- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, March 25, 2016


شیخ عبدالحمید رحمانی رحمہ اللہ
تحریک اہل حدیث کادینی تصور
ایک مختصر نفسیاتی جائزہ 

یہ عجیب بات ہے کہ اہل حدیث کا تصورِ دینی جس درجہ سادہ، سمجھ میں آنے والا اور قلب و روح کو حرارت و تپش عطا کرنے والا ہے، یار لوگوں نے اسے اتنا ہی الجھا دیا ہے، اور اس کے بارے میں ایسی ایسی غلط فہمیاں پھیلا رکھی ہیں کہ الامان و الحفیظ!
سوال کم پڑھے لکھے یا جہال کا نہیں ، اچھے خاصے علماء کا ہے ۔ ان حلقوں میں اگر کسی جانی پہچانی شخصیت کے بارے میں بھولے سے کسی نے کہہ دیا کہ صاحب وہ ’’ وہابی‘‘، ’’ غیر مقلد‘‘
یا ’’ اہل حدیث ‘‘ ہے تو نہ پوچھئے ، صرف اتنا کہہ دینے اور لکھ دینے سے اس کے متعلق رائے اس تیزی سے بدل جاتی ہے اور اس کے خلاف نفرت و تعصب کے کتنے طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔
نفرت و تحقیر کا یہ باد�ۂتلخ انگریز کے استعماری مصالح کے علاوہ اور کن کن مقدس ہاتھوں سے کشید ہوا ؟ اور تہمت طرازی کی اس سازش میں کس کس نے حصہ لیا ہے؟ کن کن عناصر نے اہل حدیث کے خلاف اس نفسیاتی مہم کو چلانے میں کامیاب کردار ادا کیا ہے ؟ یہ ایک مستقل اور الگ موضوع ہے جو مخصوص تحقیق اور التفات چاہتا ہے ، ہمارے نزدیک اس سے متعلق سردست تعرض کرنا موضوع نہیں ، کیوں کہ 
ع اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں 
تاہم اتنی بات کہنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کہ نفرت کی یہ مہم پورے زور و شور اور تنظیم کے ساتھ آج بھی جاری ہے ، حالاں کہ جماعت اہل حدیث کے عقائد و سرگرمیاں اور کارنامے کوئی چیز بھی تو ایسی نہیں جس میں اسلامی نظریہ و تصور سے کسی درجہ میں بھی انحراف پایا جائے ، بلکہ یوں کہنا چا ہیے کہ ہم تو معتوب اور مستو جب تعزیر ہی اسی بنا پر ہیں کہ ہم فقہ ہو یا کلام ، تفسیرہو یا حدیث ، دین کے معاملے میں ادنیٰ انحراف کو بھی بر داشت کر نے کے لیے تیار نہیں ، ہمارا سیدھا سادہ عقیدہ یہ ہے کہ حق و صداقت کو صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ہی میں محصور اور منحصر مانو اور سعی و عمل اور 
فکر و عقیدہ کا جب بھی کوئی نقشہ ترتیب دو تو تابش و ضو کے لیے اسی آفتاب ہدایت کی طرف رجوع کرو ، جس کو اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات انسانی کے لیے سر اج منیر ٹھہرایا ہے ۔ 
یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہداً و مبشراً و نذیرا و داعیا الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا۔(الاحزاب:۴۵۔۴۶)اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو شہادت دینے والا ، خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنایا ہے اور اللہ کے حکم سے اس کی جانب بلانے والا اور روشن کرنے والا چراغ بنایا ہے ۔‘‘
یہاں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلینا چاہیے کہ ہم کسی طرح بھی تاریخی ارتقاء کے منکر نہیں اور زمانے کے نا گزیر تقاضوں کے تحت فقہ و کلام کے سلسلہ میں ہمارے ہاں جلیل القدر
