حیات رسول ﷺ کا عقیدہ-مولاناابو العاص وحیدی- oct-dec 2009 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Wednesday, March 17, 2010

حیات رسول ﷺ کا عقیدہ-مولاناابو العاص وحیدی- oct-dec 2009

حیات رسول ﷺ کا عقیدہ
مولاناابو العاص وحیدی

رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا بھی غیر اسلامی فکر ہے کہ آپ اپنی قبر میں بالکل اسی طرح زندہ ہیں؛ جس طرح دنیا میں زندہ تھے اور لوگوں کی دعا و پکار سنتے ہیں ،در اصل رسول اللہ ﷺ اور دوسرے انبیاء و اولیاء کے بارے میں ان کا جو یہ عقیدہ ہے کہ وہ کائنات میں ملکیت و اختیار اور تصرف رکھتے ہیں ،اور لوگوں کی فریاد رسی کرتے ہیں، اس عقیدہ کا لازمی تقاضا ہے کہ انہیں زندہ اور پکار سننے والا مانا جائے ۔چنانچہ جناب احمد رضابریلوی انبیاء کرام کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والتسلیم کی حیات حقیقی ،حسی دنیاوی ہے ،ان پر تصدیق وعدہ ربی کے لئے محض ایک آن کو موت طاری ہوتی ہے ،پھر فوراً ویسے ہی حیات عطا فرمادی جاتی ہے ،اس حیات پر وہی احکام دنیویہ ہیں، ان کا ترکہ بانٹا نہ جائے گا ،ان کی ازواج کا نکاح حرام ،نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں ،وہ اپنی قبور میں کھاتے پیتے نماز پڑھتے ہیں ‘‘
(ملفوظات احمد رضا بریلوی ج۳ ص۲۷۶)
’’انبیاء کرام اپنی قبر میں زندہ ہیں ،وہ چلتے پھرتے ہیں ،نمازیں پڑھتے اور کلام کرتے ہیں اور مخلوق کے معاملات میں تصرف فرماتے ہیں ‘‘ (حیات النبی للکاظمی ص۳)
بریلویوں کے عقیدہ کے مطابق جب صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ کو دفن کیا تو آپ زندہ تھے ،جناب احمد رضا بریلوی لکھتے ہیں :
’’قبر شریف میں اُتارتے وقت حضور ﷺ ’’امتی،امتی‘‘ فرمارہے تھے ‘‘ (نفی الفئ :۱۷ )
احمد رضا بریلوی کے ایک پیروکار جناب کاظمی لکھتے ہیں :
’’جس وقت حضور ﷺ کی روح اقدس قبض ہو رہی تھی اس وقت بھی جسم میں حیات موجود تھی ‘‘ (حیاۃ النبی :۱۰۴) ایک دوسرے بریلوی احمد یار گجراتی لکھتے ہیں:
’’ہمارے علماء نے فرمایا کہ حضور ﷺ کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں ،اپنی امت کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات و نیات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں، یہ آپ کے لیے بالکل ظاہر ہیں ،ان میں کوئی پوشیدگی نہیں‘‘۔ ( جاء الحق:۱۵)
رسول اللہ ﷺ اور دوسرے انبیاء و اولیا کے بارے میں یہی عقیدہ تمام بریلوی علماء کا ہے، جو ان کی تصنیفات و ملفوظات میں واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ظاہر ہے یہ عقیدہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے بالکل خلاف اور قطعی طور پر غیر اسلامی فکر ہے۔
سارے انبیا کرام چوں کہ انسان تھے، اس لئے ان پر وہ تمام بشری عوارض طاری ہوئے جو عام انسانوں پر طاری ہوتے ہیں،انہیں عوارض میں سے موت کا عارضہ بھی ہے؛ جس سے تمام انبیا ء و رسول دو چار ہوئے ۔قرآن و حدیث و تاریخ و سیرت کے کتابوں میں انبیاء و رسول کی موت ،اور ان کے قتل کئے جانے کے واقعات ملتے ہیں ۔تمام انبیائے کرام بشمول جناب محمد رسول اللہﷺ کی موت کے بارے میں ایک جامع آیت ملاحظہ ہو!
’’وما محمد الارسول قد خلق من قبلہ الرسل أفاِن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یّضر اللہ شےئاً وسیجزی اللہ الشاکرین‘‘ اور محمد تو بس ایک رسول ہی ہیں ان سے قبل اور بھی رسول گزرچکے ہیں، سو اگر یہ وفات پا جائیں یا قتل ہو جائیں ،تو کیا تم اُلٹے پاؤں واپس چلے جاؤ گے ،اور جو کوئی بھی اُلٹے پاؤں واپس چلا جائے گا ،وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کر ے گا اور اللہ عنقریب شکرکرنے والوں کو اچھا بدلہ دے گا۔ (آل عمران:۴۴ ) مشہور روشن خیال دیوبندی مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریابادی سوالیہ اندازاور شانِ نزول کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مطلب سوال کا یہ ہے کہ جب نبویوں کی حقیقت تمہاری نظر میں ثابت ہو گئی تو رب کے قاصد یا پیغامبر کی زلسیت یاوفات کا اس حقیقت و صداقت پرکیا اثر؟ غزوۂ ا حُد میں جب حضور ﷺ کو زخم پہنچا اور کسی شیطان نے افواہ اُڑادی کہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے ،تو بعض صحابہ نے اس انتہائی صدمہ انگیز خبر سے بد دل اورشکستہ خاطر ہو میدانِ جنگ چھوڑنا شروع کر دیا ،اور منافقین کی وقتی طور پر من آئی تھی ۔انہوں نے برابر طنز کرنا اور ارتداد کی ترغیب دینا شروع کر دی تھی ۔آیت میں ان سب پہلوؤں کی جانب اشارہ ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی وفات میں ابھی کئی سال کی مدت باقی تھی؛ لیکن ابھی سے اس کے لئے تیار کیا جا رہا ہے ‘‘(تفسیر ماجدی ج۱ : ۶۵۱)
