عبد الصبور عبد النور ندوی
ایک دوسری حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’من حج ولم یرفث ولم یفسق عاد کیوم ولدتہ امہ‘‘ جس نے حج کیا ، کوئی گناہ یا فسق و فجور کا کام نہیں کیا ،تو وہ (گناہوں سے پاک و صاف ہوکر) ایسے ہی لوٹتا ہے ،جیسے کہ اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔
ایک تیسری حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘الحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ‘‘ حج مقبول کا بدلہ صرف جنت ہے۔
محترم قارئین! اس مختصرتحریر میں حج کے صحیح طریقہ کی جانب رہنمائی کی گئی ہے، مختصر انداز اپنانے کی وجہ سے کچھ مسائل و احکام جان بوجھ کر چھوڑنے پڑے،ورنہ یہ ترتیب طویل ہوجاتی ۔اہم و ضروری چیزیں بیان کردی گئی ہیں،یہ تحریر شیخ ابن باز شیخ عثمین اور شیخ عبداللہ بن جبرین رحمہم اللہ کی کتابوں کے علاوہ ذاتی تجربات کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے۔
مقدمہ
حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا‘‘ اور لوگوں پر اللہ کے گھر (کعبہ) کا حج فرض ہے، جو وہاں تک پہونچنے کی طاقت رکھیں۔ حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ (۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔(۲) نماز قائم کرنا۔ (۳) زکوٰۃ دینا۔ (۴) رمضان کے روزہ رکھنا۔ (۵) اور حج کرنااس کے لیے جو جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو۔
لہذا حج زندگی میں ہر مسلمان پر فرض ہے جو صاحب استطاعت ہوں۔ استطاعت کہتے ہیں کہ مسلمان جسمانی طور پہ ٹھیک ٹھاک ہو، سواری کی طاقت رکھتا ہو، آنے جانے اور مکہ میں ہونے والے اخراجات کو برداشت کرسکتا ہو، البتہ عورتوں کے لیے ان شرطوں کے ساتھ کسی محرم کا ہونا بھی ضروری ہے۔حج تین طرح کے ہوتے ہیں۔
(۱) إفراد: یعنی آدمی صرف حج کا احرام باندھے گا، عمرے کا نہیں۔ (۲) قران: یعنی آدمی حج و عمرہ کی نیت ایک ساتھ کرکے احرام باندھے،اور کہیں بھی وہ احرام نہیں اتارے گا۔ (۳) تمتع: یعنی آدمی پہلے صرف عمرے کا احرام باندھے عمرے کے بعد احرام اتار دے، حلال ہو جائے۔ پھر حج کے لئے اپنی قیام گاہ سے دوبارہ احرام باندھے۔
ان تینوں قسموں میں سب سے افضل حج’’ تمتع‘‘ ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسی کی تاکید کی تھی۔ عموماً حجاج کرام تمتع ہی کرتے ہیں، اور بر صغیر ہندوپاک و نیپال کے لوگ بھی حج تمتع کی ہی نیت کرتے ہیں، اس لیے آنے والی سطروں میں اسی کے متعلق تفصیلات بیان کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔
میقات
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوں سے مکہ آنے والے حجاج کے لئے کئی مقامات کی نشاندہی فرمائی،جہاں حج و عمرہ کرنے والے احرام باندھیں۔
حاجی جب میقات پر پہونچے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ غسل کرے ، اپنے جسم پر خوشبو ملے، اس لیے کہ نبیﷺ نے احرام پہننے سے پہلے غسل کیا تھا، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے: کہ میں نبیﷺ کے بدن پر خوشبو ملتی تھی، آپﷺ کے احرام پہننے سے پہلے۔ اس موقع پر حاجی کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے ناخن تراش لے، بغل اور زیر ناف کے بال بھی
مونڈلے۔ میقات پانچ ہیں:
(۱) ذوالحلیفہ: آج کل اس جگہ کو أبیار علی کہتے ہیں، مدینہ سے ملا ہوا ہے ، اور یہاں سے مکہ کی دوری۴۲۸کلو میٹر ہے۔
(۲) الجحفہ: بحر احمر سے متصل ایک گاؤں کا نام ہے، آج کل ویران و بے آباد ہے۔ اس علاقے میں ایک شہر رابغ ہے، جہاں سے لوگ آج کل احرام باندھتے ہے، یہاں سے مکہ ۱۸۶ کلو میٹرہے۔
(۳) یلملم: یمن کے راستے پر ایک وادی کا نام ہے، یہ وادی مکہ سے ۱۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ، آج کل لوگ وادی سے قریب ایک گاؤں ’’سعدیہ‘‘ سے احرام باندھتے ہیں۔ نیپال،ہندوستان و پاکستان کے علاوہ مشرقی ایشیا کے تمام ممالک کے حجاج یہیں سے حج کی نیت کرتے ہیں، ہوائی جہاز سے سفر کرنے والے حجاج کو جہاز کے اندر ہی جگہ آنے پر بتادیا جاتا ہے، تاکہ حاجی حضرات وہاں سے نیت کرلیں۔
(۴) قرن المنازل: اس کاموجودہ نا م السیل الکبیر ہے یہاں سے مکہ ۷۵ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ مقام طائف سے متصل ہے۔
(۵) ذات عرق: آج کل اس کا نام الضریبہ ہے، مکہ یہاں سے ۱۰۰ کلو میٹر ہے، آج کل وہاں سے مکہ کے لیے کوئی قومی شاہراہ نہیں ہے۔
یہ میقات ہیں جو وہاں سے گذریں، اس سے پہلے احرام باندھ لیں اور وہاں گذرتے ہوئے حج وعمرے کی نیت کریں۔ جو مقامات یا بستیاں میقات کے اندر ہیں، جیسے جدہ اور مکہ والے،تو یہاں کے لوگ اپنے گھر سے ہی احرام باندھیں گے۔
إحرام
میقات پر پہونچ کر غسل سے فراغت کے بعد مرد حضرات؛ احرام ایک سفید چادر اور ایک سفید تہبند پہنیں گے۔ البتہ چپل یا جوتا ایسا ہو، جس سے آپ کا ٹخنہ نہ ڈھکے۔ البتہ عورتیں اپنا عام لباس پہنیں گی، عورتوں کا لباس چست نہ ہو، ایسا بھی نہ ہو، جس سے بے پردگی ہو یا مردوں سے مشابہ ہو۔ عورتوں کے لباس کا رنگ خاص نہیں ہے، کسی بھی رنگ کے کپڑے استعمال کرسکتی ہیں، عورتیں نہ تو نقاب کا استعمال کریں گی اور نہ ہی دستانے پہنیں گی ؛لیکن اجنبی مردوں سے اپنے چہروں کو دوپٹے یا دوسرے کپڑے سے چھپائیں گی۔ جیسا کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے:ہم احرام کی حالت میں اپنے چہروں کو اجنبی مردوں کے سامنے ڈھانکے رکھتے تھے۔
* احرام پہننے کے بعد حاجی اپنے دل میں عمرہ کی نیت کرے گا، نیت کے الفاظ اپنی زبان سے ادا بھی کرسکتا ہے، جیسے وہ کہے لبیک عمرۃ۔
* احرام پہننے کے بعد کوئی خاص نمازنہیں ثابت ہے، البتہ سنت یہ ہے کہ حاجی کسی بھی فرض نماز کے بعد احرام پہنے، یہ افضل ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔
* جو شخص جہاز سے سفر کررہا ہو ،وہ جب میقات کے برابر پہونچے ،وہاں احرام پہن کر نیت کرلے۔ یا جہاں سے آپ پرواز کریں ،وہیں احرام پہن لیں، البتہ نیت میقات سے ہی کریں، جس کی اطلاع جہاز پر دی جاتی ہے۔
* احرام پہننے اور نیت کے بعد حاجی کو چاہئے کہ وہ کثرت سے تلبیہ پکارتا رہے، اور اپنی آواز بلند رکھے۔ تلبیہ یہ ہے’’ لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، إن الحمد والنعمۃ لک والملک، لا شریک لک‘‘ ترجمہ: حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں، حاضر ہو ں اے پروردگار تیرا کوئی ساجھی نہیں، میں حاضر ہوں بے شک حمد وثنا اور نعمت و بادشاہی تیرے لئے ہی زیبا ہے۔ اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ البتہ عورتیں ہلکی آواز میں پکاریں گی۔
طواف
* حاجی جب خانۂ کعبہ پہونچے لبیک کہنا بند کردے اور اپنے احرام کی چادراس طرح پہن لیں کہ دایاں کندھا کھلا ہو اور بایاں ڈھکا ہو، یعنی احرام کی چادر کو اپنے دائیں کندھے کے نیچے بغل سے نکالیں اور بائیں کندھے پر ڈال دیں۔ پھر اگر آسانی سے موقع ملے، تو اپنے دائیں ہاتھ سے حجر اسود کو چھوئیں، بوسہ دیں اور اللہ اکبر کہیں، بھیڑ کی وجہ سے اگر موقع نہ ملے، تو صرف اپنے دائیں ہاتھ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ اکبر کہیں اور اپنا طواف شروع کردیں۔ یاد رہے سات چکروں میں سے ہر چکر حجر اسود سے شروع ہوگا اور وہیں جاکر ختم ہوگا۔ اور ہر چکر میں حجر اسود کی طرف اشارہ کرکے اللہ اکبر کہیں گے، اسی طرح آخری چکر ختم ہونے پر بھی اللہ اکبر کہہ کر حجر اسود کی طرف اشارہ کریں گے۔
* رکن یمانی: جب آپ چکر لگانا شروع کریں گے تو چکر پورا کرنے سے پہلے والے کونے کو رکن یمانی کہتے ہیں اس کا چھونا مستحب ہے اگر موقع ملے، ورنہ دور ہی سے گذر جائیں وہاں تکبیر نہیں کہیں گے، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے بیچ چلتے ہوئے یہ دعا خوب پڑھنی چاہئے:’’ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ ترجمہ: اے رب العالمین! دنیا و آخرت میں نیکیوں اور بھلائیوں سے نواز، اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
* طواف کے دوران کوئی خاص ذکر نہیں ہے، آپ قرآن کی تلاوت بھی کرسکتے ہیں اور مسنون دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں۔
* مرد حاجیوں کے لئے مسنون ہے کہ وہ طواف کے شروعاتی تین چکروں میں تھوڑا تیز چلیں، لیکن بھیڑ کے سبب ایک دوسرے سے ٹکرانے یا تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہو تو عام چال ہی چلیں دھیان رکھیں پہلے تین چکروں میں تیز چلنے کا حکم صرف پہلے طواف میں ہے بقیہ میں نہیں۔
* حاجی طواف کرنے سے پہلے وضو کرلے، طواف کے دوران اگر وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو کرنا چاہئے پھر وہیں سے بقیہ حصہ پورا کرے ،جہاں سے اس نے طواف چھوڑا تھا۔
* طواف مکمل کرنے کے بعد حاجی مقام ابراہیم کے پاس جائے ،دو رکعت نماز پڑھے، پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد (قل یا أیھا الکافرون) دوسری رکعت میں(قل ھو اللہ أحد) پڑھنا چاہئے، بھیڑ کی وجہ سے مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنا دشوار ہو، تو حرم شریف میں کہیں بھی پڑھ لیناجائز ہے۔
* دو رکعت کے بعد آپ اپنے احرام کی چادر درست کریں گے، یعنی اب دونوں کندھوں کو ڈھانک لیں گے۔ اس کے بعد حاجی کو اگر بآسانی موقع مل جائے، تو زمزم کا پانی پئے، یہ مسنون ہے۔
سعی
* حاجی اب صفا کی طرف رخ کرے گا اور وہاں پہونچنے پر یہ آیت اگر پڑھ سکے تو پڑھ لے:’’ إن الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت أواعتمر فلا جناح علیہ أن یطوف بہما ومن تطوع خیراً فإن اللہ شاکر علیم‘‘ ترجمہ:بیشک صفا ، مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، جو اللہ کے گھر کا حج یا عمرہ کرے تو اسے چا ہئے کے طواف کے ساتھ صفا ، مروہ کی سعی کرے ، جو بھلائی اور اجر کے لئے نفلی سعی ادا کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو بہتر بدلہ دینے والااور خوب جاننے والا ہے۔
آیت پڑھنے کے بعد حاجی کہے ’’أبدأبما بدأ اللہ بہ‘‘حاجی صفا پر خانۂ کعبہ کی طرف منہ کرکے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اور بلند آواز سے یہ ذکر پڑھے:’’ اللہ اکبر اللہ اکبر لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر، لا إلہ إلا اللہ وحدہ أنجز و عدہ ونصر عبدہ، وہزم الأحزاب وحدہ‘‘ اس کو پڑھنے کے بعد حاجی خاموش آوازمیں جو بھی دعا مانگنا چاہے مانگے۔ اس طرح اس ذکر کو شروع میں تین مرتبہ پڑھنا مسنون ہے۔
* حاجی اب مروۃ کی طرف دوڑ لگائے گا، تھوڑا سا آگے چلے گا تو آگے دو ہرے رنگ کی لائٹنگ ہوں گی ،ان دو نوں علامتوں کے درمیان تیز دوڑ لگانی چاہئے، البتہ عورتیں عام چال چلیں گی، وہ دوڑیں گی نہیں۔ حج کے دنوں صفا اور مروہ کے درمیان بہت بھیڑ ہوتی ہے ،وہاں تیز چلنا بیحد مشکل ہوتا ہے ،چہ جائے کہ آپ دوڑ لگائیں۔ اس لئے اس بھیڑ میں حاجی کو چاہئے کہ عام لوگوں کی طرح ہی وہ بھی چلیں۔
* مروہ پہونچنے پر آپ کی ایک دوڑ مکمل ہو جائے گی وہاں پہونچ کرقبلہ کی طرف منہ کرکے وہی دعا اور ذکر دہرائیں جو آپ نے صفا پر پڑھی تھی۔ اسی طرح آپ ساتوں چکر پر صفا و مروہ دونوں جگہ وہی دعائیں پڑھیں گے جنہیں اوپر لکھا گیا ہے۔
* سعی(دوڑ لگانے) کے دوران جو کچھ بھی آپ دعا مانگنا چاہیں، مانگیں، اللہ کا ذکر کریں اور اگر تلاوت کرنا چاہیں، تو قرآن کی تلاوت بھی کرتے رہیں۔
* سعی یا طواف کے دوران اگر نماز کا وقت ہوجائے ،تو اپنی جگہ پرہی پڑھ لیں اور وہیں نماز کے بعد سعی دوبارہ شروع کردیں۔
* سعی دومنزلہ عمارت ہے، دوسری منزل پر بھیڑ پہلی منزل کے بہ نسبت کم ہوتی ہے۔
بالوں کا منڈوانا یا کٹوانا:
* سعی سے فارغ ہونے کے بعد حاجی اپنے بالوں کو منڈوائے یا کٹوائے، یہاں چونکہ حاجی عمرہ کر رہا ہے اور حج کا وقت بھی قریب ہے،اس لیے حاجیوں کے لئے افضل ہے کہ وہ اپنے بالوں کو کٹوائیں،منڈوائیں نہیں۔