علماء وائمہ نے جوگراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان سے ذرہ برابر صرفِ نظر کو ہم جائز نہیں تصور کرتے ، ہمارے نزدیک اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فکری وآئینی کا وشیں ، امام شافعی رحمہ اللہ کی اصول و فقہ و حدیث کے متعلق پیمانوں کی تعیین ، امام مالک رحمہ اللہ کا اصحاب مدینہ کے تعامل کو دست برد زمانہ سے ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ کر لینا اور اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی جمع حدیث کی وسیع تر کوششیں ہماری تہذیبی انفرادیت کا زندہ ثبوت ہیں اور یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن پر ہم جس قدر بھی فخر و ناز کریں کم ہے ۔ 
ہم حق کو ان سب مدارس فکر میں جن کی ان بزرگوں نے بنیا د رکھی ، دائر و سائر تو مانتے ہیں لیکن محصور و منحصر کسی میں بھی نہیں جانتے ،کیوں کہ ہمارے نقطۂ نگاہ سے صحت و صواب کی استواریاں غیر مشروط طور پر صرف کتاب اللہ و سنت رسول کے ساتھ خاص ہیں ۔
(ترجمہ)’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرواور اللہ کے رسول ا کی اطاعت کرو اور اصحاب علم و بصیرت و تقویٰ ذمہ داروں کی اطاعت کرو۔ تو اگر تم میں کسی چیز کی بابت اختلاف ہوجائے تو ایسی شکل میں اللہ (کی کتاب) اور رسول ا کی احادیث ہی کی طرف رجوع کرو ، اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی تمہارے لیے بہتر اور عمدہ ہے انجام کے لحاظ سے ۔‘‘(النساء:۵۹)
ہمارے عقیدہ کی رو سے استدلال و تاویل کا یہی دو چیزیں نقطۂ آغاز ہیں اور یہی نقطۂ آخر ۔ دوسرے لفظو ں میں سورۂ نساء کی اس آیت کو ہم (Premble)یا قانون اساس سمجھتے ہیں ۔ اس آیت ہی کے لب و لہجے میں علماء سے کہتے ہیں کہ ہر متنازع فیہ مسئلہ میں اول و آخر کتاب و سنت ہی کی
طر ف رجوع کیجئے۔
اہل حدیث کے نفسیاتِ شوق کی تشریح :تقلید و عدم تقلید کی اصطلاح میں پڑے بغیر کہ اس میں قدرے الجھاؤ ہے ،ہم محبت و وفاکی زبان میں دعویٰ داران عشقِ رسول سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اللہ کے واسطے آپ ہی بتائیے کہ اگر کسی گروہ نے یہ فیصلہ کر ہی لیا ہو کہ طلب و آرزو کے دامن کو و ہ صرف انہیں گل بوٹوں سے سجائے گا جو قرآن و سنت کے سدا بہار دبستاں میں نظر افروز ہیں، اور اگر کچھ لوگوں نے ازراہ شوق یہی مناسب جانا ہو کہ ان کی نظر اگر کسب ضو کر ے گی تو انہیں انوار و تجلیات سے جو چہرۂ نبوت کی زیب و زینت ہیں، یا زمان و ماں کے فاصلوں کو ہٹا کر اگر کوئی بے تاب و متجسس نگاہ اسی جمال جہاں آرا کا براہ راست مشاہدہ کرنا چاہتی ہے جس کی جلوہ آرائیوں نے عاشق کے دل میں پہلے پہل ایما ن و عمل کی شمعیں فروزاں کیں تو آیا یہ کوئی جرم ، گناہ یا معصیت ہے او ر اگر یہ جرم اور معصیت ہے تو ہمیں اقرار ہے کہ و ابستگان دامن رسالت اور اسیران حلقہ نبوت مجرم اور گنا ہگار ہیں ۔ 
