اسلام کا نظام زکوٰۃ اور چند ضروری مسائل jul-sep 2011 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Sunday, September 23, 2012

اسلام کا نظام زکوٰۃ اور چند ضروری مسائل jul-sep 2011

مشتاق احمد مدنی
اسلام کا نظام زکوٰۃ اور چند ضروری مسائل
زکوٰۃ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے ۔ اس کا چھوڑ نے والا اور اس کا انکار کر نے والا کافر اور مرتد ہے،جیسا کہ قرآن شریف کے اندر کافر و مشرک لوگوں کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ:(فان تابوا و أقاموا الصلوٰۃ و اٰتوالزکوٰۃ فاخوانکم فی الدین)۔ (سورہ توبہ:۱۱) اگر وہ کفر و شرک سے توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کر نے لگیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔
گویا امت مسلمہ میں شمولیت اور مسلم برادری کا حصہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ کفر و شرک سے توبہ کی جائے ،نماز ادا کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے ۔ زکوٰۃ ایسا اہم دینی فریضہ ہے کہ سستی اور کاہلی کی وجہ سے اگر کوئی صاحب نصاب شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اسلامی حکومت جبری طور پر اس سے زکوٰۃ وصول کر نے کی مجاز ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب بعض قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف قتال کیا۔ مناسب معلوم ہو تا ہے کہ زکوٰۃ کا معنی اور اس کی فرضیت کو بیان کر دیا جائے۔
زکوٰۃ:
لغت میں پاک کر نا اور بڑھنا کے ہوتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(قد أفلح من زکاھا)۔(سورہ شمس:۹)فلاح پا لیا وہ شخص جس نے نفس کو پاک کر لیا ۔ یعنی کفر و شرک اور دیگر خواہشات کے میل کچیل سے پاک صاف کر لیا۔ زکوٰۃ کا معنی اصطلاح میں یہ ہے کہ مال کے ایک مخصوص حصہ کا کسی ایسے شخص کو مالک بنانا جو مخصوص شرائط کے تحت اس کا مستحق ہو۔
زکوٰۃ کی فرضیت:
زکوٰۃ سنہ دو ہجری میں فرض کی گئی اور اس کی فرضیت دلائل قطعیہ سے ثابت ہے ۔ فرضیت زکوٰۃ کی دلیل قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(واٰتوا الزکوٰۃ)ور زکوٰۃ ادا کرو۔ دوسری جگہ ارشاد ہے :(و فی اموالھم حق للسائل والمحروم)۔ (سورہ الذاریات:۱۹)اور ان کے مالوں میں حق ہے سائل اور محروم کے لیے۔ سنت نبوی سے فرضیت زکوٰۃ کی دلیل اس حدیث سے ثابت ہے :(بنیے الاسلام علی خمس شھادۃ أن لا الہ الا اللہ و أن محمداً رسول اللہ واقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوٰہ)۔(رواہ البخاری و مسلم) اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر رکھی گئی ہیں یہ شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کر نا ، زکوٰۃ ادا کر نا۔شریعت نے جن اموال پر زکوٰۃ کو واجب قرار دیا ہے وہ یہ ہیں (۱) حیوانات (۲) سونا، چاندی اور نقدی (۳) زمینی پیداوار (۴) تجارتی اموال۔
عورت کے زیوروں کی زکوٰۃ:
اس مسئلہ میں چاروں فقہاء کا شروع سے اختلاف رہا ہے کہ عورت کا سونے اور چاندی کا زیور جس کا پہننا اس کے لیے مباح ہے آیا اس پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ اور اگر واجب ہے تو اس کا ادا کر نا کب واجب ہو تا ہے؟مشہور چاروں ائمہ کے دلائل کا خلاصہ بیان کر تا ہوں :
اولاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عورت کا زیور اور اس کے ملکیت میں موجود سونا چاندی جب نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے ان کی دلیل یہ حدیث ہے جسے ابوداؤد، دار قطنی اور بیہقی نے روایت کیا ہے کہ : ’’نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ اپنے سونے کے چھلوں کی زکوٰۃ ادا کرے‘‘ اسی طرح وہ حدیث جو امام احمد نے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت اسماء اور ان کی خالہ رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ اپنے کنگنوں کی زکوٰۃ ادا کریں۔
