نبی اکرم ﷺکی سیرت طیبہ: ایک زندہ جاوید معجزہ
عبد المجید عبد الرشید
بھیکم پور بلرام پور
سرورکائنات نبی اکرم ﷺکی سیرت طیبہ سدابہار موضوع ہے نیز ایسا دل آویز و جاذب نظر ہے کہ انگنت تحریروں، تصنیفات،تالیفات اور مقالات کے باوجود کبھی مضمون کی خشکی اور عدم دل چسپی کی شکایت پیدا نہ ہو سکی ۔در حقیقت سیر ت نبویہ کے اتنے گوشے اور اتنے پہلوہیں کہ اس بحر نا پیدا کنار کے تمام لولوء و مرجان نکال لئے جانے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔چوں کہ رسول اللہ ﷺ انسانیت کے لئے کامل ترین نمونہ تھے، آپ کی حیات طیبہ قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے،آپ کی کتاب زندگی کا ہر ہر ورق اپنے اندر ایسی روح پرور اور نشاط افزا نسیم کی تاثیر رکھتا ہے ؛جس کے بہار آفریں جھونکے قیامت تک انسانیت کے چمن کو سر سبز و شاداب رکھیں گے۔ اس موضوع پر خامہ فرسائی انسانی تاریخ کا ایک معززباب ہے ۔ زیر نظر مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے امید ہے کہ خاکسار بھی عقید ت مند مداحان رسول اللہ ﷺ کے زمرے میں شامل کر لیا جائے گا۔ عبد المجید عبد الرشید
بھیکم پور بلرام پور
محترم قارئین! جب ذکر ہو رسول کا تو وہ کس کا ذکر ہو تا ہے؟ در اصل یہ فخر موجودات محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ ،رسول اکرم ﷺکا ذکر ہے،اس ہستی اور انسانِ کامل کا ذکر ہے ؛جس سے بہتر انسان پر سورج آج تک طلوع نہ ہوا ، اللہ رب العالمین نے اپنے نبی کو تاریخ کا سب سے بڑاانسان بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایاہے۔ قرآن کی زبان اور اسلام کی نگاہ میں آپ کی حیات طیبہ ایک مسلمان کے لئے کامل نمونہ ہے۔ اس دنیا کے ہر انسان کے لئے اور رہتی دنیا تک کے لئے ،خواہ وہ کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو اور کسی حال میں بھی ہو ،اگر کوئی اپنی زندگی کے لئے نمونہ ،اپنی سیرت کی درستی و اصلاح کا سامان ،دل اور اطراف کے اندھیروں کے لئے ہدایت کا چراغ ورہنمائی کا نور چاہتا ہے، تو وہ اس کو رسول اللہ ﷺ کی جامع اورکامل سیرت کے خزانے میں ہر وقت اور ہر دم پا سکتا ہے ۔ایسی سیرت کے کسی ایک گوشہ کا انتخاب کیا جائے اور اس پر کچھ لکھا جائے بڑا مشکل کامہے ،اس کا وہی حق ادا کر سکتا ہے ؛جس نے اس کا بیڑا اٹھایا ہو ،یا اسے ذمہ داری دی گئی ہو کیوں کہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں بیک وقت ایسے مختلف النوع اوصاف اور ہمہ رنگ گو نا گوں خصوصیات نظرآتی ہیں، جو کسی ایک انسان میں تاریخ نے آج یک جا کرکے نہیں دکھائی ۔