تقلید کا اثر قلب و ذہن پر:تقلید و عدم تقلید کا مسئلہ در اصل فنی و علمی سے زیادہ نفسیاتی ہے ۔ 
سوا ل یہ ہے کہ ٹھیٹھ اسلام کی رو سے ہماری اولین ارادت کا مرکز کون ہے ، ہماری پہلی اور نبیادی وا بستگی کس سے ہونی چاہیے؟ اور پیش آمدہ مسائل میں مشکلات کے حل و کشود کے سلسلہ میں اول اول کس طرف دیکھنا چاہیے ؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی چشم کشا اور ابدی تعلیمات کی طرف یا فقہی
مدارس فکر کی وقتی اور محدود تعبیرات کی طرف ؟ اس سے قطع نظر کہ تقلید سے فکر و نظر کی تازہ کاریاں مجروح ہوتی ہیں اور اس سے بھی قطع نظر کہ اس سے خود فقہ و استدلال کے قافلوں کی تیز رفتاری میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور تہذیب و فن کی وسعتیں زندگی ، حرکت اور ارتقا ء سے محروم ہوجانے کے باعث حد درجہ سمٹاؤ اختیار کر لیتی ہے ۔ 
اصل نقص اس میں یہ ہے کہ اس سے عقیدہ و محبت کا مرکز ثقل یکسر بدل جاتا ہے ، یعنی بجائے اس کے کہ ہماری ارادت و عقیدت کا محور ، قبلہ اول و آخر کتاب اللہ و سنت رسول اللہ رہے ، ہماری عصبیتیں مخصوص فقہی مدارس سے وابستہ ہوکر رہ جاتی ہیں اور غیر شعوری طور پر قلب وذہن اس بات کا عادی ہوجاتا ہے کہ بحث و تمحیص کے مرحلے میں کتاب و سنت سے کسی نہ کسی طرح مسائل کی وہی نوعیت ثابت ہو جو ہمارے حلقہ اور دائرہ کے تقاضوں کے عین مطابق ہو ، حالاں کہ اللہ اوررسول سے ربط و تعلق کی کیفیتیں معروضیت (Objectivity)چاہتی ہیں اور اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہر ہر مسئلہ اور امر میں نقطہ نظر کسی خاص مدرسۂ فکر کی تائید و حمایت کرنا نہ ہو بلکہ اس شے کی تصدیق مقصود ہو کہ اخذ و قبول کے لحاظ سے کو ن صورت کتاب اللہ اور سنت رسول سے زیادہ قریب تر ہے ۔
ایک اہم سوال:کیا اہل حدیث کا شمار مذاہب مدوّنہ میں ہوتا ہے ؟
ممکن ہے کہ اس پر کوئی صاحب کہہ اٹھیں کہ مسائل پر غور و فکر کرنے کا یہ تو محض ایک اندازہو ا یا زیادہ سے زیادہ اہل حدیث کی نفسیات دینی کی تشریح ہوئی لیکن حل طلب سوال تو یہ ہے کہ انداز فکر اور اسلوب استدلال سے کوئی مذہب یا مسلک کب متعین ہوتا ہے ۔ مسلک اور مذہب کی تعیین کے لیے ضروری ہے کہ اہل حدیث کے مخصوص ما بعدالطبیعاتی تصورات ہوں ، علیحدہ اور ممیز
علم الکلام ہو اور کتاب و سنت کی واضح تعلیمات پرمبنی اپنا علم الفقہ اور اسی کی روشنی میں ان کی خاص تاریخ ہو جس سے ا ن کے ارتقاء علمی کا پتہ چل سکے اور معلوم کیا جا سکے کہ ماضی قریب و بعید کے مختلف ادوار میں انہوں نے مذہب و دین کی تشریح و تعبیر کے سلسلہ میں کیا کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں یا اسلامی تہذیب و تمدن کی نشاط آفرینیوں میں ان کاکیا حصہ ہے ؟
اعتراض بظاہر تو بہت وزنی ہے لیکن اس کاکیا کیا جائے کہ ہمارا مسلک واقعی 