* یاد رہے کہ بالوں کو کٹواتے وقت پورے سر سے بال کٹنے چاہئے۔
* عورتیں صرف انگلی کے برابر اپنے بال کو کاٹیں گی۔
* اب حاجی عمرے سے فارغ ہو گیا۔ اپنے احرام اتاردے، عام لباس پہنے،یہاں تک کہ ذی الحجہ کی ۸ویں تاریخ آجائے، اور اس دن حاجی اپنی قیام گاہ سے حج کے لیے احرام باندھے گا۔
آٹھویں ذی الحجہ
آٹھویں ذی الحجہ کو’’ یو م الترویہ‘‘ کہتے ہیں، اس روز حاجی نہا دھو کر اپنے بدن میں خوشبو لگا کر احرام پہنے گا اور حج کی نیت کرے گا: اللہم لبیک حجاًاحرام پہننے کے بعد تلبیہ پکارنا شروع کرے گا، لبیک اللہم لبیک اس کے بعد حاجی منیٰ پہونچے گا، وہاں قیام کرے گا۔ظہر،عصر،مغرب ،عشاء اور نویں ذی الحجہ کی فجر کی نماز پڑھے گا، چار رکعت والی نمازیں حاجی دو دو رکعت کرکے پڑھیگا۔ اور بہتر ہے کہ وہ اپنے خیموں میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے۔
۹ویں ذی الحجہ
* ۹ویں ذی الحجہ کا سورج طلوع ہونے کے بعد حاجی عرفہ کے لئے روانہ ہوجائے۔یہی مسنون طریقہ ہے۔ لیکن بعض معلم حضرات اپنے حاجیوں کو رات ہی میں عرفہ پہونچا دیتے ہیں، یہ بھی جائز ہے۔
* حاجیوں کے لئے سب سے اہم دن آپہونچا ہے، جس کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا: عرفہ ہی حج ہے۔ جو شخص عرفہ نہیں پہونچ سکا، اس کا حج ہوگا ہی نہیں۔ میدان عرفات میں ظہر کے وقت مفتئ اعظم سعودی عرب تمام حجاج کرام کو خطاب کرتے ہیں، جس میں عرفہ کے دن کے اعمال، اذکار، اور مسلمانوں کی اصلاح و تقویٰ کے موضوع پر اظہار خیال ہوتا ہے۔ حاجیوں کے بیشتر خیموں میں ہارن کا انتظام ہوتا ہے، جس سے خطبہ آپ بآسانی سن سکتے ہیں، اگر ہارن کا انتظام کسی خیمے میں نہ ہو ،تو آپ اسے معلم کی لاپروائی سمجھیں۔
* میدان عرفات میں مسجد نمرہ کے پاس بیٹھنا مسنون عمل ہے؛ لیکن حاجیوں کی زبردست بھیڑ کی وجہ سے حاجی حضرات اپنے خیموں میں رہیں اور وہیں عبادت و تلاوت دعا و گریہ زاری میں مشغول رہیں ،مسجد نمبرہ کی تلاش میں نہ نکلیں ،ورنہ راستہ بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ حاجی حضرات خیموں میں اپنی ہر عبادت، دعاء و عمل میں قبلہ کا خیال رکھیں۔
* خطبہ کے بعد حاجی حضرات ظہر اور عصر دو،دو رکعت ظہر کے وقت میں ہی پڑھیں گے۔ اس کے بعد اللہ کے ذکر و دعاء میں پوری دلجمعی سے محو ہو جائیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر دعاس عرفہ کے دن کا ہے ، اور ذکر میں سب سے افضل ذکر عرفہ کے دن’’لاإلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد یحیی و یمیت وہو علی علی کل شءي قدیر،، کا پڑھنا ہے۔
* حاجیوں کو اپنی دعاؤں کے دوران اس دعا کو بھی کثرت سے پڑھنا چاہئے۔ اور سورج کے غروب ہونے تک اپنی دعاؤں میں ، آہ و زاری میں گناہوں سے مغفرت طلب کرنے میں تیزی جاری رکھیں۔
* سورج ڈوبنے سے پہلے مزدلفہ لے جانے والی بسیں تیار ہوجاتی ہیں، لہذا حجاج کوچاہئے کہ جلدی سے بس میں پہونچ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں اور بس کے اندر ہی دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھیں، خیموں سے تاخیر کرنے میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو بس میں جگہ نہ ملے۔ یہاں سے کوئی بسسورج غروب ہونے سے پہلے ہرگز نہ چلے گی۔
* سورج ڈوبنے کے بعد اب آپ کو مزدلفہ کے لئے روانہ ہونا ہے، وہاں پہونچ کر آپ کو مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ قصر کرتے ہوئے پڑھنی ہے۔ یاد رہے مغرب میں قصر نہیں ہے۔
* تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عرفات سے نکلتے وقت ٹریفک جام ہوجاتی ہے اور آدھی بسیں مزدلفہ نہیں پہونچ پاتیں، اور بسوں کے مزدلفہ پہونچنے تک صبح یا دوپہر ہوجاتی ہے۔ اسلئے حاجیوں کو چاہئے کہ بس سے اتر کر پیدل چل پڑیں، تاکہ آپ وہاں رات کا کچھ حصہ پا جائیں۔
* اگر آپ کا خیمہ مزدلفہ میں ہے، تو آپ ڈائرکٹ اپنے خیمے میں چلے جائیں، نماز پڑھیں اور سوجائیں۔ مزدلفہ کھلا میدان ہے ،جہاں حجاج کھلے آسمان کے نیچے سوتے ہیں۔
* مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد اگر ممکن ہو سکے، تو مسجد المشعر الحرام کے پاس قبلہ رو ہو کر ہاتھوں کو اٹھاکر خوب دعائیں مانگنی چاہئیں۔
دسویں ذی الحجہ
* مزدلفہ میں فجر کے بعد جب صبح کی سفیدی خوب پھیل جائے، تو حاجی حضرات وہاں سے منیٰ کے لئے نکل پڑیں۔
* کمزور مرد و خواتین دوتہائی رات کے بعد(یعنی فجر سے پہلے) ہی منیٰ کی طرف نکل سکتے ہیں۔
* منیٰ کی طرف لوٹتے ہو ئے راستے میں زیادہ سے زیادہ تلبیہ’’لبیک اللہم لبیک‘‘ پکارنا چاہئے۔
* اب بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے کی باری ہے۔ آج عید الأضحی کا دن ہے، سورج نکلنے کے بعد آپ سات کنکریاں لیں، کنکریاں چنے کی سائز کی ہونی چاہئے۔
* شیطان کو جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں، وہ علاقہ مکے سے متصل ہے۔ جمرات پر چار منزلہ کشادہ پل بنائے گئے ہیں، ہر ایک کا راستہ الگ ہے، آپ جب کنکریاں مارنے نکلیں گے تو ایک طویل ٹین شیڈ دکھائی دے گا، اسی ٹین شیڈ کے نیچے ہو جائیں تقریباً دو کلو میٹر چلنے کے بعد آپ کے سامنے جمرات ہوگا، چونکہ آج آپ کو صرف بڑے شیطان کو کنکریا ں مارنی ہیں ، سب سے پہلے راستے میں چھوٹا پھر درمیانہ پھر بڑا شیطان ہوگا، خوب کشادہ اور اونچی دیوار ہے، دیوار کے ارد گردحوض بنا ہوا ہے، اللہ اکبر کہہ کر ہر کنکری ماریں گے، حوض میں کنکری کاگر جانا ہی کافی ہوگا۔
* کنکری مارنے کے لیے حوض کے آخری سرے پر جائیں وہاں بھیڑ نہیں ہوتی ہے، اطمینان سے ماریں۔ جمرات کے لئے بیمارکمزور مرد و خواتین اپنے کسی قریبی کو وکیل بنا لیں۔
* عورتوں یا کمزو رمرد حاجیوں کے بدلے بھی کنکری ماری جاسکتی ہے، مرد یا عورتیں جسے وکیل بنادیں وہ ان کا حصہ کنکری ماریں گے؛ لیکن اپنا حصہ مارنے کے بعد۔