یہ ذات گرامی ایسی متنوع ہے کہ جب کوئی ایسا موقع آتا ہے کہ اس سے فاتح کی طرح موسیٰ علیہ السلام کے جلال اور سلیمان کے شکوہ کے مظاہرے کی توقع ہوتی ہے تو وہ عیسیٰ کی خاکساری، داؤد کی حمدوستائش اوردعا اور یوسف کی طرح عفو و درگذرکا مجموعہ نظر آتا ہے ، بل کہ خطیب بغداد کی روایت کی پسِ منظر میں یہ کہوں تو بے جانہ ہو گا کہ آدم کا خلق ،شیث کی معرفت ،نوح کی شجاعت، ابراہیم کی دوستی ، اسماعیل کی زبان ،اسحاق کی رضا،صالح کی فصاحت ، لوط کی حکمت ،موسیٰ کی سختی ،ایوب کا صبر ،یونس کی اطاعت،یوشع کا جہاد،داؤد کی آواز،دانیال کی محبت،الیاس کا وقار،یحیےٰ کی پاک دامنی اور عیسیٰ کا زہد ملتے ہیں، انکی سیرتیں یک جا ہوتی ہیں، تومحمد ﷺکی شبیہ ابھرنی شروع ہوجاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شاید نبی اکرم ﷺ کے عام معجزے ہر کس و ناکس کے علم و معرفت میں نہ ہوں ،مگر یہ پاک زندگی ،یہ سیرت یہ ذات خود ایک معجزہ ہے۔ اس کا کوئی جز ایسا نہیں جو اعجازی رنگ نہ رکھتا ہو ۔اس زندہ فرقان کے زندہ معجزوں کے ہوتے ہوئے شاید عارضی ،وقتی اور مقامی معجزوں کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی ہے ،زندہ معبود کے باعظمت رسول کے زندہ معجزے کا جواب نہ اس وقت کسی سے بن پڑا تھا نہ آج کسی کی بس کی بات ہے۔
محترم قارئین! یہ کوئی شاعری نہیں ہے ،ایسی کامل و جامع ہستی ،جو اپنی زندگی کے ایک ایک گوشے میں ہر ایک کے لئے ہدایت کا سامان رکھتی ہو ،اس کا بیان ایسا ہی ہوگا ۔ کتب سیرت کی ورق گردانی کیجئے ، بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ، رئیس احمد جعفری کی شگفتہ بیانی ، سلمان منصور پوری کا استدلال ،شبلی کی تاریخیت،سلیمان ندوی کے بیان کی جامعیت،عبد الماجد دریابادی کی ادبی رعنائیاں،مناظر احسن گیلانی کی تڑپ اور وجدآور کیفیت،آزاد کی خطابت، صفی الرحمٰن مبارکپوری
کی تحقیق اور ابن القیم کی سیرتِ رسول کا دائمی نمونہ عمل کی حیثیت سے پیش کش۔
سیرت نبویہ کاموضوع تو ہر دور میں جاوداں رہاہے، مگر کون ہے جو اسکا احاطہ کر سکے ؟
آئیے اس سیرت مبارکہ کا ہلکا سا نقشہ خود صاحب سیرت کی زبانی سنئے۔
علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا :اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ کا طریقہ کیا ہے ؟ بنی اکرم ﷺ نے فرمایا : معرفت میرا سرمایہ ہے ،عقل میرے دین کا جزہے ،محبت میری بنیاد ہے ،شوق میری سواری ہے ،ذکر الٰہی میرا انیس ہے ،علم میرا ہتھیار ہے ،صبر میرا لباس ہے ،اعتماد باللہ میرا خزانہ ہے ،غمِ دل میرا ساتھی ہے ، اللہ کی رضا میرا مال ہے معجزا
ا میرا فقر ہے ،زہد میرا پیشہ ہے اور یقین میری خوراک ہے۔
سبحان اللہ !کیسا امی ہے ،جو جوامع االکلم کہلایا۔