[مذاہب مدونہ کی فہرست میں شامل نہیں ۔ یہ ایک مذہب ہے جس کے اصول اور کلامی و فقہی پیمانے گو متعین ہیں تاہم اصطلاحی معنوں میں یہ مذہب نہیں ہے ، اس کے ماننے والوں کے با قاعدہ معمولات ہیں اور عقیدہ و عمل کا متعین قالب ہے ، مگر اسے کسی لحاظ سے بھی گروہ نہیں کہنا چاہیے ۔ اسی طرح اس کی اصلاح و تجدید کے کارناموں پر مشتمل اپنی تابناک تاریخ بھی ہے ، لیکن یہ تاریخ صرف ان ہی کی تاریخ نہیں ہے ، اسے پورے اسلام کی تاریخ قرار دینا چاہیے ۔ 
تضاد اور اس کا حل :بظاہر یہ بات تو حد درجہ تصاد لیے ہوئے ہے لیکن ذرا غور کیجئے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ اسی تضاد میں اس کا حل بھی مضمر ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ پہلی صدی ہجری کے اخیر ہی میں اسلام کو شدید نوعیت کے دینی و سیاسی انحرافات سے دو چار ہونا پڑا اور تیسری صدی بھی اختتام کو نہیں پہنچی تھی کہ ان انحرافات نے شدید نوع کے تعصبات کا روپ دھا ر لیا ۔ 
اسی عرصہ میں مسئلہ امامت و خلافت کی وجہ سے’ شیعیت‘ ابھری اور اس کے پہلو بہ پہلو ایک تاریخی حادثہ کی بنا پر ’خارجیت‘ نے جنم لیا جس نے آگے چل کر مستقل فتنہ کی شکل اختیار کرلی ، ان ہی سیاسی اختلاف نے ’ارجاء‘ کی مصلحتوں کو ہوا دی اور مسلمان مرجۂ اور غیر مرجۂ دو گروہوں میں بٹ گئے اور یونانی علوم کے فروغ و ارتقاء نے اعتزال و جہمیت کی تخلیق کی، جس نے صدیوں تک مسلمانوں کو گو ناگوں عقلی اختلافات میں الجھائے رکھا ، نتیجہ یہ ہوا کہ علمی و دینی حلقوں میں بیسیوں نئے مسئلے پید ا ہو گئے ۔ صفات باری عین ذات ہیں یا غیر ، استواء علی العرش کے کیا معنی ہیں ؟ قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق ؟ قدرت و استطاعت ’افعال‘ سے ہے یاان کے ہم قرین ہے ؟ انسان مجبور محض ہے
یا مختار؟ اللہ تعالیٰ محالات پر قادر ہے یا نہیں ؟ ’خلق شئے‘ سے کیا مراد ہے ؟ خورد سال اطفال قیامت کے روز عذاب کا ہدف بنیں گے یا نہیں ؟ جنت و دوزخ عارضی ہے یا دائمی؟ روح کیا ہے ؟
یہ اور اس نوع کے عجیب و غریب مسائل جن کی وجہ سے اسلامی صفوں میں انتشار اور تشتت کا پیدا ہونا نا گزیر تھا ، اسی دور میں غنوصیت (Gnoticism) نے۔ جس کے ماننے والے عراق میں کثرت سے تھے ۔تصور کو حریفانہ شکل میں پیش کیا اور تقدس و ریاضت کے بہروپ میں اس یقین کو دلوں میں اتار نے کی کوشش کی کہ علوم نبوت کے مقابلہ میں عرفان و ادراک کا ایک اور یقینی ذریعہ کشف بھی ہے جس کی مدد سے براہ راست حقائق کونیہ و دینیہ کو پالینا ممکن ہے ۔ 
قریب قریب یہی وہ زمانہ ہے جس میں فقہی مذاہب مدوّن و مرتب ہوئے اور ان کے پرجوش حامی ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آرا ہوئے اور باقاعدہ مناظرہ و جدل کی بنیاد پڑی ۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ عصبیتیں ابھریں ، حلقے بنے اور آخر میں تقلید و جمود نے اسلامی معاشرت کی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ 