اور باقی تین ائمہ کے نزدیک عورت کے زیورات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے خواہ کسی مقدار میں ہوں اور اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ حدیث ہے جسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اپنی بیٹی کو سونے کا زیور پہنایا کر تی تھیں جس کی مالیت تقریباً پچاس ہزار درہم تھی اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتی تھیں۔
مؤطا امام مالک میں ہے کہ عبد الرحمٰن بن قاسم اپنے باپ سے روایت کر تے ہیں کہ ’’ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے زیر پرورش ان کے بھائی کی یتیم بیٹیاں تھیں جن کی ولی بھی خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں اور ان لڑکیوں کا زیور بھی تھا ،لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان زیورات کی زکوٰۃ نہیں نکالتی تھیں۔
یہ اختلاف جو ذکر کیا گیا ہے ایسے زیور کے بارے میں تھا جس کا پہننا عورت کے لیے جائز ہے لیکن عورت کے پاس ایسا زیور ہو جسے وہ استعمال نہیں کر تی مثلاً مردوں کی زیب و زینت کا سامان جیسے تلوار کی آرائش کا زیور وغیرہ تو یہ عورت کے لیے حرام ہے اور اس پر زکوٰۃ واجب ہے اسی طرح سے سونے چاندی کے برتنوں کا بھی یہی حکم ہے جن کا استعمال مومنوں کے لیے دنیا میں جائز نہیں ہے ، ان پر زکوٰۃ واجب ہے ۔
ان مختلف آراء و اقوال اور احادیث و آثار کی روشنی میں یہ کہنا ممکن ہے کہ عورت کے پاس جو زیور ہے اس کی غرض و غایت اگر زینت و آرائش ہے جو عورت کی حقیقی ضرورت ہے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں خواہ اس کی مقدار کتنی ہی زیادہ کیوں نہ وہ لیکن اگر عورت نے زیور بطور ذخیرہ کر رکھا ہے یا ضائع ہو نے کے خدشہ سے محفوظ کر رکھا ہے تو یہ نقد مال کے حکم میں ہوگا اس کے ساتھ اس کی اصلی ضرورت یعنی آرائش و زیبائش وابستہ نہیں ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ واجب ہے لیکن عزیمت اور تقوی کا تقاضا یہ ہے اور احوط بھی یہی ہے کہ اگر زیور نصاب کے مطابق ہو(خواہ کیسا ہی ہو) تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے اور ضرور ادا کی جائے ۔ 
قرآن و حدیث کے نصوص اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار سے بھی بظاہر یہی بات سمجھ میں آتی ہے اور امام ابو حنیفہ اور امام بن حزم رحمہما اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اگر زیور پہننے یا دوسری عورتوں کو عاریتہ دینے کے لیے رکھا ہے تو اس کی زکوٰۃ صرف ایک بار ادا کر دینا کافی ہے۔ 
سونے کا نصاب:
سونے کا نصاب بیس مثقال سونا ہے جو ۸۵؍گرام کے مساوی ہے ۔
چاندی کا نصاب:
چاندی کا نصاب دوسو درہم چاندی ہے جو چھ سو چوبیس گرام کے مساوی ہے زکوٰۃ کی مقدار نقد سونے چاندی پر اور سونے چاندی کے ایسے زیور پر جو استعمال کے لیے نہ ہو ڈھائی فیصد ہے، شرط یہ ہے کہ اس پر پورا ایک سال گزر چکا ہو۔
زکوٰۃ کا مستحق:
زکوٰۃ کے مستحق آٹھ قسم کے لوگ ہیں اس کی دلیل بھی قرآن مجید کی اس آیت میں ہے : (انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھا والمؤلفۃ قلوبھم و فی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ و ابن السبیل)۔ (سورہ توبہ:۶)یہ صدقات تو در اصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلوب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کر نے میں اور راہِ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کر نے کے لیے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو کتاب و سنت کے مطابق عمل کی توفیق بخشے۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment