تحقیق و تنقید
ظہر الدین سلفی
تہجّد اور تراویح دونوں ایک ہیں
نماز تہجد فرائض پنجگانہ کے بعد بڑی اہم نماز ہے جو تہائی رات میں ادا کی جاتی ہے اور اس کی گیارہ رکعات ہیں جن میں آٹھ رکعتیں ہیں دو،دو سلام سے ادا کی جاتی ہیں اور آخر میں تین رکعتیں وتر کی پڑھی جاتی ہیں اور یہی نماز رمضان میں تراویح سے موسوم کی گئی ہے۔
(۱) ہم سے عبد اللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے خبر دی انہیں ابن شہاب زہری نے انہیں عروہ بن زبیر نے انہیں ام المومنین حضرت عائشہؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز پڑھی۔دوسری رات بھی آپ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہو گیا تھا لیکن نبی کریم ﷺ اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے ۔صبح کے وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہو گئے تھے میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے یہ رمضان کا واقعہ تھا۔(بخاری)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے چند راتوں میں رمضان کی نفل نماز صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کو جماعت سے پڑھائی بعد میں اس خیال سے کہ کہیں یہ نمازفرض کر دی جائے آپ ﷺ نے جماعت کا اہتمام ترک کر دیا۔اس سے رمضان شریف میں نماز تراویح با جماعت کی مشروعیات ثابت ہو ئی۔آپ ﷺ نے یہ نفل نماز گیارہ رکعات پڑھائی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ کا بیان ہے۔
چنانچہ علامہ شوکانی فرماتے ہیں:’’رمضان کی اس نماز میں آنحضرت ﷺ سے جو عدد صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺنے رمضان اور غیر رمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا اور مسند ابن حبان میں بسند صحیح مزید وضاحت یہ موجود ہے کہ آپ ﷺ نے آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر تین وتر پڑھائے۔
پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو رمضان میں تراویح با جماعت گیارہ رکعات پڑھائی تھیں اور تراویح و تہجد میں یہی عدد مسنون ہیں۔
۲۔ ’’حدثنا مسدد قال ثنا یحیےٰ عن شعبۃ قال حدثنی ابو جمرۃ عن ابن عباس قال کان صلوۃ النبی ﷺ ثلاث عشرۃ یعنی با للیل‘‘ (بخاری)
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحیےٰ ابن سعید قطان نے بیان کیا ان سے شعبہ نے کہا کہ مجھ سے ابو جمرہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس نے کہ نبی کریم ﷺ کی رات کی نماز تیرہ رکعات ہوتی تھی۔(۸ تہجد اور ۵ وتر)
۳۔ ’’حدثنا اسحاق قال ثنا عبید اللہ قال اخبرنا اسرائیل عن ابی حصین عن یحیےٰ بن وثاب عن مسروق قال سالت سبع و تسع واحدیٰ عشرۃ سویٰ رکعتی‘‘۔
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہمیں اسرائیل نے خبر دی انہیں ابوحصین عثمان بن عاصم نے انہیں یحیےٰ بن وثاب نے انہیں مسروق بن اجدع نے آپ ﷺ نے کہا کہ میں نے عائشہ سے نبی کریم ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ ﷺ سات نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے فجر کی سنت اس کے سوا ہو تی،رات کی نماز سے مراد غیر رمضان میں نماز تہجد اور رمضان میں نمازتراویح مراد ہے ۔
۴۔ حدثنا عبید اللہ بن موسیٰ قال اخبرنا حنظلۃ عن القاسم بن محمد عن عائشۃ رضی اللہ عنہما قالت کان النبی ﷺ یصلی من اللیل ثلث عشرۃ رکعۃ منھا الوتررکعتا الفجر‘‘۔
ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہمیں حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں حضرت عائشہ نے آپ ﷺ نے بتلایا نبی کریم ﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے وتر اور فجر کی دو سنت رکعتیں اسی میں ہو تیں۔
خلاصہ یہ کہ وتر سمیت یعنی دس رکعتیں تہجد کی دو دو کر کے پڑھتے پھر ایک رکعت پڑھ کر سب کو طاق کر لیتے،یہ گیارہ تہجد اور وتر کی تھیں اور دو فجر کی سنتیں ملا کر تیرہ رکعتیں ہوئیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوںں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے،جن روایات میں آپ ﷺ کا بیس رکعات پڑھنے کا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں۔
