تنقیحات
محمد نفیس محمد اسماعیل
متعلم:جامعہ سراج العلوم ،بونڈ یہار
(۱) ’’عن حسین بن علی قال:قال رسول اللہ ﷺ من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان‘‘۔
ترجمہ:جس کے یہاں کسی بچہ کی ولادت ہو ئی اور اس نے اس بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچہ کو ام الصبیان ،جنیہ،بھتنی،الوہوا کو ئی بھی بیماری نقصان نہیں پہونچا سکتی ہے۔ اس کی تخریج امام بیہقی و غیرہ نے یحیےٰ بن العلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحہ بن عبد اللہ العقیلی عن الحسن کے طریق سے کی ہے۔
اس میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں:
(۱) یحیےٰ بن العلاء البجلی ابو سلمہ یقال ابو عمر و الرازی رحمہ اللہ کذاب ووضاع ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کذاب،یضع الحدیث‘‘(تھذیب التھذیب ۱۱؍۲۲۹۔۲۳،میزان الاعتدال ۴؍۲۹۸)۔
(۲) مروان بن سالم ابو عبد اللہ الشافعی الجزری الغفاری متروک ہیں۔
امام بخاری و مسلم رحمھما اللہ نے منکر الحدیث فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۱۰؍۸۴۔۸۵،میزان الاعتدال ۴؍۹۰) امام بیہقی رحمہ اللہ (شعب الایمان ۲؍۳۸۹) نے اس کی سند کو ضعیف اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع گردانا ہے۔(الاروا ۴؍۴۰۰ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ۱؍۴۹۳ ضعیف الجامع ۵۸۹۳) نیز اصول اسی کے بھی متقاضی ہیں۔
(۲) ابو رافع مولیٰ رسول اللہﷺ کی حدیث جس کو ابو داؤد،ترمذی،بیہقی اور عبد الرزاق نے ’’عن سفیان الثوری حدثنی عاصم بن عبید اللہ عن عبید اللہ بن رافع عن ابیہ قال:’’رأیت رسول اللہ اذن فی اذن الحسن بن علی ولدتہ فاطمۃ بالصلوٰۃ‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ: ابو رافع نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب حسن بن علی کی والدہ نے ان کو جنم دیا ،تو حسن بن علی کے کان میں نبی ﷺ نے اذان دی۔
اس میں ایک راوی ہیں’’عاصم بن عبید اللہ بن عمر بن الخطاب العدوی المدنی جو متفق علیہ ضعیف ہیں۔(تھذیب التھذیب ۵؍۴۲۔۴۳،میزان الاعتدال ۲؍۳۵۳)۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے جو غیر مناسب ہے۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمھما اللہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے،صاحب تحفہ رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف گردانا ہے،شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ بھی اسے ضعیف ہی کہتے ہیں۔(الکلم الطیب ۱۶۲،تحفہ المودود ۱۶ اروا ء ۴؍۴۰۰)۔
(۳) حدیث ابن عباس ۔اس کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’عن محمد بن یونس نا الحسن بن عمرو بن یوسف السدوسی ثنا القاسم بن مطیب عن منصور بن صفیہ عن ابی معبد عن ابن عباس ان النبی ﷺ اذن فی اذن الحسن بن علی یوم ولد فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے جب حسن بن علی کی پیدائش ہو ئی، تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
۱۔ محمد بن یونس بن موسیٰ بن سلیمان ابو العباس الکدیمی ’’کذاب‘‘ہیں۔ (تھذیب التھذیب ۹؍۴۷۵۔۴۷۷،میزان الاعتدال ۷۴۳۴۔۷۵)۔
۲۔ حسن بن عمرو سیف البصری السدوسی یہ بھی کذاب ہیں ،جیسا کہ امام بخاری وغیرہ نے فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۲؍۲۶۸،میزان الاعتدال ۱؍۵۱۶)
