Jan-jun 2010قرآن اور سائنس: ایک مطالعہ - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, March 26, 2010

Jan-jun 2010قرآن اور سائنس: ایک مطالعہ

جمال احمد کلیم اللہ


قرآن کے عالم انسانی پر بے شمار احسانات ہیں، جن کا کریڈٹ قرآن کو پہونچتا ہے۔ مگر علمی دنیا پر اس کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ وہ دنیا کے دیگر مذاہب کے برعکس مطلق علم، جس میں سائنس بھی شامل ہے ، کی اشاعت اور اس کی عالمگیر ترویج کا داعی رہا ہے،اور قرآن ہی کے طفیل اس کائنات ارضی میں علم و سائنس کی روشنی پھیلی ،اور جہالت کا خاتمہ ہو سکا۔
لہذا اگر مذکورہ بالا مباحث اور نا قابل تردید حقائق کے پیشِ نظر دعویٰ کیا جائے ،کہ سائنس کی ترقی در اصل قرآن و حدیث کی مرہونِ منت ہے ،تو یہ دعویٰ بلا مبالغہ ایک مبنی بر حقیقت اور نا قابل تردید دعویٰ ہو گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر اسلام علم و سائنس کی ترقی کا ذمہ نہ لیتا تو پتہ نہیں کہ موجودہ علمی ترقی تک پہونچنے کے لیے دنیا کو مزید کتنی صدیاں طے کرنی پڑتیں۔
چنانچہ آسمانی صحیفوں میں قرآن ہی وہ واحد صحیفہ ہے جو انسان کو کائنات اور اس کے نظام (نیچر) میں غور و فکر کے ذریعہ عبرت و بصیرت حاصل کر نے کی دعوت دیتا ہے ،اور اپنے پیش کردہ عقائد و سائنسی تحقیقات یعنی کائنات اور اس کے نظام کو بطور دلیل پیش کر تا ہے ۔ قرآن کے نزدیک یہ پوری کائنات ایک ہمہ گیر اسکیم اور منصوبہ بند ی کا نتیجہ ہے ،اور اس کے ذرہ ذرہ میں ارباب بصیرت کے لیے خداکے وجود،اس کی وحد ت و یکتائی،قدرت و ربوبیت اور حکمت و مصلحت کے ناقابل انکار دلائل اور نشانیاں موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ان فی خلق السمٰوٰات والارض واختلاف اللیل والنہار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس و ما انزل اللہ من السماء من ماء فاحیا بہ الارض بعد موتہا و بث فیھا من کل دابۃ و تصریف الریاح والسحاب المسخر بین السماء والارض لاٰےٰت لقوم یعقلون‘‘ (سورۃ بقرۃ : ۱۶۳)
اس قسم کی آیتیں قرآن میں بکثرت ہیں،جن میں اسلوب بدل بدل کر انسان کو نظام کائنات میں غور وفکر کر نے کی دعوت دی گئی ہے۔اس سے ظاہر ہے کہ قرآن سائنسی تحقیقات کو دین و مذہب کے خلاف تصور نہیں کر تا۔ورنہ اس قسم کی ہدایت کبھی نہیں دیتا ۔اس موقع پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ قرآن کریم کی کل آیت6666ہیں ،جن میں احکام سے متعلق پانچ سو آیات ہیں۔(الاتقان فی علوم القرآن)اور نظام کائنات یا متعلقات سائنس پر ساڑھے سات سو آیات ہیں۔قرآن پوری دنیا کو اپنے دعوے کی دلیل اور اپنے عقائد و تعلیمات کے ثبوت پیش کرتا ہے۔اس سے اس دعوے کی صحت و صداقت عین الیقین اور حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے ۔ اس لیے وہ علوم کائنات کی ترقی کا اولین داعی اور نقیب ہے، اور ان لوگوں کو جو صحیح عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ،اور آنکھیں بند کر کے پرانی روایات اور رسوم پر عمل کر تے ہیں،چوپایوں سے تشبیہ دیتا ہے: ’’ اولم ینظروا فی ملکوت السمٰوٰت والارض وما خلق اللہ من شئی وعسیٰ ان یکون قد اقترب اجلھم فبایِّ حدیث بعدہ ےؤمنون‘‘ (سورۃ اعراف : ۸۵)