۵۔ ہم سے عبد اللہ بن تینسی نے بیان کیا ،کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ،انہیں سعید بن ابو سعید المقبری نے ،انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضیا للہ عنھاسے انہوں نے پوچھا کہ نبی ﷺ رمضان میں رات کو کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔آپ نے جواب دیا کہ رسو ل اللہ ﷺ (رات میں ) گیارہ رکعتوں زیادہ نہیں پڑھتے تھے خواہ رمضان کا مہینہ ہو تا یا کوئی اور۔پہلے آپ ﷺ چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا پھر آپ چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا پھر تین رکعتیں پڑھتے،عائشہ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ ان ہی گیارہ رکعتوں کو تراویح قرار دیا گیا ہے۔آنحضرت ﷺ سے رمضان اور غیر رمضان میں بروایات صحیحہ یہی گیارہ رکعات ثابت ہیں،رمضان شریف میں یہ نماز تراویح کے نام سے موسوم ہو ئیں اور غیر رمضان میں تہجدکے نام سے پکاری گئی۔
پس سنت نبوی صرف آٹھ رکعات تراویح اور تین رکعات وتر اس طرح کل گیارہ رکعات ادا کر نی ثابت ہیں چنانچہ ذیل کی حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے۔
’’عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال بنا رسول اللہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات والوتر‘‘۔ علامہ ابن نصر مروزی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعتیں تراویح اور وتر پڑھا دیا(یعنی گیارہ رکعات)نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث رسول ﷺ ’’ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیر علی احدی عشر رکعۃ ‘‘ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہو گئی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے تراویح کے بارے میں نہیں ،لہٰذا معلوم ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ دو نمازیں قائم نہیں کیں وہی قیام رمضان (تراویح) بالفاظ دیگر تہجد گیارہ رکعت پڑھتے اور قیام رمضان (تراویح)کو حدیث میں قیام اللیل (تہجد) بھی فرمایا ہے’’انی خشیت ان یکتب علیکم الصلوۃ اللیل‘‘ رمضان میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضون اللہ علیھم کو تراویح پڑھا کر فرمایا ’’مجھ کو خوف ہوا کہ تم پر صلوۃ اللیل (تہجد) فرض نہ ہو جائے،دیکھئے آپ ﷺ نے تراویح کو تہجد فرمایا۔اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں قیام رمضان (تراویح)اور صلوۃ اللیل (تہجد)ایک ہی نماز ہیں۔
تراویح اور تہجد دونوں ایک ہیں:
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم نے رمضان کے روزے رکھے آپ ﷺ نے ہم کو آخر ہفتہ میں تین طاق راتوں میں تراویح اس ترتیب سے پڑھائیں کہ پہلی رات کو اول وقت میں دوسری رات کو نصف شب میں،پھر نصف بقیہ میں سوال ہوا کہ اور نمازپڑھائیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کی پوری رات کا قیام ہو گا پھر تیسری رات کو آخری شب میں اپنی اہل بیت کو جمع کر کے سب لوگوں کی جمعیت میں تراویح پڑھائیں۔یہاں تک کہ ہم ڈرے کہ جماعت ہی میں سحری کا وقت نہ چلا جائے ۔اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بخاری شریف میں یہ حدیث مختصر الفاظ میں کئی جگہ وارد ہو ئی ہے۔
اس سے معلوم ہو ا کہ آپ ﷺ نے اسی ایک نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھایا ہے اور اس تراویح کا وقت بعد عشاء کے آخری رات تک اپنے فعل (اسوۂ حسنہ) سے بتا دیا جس میں تہجد کا وقت آگیا ۔پس فعل رسول ﷺ سے ثابت ہو گیا کہ بعد عشاء کے آخری رات تک ایک ہی نماز ہے۔
نیز اس کی تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا ’’والتی تنامون عنہا افضل من التی تقومون ‘‘یہ تراویح پچھلی شب میں کہ جس میں تم سو تے ہو پڑھنا بہتر ہے اول وقت پڑھنے سے۔
معلوم ہوا کہ نماز تراویح و تہجد ایک ہی ہیں،نیز اسی حدیث پر امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہ باب باندھاہے کہ’’باب فضل من قیام رمضان‘‘اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث مذکور پر یوں باب منعقد کیا ہے ’’باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان‘‘ اور اسی طرح امام محمد شاگرد امام اعظم نے ’’بابقیام رمضان‘‘ کے تحت میں حدیث مذکور کو نقل کیا ہے ان سب بزرگوں کی مراد بھی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے تراویح ہی ہے اور اول تار سے آخری رات تک ایک ہی نماز ہے۔
