اعجاز شفیق ریاضی
پرنسپل: المعہد ، رچھا ، بریلی
عدمِ برداشت
’’فَمَا أُوتِیْتُم مِّن شَیْْء فَمَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَمَا عِندَ اللَّہِ خَیْْرٌ وَأَبْقَی لِلَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ،وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُونَ کَبَاءِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا
مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ‘‘( سورۃ الشوریٰ:۳۶۔۳۷)
ترجمہ : اور جو چیز بھی تمہیں دی جاتی ہے وہ دنیوی زندگی کا ساز و سامان ہے ، اور اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ زیادہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اور جو بڑے گناہوں اور فحش سے بچتے ہیں ،اور جو غصہ ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں ۔
تشریح : اسلام جو دین فطرت اور عَلم بر دارامن و شانتی ہے ، جس نے پر امن معاشرے کی تشکیل کے لیے مضبوط ترین بنیادیں فراہم کی ہیں ، جو فساد کی سبھی صورتوں کو سخت ناگوارسمجھتااورجابجا ’’ ان اللہ لا یحب المفسدین‘‘ یا ’’ واللہ لا یحب الفساد‘‘ کے الفاظ میں فتنہ و فساد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ۔ مذہب اسلام نے فتنہ و خوں ریزی تک لے جانے والے ہر قدم پر قدغن لگائی، عدم برداشت ، غصہ بلا تدبر رد عمل ، برائی کا بدلہ برائی سے ہی دینا ،یہ ایسی چیز یں ہیں جو اکثر فساد کی وجہ بنتی ہیں ۔
اسلام نے سکھلایا کہ آخرت کی کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے، جو غصہ میں سخت کارروائی نہیں کرتے بلکہ عفو و در گذر سے کام لیتے ہیں ۔ جو غصہ پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کی صفت سے آراستہ ہوتے ہیں ، ان کے ذہن میں ’’ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے‘‘ کی گونج رہتی ہے اس لیے وہ ’’ پس چاہیے کہ تم معاف کردو اور در گذر کرو‘‘ کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔ انہیں احساس رہتا ہے کہ ’’ بہادر وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے ، بہادر تو وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے‘‘ ۔
مومن چوں کہ اللہ کا دوست اور شیطان کا دشمن ہوتا ہے ۔ اس لیے بر داشت و برد باری کی صفت سے متصف ہوتا ہے اور غصہ و جلد بازی کے اقدامات کی خو اس میں نہیں ہوتی ۔’’التأنی من اللہ والعجلۃ من الشیطان‘‘کا حکم نبوی ا اس کا ہادی و مرشد ہوتا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ قوتِ برداشت
اور برد باری انبیاء کی صفات حمیدہ میں سے ایک ہے جب کہ’’فبھداہم اقتدہ‘‘کے الفاظ میں پیغمبرانہ صفات کو اختیارکرنے کی تاکید وارد ہے۔’’ در گذر اور معافی کو لازم پکڑو اور جاہلوں سے اعراض کرو‘‘
کی تعلیم پر وہ عمل پیرا ہوتا ہے اور جاہلوں کی ایذا رسانی وطنز و تعریض کوخاطر میں نہیں لاتا ، بلکہ’’واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاما‘‘ پر عمل کرتے ہوئے امن و سلامتی کی فضا قائم و دائم رکھتا ہے۔
وہ جانتا ہے کہ غصہ نہ کرنے ، آپا نہ کھونے اور جذبات میں نہ بہ جانے کی سہ کرر نبوی وصیت موجود ہے ، نبی کا یہ ارشاد بھی اس کے سامنے رہتا ہے کہ جس نے غصہ پی لیا جب کہ وہ انتقام کی طاقت رکھتا تھاتو اللہ ایسے آدمی کو بروز محشر تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اس کو اختیار دے گا کہ وہ جتنی حوریں چاہے اپنے لیے چن لے ۔ ایک مومن کے لیے جنت اور اس کی نعمتوں سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتاہے، اس لیے وہ دنیا میں بحالت غصہ سب وشتم کرنے یا کوئی بھی سخت اقدام کرنے سے باز رہتا ہے ۔
اسلام نے بتایاکہ سخت گیری ، قو ل و عمل کی درشتی، نفرت پھیلاتی اور لوگوں کو دشمن بناتی ہے قرآن مجیدمیں بصراحت کہا گیا ہے کہ ’’اگر آپ سخت زبان اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ ا کے پاس سے دور چلے جاتے‘‘ (اور کوئی آپ کا نہ ہوتا)اس کے بر عکس یہ حقیقت اجا گر کی گئی کہ ’’ برائی کا جواب اچھائی سے دو پھر آپ دیکھیں گے آپ کا دشمن بھی آپ کا گہرا دوست بن گیا ہے‘‘ حدیث شریف میں یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ ’’ ان اللہ رفیق یحب الرفق و یعطی علیہ ما لا یعطی
علی غیرہٖ‘‘۔’’کہ اللہ نرم ہے اور نرمی پسند کرتا ہے اور اس کے وہ نتیجے دیتا ہے جو سختی کے نہیں دیتا‘‘ ۔
یہ تما م باتیں ہیں جو بندۂ مومن میں قوت بر داشت پید اکرتی اور اسے بُرد بار بنا کر معاشرے کی امن و شانتی کا معمار بناتی ہیں ۔ اللہ ہم سب کو قوت برداشت عطا کرے ۔ آمین!
No comments:
Post a Comment