایک نیک سیرت آدمی کے حافظے میں غیرضروری اور بری باتوں کی یادداشت کے لیے کوئی جگہ نہیں نکل سکتی، بلکہ ضروری اور اچھی باتیں ہی یاد رکھ سکتا ہے۔
یہی حال جماعتوں اور قوموں کے دماغ کا بھی ہے۔ ان کے ادبار وتنزل کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ جماعتی حافظے کا مزاج بالکل الٹ جاتاہے، جوباتیں یادر کھنی چاہئیں، وہ اس طرح بھلادی جاتی ہیں کہ بار بار یاد دلانے پر بھی یاد نہیں آتیں اور جوباتیں بھلادینی چاہئیں، وہ نہ صرف یاد رکھی جاتی ہیں بلکہ ان کی یاد آوریوں کا ایسا اہتمام کیا جاتاہے کہ بھلانے کی کتنی ہی کوششیں کی جائیں، کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں!
صدراول کے مسلمان اور موجودہ مسلمان: صدراول کے مسلمانوں کی مذہبی اور اجتماعی زندگی سے موجودہ عہد کے مسلمانوں کی زندگی کا مقابلہ کرو تو اس حقیقت کی سب سے واضح مثال سامنے آجائے گی۔ اس وقت مسلمان اٹھتے بیٹھتے جو باتیں یاد رکھاکرتے تھے، آج کسی کو ان کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا اور جو باتیں آج کل بے شمار تقریبوں، تہواروں، یادگاروں اور اجتماعوں کے ذریعے یاد رکھی جاتی ہیں، یہ اس وقت کسی مسلمان کے وہم وگمان میں بھی نہیں گزری ہوں گی، اس وقت ان کا حافظہ صرف وہی چیزیں یاد رکھنی چاہتاتھا، جن کی یاد داشت میں ان کی قومی زندگی کے لیے عبرت وموعظت تھی۔ آج ہماراحافظہ صرف وہی باتیں یاد رکھنا چاہتاہے جن کی یادداشت میں قومی زندگی کے لیے غفلت واعراض ہے۔ وہ (صدراول کے مسلمان) ان چیزوں کو بھول نہیں سکتے تھے، جنہیں یاد رکھنا چاہیے۔ ہم ان چیزوں کو بھلا نہیں سکتے، جنہیں ہمیشہ کے لیے بھلا دینا چاہیے؛
سارت مشرقۃ وسرت مغرب شتان ہیں مشرق ومغرب
فتح مندیوں کا بیج: تاریخ عالم کا یہ عظیم واقعہ جس کی یاد سال کے اس اختتام وآغاز میں پوشیدہ ہے۔ ہجرت نبوی کا واقعہ ہے، کیوں کہ پہلی محرم سے نیا اسلامی سال شروع ہوتاہے اور اس کی بنیاد واقعہ ہجرت پر رکھی گئی ہے۔ ہرسال جب ۳۰؍ذوالحجہ کا دن ختم ہوتااور پہلی محرم کا چاند طلوع ہوتاہے، تو وہ اس عظیم واقعے کی یاد ہمارے دلوں میں تازہ کردینی چاہتاہے۔ یہ فی الحقیقت اس واقعے کی ایک جاری وقائم یادگار ہے۔
یہ دنیا کی تمام قوموں کی یادگاروں کی طرح قوت کی کامرانیوں کی یادگار نہیں، بلکہ کمزوری کی فتح مندیوں کی یادگار ہے۔یہ اسباب ووسائل کی فراوانیوں کی یادگار نہیں، بے سروسامانیوں کی کامیابیوں کی یادگار ہے، یہ طاقت اور حکومت کے جاہ و جلال کی یادگار نہیں، محکومی وبے چارگی کے ثبات واستقلال کی یادگار ہے۔ یہ فتح مکہ کی یادگار نہیں، جسے دس ہزار تلواروں کی چمک نے فتح کیا تھا،یہ فتح مدینہ کی یادگار ہے، جسے تلواروں کی چمک نے نہیں، بلکہ ایک آوارۂ غربت اور بے سروسامان انسان کی روح ’ہجرت‘ نے فتح کیا تھا!