اب رہا ان تینعں راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں ،تو عرض ہے کہ وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں ہی پڑھائی تھیں۔
(۱) ہم سے عبد اللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے خبر دی انہیں ابن شہاب زہری نے انہیں عروہ بن زبیر نے انہیں ام المومنین حضرت عائشہؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز پڑھی۔دوسری رات بھی آپ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہو گیا تھا لیکن نبی کریم ﷺ اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے ۔صبح کے وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہو گئے تھے میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے یہ رمضان کا واقعہ تھا۔(بخاری)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے چند راتوں میں رمضان کی نفل نماز صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کو جماعت سے پڑھائی بعد میں اس خیال سے کہ کہیں یہ نمازفرض کر دی جائے آپ ﷺ نے جماعت کا اہتمام ترک کر دیا۔اس سے رمضان شریف میں نماز تراویح با جماعت کی مشروعیات ثابت ہو ئی۔آپ ﷺ نے یہ نفل نماز گیارہ رکعات پڑھائی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ کا بیان ہے۔
چنانچہ علامہ شوکانی فرماتے ہیں:’’رمضان کی اس نماز میں آنحضرت ﷺ سے جو عدد صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺنے رمضان اور غیر رمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا اور مسند ابن حبان میں بسند صحیح مزید وضاحت یہ موجود ہے کہ آپ ﷺ نے آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر تین وتر پڑھائے۔
پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو رمضان میں تراویح با جماعت گیارہ رکعات پڑھائی تھیں اور تراویح و تہجد میں یہی عدد مسنون ہیں۔
۲۔ ’’حدثنا مسدد قال ثنا یحیےٰ عن شعبۃ قال حدثنی ابو جمرۃ عن ابن عباس قال کان صلوۃ النبی ﷺ ثلاث عشرۃ یعنی با للیل‘‘ (بخاری)
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحیےٰ ابن سعید قطان نے بیان کیا ان سے شعبہ نے کہا کہ مجھ سے ابو جمرہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس نے کہ نبی کریم ﷺ کی رات کی نماز تیرہ رکعات ہوتی تھی۔(۸ تہجد اور ۵ وتر)
۳۔ ’’حدثنا اسحاق قال ثنا عبید اللہ قال اخبرنا اسرائیل عن ابی حصین عن یحیےٰ بن وثاب عن مسروق قال سالت سبع و تسع واحدیٰ عشرۃ سویٰ رکعتی‘‘۔
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہمیں اسرائیل نے خبر دی انہیں ابوحصین عثمان بن عاصم نے انہیں یحیےٰ بن وثاب نے انہیں مسروق بن اجدع نے آپ ﷺ نے کہا کہ میں نے عائشہ سے نبی کریم ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ ﷺ سات نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے فجر کی سنت اس کے سوا ہو تی،رات کی نماز سے مراد غیر رمضان میں نماز تہجد اور رمضان میں نمازتراویح مراد ہے ۔
۴۔ حدثنا عبید اللہ بن موسیٰ قال اخبرنا حنظلۃ عن القاسم بن محمد عن عائشۃ رضی اللہ عنہما قالت کان النبی ﷺ یصلی من اللیل ثلث عشرۃ رکعۃ منھا الوتررکعتا الفجر‘‘۔
ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہمیں حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں حضرت عائشہ نے آپ ﷺ نے بتلایا نبی کریم ﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے وتر اور فجر کی دو سنت رکعتیں اسی میں ہو تیں۔
خلاصہ یہ کہ وتر سمیت یعنی دس رکعتیں تہجد کی دو دو کر کے پڑھتے پھر ایک رکعت پڑھ کر سب کو طاق کر لیتے،یہ گیارہ تہجد اور وتر کی تھیں اور دو فجر کی سنتیں ملا کر تیرہ رکعتیں ہوئیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوںں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے،جن روایات میں آپ ﷺ کا بیس رکعات پڑھنے کا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں۔