’’ ولقد ذرآنا لجھنم کثیراً من الجن والانس لھم قلوب لایفقھون بھا و لھم اعین لا یبصرون بھا و لھم آذان لا یسمعون بھا اؤلئک کا لانعام بل ھم اضل ‘‘ (سورۃ اعراف ۱۷۹؂) ان وضاحتوں کے بعد اسلام کے بعض بنیادی عقائد و تصورات پر جدید سائنس کی روشنی میں نظر ڈالی جاتی ہے ،سب سے پہلے اثبات باری تعالیٰ کے مسئلہ کو لیجئے، قرآن کہتا ہے:
’’ ومن آےٰتہ خلق السمٰوٰت والارض و ما بث فیھما من دابۃ‘‘(سورۃ شوری: ۲۹)
اس آیت میں ’’دابۃ‘‘ (جاندار ہستی) کے وجود کو خدا کے وجود کی دلیل قرار دیا گیا ہے ۔ جدید سائنس بھی طویل تحقیق و تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ، تمام حیوانات و نباتات کی تخلیق نخر مار (PROTOPLASM )سے ہوئی ہے جن کے کیمیائی (CHEMICAL) اجزا آکسیجن، ہائیڈروجن،کاربن،نائٹروجن،فاسفورس،سلفر،کلورین،کیلثیم،سوڈیم اور میگنیثیم وغیرہ دریافت کر لئے گئے ہیں ، مگر انتہائی کوشش کے باوجود پوری دنیائے سائنس کو ان کیمیائی اجزاء و عناصر (ELEMENTS) کو باہم ملا کر پروٹو پلازم بنا لینے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی ، وہ ان اجزاء عناصر کو لاکھ طرح سے ملاتی ہے ،مگر وہ پروٹو پلازم نہیں بنتا۔
اب کائنات کے اختتا م اور اثبات قیامت پر بھی ایک سائنٹفک دلیل ملاحظہ ہو! قرآن کہتا ہے: ’’اذا الشمس کوِّرت واذالنجوم انکدرت‘‘ ( تکویر: ۱۔۲) اس مقام پر سورج کو یوم جزاء کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے ،اور جدید سائنس قرآن عظیم کے اس دعوے کی صداقت پر بھی تصدیق ثبت کر چکی ہے۔
قرآن اور عصر حاضر: قرآن حکیم ایک زندہ کتاب ہے اور قیامت تک ہر دورمیں ایک زندہ اور اپٹوڈیٹ کتاب رہے گا۔ اس کے عجائبات نہ کبھی ختم ہوئے ہیں اور نہ کبھی ختم ہو سکیں گے،خواہ دنیا کتنی ہی ترقی کر جائے دنیا کی اس واحد عجیب و غریب کتابِ الہٰی میں ہر قسم کے ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے معارف و دلائل پوری طرح رکھ دئے گئے ہیں ۔ جس کی بنا پر کسی کی یہ مجال نہیں رہتی کہ اس کے کتابِ الٰہی ہو نے کا انکار کر سکے ۔ آج کل چونکہ سائنس کا دور دورہ ہے اور لوگوں کے ذہنوں پر سائنس اورسائنٹسٹ چھائے ہوئے ہیں، تو قرآن عظیم اس میدان میں بھی پیچھے نہیں رہ جاتا اور اس جدید ذہن کو مطمئن کرنے کا پورا پورا سامان اور تریاق بھی اس کے خزانہ عامرہ میں موجود ہے۔
لیکن یہ بات ذہن میں اتار لینی چاہئے کہ قرآن حکیم سائنس یا کسی مخصوص فن کی کوئی کتاب نہیں ہے،بلکہ اس کا بنیادی موضوع پوری نوع انسانی کی رہبری ہے ، یعنی وہ انسان کائنات اور خالق کائنات کے درمیان ربط و تعلق کو واضح کر کے انسان کی فکری رہنمائی کرتا اور اس کی روح کو غذا فراہم کرتا ہے۔ اور یہ سارے مقاصد اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتے ،جب تک کہ ذہن انسانی میں انسان کائنات اور خالق کائنات کے تعلق باہمی کا صحیح تصور اور تخلیق کائنات کی غرض و غایت واضح نہ ہو جائے ۔ لہذا وہ ان تعلقات کی نوعیت کو اجاگر کر کے توحید،رسالت ،معادکا بنیادی تصور پیش کرتا ہے ۔