* اب باری ہے قربانی کرنے کی، آپ کو خود قربانی کا موقع نہیں ملے گا، اس لئے اپنے ملک سے مکہ پہونچتے ہی حرم کے سامنے بینک الراجحی، یا الندوۃ العالمیہ للشباب الاسلامی یا دوسری تنظیموں کے کاؤنٹر کھلے ملیں گے، وہاں قربانی کی رقم ادا کرکے رسید حاصل کرلیں۔ غیر رجسٹرڈ تنظیموں سے ہوشیار رہیں۔
* لھذا آپ کنکریاں مارنے کے بعد اپنے بالوں کو منڈوالیں۔ ہاں منڈوانے والے حاجی کے لئے پیارے نبیﷺ نے تین مرتبہ مغفرت کی دعا فرمائی ہے۔ جب کہ کٹوانے والے کے لیے صرف ایک مرتبہ دعا کی ہے۔ عورتیں اپنے بالوں کو انگلیوں کے برابر کاٹ لیں گی۔
* شیطان کو کنکریاں مارنے اور بال منڈوانے کے بعد حاجی حلال ہوجاتا ہے، اپنا لباس تبدیل کرسکتا ہے، سارے کام وہ کرسکتا ہے جو احرام میں ہونے کی وجہ سے اسکے لئے ممنوع تھے۔ سوائے بیویوں سے ملاقات کے۔
* اب حاجی طواف افاضہ کے لئے مسجد حرام کا رخ کرے گا، جہاں وہ خانۂ کعبہ کا طواف کرے، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے۔ طواف و سعی اسی طرح کرے گا ،جس طرح عمرہ کے لئے طواف و سعی کیا گیا تھا۔
* طواف افاضہ کے بعد حاجی پوری طرح حلال ہو جائے گا، اب وہ اپنی بیوی سے ملاقات بھی کرسکتا ہے۔
۱۱ویں ذی الحجہ
* طواف افاضہ اگر حاجی دسویں ذی الحجہ کو نہیں کرسکا، تو اس کے بعد والے دنوں میں وہ طواف افاضہ کر سکتا ہے؛لیکن اس کے لئے بیوی حلال نہ ہوگی ،جب تک وہ افاضہ نہ کرلے۔
* منیٰ میں آپ کا قیام بدستور جاری رہے گا، ۱۱ویں ذی الحجہ کو ظہر کے بعد چھوٹے، درمیانہ اور بڑے شیطان کو سات سات کنکریا ں ماریں گے۔ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں گے، چھوٹیاور میڈیم شیطان کو کنکری مارنے کے بعد دونوں جگہ قبلہ منہ کرکے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے۔ بڑے شیطان کو کنکریاں مارے ہوئے آگے بڑھ جائیں، وہاں نہ رکیں اور نہ ہی دعا کریں۔
۱۲ ویں ذی الحجہ
* زوال شمس(ظہر کے بعد) پھر آپ کنکریاں مارنے نکلیں گے، ترتیب کے ساتھ چھوٹے ،متوسط اور بڑے شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں گے،ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں گے۔ چھوٹے اور میڈیم شیطان کو کنکری مارنے کے بعد دونوں جگہ قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھائیں اور خوب دعائیں کریں۔ بڑے شیطان کو کنکرکی مارنے کے بعد آگے بڑھ جائیں، وہاں نہ رکیں نہ دعا مانگیں۔
۱۳وی ذی الحجہ
* حاجی ۱۲ ؍ویں ذی الحجہ کو کنکریاں مارکر منیٰ چھوڑ سکتا ہے، اور جو ۱۳ ؍تک رکنا چاہیں، وہ۱۳؍ ذ ی الحجہ کو بھی ۱۲؍ ذی الحجہ کی طرح کنکریاں ماریں گے، پھر مکہ واپس ہونگے۔
* تقریباً سارے حجاج ۱۲؍ذی الحجہ کو کنکری مارکر منیٰ چھوڑ کے مکہ آجاتے ہے۔ بہت کم حاجی۱۳؍ ذی الحجہ تک منیٰ میں رہتے ہیں۔
* یاد رہے کہ۱۰؍ ذی الحجہ کے بعد ۱۲؍ذی الحجہ تک حاجی رات منیٰ میں اپنے خیموں میں گذاریں گے، کوئی مکہ جاکر اپنے ہوٹل میں رات ہرگز نہ گزارے۔
طواف و داع
* حج سے فراغت کے جب حجاج کرام جب مکہ چھوڑ کر اپنے وطن کے لیے روانہ ہوں، یا ان کا روٹ ایسا ہو کہ مکہ سے مدینہ پھر مدینہ سے جدہ آنا ہو، ایسی صورت میں طواف وداع پہلے ہی کرلیں گے۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ مکہ دوبارہ نہیں آنا ہے ،تو طواف وداع کرکے ہی نکلیں۔ طواف وداع تمام مرد و خواتین حجاج پر واجب ہے۔ البتہ حیض و نفاس والی عورتوں کے لیے طواف و داع ضروری نہیں، وہ بغیر طواف کئے اپنے گھر یا وطن جا سکتی ہیں۔
چند اہم مسائل
* نا بالغ بچوں کا حج ہوجائے گا، اور اس کا ثواب والدین کو ملے گا، مگر حج کی فرضیت اس بچے سے ساقط نہ ہوگی۔ بالغ ہونے کے بعد اسے دوبارہ حج کرنا ہوگا(حسب استطاعت)۔
* حج کے وہ تمام کام جسے ادا کرنے سے بچہ عاجز ہوجائے، اس کی نیابت اس کے ولی(والدین یاد دیگر اقرباء) کریں گے۔ جیسے کنکری مارنا وغیرہ۔
* وہ عورتیں جنہیں ماہواری آجائے، وہ حج کے تمام اعمال کریں گی، سوائے بیت اللہ کے طواف کے۔ جب حیض ختم ہوجائے تو وہ غسل کے بعد خانۂ کعبہ کا طواف کرے گی۔
* حج کے دنوں میں اگر عورتوں کے ماہواری کے دن پڑتے ہوں تو ایسی عورتیں مانع حیض دوائیں استعمال کرسکتی ہیں، تاکہ حج کے ایام میں حیض نہ آئے اور سارے کام وہ بآسانی کرسکیں۔
* وہ شخص جو حج کی طاقت رکھتا تھا ،مگر اس کی مو ت ہوگئی تو اس کے ورثہ اسکے مال سے اس کی طرف سے حج کریں گے۔ اسی طرح میت کی طرف سے اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اسے ثواب پہونچانے کی غرض سے حج کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔
* ایسے بوڑھے اور بیمار حضرات جنہیں شفاء یا زندگی کی امید نہ ہو وہ حج کے لیے کسی کو نائب بنا کر بھیج سکتے ہیں، مگر نیابت کرنے والا شخص اپنا حج کرچکا ہو،یہ ضروری ہے تبھی وہ دوسروں کی نیابت کرسکتا ہے۔
حالت احرام میں ممنوع چیزیں
* احرام کی حالت میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا کرنا جائز نہیں ہے۔
* اپنے بال یا ناخن کاٹنا۔
* احرام کے کپڑوں یا جسم میں خوشبو کا ملنا۔
* اپنے سرکو کسی چیز سے ڈھانکنا، جیسے ٹوپی یا رومال وغیرہ، البتہ چھتری استعمال کرسکتے ہیں۔
* شادی کرنا یا کرانا، یا نکاح کے لیے کسی کو پیغام دینا۔
* بیوی سے جماع کرنا۔
* شہوت کے ساتھ مباشرت کرنا، بوسہ لینا وغیرہ۔
* سلے ہوئے کپڑے پہننا۔ صرف مردوں کے لئے ممنوع ہے ، عورتوں کیلئے نہیں۔
* خشکی کے جانوروں کاشکار کرنا ،جیسے ہرن، خرگوش، کبوتر وغیرہ۔
جس کسی سے ان ممنوع چیزوں میں بھول کر یا جانکاری نہ ہونے کی صورت میں کوئی فعل سرزد ہوگیا ہو تو اس پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ فدیہ۔