۵۔ ہم سے عبد اللہ بن تینسی نے بیان کیا ،کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ،انہیں سعید بن ابو سعید المقبری نے ،انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضیا للہ عنھاسے انہوں نے پوچھا کہ نبی ﷺ رمضان میں رات کو کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔آپ نے جواب دیا کہ رسو ل اللہ ﷺ (رات میں ) گیارہ رکعتوں زیادہ نہیں پڑھتے تھے خواہ رمضان کا مہینہ ہو تا یا کوئی اور۔پہلے آپ ﷺ چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا پھر آپ چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا پھر تین رکعتیں پڑھتے،عائشہ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ ان ہی گیارہ رکعتوں کو تراویح قرار دیا گیا ہے۔آنحضرت ﷺ سے رمضان اور غیر رمضان میں بروایات صحیحہ یہی گیارہ رکعات ثابت ہیں،رمضان شریف میں یہ نماز تراویح کے نام سے موسوم ہو ئیں اور غیر رمضان میں تہجدکے نام سے پکاری گئی۔
پس سنت نبوی صرف آٹھ رکعات تراویح اور تین رکعات وتر اس طرح کل گیارہ رکعات ادا کر نی ثابت ہیں چنانچہ ذیل کی حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے۔
’’عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال بنا رسول اللہ ﷺ فی رمضان ثمان رکعات والوتر‘‘۔ علامہ ابن نصر مروزی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعتیں تراویح اور وتر پڑھا دیا(یعنی گیارہ رکعات)نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث رسول ﷺ ’’ماکان یزید فی رمضان ولا فی غیر علی احدی عشر رکعۃ ‘‘ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہو گئی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے تراویح کے بارے میں نہیں ،لہٰذا معلوم ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ دو نمازیں قائم نہیں کیں وہی قیام رمضان (تراویح) بالفاظ دیگر تہجد گیارہ رکعت پڑھتے اور قیام رمضان (تراویح)کو حدیث میں قیام اللیل (تہجد) بھی فرمایا ہے’’انی خشیت ان یکتب علیکم الصلوۃ اللیل‘‘ رمضان میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضون اللہ علیھم کو تراویح پڑھا کر فرمایا ’’مجھ کو خوف ہوا کہ تم پر صلوۃ اللیل (تہجد) فرض نہ ہو جائے،دیکھئے آپ ﷺ نے تراویح کو تہجد فرمایا۔اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں قیام رمضان (تراویح)اور صلوۃ اللیل (تہجد)ایک ہی نماز ہیں۔
تراویح اور تہجد دونوں ایک ہیں:
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم نے رمضان کے روزے رکھے آپ ﷺ نے ہم کو آخر ہفتہ میں تین طاق راتوں میں تراویح اس ترتیب سے پڑھائیں کہ پہلی رات کو اول وقت میں دوسری رات کو نصف شب میں،پھر نصف بقیہ میں سوال ہوا کہ اور نمازپڑھائیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کی پوری رات کا قیام ہو گا پھر تیسری رات کو آخری شب میں اپنی اہل بیت کو جمع کر کے سب لوگوں کی جمعیت میں تراویح پڑھائیں۔یہاں تک کہ ہم ڈرے کہ جماعت ہی میں سحری کا وقت نہ چلا جائے ۔اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بخاری شریف میں یہ حدیث مختصر الفاظ میں کئی جگہ وارد ہو ئی ہے۔
اس سے معلوم ہو ا کہ آپ ﷺ نے اسی ایک نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھایا ہے اور اس تراویح کا وقت بعد عشاء کے آخری رات تک اپنے فعل (اسوۂ حسنہ) سے بتا دیا جس میں تہجد کا وقت آگیا ۔پس فعل رسول ﷺ سے ثابت ہو گیا کہ بعد عشاء کے آخری رات تک ایک ہی نماز ہے۔
نیز اس کی تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا ’’والتی تنامون عنہا افضل من التی تقومون ‘‘یہ تراویح پچھلی شب میں کہ جس میں تم سو تے ہو پڑھنا بہتر ہے اول وقت پڑھنے سے۔
معلوم ہوا کہ نماز تراویح و تہجد ایک ہی ہیں،نیز اسی حدیث پر امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہ باب باندھاہے کہ’’باب فضل من قیام رمضان‘‘اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث مذکور پر یوں باب منعقد کیا ہے ’’باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان‘‘ اور اسی طرح امام محمد شاگرد امام اعظم نے ’’بابقیام رمضان‘‘ کے تحت میں حدیث مذکور کو نقل کیا ہے ان سب بزرگوں کی مراد بھی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے تراویح ہی ہے اور اول تار سے آخری رات تک ایک ہی نماز ہے۔
اب رہا ان تینعں راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں ،تو عرض ہے کہ وتر کے علاوہ آٹھ رکعتیں ہی پڑھائی تھیں۔
No comments:
Post a Comment