سورہ زمر جو ہجرت حبشہ سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی ،اس کے نزول کے حالات یہ تھے کہ کفار ومشرکین رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے اور آخرت سے غافل اور بڑی سرکشی کی زندگی گزاررہے تھے ۔اس سورہ میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ آخر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اے نبی آپ بھی مرجائیں گے اور یہ لوگ بھی پھر قیامت کے روز معاملہ اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔وہ آیت ملاحظہ ہو ! ’’أنک میت و أنھم میتون ،ثم أنکم یوم القیامہ عند ربکم تختصمون ‘‘ (الزمر:۳۰،۳۱)آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے،پھرقیامت کے روز تم مقدمات اپنے رب کے سامنے پیش کروگے۔یہ دونوں آیتیں رسول اللہ ﷺ اور تمام انبیائے کرام کی موت پر دلالت کرتی ہیں۔
اس سلسلہ میں آغاز عہدِ صدیق کا ایک اہم سبق آموز واقعہ ملاحظہ فرمائیں!حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو موت لاحق ہوئی اس وقت ابوبکر مقام سنح میں تھے اور ادھر لوگوں کا حال یہ تھا کہ غموں سے انتہائی نڈھال تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو اپنا صبر و ضبط اس درجہ کھو بیٹھے اور بدحواس ہو گئے کہ انہیں خیال ہوا کہ آپ پر موت نہیں طاری ہوئی ۔انہوں نے یہ کہا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ آپ کی وفات ہو گئی ہے میں اس کی گردن مار دوں گا ،اتنے میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ آئے ،رسول اللہ ﷺ کو بوسہ دیا اور حمد و صلاۃ کے بعد ایک بلیغ خطبہ دیا ،اور موتِ رسول ﷺکے بارے میں مذکورہ قرآنی آیات پڑھیں اور بڑے مومنانہ عزم و استقلال سے کہا :
’’آلا من کان یعبد محمد اً فان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قد مات و من کان یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت ‘‘ لوگوسنو! جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ اسلم کی عبادت کرتے تھے، تو یقیناًآپ پر موت طاری ہو گئی اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے ،تو اللہ تعالیٰ زندہ جاوید ہے ،وہ کبھی نہیں مرے گا۔ (بخاری ج۱،باب مناقب ابی بکر:۵۱۷)
اس کے بعد تمام صحابہ کرام مطمئن ہو گئے اور متفقہ طور پر سب لوگوں نے آپ کی موت کا یقین کرلیا ،اس کے علاوہ حدیث و سیرت کی تمام کتابوں میں مختلف اندازوں میں اشارۃً اور صراحۃً آپ کی موت کا ذکر ہے ؛جس سے یہ بات بدیہی حقیقت بن کر سامنے آتی ہے کہ دوسرے انسانوں کی طرح آپ پر بھی موت طاری ہوئی ہے ۔
جناب احمد رضا بریلوی نے جو یہ استدلال کیا ہے کہ آپ پر موت طاری نہ ہو نے کی وجہ سے آپ کا ترکہ تقسیم نہیں کیا گیا اور آپ کی ازواج سے نکاح حرام ہے تو یہ استدلال نہایت لغو ہے،اس لئے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے آپ کے ترکہ سے میراث کا مطالبہ خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ اگر وہ جانتے کہ آپ کی وفات ہی نہیں ہوئی ہے تو وراثت کا مطالبہ کیوں کرتے ،بہر حال ان دونوں نے مطالبہ کیا ،اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کا ترکہ میراث میں تقسیم نہ ہوگا بل کہ وہ صدقہ ہے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ذکر کیا :
’’ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول! لا نورث ما ترکنا صدقۃ‘‘ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ :ہم انبیاء کے ترکہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے۔(بخاری ج۲ ،کتاب الفرائض :۹۹۵)
اور آپ کی ازواجِ مطہرات سے نکاح اس لئے حرام تھا کہ وہ امہات المومنین کی حیثیت رکھتی تھیں اور اسی وجہ سے انہیں عدت گزارنے کی ضرورت نہ تھی ۔یہ بات تو بہت مشہور،مسلّم اور بدیہی ہے؛ جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ۔

No comments:

Post a Comment