۳۔ القاسم بن مطیب العجلی البصری ،امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کان یخطی کثیرا فا ستحق الترک‘‘ کثرت خطا کی وجہ سے یہ متروک ٹھہرے۔(یہذیب التہذیب ۸؍۳۰۲،میزان الاعتدال ۳؍۳۸۰) یہ روایت بھی موضوع ہے، کیو نکہ شاہد بننے سے عاری ہے ،خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
(۴) حدیث عمربن عبد العزیز: اس کو عبد الرزاق نے ’’عن ابن ابی یحییٰ عن عبد اللہ بن ابی بکر ان عمر بن عبد العزیزکان اذا ولد لہ ولد اخذہ کما ہو فی خرقتہ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری و سماہ مکانہ‘‘۔
عبد اللہ بن ابی بکر نے عمر بن عبد العزیز سے روایت کیا ہے کہ جب ان کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو تا، تو اس کے دائیں کان میں اذان دیتے اور بائیں کان میں اقامت کہتے اور اسی وقت اس کا نام رکھتے۔
اسکے نقائص یہ ہیں(۱) ابن ابی یحییٰ: اسمہ ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی المدنی رحمہ اللہ ، یہ کذاب اور متروک ہیں۔(تہذیب التہذیب ۱؛۱۳۷؛میزان الاعتدال ۱؛۵۷ ۵۷ )
ٍ (۲) عبد اللہ بن ابی بکر بن زید بن مہاجر رحمہ اللہ :۔
علی بن المدینی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے ،امام بن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔ ( تہذیب التہذیب ۵؛۴۳،میزان الاعتدال ۲؛۳۹۸) عمر بن عبد العزیز کا یہ عمل موضوع ہے اور اس کو گڑھ کر ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
احتیاطی تدبیر:۔ ولادت کا وقت نو مولود کے لئے بہت ہی پُر خطر،تکلیف دہ اور پریشان کُن ہو تا ہے، اس لئے کہ ایک طرف ایک نئی دنیا نظر میں ہو تی ہے اور دوسری طرف شیطان رجیم کے کچوکے لگانے کا سلسلہ ہو تا ہے، جس سے بچہ عاجز آکر چیختا اور چلاتا ہے، اس پریشانی سے بچہ کو بچانے کے لئے کسی ایسے حربے کی ضرورت ہے جو شیطان رجیم کے لئے شہاب ثاقب کا کمال رکھتا ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب شیطان اذان سنتا ہے تو ہوا خارج کر تے ہوئے راہ فرار اختیار کر تا ہے اور اس وقت تک واپس نہیں آتا ہے جب تک اذان ختم نہ ہو جائے اس لئے احتیاطاً نومولود کے کان میں اذان دی جا سکتی ہے۔
(۱) یہ بات قطعی طور سے درست نہیں ہے کیونکہ حدیث میں اس اذان سے شیطان کے بھاگنے کا ذکر ہے جو نماز کے لئے کہی جاتی ہے’’اذا نودی للصلوۃ ادبر ا شیطان ولہ ضراط لا یسمع التاذین‘‘(بخاری ۶۰۸) اور دیگر مواقع سے جو متعلق ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ یہ تدبیر یہاں کار گر نہیں اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ان کی والدہ کے علاوہ شیطان سب کو کچوکہ لگاتا ہے۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے ترجمان اکتوبر ۱۔۱۵ ۲۰۰۹ ء ۔ خلاصہ کلام یہ کہ نومولود کے کان میں اذان و اقامت کے جواز میں جس طرح کے بھی نصوص ملتے ہیں، وہ سب کے سب نا قابل استدلال ا ور نا قابل حجت ہیں اس لئے اس عمل کو رواج دینا کسی بھی لحاظ سے درست اور صحیح نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سنتِ رسول کے عین مطابق زندگی گزارنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔(آمین)
متعلم:جامعہ سراج العلوم ،بونڈ یہار
نو مولود کے کان میں اذان و اقامت