تم نے بدر کی جنگی فتح اور مکہ کے مسلح داخلہ کی شان وشوکت ہمیشہ یادرکھی ہے، لیکن تم نے مدینہ کی بے ہتھیار فتح فراموش کردی، حالانکہ تاریخ اسلام کی ساری آنے والی فتح مندیاں اسی اولین فتح میں ایک بیج کی طرح پوشیدہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ظاہر ی فتح مندیوں کے اعلان کا وقت آیاتھا تواس وقت اسی معنوی فتح مندی کی یادلوگوں کو دلائی گئی تھی۔ (ثَانِیَ اثْنَیْْنِ إِذْ ہُمَا فِیْ الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّہَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْْہِ وَأَیَّدَہُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ السُّفْلَی وَکَلِمَۃُ اللّہِ ہِیَ الْعُلْیَا وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم)(توبہ:۴۰)
دومیں دوسرا (اللہ کا رسول) تھا اور دونوں غار میں چھپے بیٹھے تھے اس وقت اللہ کے رسول نے اپنے ساتھی سے کہاتھا، غمگین نہ ہو، یقیناًاللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس اللہ نے اپنا سکون وقرار اس پر نازل کیا، پھر ایسی فوجوں سے مددگاری کی جنہیں تم نہیں دیکھتے اور بالآخر کافروں کی بات پست کی اور اللہ ہی کی بات ہے جس کے لیے بلندی ہے۔
تذکارمحرم: اس ہجری سنہ کے ساٹھویں برس کربلا کاحادثہ ظہورمیں آیا۔ یہ حادثہ اس درجہ المناک اور درد انگیز تھا اور اس کے سیاسی اثرات اس درجہ قوی اور وسیع تھے کہ جوں جوں وقت گزرتاگیا، اس کی یاد ایک ماتمی یادگار کی حیثیت اختیار کرتی گئی، یہاں تک کہ محرم کے دور کی تمام یاد آوری صرف اسی حادثہ کے تذکرہ وتالم میں محدود ہوگئی اور دوسرے تمام پہلو یک قلم فراموش کردیے گئے، اس میں شک نہیں کہ حادثہ کربلا کی المناکیاں اور عبرت انگیزیاں ناقابل فراموش ہیں، لیکن ہمارے جماعتی ذہن وفکر کی یہ بہت بڑی غفلت ہوگی اگر اس حادثہ کے استغراق میں تذکرہ واعتبار کے دوسرے پہلو فراموش کردیے جائیں۔ یہ سنہ ہجری کے ساٹھواں برس کے ایک واقعے کی تذکار ہے لیکن خود سنہ ہجری کے پہلے برس کی تذکار سے کیوں چشم بصیرت بند کرلی جائے؟
سنہ ہجری کی ابتدا:اسلام کے ظہور سے پہلے دنیا کی متمدن قوموں میں متعدد سنہ جاری تھے۔ زیادہ مشہور یہودی رومی اور ایرانی سن تھے، عرب جاہلیت کی اندرونی زندگی اس قدر متمدن نہیں تھی کہ حساب وکتاب کی کسی وسیع پیمانے پر ضرورت ہوتی۔ اوقات ومواسم کی حفاظت اور یادداشت کے لیے ملک کا کوئی مشہور واقعہ لے لیتے اور اسی سے وقت کا حساب لگالیتے۔ منجملہ سنین جاہلیہ کے ’عام الفیل‘ تھا، یعنی شاہ حبش کے حجاز پر حملہ کرنے کا سال۔ عرصے تک یہی واقعہ عرب کے حساب وکتاب میں بطور سنہ کے مستعمل رہا۔ ظہوراسلام کے بعد یہ اہمیت خود عہد اسلام کے واقعات نے لے لی۔ صحابہ کرام کا قاعدہ تھا کہ عہد اسلام کے واقعات میں سے کوئی ایک اہم واقعہ لے لیتے اور اسی سے حساب لگاتے۔ ہجرت مدینہ کے بعد ہی سورۂ حج کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں قتال کی اجازت دی گئی تھی: ( أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ) (الحج:۳۹) اس لیے کچھ دنوں تک یہی واقعہ بطور ایک سنہ کے مستعمل رہا۔ لو گ اسے ’سنہ اذن‘ سے تعبیر کرتے اور تعبیر وقت کے ایک خاص عدد کی طرح یادداشت میں کام دیتی۔ اسی طرح سورۂ برأۃ کے نزول کے بعد بول چال میں ’سنہ براۃ‘ کا بھی رواج رہا۔ عہد نبوی کا آخری سنہ’ سنۃ الودع ‘تھا، یعنی آنحضرت ا کے آخری حج کا واقعہ جو ’حجۃ الوداع‘ کے نام سے مشہور ہوگیا تھا اور ہجرت کے دسویں سال پیش آیاتھا۔ بعض روایات سے اس طرح کے متعدد سنوں کا پتاچلتاہے مثلا ’سنۃ المحیص‘ ، ’سنۃ الترفۂ‘ ،’سنۃ الزلزال‘ سنۃ الاستیناس۔ بیرونی نے آثار الباقیہ میں اس طرح کے دس سنوں کا ذکر کیا ہے۔
آنحضرت ا کی وفات کے بعد کچھ عرصے تک یہی حالت جاری رہی لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خلافت کا عہد شروع ہوا تو ممالک مفتوحہ کی وسعت اور دفاتر حکومت کے قیام سے حساب وکتاب کے معاملات زیادہ وسیع ہوئے اور ضرورت پیش آئی کہ سرکاری طورپر کوئی ایک سنہ قراردے دیا جائے۔ چنانچہ اس معاملے پر غورکیا گیا اور سنہ ہجری کا تقررعمل میں آیا۔ اس وقت تک واقعہ ہجرت پر سولہ برس گزر چکے تھے۔
احساس ضرورت اور مشورہ:سنہ ہجری کا تقرر عمل میں آیا تو کیوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کا ذہن اس طرف گیا کہ اسلامی سنہ کی ابتدا واقعہ ہجرت سے کی جائے؟ یہ تاریخ اسلام کا ایک ضروری اور نتیجہ خیز مبحث تھا، لیکن افسوس ہے کہ اس وقت تک نظروفکر سے محروم رہا۔
اس بارے میں متعدد روایتیں منقول ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور روایت میمون بن مہران کی ہے جسے تمام مورخین نے نقل کیا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ’ایک مرتبہ ایک کاغذ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا جس میں شعبان کا مہینہ درج تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: شعبان سے مقصود کون سا شعبان ہے؟ اس برس کا یا آئندہ برس کا؟ پھر آپ نے سربرآوردہ صحابہ کو جمع کیا اور ان سے کہا: اب حکومت کے مالی وسائل بہت زیادہ وسیع ہوگئے ہیں اور جو کچھ ہم تقسیم کرتے ہیں وہ ایک ہی وقت میں ختم نہیں ہوجاتا لہٰذا ضروری ہے کہ حساب وکتاب کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اوقات ٹھیک طورپر منضبط ہوسکیں۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ ایرانیوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ان کے یہاں اس کے طریقے کیا تھے؟ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ہر مزان کو بلایا۔ اس نے کہا: ہمارے یہاں ایک حساب موجود ہے جسے ’ماہ روز‘ کہتے ہیں۔ اسی ماہ روز کو عربی میں ’مورخہ‘ بنالیا گیا۔ پھر یہ سوال پیداہواکہ اسلامی حکومت کی تاریخ کے لیے جو سنہ اختیار کیا جائے اس کی ابتدا کب سے ہو؟ سب نے اتفاق کیا کہ ہجرت کے برس سے کی جائے۔ چنانچہ ہجری سنہ قرارپایا۔ (تاریخ کبیر، ذہبی وتاریخ مصر ، مقریزی)