غور طلب نکتہ:یہا ں غور طلب یہ نکتہ ہے کہ گمراہیوں کے اس ہجوم میں اسلام کی فطرت میں اصلاح احوال کی جو قدرتی صلاحیتیں تھیں کیاوہ چپ چاپ یہ تماشہ دیکھتی رہیں اور کسی گروہ ،کسی جماعت کو یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ وہ ان انحرافات کی نشاندہی کرے اور یہ بتائے کہ ان گمراہیوں کے مقابلے میں اسلام کا صحیح صحیح موقف کیا ہے ، خوش قسمتی سے واقعہ یہ نہیں ہے ۔ تاریخ و سیر سے سرسری واقفیت رکھنے والے حضرات بھی جانتے ہیں کہ بفحوائے حدیث رسول ہر ہر دور میں ایسے لوگوں کا وجود رہا ہے کہ جنہوں نے کلمہ حق کابر ملا اظہار کیا ہے ، جنہوں نے تجدید و اصلاح کی
ذمہ داریوں کو سنبھالا ہے اور اسلام کے چہرۂ زیبا سے بدعات کے گرد و غبار کو دور کرنے کی مقدور بھر مساعی جاری رکھیں ، جنہوں نے ذخائر حدیث کی حفاظت کی ، جنہوں نے عقائد کی پیچیدگیوں کو
سلجھا یا اور مروجہ فقہی مذاہب کے مقابلے میں سنت پر مبنی ، سنت سے مستنبط اور سنت سے قریب تر مسائل کی طرف فقہا ء کی عنان توجہ و التفات کو موڑ دینے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ 
امام اشعری اور اہل حدیث :یہ گروہ ’’ اہل الحدیث والسنہ‘‘ کا ہے امام ابو الحسن اشعری نے ’مقالات الاسلامیین‘‘ کی پہلی جلد کے آخر میں تقریباً پانچ صفحات میں اس گروہ کے عقائد و سیرت کا ایک دلچسپ و دلنواز نقشہ پیش کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری کے وسط تک
اہل الحدیث و السنہ کے سامنے کلام و فقہ کے کیا کیا مسائل تھے اور ان حضرات نے ان مسائل کو کیوں کر حل کیا۔ہم اس سلسلہ میں در اصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اصلاح و تجدید کی یہ تمام کوششیں جو مختلف حلقوں اور مختلف زمانوں میں فقہ و کلام کی طرفہ طرازیوں کو کتاب و سنت کے ڈھانچوں میں ڈھالنے کی غرض سے انجام پائیں ، ہماری ہیں ۔ ان کا علم الکلام ہمارا علم الکلام ہے ، ان کی فقہ ہماری فقہ ہے،ان کی تاریخ ہماری تاریخ ہے ۔ 
لیکن اس کے باوجود ہم نے کسی متعین مدرسہ فکر یا علم الکلام کے بنے بنائے اصولوں کو اس بنا پر اپنانے کی کوشش نہیں کی کہ مبادا ہماری عصبتیں بھی اپنا محور بدل لیں اور بجائے اس کے کہ عقیدت و وابستگی کے داعی براہ راست کتاب و سنت رسول سے وابستہ رہیں ، ہم بھی اس تضاد کا شکار ہو کر نہ رہ جائیں جس کا ماضی میں تمام فقہی و کلامی مذاہب شکار ہوئے ہیں ۔ 
حب رسول کا تقاضا: گویا ہماری نفسیات اور ہمارے جذبۂ حب رسول کا تقاضا یہ ہے کہ فکر 
و عمل کی کسی صورت میں ہم بجز کتا ب اللہ کی اطاعت اور رسول اللہا کی فرماں برداری کے اور کسی تقید، کسی تقلیدی انتساب کو اپنے لیے گوارا نہ کریں اور زمان و مکان اور اشخاص و ائمہ سے قطع نظر
ہر اس سچائی کو اپنائیں ، ہر اس استدلال کو تسلیم کریں اور تجدید و اصلاح کی ہر اس کوشش کو سراہیں جو قرآن وحدیث پر مبنی ہو ۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اسی حال میں ہمیں زندہ رکھے اور جذب و کیف کے اسی جانفزا عالم میں موت سے دو چار کرے ۔ آمین ! 

(ماخوذاز: مجموعۂ مقالات شیخ رحمانی رحمہ اللہ )

No comments:

Post a Comment