طب و صحت
ڈاکٹر ایم این بیگ
جسمانی بنیاد
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ دنیا کی تمام کوششیں اور تربیت اچھا دماغ نہیں بنا سکتیں، جب تک کہ جسم کی طرف پوری توجہ نہیں دی جائے۔ دماغ کو اپنا کام کرنے کے لئے بدن کی رگوں، پھٹوں اور دیگر اعضاء کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے،یہ تمام اعضاء،دماغ کے اوزار ہیں،اگر اوزار ہی خراب ہوں، تو لازمی طور پر نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔
قوت ارادی بسا اوقات صرف جسمانی کمزوری کی وجہ سے کمزور ہو جاتی ہے،کئی بار صفت بصارت توجہ کو مرکوز نہ کرسکنے کا باعث ہوئی ہے،اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم جسم کی بھی اسی طرح پرورش کریں ،جیسے کہ دماغ کی تربیت کرتے ہیں۔ مناسب خوراک،کافی اور گہری نیند،اور کافی توانا بدن عموما توانا دماغ رکھنے کے لوازمات میں سے ہیں۔
اگر با قاعدگی سے،صبح بیدار ہو کر،چند منٹوں کے لئے ورزش کی جائے تو اس سے جسم اور دماغ پر بہت اچھا اثر مرتب ہو تا ہے۔ صبح کی ورزش اگر با قاعدگی سے کی جائے تو اس سے دماغ کی بھی تربیت ہو تی ہے،مثلا: قوت ارادی مضبوط ہو جائے گی۔
کئی دفعہ صبح کے وقت بستر میں رہنے کو جی چاہتا ہے۔لیکن ہر بار جب آپ اپنی اس خواہش پر غلبہ پالیں گے، تو آپ کی قوت ارادی مضبوط ہو جائے گی اور سب سے زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ آپ اپنی دماغی تربیت کے لئے ضروری جسمانی بنیادتیار کر رہے ہوں گے۔
غرور: اگر کوئی مشین خراب ہو جائے تو عقل سلیم کا تقاضہ یہ ہو تا ہے کہ معائنہ کر کے اس جگہ کی شناخت کی جائے جہاں نقص واقع ہوا ہے۔ عقل سلیم کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ مشین کا معائنہ کسی ماہر شخص سے کرایا جائے۔ لیکن کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ بہت کم لوگ،اپنے دماغ کی نازک مشین کے متعلق عقل سلیم کا یہ مشورہ قبول کرتے ہیں۔
*چڑچڑاپن*ضد*تذبذب
اور اسی طرح کی دیگر علامات،دماغی مشین کے عارضی نقص کو ظاہر کرتی ہیں۔ دس میں سے نو واقعات میں یہ تکلیف کسی خیال یا بہت سے خیالات کی وجہ سے پیدا ہو تی ہے جو زنگ کی طرح دماغ کے پہیوں کے چلنے سے روکتی ہے۔ایسے مواقع پر دماغ کی اندرونی حالات پر غور کر نا چاہئے،اس سے غم اور مسرت کا فرق معلوم ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی لیکن زیادہ دیر تک نہیں،اپنے آپ کی تحلیل کی جائے تو بہت فائدہ ہو تا ہے۔
غرور: اس زنگ کی طرح ہے جو مشین میں جم جاتا ہے ۔غرور کی وجہ سے اپنی کمزوریوں کا اعتراف نہیں کیا جا سکتا۔نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ آپ سوچتے رہتے ہیں اور مفروضہ غلطیاں صحیح و جود اختیار کر لیتی ہیں،اور دنیا کو مخصوص رنگ کے شیشوں والی عینک سے دیکھنے لگتے ہیں۔اس طرح آپ خود کو اور دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
مضبوط اعصاب والے شخص کی یہ خصوصیت ہو تی ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف بے باکی سے کر لیتا ہے،اس کے دل میں سب کے لئے عزت ہو تی ہے وہ صرف ایک لفظ سے غلط فہمی دور کر دیتا ہے ۔ اگر آپ کسی تکلیف میں مبتلا ہوں اور دنیا آپ کو تاریک نظر آنے لگے تو سوچئے کہ قصور تمہارا ہی تو نہیں،اس لئے جرأت سے کام لے کر اعتراف کر لینا چاہئے۔
ذھانت: بعض افراد یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ذہانت سے کیا مراد ہے؟ اور ذہین آدمی کی کونسی خصوصیت اسے دوسرے آدمی سے ممتاز کرتی ہے؟ جواب دینا آسان نہیں،کیونکہ ذہانت کی ہےئت ترکیبی سے متعلق آراء کا اختلاف ہے۔ میرے خیال میں تو ذہانت کسی خاص کام میں قابلیت سے علیحدہ ہے۔میرے خیال میں ذہانت اس قوت کا نام ہے جس سے آدمی اپنے آپ کو اپنی فضا کے عین مطابق بنا لیتا ہے،ذہین آدمی کی اور بھی خصوصیات ہیں وہ نہ تو جلد باز ہو تا ہے اور نہ غیر مستقل مزاج،وہ کام کر نے سے پہلے سوچتا ہے،اور فیصلہ کرنے کے بعد ارادہ کر لیتا ہے اور پھر اس ارادے کو عزم و استقلال سے پورا کر تا ہے۔ ذہانت مشق سے پیدا کی جا سکتی ہے۔