****
حج کا مسنون طریقہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’خذوا عنی منا سککم‘‘ حج کے طور طریقے مجھ سے سیکھ لو۔چنانچہ صحابۂ کرام نے آپﷺ سے حج کا طریقہ تفصیل سے سیکھا، مسائل و احکام آپﷺ سے جانے، اور جاننے و سیکھنے کے بعد اپنے شاگردوں کو سکھائے،بتائے۔یہاں تک کہ محدثین کرام نے حج کے متعلق اپنی کتابوں میں بہت ساری حدیثیں جمع کردیں،اللہ ان سب سے راضی ہو۔ایک دوسری حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’من حج ولم یرفث ولم یفسق عاد کیوم ولدتہ امہ‘‘ جس نے حج کیا ، کوئی گناہ یا فسق و فجور کا کام نہیں کیا ،تو وہ (گناہوں سے پاک و صاف ہوکر) ایسے ہی لوٹتا ہے ،جیسے کہ اس کی ماں نے ابھی جنا ہو۔
ایک تیسری حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘الحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ‘‘ حج مقبول کا بدلہ صرف جنت ہے۔
محترم قارئین! اس مختصرتحریر میں حج کے صحیح طریقہ کی جانب رہنمائی کی گئی ہے، مختصر انداز اپنانے کی وجہ سے کچھ مسائل و احکام جان بوجھ کر چھوڑنے پڑے،ورنہ یہ ترتیب طویل ہوجاتی ۔اہم و ضروری چیزیں بیان کردی گئی ہیں،یہ تحریر شیخ ابن باز شیخ عثمین اور شیخ عبداللہ بن جبرین رحمہم اللہ کی کتابوں کے علاوہ ذاتی تجربات کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے۔
مقدمہ
حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا‘‘ اور لوگوں پر اللہ کے گھر (کعبہ) کا حج فرض ہے، جو وہاں تک پہونچنے کی طاقت رکھیں۔ حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ (۱) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔(۲) نماز قائم کرنا۔ (۳) زکوٰۃ دینا۔ (۴) رمضان کے روزہ رکھنا۔ (۵) اور حج کرنااس کے لیے جو جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو۔
لہذا حج زندگی میں ہر مسلمان پر فرض ہے جو صاحب استطاعت ہوں۔ استطاعت کہتے ہیں کہ مسلمان جسمانی طور پہ ٹھیک ٹھاک ہو، سواری کی طاقت رکھتا ہو، آنے جانے اور مکہ میں ہونے والے اخراجات کو برداشت کرسکتا ہو، البتہ عورتوں کے لیے ان شرطوں کے ساتھ کسی محرم کا ہونا بھی ضروری ہے۔حج تین طرح کے ہوتے ہیں۔
(۱) إفراد: یعنی آدمی صرف حج کا احرام باندھے گا، عمرے کا نہیں۔ (۲) قران: یعنی آدمی حج و عمرہ کی نیت ایک ساتھ کرکے احرام باندھے،اور کہیں بھی وہ احرام نہیں اتارے گا۔ (۳) تمتع: یعنی آدمی پہلے صرف عمرے کا احرام باندھے عمرے کے بعد احرام اتار دے، حلال ہو جائے۔ پھر حج کے لئے اپنی قیام گاہ سے دوبارہ احرام باندھے۔
ان تینوں قسموں میں سب سے افضل حج’’ تمتع‘‘ ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسی کی تاکید کی تھی۔ عموماً حجاج کرام تمتع ہی کرتے ہیں، اور بر صغیر ہندوپاک و نیپال کے لوگ بھی حج تمتع کی ہی نیت کرتے ہیں، اس لیے آنے والی سطروں میں اسی کے متعلق تفصیلات بیان کی جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔
میقات
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوں سے مکہ آنے والے حجاج کے لئے کئی مقامات کی نشاندہی فرمائی،جہاں حج و عمرہ کرنے والے احرام باندھیں۔
حاجی جب میقات پر پہونچے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ غسل کرے ، اپنے جسم پر خوشبو ملے، اس لیے کہ نبیﷺ نے احرام پہننے سے پہلے غسل کیا تھا، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے: کہ میں نبیﷺ کے بدن پر خوشبو ملتی تھی، آپﷺ کے احرام پہننے سے پہلے۔ اس موقع پر حاجی کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے ناخن تراش لے، بغل اور زیر ناف کے بال بھی
مونڈلے۔ میقات پانچ ہیں:
(۱) ذوالحلیفہ: آج کل اس جگہ کو أبیار علی کہتے ہیں، مدینہ سے ملا ہوا ہے ، اور یہاں سے مکہ کی دوری۴۲۸کلو میٹر ہے۔
(۲) الجحفہ: بحر احمر سے متصل ایک گاؤں کا نام ہے، آج کل ویران و بے آباد ہے۔ اس علاقے میں ایک شہر رابغ ہے، جہاں سے لوگ آج کل احرام باندھتے ہے، یہاں سے مکہ ۱۸۶ کلو میٹرہے۔
(۳) یلملم: یمن کے راستے پر ایک وادی کا نام ہے، یہ وادی مکہ سے ۱۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ، آج کل لوگ وادی سے قریب ایک گاؤں ’’سعدیہ‘‘ سے احرام باندھتے ہیں۔ نیپال،ہندوستان و پاکستان کے علاوہ مشرقی ایشیا کے تمام ممالک کے حجاج یہیں سے حج کی نیت کرتے ہیں، ہوائی جہاز سے سفر کرنے والے حجاج کو جہاز کے اندر ہی جگہ آنے پر بتادیا جاتا ہے، تاکہ حاجی حضرات وہاں سے نیت کرلیں۔
(۴) قرن المنازل: اس کاموجودہ نا م السیل الکبیر ہے یہاں سے مکہ ۷۵ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ مقام طائف سے متصل ہے۔
(۵) ذات عرق: آج کل اس کا نام الضریبہ ہے، مکہ یہاں سے ۱۰۰ کلو میٹر ہے، آج کل وہاں سے مکہ کے لیے کوئی قومی شاہراہ نہیں ہے۔
یہ میقات ہیں جو وہاں سے گذریں، اس سے پہلے احرام باندھ لیں اور وہاں گذرتے ہوئے حج وعمرے کی نیت کریں۔ جو مقامات یا بستیاں میقات کے اندر ہیں، جیسے جدہ اور مکہ والے،تو یہاں کے لوگ اپنے گھر سے ہی احرام باندھیں گے۔
إحرام
میقات پر پہونچ کر غسل سے فراغت کے بعد مرد حضرات؛ احرام ایک سفید چادر اور ایک سفید تہبند پہنیں گے۔ البتہ چپل یا جوتا ایسا ہو، جس سے آپ کا ٹخنہ نہ ڈھکے۔ البتہ عورتیں اپنا عام لباس پہنیں گی، عورتوں کا لباس چست نہ ہو، ایسا بھی نہ ہو، جس سے بے پردگی ہو یا مردوں سے مشابہ ہو۔ عورتوں کے لباس کا رنگ خاص نہیں ہے، کسی بھی رنگ کے کپڑے استعمال کرسکتی ہیں، عورتیں نہ تو نقاب کا استعمال کریں گی اور نہ ہی دستانے پہنیں گی ؛لیکن اجنبی مردوں سے اپنے چہروں کو دوپٹے یا دوسرے کپڑے سے چھپائیں گی۔ جیسا کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے:ہم احرام کی حالت میں اپنے چہروں کو اجنبی مردوں کے سامنے ڈھانکے رکھتے تھے۔
* احرام پہننے کے بعد حاجی اپنے دل میں عمرہ کی نیت کرے گا، نیت کے الفاظ اپنی زبان سے ادا بھی کرسکتا ہے، جیسے وہ کہے لبیک عمرۃ۔
* احرام پہننے کے بعد کوئی خاص نمازنہیں ثابت ہے، البتہ سنت یہ ہے کہ حاجی کسی بھی فرض نماز کے بعد احرام پہنے، یہ افضل ہے، اس لئے کہ نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔
* جو شخص جہاز سے سفر کررہا ہو ،وہ جب میقات کے برابر پہونچے ،وہاں احرام پہن کر نیت کرلے۔ یا جہاں سے آپ پرواز کریں ،وہیں احرام پہن لیں، البتہ نیت میقات سے ہی کریں، جس کی اطلاع جہاز پر دی جاتی ہے۔
* احرام پہننے اور نیت کے بعد حاجی کو چاہئے کہ وہ کثرت سے تلبیہ پکارتا رہے، اور اپنی آواز بلند رکھے۔ تلبیہ یہ ہے’’ لبیک اللہم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، إن الحمد والنعمۃ لک والملک، لا شریک لک‘‘ ترجمہ: حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں، حاضر ہو ں اے پروردگار تیرا کوئی ساجھی نہیں، میں حاضر ہوں بے شک حمد وثنا اور نعمت و بادشاہی تیرے لئے ہی زیبا ہے۔ اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ البتہ عورتیں ہلکی آواز میں پکاریں گی۔
طواف
* حاجی جب خانۂ کعبہ پہونچے لبیک کہنا بند کردے اور اپنے احرام کی چادراس طرح پہن لیں کہ دایاں کندھا کھلا ہو اور بایاں ڈھکا ہو، یعنی احرام کی چادر کو اپنے دائیں کندھے کے نیچے بغل سے نکالیں اور بائیں کندھے پر ڈال دیں۔ پھر اگر آسانی سے موقع ملے، تو اپنے دائیں ہاتھ سے حجر اسود کو چھوئیں، بوسہ دیں اور اللہ اکبر کہیں، بھیڑ کی وجہ سے اگر موقع نہ ملے، تو صرف اپنے دائیں ہاتھ سے حجر اسود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ اکبر کہیں اور اپنا طواف شروع کردیں۔ یاد رہے سات چکروں میں سے ہر چکر حجر اسود سے شروع ہوگا اور وہیں جاکر ختم ہوگا۔ اور ہر چکر میں حجر اسود کی طرف اشارہ کرکے اللہ اکبر کہیں گے، اسی طرح آخری چکر ختم ہونے پر بھی اللہ اکبر کہہ کر حجر اسود کی طرف اشارہ کریں گے۔
* رکن یمانی: جب آپ چکر لگانا شروع کریں گے تو چکر پورا کرنے سے پہلے والے کونے کو رکن یمانی کہتے ہیں اس کا چھونا مستحب ہے اگر موقع ملے، ورنہ دور ہی سے گذر جائیں وہاں تکبیر نہیں کہیں گے، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے بیچ چلتے ہوئے یہ دعا خوب پڑھنی چاہئے:’’ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ ترجمہ: اے رب العالمین! دنیا و آخرت میں نیکیوں اور بھلائیوں سے نواز، اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
* طواف کے دوران کوئی خاص ذکر نہیں ہے، آپ قرآن کی تلاوت بھی کرسکتے ہیں اور مسنون دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں۔
* مرد حاجیوں کے لئے مسنون ہے کہ وہ طواف کے شروعاتی تین چکروں میں تھوڑا تیز چلیں، لیکن بھیڑ کے سبب ایک دوسرے سے ٹکرانے یا تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہو تو عام چال ہی چلیں دھیان رکھیں پہلے تین چکروں میں تیز چلنے کا حکم صرف پہلے طواف میں ہے بقیہ میں نہیں۔
* حاجی طواف کرنے سے پہلے وضو کرلے، طواف کے دوران اگر وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو کرنا چاہئے پھر وہیں سے بقیہ حصہ پورا کرے ،جہاں سے اس نے طواف چھوڑا تھا۔
* طواف مکمل کرنے کے بعد حاجی مقام ابراہیم کے پاس جائے ،دو رکعت نماز پڑھے، پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد (قل یا أیھا الکافرون) دوسری رکعت میں(قل ھو اللہ أحد) پڑھنا چاہئے، بھیڑ کی وجہ سے مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنا دشوار ہو، تو حرم شریف میں کہیں بھی پڑھ لیناجائز ہے۔
* دو رکعت کے بعد آپ اپنے احرام کی چادر درست کریں گے، یعنی اب دونوں کندھوں کو ڈھانک لیں گے۔ اس کے بعد حاجی کو اگر بآسانی موقع مل جائے، تو زمزم کا پانی پئے، یہ مسنون ہے۔
سعی
* حاجی اب صفا کی طرف رخ کرے گا اور وہاں پہونچنے پر یہ آیت اگر پڑھ سکے تو پڑھ لے:’’ إن الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت أواعتمر فلا جناح علیہ أن یطوف بہما ومن تطوع خیراً فإن اللہ شاکر علیم‘‘ ترجمہ:بیشک صفا ، مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، جو اللہ کے گھر کا حج یا عمرہ کرے تو اسے چا ہئے کے طواف کے ساتھ صفا ، مروہ کی سعی کرے ، جو بھلائی اور اجر کے لئے نفلی سعی ادا کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو بہتر بدلہ دینے والااور خوب جاننے والا ہے۔
آیت پڑھنے کے بعد حاجی کہے ’’أبدأبما بدأ اللہ بہ‘‘حاجی صفا پر خانۂ کعبہ کی طرف منہ کرکے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اور بلند آواز سے یہ ذکر پڑھے:’’ اللہ اکبر اللہ اکبر لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر، لا إلہ إلا اللہ وحدہ أنجز و عدہ ونصر عبدہ، وہزم الأحزاب وحدہ‘‘ اس کو پڑھنے کے بعد حاجی خاموش آوازمیں جو بھی دعا مانگنا چاہے مانگے۔ اس طرح اس ذکر کو شروع میں تین مرتبہ پڑھنا مسنون ہے۔
* حاجی اب مروۃ کی طرف دوڑ لگائے گا، تھوڑا سا آگے چلے گا تو آگے دو ہرے رنگ کی لائٹنگ ہوں گی ،ان دو نوں علامتوں کے درمیان تیز دوڑ لگانی چاہئے، البتہ عورتیں عام چال چلیں گی، وہ دوڑیں گی نہیں۔ حج کے دنوں صفا اور مروہ کے درمیان بہت بھیڑ ہوتی ہے ،وہاں تیز چلنا بیحد مشکل ہوتا ہے ،چہ جائے کہ آپ دوڑ لگائیں۔ اس لئے اس بھیڑ میں حاجی کو چاہئے کہ عام لوگوں کی طرح ہی وہ بھی چلیں۔
* مروہ پہونچنے پر آپ کی ایک دوڑ مکمل ہو جائے گی وہاں پہونچ کرقبلہ کی طرف منہ کرکے وہی دعا اور ذکر دہرائیں جو آپ نے صفا پر پڑھی تھی۔ اسی طرح آپ ساتوں چکر پر صفا و مروہ دونوں جگہ وہی دعائیں پڑھیں گے جنہیں اوپر لکھا گیا ہے۔
* سعی(دوڑ لگانے) کے دوران جو کچھ بھی آپ دعا مانگنا چاہیں، مانگیں، اللہ کا ذکر کریں اور اگر تلاوت کرنا چاہیں، تو قرآن کی تلاوت بھی کرتے رہیں۔
* سعی یا طواف کے دوران اگر نماز کا وقت ہوجائے ،تو اپنی جگہ پرہی پڑھ لیں اور وہیں نماز کے بعد سعی دوبارہ شروع کردیں۔
* سعی دومنزلہ عمارت ہے، دوسری منزل پر بھیڑ پہلی منزل کے بہ نسبت کم ہوتی ہے۔
بالوں کا منڈوانا یا کٹوانا:
* سعی سے فارغ ہونے کے بعد حاجی اپنے بالوں کو منڈوائے یا کٹوائے، یہاں چونکہ حاجی عمرہ کر رہا ہے اور حج کا وقت بھی قریب ہے،اس لیے حاجیوں کے لئے افضل ہے کہ وہ اپنے بالوں کو کٹوائیں،منڈوائیں نہیں۔
* یاد رہے کہ بالوں کو کٹواتے وقت پورے سر سے بال کٹنے چاہئے۔
* عورتیں صرف انگلی کے برابر اپنے بال کو کاٹیں گی۔
* اب حاجی عمرے سے فارغ ہو گیا۔ اپنے احرام اتاردے، عام لباس پہنے،یہاں تک کہ ذی الحجہ کی ۸ویں تاریخ آجائے، اور اس دن حاجی اپنی قیام گاہ سے حج کے لیے احرام باندھے گا۔
آٹھویں ذی الحجہ
آٹھویں ذی الحجہ کو’’ یو م الترویہ‘‘ کہتے ہیں، اس روز حاجی نہا دھو کر اپنے بدن میں خوشبو لگا کر احرام پہنے گا اور حج کی نیت کرے گا: اللہم لبیک حجاًاحرام پہننے کے بعد تلبیہ پکارنا شروع کرے گا، لبیک اللہم لبیک اس کے بعد حاجی منیٰ پہونچے گا، وہاں قیام کرے گا۔ظہر،عصر،مغرب ،عشاء اور نویں ذی الحجہ کی فجر کی نماز پڑھے گا، چار رکعت والی نمازیں حاجی دو دو رکعت کرکے پڑھیگا۔ اور بہتر ہے کہ وہ اپنے خیموں میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے۔
۹ویں ذی الحجہ
* ۹ویں ذی الحجہ کا سورج طلوع ہونے کے بعد حاجی عرفہ کے لئے روانہ ہوجائے۔یہی مسنون طریقہ ہے۔ لیکن بعض معلم حضرات اپنے حاجیوں کو رات ہی میں عرفہ پہونچا دیتے ہیں، یہ بھی جائز ہے۔
* حاجیوں کے لئے سب سے اہم دن آپہونچا ہے، جس کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا: عرفہ ہی حج ہے۔ جو شخص عرفہ نہیں پہونچ سکا، اس کا حج ہوگا ہی نہیں۔ میدان عرفات میں ظہر کے وقت مفتئ اعظم سعودی عرب تمام حجاج کرام کو خطاب کرتے ہیں، جس میں عرفہ کے دن کے اعمال، اذکار، اور مسلمانوں کی اصلاح و تقویٰ کے موضوع پر اظہار خیال ہوتا ہے۔ حاجیوں کے بیشتر خیموں میں ہارن کا انتظام ہوتا ہے، جس سے خطبہ آپ بآسانی سن سکتے ہیں، اگر ہارن کا انتظام کسی خیمے میں نہ ہو ،تو آپ اسے معلم کی لاپروائی سمجھیں۔
* میدان عرفات میں مسجد نمرہ کے پاس بیٹھنا مسنون عمل ہے؛ لیکن حاجیوں کی زبردست بھیڑ کی وجہ سے حاجی حضرات اپنے خیموں میں رہیں اور وہیں عبادت و تلاوت دعا و گریہ زاری میں مشغول رہیں ،مسجد نمبرہ کی تلاش میں نہ نکلیں ،ورنہ راستہ بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ حاجی حضرات خیموں میں اپنی ہر عبادت، دعاء و عمل میں قبلہ کا خیال رکھیں۔
* خطبہ کے بعد حاجی حضرات ظہر اور عصر دو،دو رکعت ظہر کے وقت میں ہی پڑھیں گے۔ اس کے بعد اللہ کے ذکر و دعاء میں پوری دلجمعی سے محو ہو جائیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر دعاس عرفہ کے دن کا ہے ، اور ذکر میں سب سے افضل ذکر عرفہ کے دن’’لاإلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد یحیی و یمیت وہو علی علی کل شءي قدیر،، کا پڑھنا ہے۔
* حاجیوں کو اپنی دعاؤں کے دوران اس دعا کو بھی کثرت سے پڑھنا چاہئے۔ اور سورج کے غروب ہونے تک اپنی دعاؤں میں ، آہ و زاری میں گناہوں سے مغفرت طلب کرنے میں تیزی جاری رکھیں۔
* سورج ڈوبنے سے پہلے مزدلفہ لے جانے والی بسیں تیار ہوجاتی ہیں، لہذا حجاج کوچاہئے کہ جلدی سے بس میں پہونچ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں اور بس کے اندر ہی دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھیں، خیموں سے تاخیر کرنے میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو بس میں جگہ نہ ملے۔ یہاں سے کوئی بسسورج غروب ہونے سے پہلے ہرگز نہ چلے گی۔
* سورج ڈوبنے کے بعد اب آپ کو مزدلفہ کے لئے روانہ ہونا ہے، وہاں پہونچ کر آپ کو مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ قصر کرتے ہوئے پڑھنی ہے۔ یاد رہے مغرب میں قصر نہیں ہے۔
* تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عرفات سے نکلتے وقت ٹریفک جام ہوجاتی ہے اور آدھی بسیں مزدلفہ نہیں پہونچ پاتیں، اور بسوں کے مزدلفہ پہونچنے تک صبح یا دوپہر ہوجاتی ہے۔ اسلئے حاجیوں کو چاہئے کہ بس سے اتر کر پیدل چل پڑیں، تاکہ آپ وہاں رات کا کچھ حصہ پا جائیں۔
* اگر آپ کا خیمہ مزدلفہ میں ہے، تو آپ ڈائرکٹ اپنے خیمے میں چلے جائیں، نماز پڑھیں اور سوجائیں۔ مزدلفہ کھلا میدان ہے ،جہاں حجاج کھلے آسمان کے نیچے سوتے ہیں۔
* مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد اگر ممکن ہو سکے، تو مسجد المشعر الحرام کے پاس قبلہ رو ہو کر ہاتھوں کو اٹھاکر خوب دعائیں مانگنی چاہئیں۔
دسویں ذی الحجہ
* مزدلفہ میں فجر کے بعد جب صبح کی سفیدی خوب پھیل جائے، تو حاجی حضرات وہاں سے منیٰ کے لئے نکل پڑیں۔
* کمزور مرد و خواتین دوتہائی رات کے بعد(یعنی فجر سے پہلے) ہی منیٰ کی طرف نکل سکتے ہیں۔
* منیٰ کی طرف لوٹتے ہو ئے راستے میں زیادہ سے زیادہ تلبیہ’’لبیک اللہم لبیک‘‘ پکارنا چاہئے۔
* اب بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے کی باری ہے۔ آج عید الأضحی کا دن ہے، سورج نکلنے کے بعد آپ سات کنکریاں لیں، کنکریاں چنے کی سائز کی ہونی چاہئے۔
* شیطان کو جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں، وہ علاقہ مکے سے متصل ہے۔ جمرات پر چار منزلہ کشادہ پل بنائے گئے ہیں، ہر ایک کا راستہ الگ ہے، آپ جب کنکریاں مارنے نکلیں گے تو ایک طویل ٹین شیڈ دکھائی دے گا، اسی ٹین شیڈ کے نیچے ہو جائیں تقریباً دو کلو میٹر چلنے کے بعد آپ کے سامنے جمرات ہوگا، چونکہ آج آپ کو صرف بڑے شیطان کو کنکریا ں مارنی ہیں ، سب سے پہلے راستے میں چھوٹا پھر درمیانہ پھر بڑا شیطان ہوگا، خوب کشادہ اور اونچی دیوار ہے، دیوار کے ارد گردحوض بنا ہوا ہے، اللہ اکبر کہہ کر ہر کنکری ماریں گے، حوض میں کنکری کاگر جانا ہی کافی ہوگا۔
* کنکری مارنے کے لیے حوض کے آخری سرے پر جائیں وہاں بھیڑ نہیں ہوتی ہے، اطمینان سے ماریں۔ جمرات کے لئے بیمارکمزور مرد و خواتین اپنے کسی قریبی کو وکیل بنا لیں۔