ان تین اہم اور بنیادی مقاصد کے اثبات اور ان کی حقیقت کو نوع انسانی کے ذہن و دماغ میں پوری طرح اتار نے کے لیے وہ مختلف اسالیب اور دل نشین طریقے استعمال کرتا اور نہایت قوی قطعی اور مسکت دلائل فراہم کر تا ہے۔ ان ہی طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو کائنات کی حقیقت و ماہیت اور اس کے عظیم و ہمہ گیر نظم وضبط کا خود مطالعہ کرنے کی بھی دعوت دیتا ہے۔
قرآن مجید نوع انسانی کو بار بار مطالعہ کائنات کی نہ صرف دعوت دیتا بلکہ مختلف انداز سے وہ ابھار تا بھی ہے اور اس کا اصل طریقہ اس بارے میں یہ ہے کہ وہ بار بار نہ صرف علم و عقل کا حوالہ دیتا ہے ،بلکہ جامد تقلید پرستی کی سخت مذمت کر تا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ان فی خلق السمٰوٰات والارض واختلاف اللیل والنہار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس و ما انزل اللہ من السماء من ماء فاحیا بہ الارض بعد موتہا و بث فیھامن کل دابۃ و تصریف الریاح والسحاب المسخر بین السماء والارض لایت لقوم یعقلون‘‘۔(سورۃ بقرۃ : ۱۶۳)
دوسری جگہ فرماتا ہے:
’’و فی الارض آیات للمؤقنین وفی انفسکم افلا تبصرون‘‘ ۔(الآےۃ: ذرایات ۷۰۔ ۷۱)
اور فرمایا:
’’ اولم ینظروا فی ملکوت السمٰوٰت والارض وما خلق اللہ من شئی و أن عسیٰ ان یکون قد اقترب اجلھم فبایِّ حدیث بعدہ ےؤمنون ‘‘ ۔ (الاعراف: ۱۸۵)
اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:
’’ قل انظروا ماذافی السمٰوٰت والارض وماتغنی الآیات والنذر عن قومٍ لا ےؤمنون‘‘۔ (سورۃ یونس:۱۰۱) اسی طرح وہ منکرینِ خدا اور منکرینِ آخرت پر حجت قائم کر نے کے لیے بھی نظامِ کائنات سے استدلال کر کے بار بار صحیح مشاہدہ ،صحیح علم،صحیح عقل کی اپیل کر تا ہے اور صحیح نتائج کی تحصیل پر متنبہ کر تا ہے بلکہ ترغیب و ترہیب کے مختلف طریقوں کو بھی آزماتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اولم یر الذین کفروا ان السمٰوٰت والارض کانتا رتقاًففتقنھما و جعلنا من الماء کل شئی حیّ افلا ےؤمنون ‘‘۔ (سورۃ انبیاء: ۳۰)
نیز فرمایا: ’’ اولم یتفکروافی انفسھم ما خلق اللہ السمٰوٰت والارض وما بینھما الا باالحق واجل مسمیّ وان کثیرا من الناس بلقاء ربھم لٰکفرون‘‘(سورۃروم:۸)
یہ ہے قرآن سے سائنس کے تعلقات کی نوعیت اور اس کی اصل حقیقت۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ قرآن حکیم اس دعوت فکر ہی پر بس نہیں کر تا ،بلکہ وہ انسان ،خصوصیت کے ساتھ اہل ایمان کے مزید اطمنانِ قلب کے لیے نظام کائنات کے تذکرہ اور اس کے لپیٹ میں چند ایسے حقائق کا بھی اظہار کر دیتا ہے ،جو آگے چل کر خود اس کے اپنے غور و فکر اور تلاش و جستجو کے باعث، یا بالفاظ دیگر علم سائنس کی ترقی کے باعث اس کے سامنے آسکیں۔
اللہ رب العالمین کا قول ہے:
’’ سنریھم آیاتنا فی الآفاق و فی انفسھم حتیّ یتبین لھم انہ الحق‘‘ (سورۃ حم سجدہ : ۵۲)
مذکورہ باالآیت کے بمصداق،علومِ جدیدہ کی ترقی کی بدولت ان افاقی اور انفسی دلائل کا ایک انبارِ عظیم وجود میں آچکا ہے ،اور قرآن حکیم کے ایک ایک دعوے کی حقیقت و صداقت آشکار اہوتی چلی
جا رہی ہے۔