کیسی حسین تصویر ہے، ایسی تصویر جس کا خالق رحمٰن و رحیم بھی ہے اور جمیل و مصور بھی ، پھر ایسا جمال صورت و سیرت اور ایسا کمال کہاں دکھائی دے گاکہ شاعری بھی عاجز نظر آئے اور شاعر
بے اختیار پکار اٹھے کہ۔
بلغ العلیٰ بکمالہ وہ اپنی کمال میں انتہائے بلندی تک پہنچ گئے
کشف الدجیٰ بجمالہ ان کے جمال کی جگمگاہٹ سے سارے اندھیرے ہٹ گئے
حسنت جمیع خصالہ ان کی ہر خصلت حسن کا پیکر بن گئی
صلوا علیہ وآلہ ان پر اور ان کی آل پر درو د بھیجو
اللھم صلی علی محمد و علی آلہ و صحبہ وسلم
سیرت طیبہ کی ابتداء لا بیان ہے شبلی،ندوی،گیلانی،دریابادی نے کیسا حسین پر اثر اور دل
فریب نقشہ کھینچا ہے کہ:
چودہ سو برس پہلے کا زمانہ ہے،تمدن کی نمائش گاہوں سے کوسوں دور،تہذیب کے سبزہ زاروں سے الگ،ایک ویران اور بے رونق بستی میں، ایک بے آب و گیاہ وادی غیر ذی زرع میں چلچلاتی دھوپ والے آسمان کے نیچے ،خشک اور پتھریلی زمین کے اوپر ،ایک شریف؛ لیکن انپڑھ اور بے زر خاندان میں ایک بچہ آنکھیں کھولتا ہے ،مگر یہ بچہ اس سے پہلے کہ وہ پیدا ہو وہ زور، وہ سایہ وہ قوت جس کا نام دنیا نے باپ رکھا ہے، اس سے جدا ہو جاتا ہے ۔چند ہی دنوں میں وہ تکیہ بھی اس کے سر کے نیچے سے کھینچ لیا گیا ؛جس کو ہم سب ماں کہتے ہیں ۔ایک پیرانہ سال سہارے اور سر پرستی کا پردہ،عبد المطلب کی شکل میں تھا وہ بھی چاک کر دیا گیا ، اس لا وارث یتیم کو سر پرستی کے لئے مال دار ابو لہب جیسا چچا نہیں،ملا بے مایہ و بے بضاعت عم محترم ابو طالب کی نگرانی ملی۔
گھر میں نہ نقد ہے نہ جائداد ،حکومت ہے نہ ریاست ،خانہ ویرانی کا یہ عالم ہے کہ نہ ماں ہے نہ باپ نہ دادا نہ دادی ،نہ بھائی ہے نہ بہن،تنِ تنہا بے ساز و سامان ،بے یار و مددگار ایک یتیم ہے،ایک نو عمر اللہ کا بندہ ہے ،جسے سہارا ہے تو ان نظروں سے اوجھل مولا کا اور آسرا ہے ،تو اس نگاہ سے غائب مالک کا ،ہر عارضی ساےۂ عاطفت سے آزاد،اس اکیلے مالک کے مستقل سہارے کے
تحت زندگی کا توحیدی تجزیہ شروع ہوتا ہے۔
فضائے عالم کی تیرگی میں یہ یتیم نو عمر کھڑا ہوتا ہے،نو عمر حسین خوش رو ہے ،نو جوانی کا خون اس کی رگوں میں بھی گردش کرتا ہے ،ملک بھر میں فحش و بے حیائی کے چرچے ہیں ؛لیکن اس کی نیچی نظروں پر خود حیا داری قربان ہو جاتی ہے؛مے ناب کے ساغر ہر طرف جھلک رہے ہیں ،پیمانہ چاروں طرف گردش میں ہے لیکن اس کے دامنِ تقوٰی پر فرشتے تک نماز پڑھنے کے آرزو مند ہیں ۔لوگ لڑ رہے ہیں یہ صلح کرارہا ہے ،وہ چھیننے میں مصروف ہیں یہ بانٹنے میں ،دنیا حاصل کرنے اور فراہمی میں لگی ہوئی ہے یہ عطاء و بخشش میں ،عام مخلوق مخلوق پرستی کی لعنت میں مبتلا ہے اس کے
دل میں خالق کی لو لگی ہے۔پھر ایسے یتیم کا انتخاب کیا گیا تو کس لئے؟
