- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Friday, March 25, 2016


مولانا عبدالرؤف عبد الحفیظ السلفی 
استاذ : المعہد ، رچھا ،بریلی
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے 

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال رسول اللہ ﷺ : من یاخذعنی ہٓولاء الکلمات فیعمل بہن او یعلم من یعمل بھن ؟ فقال ابو ہریرۃ فقلت
أنا یا رسول اللہ! فا خذ بیدی فعّد خمساً۔۔۔۔(ترمذی :۲۳۰۵،
ابو اب الزہد،حسنہ الالبانی رحمہ اللہ)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ا نے ارشاد فرمایا : کون ہے جو مجھ سے یہ باتیں حاصل کرے اور پھر ان پر عمل کرے یا ایسے شخص کو بتلائے جو ان پر عمل کرے ؟ ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ میں ! اے اللہ کے رسول ۔ چنانچہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور پانچ باتیں شمار کروائیں (تفصیل یہ ہے ) آپ انے فرمایا : (۱)حرام کاموں سے بچو !لوگوں میں سب سے زیادہ عابد ہوجاؤ گے ۔(۲)اللہ نے جو آپ کو دیا ہے اس پر راضی ہو جاؤ! لوگوں میں سب سے زیادہ غنی ہوجاؤگے ۔ (۳)اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک کرو ! مومن ہو جاؤگے ۔ (۴)لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہوئے مسلم ہو جاؤ گے۔(۵)زیادہ مت ہنسو ! کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے ۔ 
فیہ مسائل :اب آئیے دیکھتے ہیں اس حدیث سے ثابت اور معلوم ہونے والی چند اہم باتیں :
(۱) تعلیم و تدریس سے پہلے ترغیب و تشویق سنت نبو ی ہے اور تفہیم و تحفیظ کے لئے نہایت موثر ذریعہ بھی ۔ 
(۲) معہود ذہنی کے لئے بھی اسم اشارہ کا استعمال جائز ہے ۔ 
(۳) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا شوق طلب اور طلب حدیث کے لیے ہمہ تن متوجہ اور ہمہ وقت ہمہ تن گوش ہونا معلوم ہوتا ہے ۔ 
(۴) اگر آدمی سامنے موجود ہو تو اپنا نام بتانا ضروری نہیں بلکہ’’ میں‘‘ کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ،
برخلاف پس پردہ، نظروں سے غائب شخص کے لئے( دیکھئے اجازت کے احکام)۔
( ۵)تعلیم و تربیت کے موقع پر ہاتھ پکڑ نا مستحب و مسنون ہے ۔ اس سے سامع کی توجہ اور یکسوئیت بڑھ جاتی ہے ، اسے محدثین ’’ بیعت خاصہ ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ 
(۶)مصافحہ کی دو قسمیں ۱۔ مصافحہ سلام و لقاء۔ ۲۔ مصافحۂ تعلیم و تلقین ۔یہاں یہی مراد ہے ۔ 
(۷)اس حدیث سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس میں ’’ التحیّات‘‘ سکھلاتے وقت آپ ا کا آں حضرت رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑنا مذکور ہے ۔
(۸)رپورٹنگ کا طریقہ معلوم ہوتا ہے کہ اول پوری رپورٹ کا خلاصہ نچوڑ بعدہ تفصیل بیان کی جائے ۔ 
(۹)تمام ممنوعات و محرمات سے بچنے والا سب سے بڑا عابد ہے ، کیوں کہ ممنوعات میں احکام سے غفلت واعراض اور نواہی کا ارتکاب واکتساب دونوں شامل ہے ۔ 
(۱۰)’’غنی ‘‘ کا ترجمہ ’’ مالدار ‘‘ سمجھنا بڑی غلطی ہے ، بے نیاز مناسب ہے ۔
(۱۱)شعر’’ ان الغنی غنی النفس‘‘ کی اس حدیث سے تائید و توثیق ہوتی ہے ۔
(۱۲)بے نیازی حاصل کرنے اور حرص و طمع کی آلودگیوں سے مصفّٰی و مجلّٰی رکھنے کا نبوی نسخہ اپنی تقدیر پر رضامندی ا ور اطمینان ہے ۔ 
(۱۳) پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک ایمان کا عظیم جزء اورمومن کی علامت ہے ،کہ اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔
(۱۴)اپنی پسند کی چیز دوسروں کے لیے بھی( خواہ وہ مسلم ہو یا غیرمسلم ) پسند کرنا ، کامل مسلم ہونے کے لئے ضروری بلکہ علامت اسلام ہے ۔ سچ کہا ہے اقبال نے ؂
ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے
(۱۵) موت کی دو قسمیں ہیں : ۱۔موت حقیقی (روح کا قفس عنصری سے پرواز کرجانا) ، ۲۔موت مجازی ۔ جسے اردو میں ’’مردہ دلی ‘‘اور ’’پثرمردگی ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ 
(۱۶) مفید اور نفع بخش اشیاء کے استعمال میں اگر توازن کا دامن چھوٹ جائے تو وہ بھی ری ایکشن کرسکتی ہیں جیسے یہاں؛ہنسنا فرحت و تازگی اور زندہ دلی پیدا کرنے کا موثر ذریعہ ہے ؛ بلکہ اب تو اسی مقصد سے با قاعدہ ’’ ہنسی کی محفلیں ‘‘ قائم کی جاتی ہیں ،مگر حدیث رسول کی روشنی میں ایسی محفلیں ایکشن سے زیادہ ریکشن کرتی ہیں کیوں کہ ان میں اکثر اعتدا ل کی حد سے تجاوز پیدا ہوجاتاہے ۔ 
دعا ہے کہ الٰہ العالمین ! کتا ب وسنت کا فہم سلیم وصحیح اور عمل صالح کی توفیق عنایت فرما ! آمین وصلی اللہ علی النبی الصادق الامین ۔

No comments:

Post a Comment