دوسری روایت:ابن حبان نے قرہ بن خالد سے ایک دوسری روایت بھی نقل کی ہے۔ اس میں ایک دوسرے واقعے کا ذکر کیا گیاہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یمن سے ایک عامل آیاتھا، اس نے کہا لکھنے پڑھنے میں آپ لوگ تاریخ نہیں لکھتے۔ اس طرح کہ فلاں بات فلاں سنہ میں ، سنہ کے فلاں مہینے میں ہوئی۔ اس پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ اور لوگوں کو اس معاملے کا خیال ہوا۔ پہلے انہوں نے ارادہ کیا کہ آنحضرت کے مبعوث ہونے کے وقت سے سنہ کا حساب شروع کردیں۔ پھر خیال ہواکہ آپ کی وفات سے شروع کیا جائے لیکن آخر میں یہ رائے قرارپائی کہ ہجرت سے سنہ کا تقررہو۔
ان روایات کی مزید تشریح امام شعبی کی روایت سے ہوتی ہے جو محب طبری نے نقل کی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو لکھا کہ آپ کی جانب سے ہمارے نام خطوط آتے ہیں مگر ان پر کوئی تاریخ نہیں ہوتی اور یہ وقت وہ تھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حکومت کے مختلف دفاتر قائم کردیے تھے اور خراج کے اصول وقواعد طے پاگئے تھے اور اس سے محسوس کررہے تھے کہ ضبط اوقات کے لیے ایک خاص تاریخ قرار پاجائے۔ پرانی تاریخیں موجود تھیں لیکن وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ انہیں اختیار کریں۔ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے لکھا تو انہیں زیادہ توجہ ہوگئی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کرکے مشورہ کیا۔ مشورہ میں سب کی رائے یہی قرار پائی کہ ہجرت کا واقعہ بنیاد ٹھہراکر سنہ ہجری اختیار کیا جائے۔
حضرت علی کی رائے : ابو ہلال عسکری نے ’’الاوائل‘‘ میں اور مقریزی نے تاریخ میں حضرت سعید بن المسیب سے نقل کیا ہے کہ واقعۂ ہجرت سے سنہ شروع کرنے کی رائے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ: جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ کس دن سے تاریخ کا حساب شروع کیا جائے؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس دن سے جس دن آنحضرت ا نے ہجرت کی اور مکہ سے مدینہ آئے۔
یعقوبی نے بھی اسے منجملہ ان امور کے قراردیا ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے سے انجام پائے۔ ۱۶ ھ کے واقعات میں لکھتاہے: اسی زمانے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ ضبط کتابت کے لیے ایک تاریخ قراردے دی جائے، پہلے انہیں خیال ہوا آنحضرت کی ولادت سے شروع کریں پھر خیال کیا آپ کی بعثت کے واقعہ سے ابتداء کی جائے لیکن حضرت علی نے رائے دی کہ ہجرت سے شروع کرنا چاہئے۔