* عورتوں یا کمزو رمرد حاجیوں کے بدلے بھی کنکری ماری جاسکتی ہے، مرد یا عورتیں جسے وکیل بنادیں وہ ان کا حصہ کنکری ماریں گے؛ لیکن اپنا حصہ مارنے کے بعد۔
* اب باری ہے قربانی کرنے کی، آپ کو خود قربانی کا موقع نہیں ملے گا، اس لئے اپنے ملک سے مکہ پہونچتے ہی حرم کے سامنے بینک الراجحی، یا الندوۃ العالمیہ للشباب الاسلامی یا دوسری تنظیموں کے کاؤنٹر کھلے ملیں گے، وہاں قربانی کی رقم ادا کرکے رسید حاصل کرلیں۔ غیر رجسٹرڈ تنظیموں سے ہوشیار رہیں۔
* لھذا آپ کنکریاں مارنے کے بعد اپنے بالوں کو منڈوالیں۔ ہاں منڈوانے والے حاجی کے لئے پیارے نبیﷺ نے تین مرتبہ مغفرت کی دعا فرمائی ہے۔ جب کہ کٹوانے والے کے لیے صرف ایک مرتبہ دعا کی ہے۔ عورتیں اپنے بالوں کو انگلیوں کے برابر کاٹ لیں گی۔
* شیطان کو کنکریاں مارنے اور بال منڈوانے کے بعد حاجی حلال ہوجاتا ہے، اپنا لباس تبدیل کرسکتا ہے، سارے کام وہ کرسکتا ہے جو احرام میں ہونے کی وجہ سے اسکے لئے ممنوع تھے۔ سوائے بیویوں سے ملاقات کے۔
* اب حاجی طواف افاضہ کے لئے مسجد حرام کا رخ کرے گا، جہاں وہ خانۂ کعبہ کا طواف کرے، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے۔ طواف و سعی اسی طرح کرے گا ،جس طرح عمرہ کے لئے طواف و سعی کیا گیا تھا۔
* طواف افاضہ کے بعد حاجی پوری طرح حلال ہو جائے گا، اب وہ اپنی بیوی سے ملاقات بھی کرسکتا ہے۔
۱۱ویں ذی الحجہ
* طواف افاضہ اگر حاجی دسویں ذی الحجہ کو نہیں کرسکا، تو اس کے بعد والے دنوں میں وہ طواف افاضہ کر سکتا ہے؛لیکن اس کے لئے بیوی حلال نہ ہوگی ،جب تک وہ افاضہ نہ کرلے۔
* منیٰ میں آپ کا قیام بدستور جاری رہے گا، ۱۱ویں ذی الحجہ کو ظہر کے بعد چھوٹے، درمیانہ اور بڑے شیطان کو سات سات کنکریا ں ماریں گے۔ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں گے، چھوٹیاور میڈیم شیطان کو کنکری مارنے کے بعد دونوں جگہ قبلہ منہ کرکے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے۔ بڑے شیطان کو کنکریاں مارے ہوئے آگے بڑھ جائیں، وہاں نہ رکیں اور نہ ہی دعا کریں۔
۱۲ ویں ذی الحجہ
* زوال شمس(ظہر کے بعد) پھر آپ کنکریاں مارنے نکلیں گے، ترتیب کے ساتھ چھوٹے ،متوسط اور بڑے شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں گے،ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں گے۔ چھوٹے اور میڈیم شیطان کو کنکری مارنے کے بعد دونوں جگہ قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھائیں اور خوب دعائیں کریں۔ بڑے شیطان کو کنکرکی مارنے کے بعد آگے بڑھ جائیں، وہاں نہ رکیں نہ دعا مانگیں۔
۱۳وی ذی الحجہ
* حاجی ۱۲ ؍ویں ذی الحجہ کو کنکریاں مارکر منیٰ چھوڑ سکتا ہے، اور جو ۱۳ ؍تک رکنا چاہیں، وہ۱۳؍ ذ ی الحجہ کو بھی ۱۲؍ ذی الحجہ کی طرح کنکریاں ماریں گے، پھر مکہ واپس ہونگے۔
* تقریباً سارے حجاج ۱۲؍ذی الحجہ کو کنکری مارکر منیٰ چھوڑ کے مکہ آجاتے ہے۔ بہت کم حاجی۱۳؍ ذی الحجہ تک منیٰ میں رہتے ہیں۔
* یاد رہے کہ۱۰؍ ذی الحجہ کے بعد ۱۲؍ذی الحجہ تک حاجی رات منیٰ میں اپنے خیموں میں گذاریں گے، کوئی مکہ جاکر اپنے ہوٹل میں رات ہرگز نہ گزارے۔
طواف و داع
* حج سے فراغت کے جب حجاج کرام جب مکہ چھوڑ کر اپنے وطن کے لیے روانہ ہوں، یا ان کا روٹ ایسا ہو کہ مکہ سے مدینہ پھر مدینہ سے جدہ آنا ہو، ایسی صورت میں طواف وداع پہلے ہی کرلیں گے۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ مکہ دوبارہ نہیں آنا ہے ،تو طواف وداع کرکے ہی نکلیں۔ طواف وداع تمام مرد و خواتین حجاج پر واجب ہے۔ البتہ حیض و نفاس والی عورتوں کے لیے طواف و داع ضروری نہیں، وہ بغیر طواف کئے اپنے گھر یا وطن جا سکتی ہیں۔
چند اہم مسائل
* نا بالغ بچوں کا حج ہوجائے گا، اور اس کا ثواب والدین کو ملے گا، مگر حج کی فرضیت اس بچے سے ساقط نہ ہوگی۔ بالغ ہونے کے بعد اسے دوبارہ حج کرنا ہوگا(حسب استطاعت)۔
* حج کے وہ تمام کام جسے ادا کرنے سے بچہ عاجز ہوجائے، اس کی نیابت اس کے ولی(والدین یاد دیگر اقرباء) کریں گے۔ جیسے کنکری مارنا وغیرہ۔
* وہ عورتیں جنہیں ماہواری آجائے، وہ حج کے تمام اعمال کریں گی، سوائے بیت اللہ کے طواف کے۔ جب حیض ختم ہوجائے تو وہ غسل کے بعد خانۂ کعبہ کا طواف کرے گی۔
* حج کے دنوں میں اگر عورتوں کے ماہواری کے دن پڑتے ہوں تو ایسی عورتیں مانع حیض دوائیں استعمال کرسکتی ہیں، تاکہ حج کے ایام میں حیض نہ آئے اور سارے کام وہ بآسانی کرسکیں۔
* وہ شخص جو حج کی طاقت رکھتا تھا ،مگر اس کی مو ت ہوگئی تو اس کے ورثہ اسکے مال سے اس کی طرف سے حج کریں گے۔ اسی طرح میت کی طرف سے اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اسے ثواب پہونچانے کی غرض سے حج کرنا چاہے، تو کرسکتا ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔
* ایسے بوڑھے اور بیمار حضرات جنہیں شفاء یا زندگی کی امید نہ ہو وہ حج کے لیے کسی کو نائب بنا کر بھیج سکتے ہیں، مگر نیابت کرنے والا شخص اپنا حج کرچکا ہو،یہ ضروری ہے تبھی وہ دوسروں کی نیابت کرسکتا ہے۔
حالت احرام میں ممنوع چیزیں
* احرام کی حالت میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا کرنا جائز نہیں ہے۔
* اپنے بال یا ناخن کاٹنا۔
* احرام کے کپڑوں یا جسم میں خوشبو کا ملنا۔
* اپنے سرکو کسی چیز سے ڈھانکنا، جیسے ٹوپی یا رومال وغیرہ، البتہ چھتری استعمال کرسکتے ہیں۔
* شادی کرنا یا کرانا، یا نکاح کے لیے کسی کو پیغام دینا۔
* بیوی سے جماع کرنا۔
* شہوت کے ساتھ مباشرت کرنا، بوسہ لینا وغیرہ۔
* سلے ہوئے کپڑے پہننا۔ صرف مردوں کے لئے ممنوع ہے ، عورتوں کیلئے نہیں۔
* خشکی کے جانوروں کاشکار کرنا ،جیسے ہرن، خرگوش، کبوتر وغیرہ۔
جس کسی سے ان ممنوع چیزوں میں بھول کر یا جانکاری نہ ہونے کی صورت میں کوئی فعل سرزد ہوگیا ہو تو اس پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ فدیہ۔
****
No comments:
Post a Comment