میرا آخری مشورہ یہی ہے کہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے خوب سوچئے اور سوچ سمجھ کر حتی الامکان صحیح فیصلہ کیجئے یہی ذہانت کا تقاضہ بھی ہے۔
*****
قوت ارادی بسا اوقات صرف جسمانی کمزوری کی وجہ سے کمزور ہو جاتی ہے،کئی بار صفت بصارت توجہ کو مرکوز نہ کرسکنے کا باعث ہوئی ہے،اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم جسم کی بھی اسی طرح پرورش کریں ،جیسے کہ دماغ کی تربیت کرتے ہیں۔ مناسب خوراک،کافی اور گہری نیند،اور کافی توانا بدن عموما توانا دماغ رکھنے کے لوازمات میں سے ہیں۔
اگر با قاعدگی سے،صبح بیدار ہو کر،چند منٹوں کے لئے ورزش کی جائے تو اس سے جسم اور دماغ پر بہت اچھا اثر مرتب ہو تا ہے۔ صبح کی ورزش اگر با قاعدگی سے کی جائے تو اس سے دماغ کی بھی تربیت ہو تی ہے،مثلا: قوت ارادی مضبوط ہو جائے گی۔
کئی دفعہ صبح کے وقت بستر میں رہنے کو جی چاہتا ہے۔لیکن ہر بار جب آپ اپنی اس خواہش پر غلبہ پالیں گے، تو آپ کی قوت ارادی مضبوط ہو جائے گی اور سب سے زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ آپ اپنی دماغی تربیت کے لئے ضروری جسمانی بنیادتیار کر رہے ہوں گے۔
غرور: اگر کوئی مشین خراب ہو جائے تو عقل سلیم کا تقاضہ یہ ہو تا ہے کہ معائنہ کر کے اس جگہ کی شناخت کی جائے جہاں نقص واقع ہوا ہے۔ عقل سلیم کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ مشین کا معائنہ کسی ماہر شخص سے کرایا جائے۔ لیکن کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ بہت کم لوگ،اپنے دماغ کی نازک مشین کے متعلق عقل سلیم کا یہ مشورہ قبول کرتے ہیں۔
*چڑچڑاپن*ضد*تذبذب
اور اسی طرح کی دیگر علامات،دماغی مشین کے عارضی نقص کو ظاہر کرتی ہیں۔ دس میں سے نو واقعات میں یہ تکلیف کسی خیال یا بہت سے خیالات کی وجہ سے پیدا ہو تی ہے جو زنگ کی طرح دماغ کے پہیوں کے چلنے سے روکتی ہے۔ایسے مواقع پر دماغ کی اندرونی حالات پر غور کر نا چاہئے،اس سے غم اور مسرت کا فرق معلوم ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی لیکن زیادہ دیر تک نہیں،اپنے آپ کی تحلیل کی جائے تو بہت فائدہ ہو تا ہے۔
غرور: اس زنگ کی طرح ہے جو مشین میں جم جاتا ہے ۔غرور کی وجہ سے اپنی کمزوریوں کا اعتراف نہیں کیا جا سکتا۔نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ آپ سوچتے رہتے ہیں اور مفروضہ غلطیاں صحیح و جود اختیار کر لیتی ہیں،اور دنیا کو مخصوص رنگ کے شیشوں والی عینک سے دیکھنے لگتے ہیں۔اس طرح آپ خود کو اور دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
مضبوط اعصاب والے شخص کی یہ خصوصیت ہو تی ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف بے باکی سے کر لیتا ہے،اس کے دل میں سب کے لئے عزت ہو تی ہے وہ صرف ایک لفظ سے غلط فہمی دور کر دیتا ہے ۔ اگر آپ کسی تکلیف میں مبتلا ہوں اور دنیا آپ کو تاریک نظر آنے لگے تو سوچئے کہ قصور تمہارا ہی تو نہیں،اس لئے جرأت سے کام لے کر اعتراف کر لینا چاہئے۔
ذھانت: بعض افراد یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ذہانت سے کیا مراد ہے؟ اور ذہین آدمی کی کونسی خصوصیت اسے دوسرے آدمی سے ممتاز کرتی ہے؟ جواب دینا آسان نہیں،کیونکہ ذہانت کی ہےئت ترکیبی سے متعلق آراء کا اختلاف ہے۔ میرے خیال میں تو ذہانت کسی خاص کام میں قابلیت سے علیحدہ ہے۔میرے خیال میں ذہانت اس قوت کا نام ہے جس سے آدمی اپنے آپ کو اپنی فضا کے عین مطابق بنا لیتا ہے،ذہین آدمی کی اور بھی خصوصیات ہیں وہ نہ تو جلد باز ہو تا ہے اور نہ غیر مستقل مزاج،وہ کام کر نے سے پہلے سوچتا ہے،اور فیصلہ کرنے کے بعد ارادہ کر لیتا ہے اور پھر اس ارادے کو عزم و استقلال سے پورا کر تا ہے۔ ذہانت مشق سے پیدا کی جا سکتی ہے۔
میرا آخری مشورہ یہی ہے کہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے خوب سوچئے اور سوچ سمجھ کر حتی الامکان صحیح فیصلہ کیجئے یہی ذہانت کا تقاضہ بھی ہے۔
*****
No comments:
Post a Comment