قارئین کرام:اسلام دین رحمت ہے، اس کی تعلیمات نہایت سادہ آسان اور واضح ہیں،جس میں نہ کسی طرح کی پیچیدگی ہے، نہ کسی طرح کا غموض ،بلکہ اسلام کے تعلق سے ہمیں کیا کر نا ہے اور نہیں کر نا ہے۔ اس کو اسلام نے صاف و شفاف لفظوں میں لوگوں کے سامنے مکمل طور سے بیان کردیا ہے اور اس میں نہ کسی کمی یا بیشی کی گنجائش ہے اور نہ کسی کو اس بات کا حق ہی حاصل ہے۔ذیل کے سطور میں امت مسلمہ کے ایک مشہور عمل ’’نومولود کے کان میں اذان و اقامت کی شرعی حیثیت‘‘نذر قرطاس کی جا رہی ہے اللہ ہم تمام مسلمانوں کو اس کو سمجھنے کی توفیق دے۔(۱) ’’عن حسین بن علی قال:قال رسول اللہ ﷺ من ولد لہ مولود فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری لم تضرہ ام الصبیان‘‘۔
ترجمہ:جس کے یہاں کسی بچہ کی ولادت ہو ئی اور اس نے اس بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اس بچہ کو ام الصبیان ،جنیہ،بھتنی،الوہوا کو ئی بھی بیماری نقصان نہیں پہونچا سکتی ہے۔ اس کی تخریج امام بیہقی و غیرہ نے یحیےٰ بن العلاء الرازی عن مروان بن سالم عن طلحہ بن عبد اللہ العقیلی عن الحسن کے طریق سے کی ہے۔
اس میں مندرجہ ذیل علتیں ہیں:
(۱) یحیےٰ بن العلاء البجلی ابو سلمہ یقال ابو عمر و الرازی رحمہ اللہ کذاب ووضاع ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کذاب،یضع الحدیث‘‘(تھذیب التھذیب ۱۱؍۲۲۹۔۲۳،میزان الاعتدال ۴؍۲۹۸)۔
(۲) مروان بن سالم ابو عبد اللہ الشافعی الجزری الغفاری متروک ہیں۔
امام بخاری و مسلم رحمھما اللہ نے منکر الحدیث فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۱۰؍۸۴۔۸۵،میزان الاعتدال ۴؍۹۰) امام بیہقی رحمہ اللہ (شعب الایمان ۲؍۳۸۹) نے اس کی سند کو ضعیف اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے موضوع گردانا ہے۔(الاروا ۴؍۴۰۰ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ ۱؍۴۹۳ ضعیف الجامع ۵۸۹۳) نیز اصول اسی کے بھی متقاضی ہیں۔
(۲) ابو رافع مولیٰ رسول اللہﷺ کی حدیث جس کو ابو داؤد،ترمذی،بیہقی اور عبد الرزاق نے ’’عن سفیان الثوری حدثنی عاصم بن عبید اللہ عن عبید اللہ بن رافع عن ابیہ قال:’’رأیت رسول اللہ اذن فی اذن الحسن بن علی ولدتہ فاطمۃ بالصلوٰۃ‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ: ابو رافع نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب حسن بن علی کی والدہ نے ان کو جنم دیا ،تو حسن بن علی کے کان میں نبی ﷺ نے اذان دی۔
اس میں ایک راوی ہیں’’عاصم بن عبید اللہ بن عمر بن الخطاب العدوی المدنی جو متفق علیہ ضعیف ہیں۔(تھذیب التھذیب ۵؍۴۲۔۴۳،میزان الاعتدال ۲؍۳۵۳)۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن صحیح کہا ہے جو غیر مناسب ہے۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم رحمھما اللہ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے،صاحب تحفہ رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف گردانا ہے،شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ بھی اسے ضعیف ہی کہتے ہیں۔(الکلم الطیب ۱۶۲،تحفہ المودود ۱۶ اروا ء ۴؍۴۰۰)۔
(۳) حدیث ابن عباس ۔اس کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’عن محمد بن یونس نا الحسن بن عمرو بن یوسف السدوسی ثنا القاسم بن مطیب عن منصور بن صفیہ عن ابی معبد عن ابن عباس ان النبی ﷺ اذن فی اذن الحسن بن علی یوم ولد فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری‘‘روایت کیا ہے۔
ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے جب حسن بن علی کی پیدائش ہو ئی، تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔
۱۔ محمد بن یونس بن موسیٰ بن سلیمان ابو العباس الکدیمی ’’کذاب‘‘ہیں۔ (تھذیب التھذیب ۹؍۴۷۵۔۴۷۷،میزان الاعتدال ۷۴۳۴۔۷۵)۔