جو زور والے تھے ان کا زور توڑنے کے لئے ، جو گھمنڈ والے تھے انہیں نیچا دکھانے کے لئے
اپنی مثال قدرت ،حکمت کا بے مثل نمونہ دکھانے کے لئے ،ایسے یتیم کا انتخاب جو نہ زر رکھتا تھا نہ زور ،آج مقابلہ زور اور ضعف کے درمیان ہے ،سامان کی فراہمی بے سروسامانی کے درمیان ہے،ادھر معاہدے اور شازشیں ہیں اِدھر تنہائی کی عبادتیں ہیں ۔جہاں جاہ و تجمل ہے، اس طرف فقرو توکل ہے ،یہ ظاہری طور پر اکیلا ،دنیا کی نظروں میں بے یار ومددگار ہے اس لئے اس پر جی بھر کے ٹھٹھے لگائے جا رہے ہیں ،اور یہ سب کرشمہ وہ دکھا رہاہے؛ جس نے نمرود کا بھیجہ ایک مچھر کے ذریعہ پاش پاش کردیا تھا؛جس نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو بھس اور چھوٹی چڑیوں کی خوراک بنا دیا تھا۔
وہی ہے جس نے اپنے محبوب کی سیرت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا، پہلے بے بسی و بسی پھر قوت و عظمت ہے،پہلے یتیمی و بے سامانی پھر غلبہ و کامرانی ہے ،پہلے ہجرت ہے پھر فتح و نصرت ہے۔
وہ یتیم بھی اور امی بھی ،ایسا امی کہ جب اس کے مالک کے طرف سے پیغام آتاہے منصب نبوت عطا ہو نے کا وقت آتاہے ،پیغام لانے والا’’اقراء با سم ربک الذی خلق‘‘ پکارتا ہے اقراء کی تکرار کرتا ہے تو جواب ملتا ہے ’’ما أنا بقاری‘‘میں تو امی ہوں ، مگر جو عطا ہونے والی خبر تھی وہ عطا ہو تی ہے، تو دنیا ہلنے لگتی ہے۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اوراک نسخۂ کیمیاں ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگادی بس اک آواز میں سوتی بستی جگادی
وہ آیا تو چا ر دانگِ عالم میں پکارتا ہوا آیا کہ خم زندگی کشا دم بہ جہاں تشنہ دے۔
ایسا یتیم ہے کہ سارے جہاں کا مالک اس کا سر پرست ہے اور امی ہے مگر کس کا امی ہے ؟
عمر فاروق کا تدبر و طریقۂ حکومت ،علی مرتضٰی کی حکمت و شجاعت،خالد کی تلوار تاریخ کا سرمایہ ہیں ،یہ سارے لوگ نیز ہارون و مامون اور تیمور و اورنگ زیب کس شمع کے پروانے تھے ، کس کے آستانے پر جبیں سائی سے رفعتیں اور بلند یاں حاصل کرتے رہے،کس کی خاک بوسی کو اپنے لئے معراج کمال اور وسیلۂ نجات سمجھتے رہے؟
امام بخاری کے مرتبہ و عظمت سے کون ناواقف ہے ؟ ان کی کاوش و تحقیق کی نظیر کسی ملک اور کسی قوم میں نہیں ملتی ،انہی امام بخاری نے پھر امام مسلم نے امام ابو داؤد نے امام ترمذی نے امام نسائی نے اپنی ساری عمریں کس شغل کی نذر کردیں، محض اسی ایک امی کے اعمال و اقوال کے جمع کر نے میں!!
عسقلانی و قسطلانی ،سخاوی و شوکانی، قاضی و نووی ، عظیم آبادی و مبارکپوری اور ان جیسے سیکڑوں دوسروں نے اپنی زندگیوں کو کس چیز کے لئے وقف کر رکھا تھا ؟ اسی امی کی شرح و تفسیر کے لئے!! *****
No comments:
Post a Comment