لہذا اب دنیا کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ قرآنِ حکیم کی حقانیت کو تسلیم کر کے ،اس کے بتائے ہوئے ضابطۂ حیات کے مطابق اپنی زندگی بسر کر کے ان آفاقی دلائل کی وضاحت کے لیے تاریخ،جغرافیہ اور آثارِ قدیمہ کے علاوہ علم فلکیات، طبعیات اور کیمیا وغیرہ کا مطالعہ لازماً کرے۔ اسی طرح دلائل انفس کی حقیقت اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتی جب تک کہ
حیاتیات (BIOLOGY )کے مباحث خصوصاً متعلقاتِ انسانی کا مطالعہ نہ کیا جائے۔
الغرض قرآن کریم اپنے انعامات و احسانات کے ضمن میں کائنات کے بڑے بڑے مظاہر کا تذکرہ کر تا ہے ۔ بالفاظ دیگر وہ اپنی عمومی شانہائے رحمت کا ذکر کر تا ہے ،جو تمام بنی نوع انسان کے لیے بلا قید اور بلا تخصص عام ہے۔ مثلاًزمین و آسمان، چاند، سورج، ستارے، دن، رات ،پہاڑ،ہوا،ابر بارش اور نباتات وغیرہ ۔ قرآن مجید میں ان مضامین کی تکرار یا ان عمومی نشانات کو مختلف اسالیب میں ذکر کر نے کا رازیہ ہے کہ وہ ایک عامی یا عالم، ہر ایک کے ذہن میں ان نشان ہائے رحمت کی اہمیت جتا تا ہے اور احسانات الہٰی کی یاد دہانی کراتے رہنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ و من آیاتہ ان یّرسل الریاح مبشراتٍ ولیذیقکم من رحمتہ ولتجری الفلک بامرہ و لتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون‘‘ ۔( سورۃ روم: ۱۴۶)
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ ولتبتغوا من فضلہ و لعلکم یشکرون ‘‘ ۔( سورۃ قصص : ۷۳)
اور فرماتا ہے:
’’ اولم یروا الی الطیر مسخراتٍ فی جوِّ السماءِ مایمسکھن الا اللہ *ان فی ذلک لآیات لقوم ےؤمنون * واللہ جعل لکم من بیوتکم سکناً وجعل لکم من جلود الانعام بیوتاً تستخفونھا یوم ظعنکم و یوم افا متکم ومن اصو فھاو اوبارھا و اشعارھا اثاثاومتاعاً الی حین * واللہ جعل لکم مما خلق ظلالاوّجعل لکم من الجبال اکناناًوّ جعل لکم سرابیل تقیکم الحر و سرابیل تقیکم بأسکم کذالک ےُتمُّ نعمتہ علیکم لعلکم تسلمون ط فان تولوافانما علیک البلاغ المبین * یعرفون نعمۃ اللہ ثم ینکرونھا و اکثرھم الکفرون ‘‘
( سورۃ نحل :۷۹۔ ۱۸۳)
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اللہ الذی خلق السمٰوٰت والارض و انزل من السماءِ ماءً فاخرج بہ من الثمرٰت رزقاًلکم وسخرنا لکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ و سخر لکم الانھار *و سخرلکم الشمس والقمر دائبین و سخرلکم اللیل والنھار * و اتاکم من کل ماسألتموہُ و ان تعدو نعمۃ اللہ لا تحصوھا ان الانسان لظلوم کفار‘‘ ۔( سورۃ ابراہیم:۳۳۔۳۴)
اس پوری بحث سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ سائنس اور قرآن میں کسی بھی قسم کا تناقص یا منافات نہیں ہے۔ بلکہ دونوں میں گہرا ربط و تعاون موجود ہے، نیز مباحث سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ سائنس قرآن پر حاکم یا فرمانروا نہیں بلکہ وہ در حقیقت مذہب کی معاون و مددگار ہے ، اور یہ بات کسی اور آسمانی کتاب پر صادق نہیں آتی ہے اور نہ آئے، مگر حقیتاً قرآن مجید کے بارے میں اس کی اصلی پوزیشن یہی ہے۔

No comments:

Post a Comment