۲۔ حسن بن عمرو سیف البصری السدوسی یہ بھی کذاب ہیں ،جیسا کہ امام بخاری وغیرہ نے فرمایا ہے۔(تھذیب التھذیب ۲؍۲۶۸،میزان الاعتدال ۱؍۵۱۶)
۳۔ القاسم بن مطیب العجلی البصری ،امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے:’’کان یخطی کثیرا فا ستحق الترک‘‘ کثرت خطا کی وجہ سے یہ متروک ٹھہرے۔(یہذیب التہذیب ۸؍۳۰۲،میزان الاعتدال ۳؍۳۸۰) یہ روایت بھی موضوع ہے، کیو نکہ شاہد بننے سے عاری ہے ،خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔
(۴) حدیث عمربن عبد العزیز: اس کو عبد الرزاق نے ’’عن ابن ابی یحییٰ عن عبد اللہ بن ابی بکر ان عمر بن عبد العزیزکان اذا ولد لہ ولد اخذہ کما ہو فی خرقتہ فاذن فی اذنہ الیمنی و اقام فی اذنہ الیسری و سماہ مکانہ‘‘۔
عبد اللہ بن ابی بکر نے عمر بن عبد العزیز سے روایت کیا ہے کہ جب ان کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہو تا، تو اس کے دائیں کان میں اذان دیتے اور بائیں کان میں اقامت کہتے اور اسی وقت اس کا نام رکھتے۔
اسکے نقائص یہ ہیں(۱) ابن ابی یحییٰ: اسمہ ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی المدنی رحمہ اللہ ، یہ کذاب اور متروک ہیں۔(تہذیب التہذیب ۱؛۱۳۷؛میزان الاعتدال ۱؛۵۷ ۵۷ )
ٍ (۲) عبد اللہ بن ابی بکر بن زید بن مہاجر رحمہ اللہ :۔
علی بن المدینی رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے ،امام بن حبان رحمہ اللہ نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔ ( تہذیب التہذیب ۵؛۴۳،میزان الاعتدال ۲؛۳۹۸) عمر بن عبد العزیز کا یہ عمل موضوع ہے اور اس کو گڑھ کر ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
احتیاطی تدبیر:۔ ولادت کا وقت نو مولود کے لئے بہت ہی پُر خطر،تکلیف دہ اور پریشان کُن ہو تا ہے، اس لئے کہ ایک طرف ایک نئی دنیا نظر میں ہو تی ہے اور دوسری طرف شیطان رجیم کے کچوکے لگانے کا سلسلہ ہو تا ہے، جس سے بچہ عاجز آکر چیختا اور چلاتا ہے، اس پریشانی سے بچہ کو بچانے کے لئے کسی ایسے حربے کی ضرورت ہے جو شیطان رجیم کے لئے شہاب ثاقب کا کمال رکھتا ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب شیطان اذان سنتا ہے تو ہوا خارج کر تے ہوئے راہ فرار اختیار کر تا ہے اور اس وقت تک واپس نہیں آتا ہے جب تک اذان ختم نہ ہو جائے اس لئے احتیاطاً نومولود کے کان میں اذان دی جا سکتی ہے۔
(۱) یہ بات قطعی طور سے درست نہیں ہے کیونکہ حدیث میں اس اذان سے شیطان کے بھاگنے کا ذکر ہے جو نماز کے لئے کہی جاتی ہے’’اذا نودی للصلوۃ ادبر ا شیطان ولہ ضراط لا یسمع التاذین‘‘(بخاری ۶۰۸) اور دیگر مواقع سے جو متعلق ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ یہ تدبیر یہاں کار گر نہیں اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ان کی والدہ کے علاوہ شیطان سب کو کچوکہ لگاتا ہے۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے ترجمان اکتوبر ۱۔۱۵ ۲۰۰۹ ء ۔ خلاصہ کلام یہ کہ نومولود کے کان میں اذان و اقامت کے جواز میں جس طرح کے بھی نصوص ملتے ہیں، وہ سب کے سب نا قابل استدلال ا ور نا قابل حجت ہیں اس لئے اس عمل کو رواج دینا کسی بھی لحاظ سے درست اور صحیح نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سنتِ رسول کے عین مطابق زندگی گزارنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔(آمین)
No comments:
Post a Comment