قومی سنہ کی ضرورت واہمیت:ان روایات کے مطالعہ کے بعد ضروری ہے کہ بعض امورپر غورکیا جائے: سب سے پہلی بات جو سامنے آتی ہے، یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ نے یہ ضرورت کیوں محسوس کی کہ ایک نیا سنہ قراردیا جائے؟ امام شعبی کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاریخ کے تعین و تقرر کی ضرورت محسوس کررہے تھے لیکن پسند نہیں کرتے تھے کہ دوسری قوموں کی تاریخ اختیار کریں۔ پہلی روایت میں جس ہرمزان کو بلانے اور مشورہ کرنے کا ذکر ہے، یہ خوزستان کا بادشاہ تھا اور مسلمان ہوکر مدینہ میں مقیم ہوگیاتھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجالس شوریٰ میں اس کا بار بار ذکرآتاہے۔(بلاذری، طبری وغیرھما) بیرونی لکھتاہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے مشورہ کیا تو اس نے صرف ایرانیوں کا طریقہ نہیں بتلایا بلکہ رومیوں کے طریقے کی بھی تشریح کی۔ ایرانیوں کے یہاں کا آخری سنہ یزدگرد کاسنہ تھا اور رومیوں کا مشہور سنہ سکندرکی پیدائش سے شروع ہوتاتھا۔ بعض اصحاب کو خیال ہواانہی دونوں میں سے کوئی سنہ اختیار کرلیا جائے، لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ اور لوگ اس سے متفق نہ ہوئے۔(بیرونی نے یہ تفصیل ابن مہران کی روایت کے سلسلے ہی میں پیش کی ہے اور اس کے الفاظ روایت مندرجۂ متن سے مختلف ہیں، چونکہ اس نے کوئی تخریج درج نہیں کی تھی اس لیے حسب اصول فن روایت اس سے اساسی استدلال نہیں کیا جاسکتا، اس لیے ہم نے اوپر کی روایتوں میں اسے شامل نہیں کیا ۔ )الآثارالباقیہ:۳۰) اس سے معلوم ہواکہ ایرانیوں اور رومیوں کے سنین مجمع صحابہ رضی اللہ عنہم میں زیر بحث رہے اور بعض نے اسے اختیار کرنے کی رائے بھی دی لیکن عام رجحان اس طرف تھا کہ نیا سنہ مقرر کرنا چاہئے۔
اجنبی سنین سے اجتناب کیوں؟اس حقیقت پر بھی نظر رہے کہ سنہ کی ضرورت اور استعمال کی بڑی جگہ حساب وکتاب کے دفاترتھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہ اتفاق صحابہ رضی اللہ عنہم دفاتر کے لیے وہی زبانیں اختیار کرلی تھیں جو پیشتر سے مفتوحہ ممالک میں رائج تھیں۔ ایران کے لیے فارسی، شام کے لیے سریانی اور مصر کے لیے قبطی تھی۔ (مسعودی وبلاذری)ظاہر ہے کہ جب دفاتر کے لیے ایران، شام کی زبانیں اختیار کرلی گئی تھیں تو قدرتی طورپر سنہ بھی وہی اختیار کرلینا تھا جوان زبانوں کے حساب وکتاب میں رائج تھا اور اس کے قواعد بندھے چلے آتے تھے لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا نہیں کیا۔ ایران اورروم ومصر کی زبانیں اختیار کرلیں مگر سنہ اپنا قائم کرنا چاہا۔ غورکرنا چاہیے، اس اجتناب کی علت کیا تھی؟
کشادہ دلی کی روشن مثالیں:یہ علت توقطعاًنہیں ہوسکتی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین محض قومی تعصب اور تنگ دلی کی بنا پر دوسری قوموں کی اچھی اور کارآمد باتوں سے بھی اجتناب کرتے تھے۔ اولاً اس بارے میں خود اسلامی احکام کا یہ حال ہے کہ رکاوٹ کی جگہ صریح ترغیب دی گئی ہے۔ ثانیاً اس عہد کے بے شمار واقعات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ اس قسم کے تعصبات کو اس وقت کے مسلمانوں کی ذہنیت میں کوئی جگہ نہیں ملی تھی۔ وہ دنیا کے تمام علمی وتمدنی ذخیرے کو خواہ کسی قوم اور ملک سے تعلق رکھتاہو، اپنا قومی ورثہ سمجھتے تھے۔ خوداس عہد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بے شمار معاملات میں غیر قوموں کے علمی اور تمدنی اصول معلوم کیے ہیں اور ان میں جوباتیں کارآمد اور ضروری نظر آئی ہیں، بلا تامل اختیار کرلی ہیں۔ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا، وہ ایرانیوں، رومیوں اور مصریوں کو بہ اصرار طلب کراتے اور ان سے مشورہ لیتے۔ دفاتر حکومت کی تقسیم، خراج ومحصول کا تعین، اراضی کی پیمائش اور تشخیص، خزانے کا قیام، حساب وکتاب کے اصول وقواعد اور اسی طرح کے بہت معاملات ہیں جن میں ایرانی اور رومی قواعد کا تتبع کیا گیا۔ فقہ کا ایک اہم باب فرائض ہے یعنی ورثہ کی تقسیم کے اصول وقواعد،چوں کہ اس کا تعلق فن حساب سے ہے۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چاہاکہ اس کے قواعد کی ترتیب ودرستگی کے لیے ایک ماہر حساب سے مدد لی جائے۔ مورخین نے تصریح کی ہے کہ اس غرض سے ایک رومی مسیحی مدینہ میں طلب کیا گیاتھا۔ طلبی کے فرمان میں والی شام کو جو الفاظ لکھے تھے وہ یہ ہیں: ابعث لنا برومی یقیم لنا حساب فرائضنا۔ایک آدمی کو بھیج دو تاکہ وہ ہمارے فرائض کا حساب استوار کردے۔ (صراط مسقیم، حافظ ابن تیمیہ)جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فرائض جیسے شرعی مسئلے کے حساب میں ایک رومی عیسائی سے مدد لینا ناگوار نہ ہوا تو ظاہر ہے کہ ایرانی یارومی سنہ کے اختیار کرلینے میں قومی تعصب کیوں مانع ہوتاجس کا تعلق صرف حساب وتاریخ سے ہے؟ انہوں نے ایرانی اور رومی سنین جیسے مدون ورائج سنہ چھوڑیے اور ایک نیا سنہ از سرنوقائم کیا۔
صحابہ کرام کے دماغ کا سانچا: اصل یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم اور تربیت نے صحابہ کرام کا دماغ جس سانچے میں ڈھال دیاتھا، وہ ایسا سانچا تھا جس میں دوسرے درجے کا کوئی خیال سما ہی نہیں سکتاتھا۔ وہ صرف اول درجہ کے خیالات کے لیے تھا۔ بہت ممکن ہے دنیا کے تمدنی علوم وفنون کے رائج نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی بات علمی طریقوں اور مصطلحہ لفظوں میں ادانہ کرسکتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض اوقات وہ ایک بات کی علت اس شکل وصورت میں نہ دیکھتے ہوں جس صورت میں آج دنیا دیکھ رہی ہے، لیکن ان کی طبیعت کی افتاداور ذہنیت کی روش کچھ اس طرح کی بن گئی تھی کہ جب کبھی کسی معاملے پر سونچ بچار کرتے تھے توخواہ علت وموجب سمجھ سکیں یا نہ سمجھ سکیں لیکن دماغ جاتااسی طرف تھا جو علم وحکمت کے لیے بہتر سے بہتر اور بلند سے بلند پہلو ہوسکتے ہیں۔ یہی معنی ہیں انبیائے کرام کے مقام ’’تزکیہ‘‘ کے کہ ’’ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ‘‘ (جمعہ:۲۰) یعنی دل ودماغ کی اس طرح تربیت کردی جاتی ہے کہ ایک موزوں اور مستقیم سانچا ڈھل جاتاہے۔ اب جب کبھی کوئی ٹیڑھی چیز اس میں رکھی جائے گی وہ قبول نہیں کرے گا اور موزوں چیزیں ہی اس میں سماسکتی ہیں۔(جاری)
ماشاءاللہ!! بہت زبردست خیالات کا اظہار ہے
ReplyDelete