الکتاب
مولاناحمید اللہ ندوی
استاذ: المعہد الاسلامی السلفی رچھا،بریلی
ترجمہ: ۔ اے ایمان والو! عدل و انصاف کے قائم کرنے والے بنو،اور اللہ کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ،چاہے وہ خود تمہارے یا تمہارے ماں و باپ یا اقرباء و رشتہ داروں کے خلاف ہو،وہ چاہے امیر ہوں یا غریب ،ان دونوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ حق دار ہے،اس لیے خواہش نفس کے چکر میں پڑ کر انصاف کو ترک نہ کرو،اورتم نے کج بیانی یا پہلوتہی اختیار کی تو سمجھ لو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ تعالیٰ اس کی پوری خبر رکھتا ہے۔
تشریح: ۔ عدل و انصاف وہ عمدہ خصلت ہے ،جس کو ہر دور و ہر مذہب میں بنظر تحسین دیکھا گیا ہے اور ایسی صفت سے متصف شخص کو ہمیشہ سرا ہا گیا ہے۔ دین اسلام میں اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے ،اللہ کے رسول ﷺ نے خود اس کو برتا اور اپنے صحابہ کو بھی اس کا خوگر بنا یا ۔یہی وجہ ہے کہ زمانۂ نبوت اور عہد خلافت دونوں میں نہ صرف اپنے بلکہ بیگانے بھی عدل و انصاف کی خوش گوار فضا میں آرام و سکون کی زندگی گزار تے رہے،جس کا اعتراف دوست و دشمن دونوں نے کیا ہے۔مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا کہ عدل و انصاف کرو اور اس معاملہ میں اس بنیاد پر کوتاہی نہیں ہو نی چاہئے کہ اس کے ضد میں خود اپنی ذات یا اپنے ماں و باپ یا رشتہ دار و عزیز آرہے ہیں ،کیونکہ عموماً ایسے موقع پر اچھے اچھے ڈگمگا جاتے ہیں ۔یہیں پر انسان کا امتحان ہو تا ہے کہ آیا حق دار کے حق کو سمجھ کر فیصلہ دیتا ہے یا اپنے مفاد و خودغرضی اور قوم و برادری کی طرف جھکاؤ یا امیر و غریب کے درمیان تفریق و امتیاز کے پیشِ نظر انصاف کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔
اگر ایسا ماحول ہے، جہاں عدل و انصاف اور گواہی میں جانبداری برتی جاتی ہے، تو اللہ کی برکت و نصرت روٹھ جاتی ہے، نظام کا بندھن ڈھیلا ہو جاتا ہے ۔ظلم و بربریت عام ہو جاتی ہے، زندگی کا سکون غائب ہو جاتا ہے،اور ہر شخص قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے لگتا ہے ۔کمزور و مجبور لوگ ظلم کی چکی میں پسنے لگتے ہیں۔من مانی اپنی شان بن جاتی ہے ۔ایسے میں اللہ تعالیٰ کو جلال آتا ہے، پھر ہر شخص عذابِ الٰہی کا شکار ہو تا ہے۔اقوام کی تاریخ اس پر گواہ ہے، دیکھیے اور پڑھےئے جس کو عبرت کی نگاہ ملی ہو ۔بہرحال اس آیت قرآنی کو ہر مومن کو حرزجاں بنانا چاہئے، اور مال و دولت حسب و نسب یا منصب و حکومت کے نشہ میں پڑ کر اللہ کی گرفت سے غافل نہیں ہو نا چاہئے ۔ایک مومن کے ایمان کا یہی تقاضہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خصلت حمیدہ سے متصف کرے۔آمین۔
استاذ: المعہد الاسلامی السلفی رچھا،بریلی
عدل و انصاف ہر مومن پر واجب
’’یا أیھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء للہ و لو علی أنفسکم أو الوالدین والأقربین، ان یکن غنیا أو فقیراً فا للہ أولیٰ بہما،فلا تتبعوا الھوی أن تعدلوا،وان تلوا أو تعرضوا فان اللہ کان بما تعملون خبیراً‘‘۔ترجمہ: ۔ اے ایمان والو! عدل و انصاف کے قائم کرنے والے بنو،اور اللہ کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ،چاہے وہ خود تمہارے یا تمہارے ماں و باپ یا اقرباء و رشتہ داروں کے خلاف ہو،وہ چاہے امیر ہوں یا غریب ،ان دونوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ حق دار ہے،اس لیے خواہش نفس کے چکر میں پڑ کر انصاف کو ترک نہ کرو،اورتم نے کج بیانی یا پہلوتہی اختیار کی تو سمجھ لو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ تعالیٰ اس کی پوری خبر رکھتا ہے۔
تشریح: ۔ عدل و انصاف وہ عمدہ خصلت ہے ،جس کو ہر دور و ہر مذہب میں بنظر تحسین دیکھا گیا ہے اور ایسی صفت سے متصف شخص کو ہمیشہ سرا ہا گیا ہے۔ دین اسلام میں اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے ،اللہ کے رسول ﷺ نے خود اس کو برتا اور اپنے صحابہ کو بھی اس کا خوگر بنا یا ۔یہی وجہ ہے کہ زمانۂ نبوت اور عہد خلافت دونوں میں نہ صرف اپنے بلکہ بیگانے بھی عدل و انصاف کی خوش گوار فضا میں آرام و سکون کی زندگی گزار تے رہے،جس کا اعتراف دوست و دشمن دونوں نے کیا ہے۔مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا کہ عدل و انصاف کرو اور اس معاملہ میں اس بنیاد پر کوتاہی نہیں ہو نی چاہئے کہ اس کے ضد میں خود اپنی ذات یا اپنے ماں و باپ یا رشتہ دار و عزیز آرہے ہیں ،کیونکہ عموماً ایسے موقع پر اچھے اچھے ڈگمگا جاتے ہیں ۔یہیں پر انسان کا امتحان ہو تا ہے کہ آیا حق دار کے حق کو سمجھ کر فیصلہ دیتا ہے یا اپنے مفاد و خودغرضی اور قوم و برادری کی طرف جھکاؤ یا امیر و غریب کے درمیان تفریق و امتیاز کے پیشِ نظر انصاف کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔
اگر ایسا ماحول ہے، جہاں عدل و انصاف اور گواہی میں جانبداری برتی جاتی ہے، تو اللہ کی برکت و نصرت روٹھ جاتی ہے، نظام کا بندھن ڈھیلا ہو جاتا ہے ۔ظلم و بربریت عام ہو جاتی ہے، زندگی کا سکون غائب ہو جاتا ہے،اور ہر شخص قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے لگتا ہے ۔کمزور و مجبور لوگ ظلم کی چکی میں پسنے لگتے ہیں۔من مانی اپنی شان بن جاتی ہے ۔ایسے میں اللہ تعالیٰ کو جلال آتا ہے، پھر ہر شخص عذابِ الٰہی کا شکار ہو تا ہے۔اقوام کی تاریخ اس پر گواہ ہے، دیکھیے اور پڑھےئے جس کو عبرت کی نگاہ ملی ہو ۔بہرحال اس آیت قرآنی کو ہر مومن کو حرزجاں بنانا چاہئے، اور مال و دولت حسب و نسب یا منصب و حکومت کے نشہ میں پڑ کر اللہ کی گرفت سے غافل نہیں ہو نا چاہئے ۔ایک مومن کے ایمان کا یہی تقاضہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خصلت حمیدہ سے متصف کرے۔آمین۔
No comments:
Post a Comment