- دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Thursday, December 31, 2015


عبدالرؤف عبدالحفیظ السلفی 
استاذ : المعہد : رچھا ، بریلی 
میں تیرا ہوں، تو اس کا نا بن! 

عن سھل بن سعد الساعدی قال : اتی النبی ﷺ رجل فقال یارسول اللہ! دلنی علی عمل اذا انا عملتہ احبنی اللہ واحبنی الناس؟ فقال رسول اللہ ﷺ : ازہد فی الدنیا یحبک اللہ وازہد فیما فی ایدی الناس یحبک الناس‘‘۔
(ابن ماجہ، باب الزہد فی الدنیا،رقم :۴۱۰۲،صححہ الالبانی۔المکتبۃ الشاملۃ)
ترجمہ :حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ا کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول ۔ ا۔مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے کہ جب میں اس کو 
اپنا لوں تو ۔ اس عمل کی وجہ سے ۔ مجھ سے اللہ محبت کرنے لگے اور (تمام )لوگ ۔ بھی ۔ محبت کرنے لگیں ۔ 
نبی کریم انے(جواباً) ارشاد فرمایا : دنیا سے بے زار ہوجاؤ ، اللہ آپ سے محبت کرنے لگے گا ، لوگوں کے ہاتھو ں ۔ ملکیت ، اختیار۔میں جوکچھ ہے اس سے بے نیاز ہوجاؤ، لوگ آپ سے محبت کرنے لگیں گے ۔ 
تشریح:یہ حدیث نہایت اہم ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابو داؤد سجستانی رحمہ اللہ کے بقول جن چار احادیث پر مذہب اسلام کے تمام احکامِ شرعیہ کا دارو مدار ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے ۔ (دیکھئے شر ح النووی علی الصحیح مسلم ، با ب اخذ الحلال و ترک الشبہات)
’’زہد فی الدنیا ‘‘(دنیا سے بے زاری) کا مطلب ہے دنیا کے مقابلے میں دین کو ہی
فو قیت اور ترجیح دینا ۔ نہ کہ مکمل طور سے دنیا سے کنارہ کش ہو کر رہبانیت اختیار کر لینا ، کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قول ’’ولا تنسی نصیبک من الدنیا‘‘اور اپنا نصیبہ دنیا سے مت بھولنا ۔ اور حدیث رسول ا:
’’احرص علی ما ینفعک ‘‘اور ’’لا رہبانیۃ فی الاسلام‘‘وغیرہ کے خلاف ہے ۔ 
’’ زہد فیما فی أیدی الناس‘‘کا مطلب ہے کہ لوگوں کی رضاو رغبت کے بغیر ان کے اموال پر للچائی ہوئی نظر وں سے نہ دیکھنا ،نہ انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرنا ، نہ کھل کر سوال کرنا ، 
نہ سوال پر دلالت کرنے والے طور طریقے اختیار کرنا ۔ بلکہ بے رغبتی اور اعراض اختیار کرنا ۔
اب آئیے دیکھتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہونے والے اہم امور :
ظ لوگوں سے محبت کرنا، لوگوں کی محبت کا طلب گار رہنا اور اس کے لیے کوشش اور کاوش کرنا مشروع اور پسندیدہ ہے ، بلکہ ’’و لا تومنوا حتی تحابوا‘‘ (الحدیث) کی روشنی میں
ایمان کامل کے لیے لازم اور شرط ہے ۔
ظ اللہ کی محبت سب پر مقدم ہے ۔ بلکہ سورۂ بقرہ :۲۵؍ کی روشنی میں مومن کی علامت ہے اور سورۃالتوبہ :۲۴؍ کی روشنی میں اللہ سے زیادہ کسی سے محبت کرنا فسق اور با عثِ عذاب ہے ۔ 
ظ اللہ سے محبت کرنا اور اللہ کی محبت کا طلب گار و حریص رہنا ، اور اسے پانے کی کوشش کرنا ، 
اس کے اسباب و وسائل کو تلاش کرنا ، معلوم کرنا اور اختیار کرنا مشروع اور مطلوب ہے ۔
ظ زہد کے اقسام اور حقیقی زہد کی تعریف معلوم ہوتی ہے ۔
ظ جس طرح کسی کام کا کرنا اور انجام دینا ’’ عمل ‘‘ ہے اسی طرح قصداً چھوڑنا اور اعراض کرنا بھی عمل ہے ۔ (اور نیت کے اعتبار سے ثوا ب یا عقاب کا سبب بھی )
ظ نبی کریم ا کی فراست و ذہانت اور آپ ا کے کلام کی جامعیت ثابت ہوتی ہے ۔
ظ جواب اور فتوی؛ سائل اور مستفتی کے حالات اور ظروف کے اعتبار سے ہونا چاہیے ۔ دیکھئے اللہ کی محبت پانے کے لیے نبی کریم ا کی اتباع شرط ہے ، مگر آپ نے اس کا ذکر نہیں فرمایا ۔ کیوں کہ سائل کے حالات سے یہ بات پہلے ہی معلوم ہوگئی تھی کہ وہ آپ ا کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے ، اور رسالت کو
کما حقہ تسلیم کرنے کا مطلب ہی ہے آپ ا کی اتباع اور پیروی کرنا ۔
ظ دنیا سے بے رغبتی (یعنی دین کو دنیا پر ترجیح دینے) کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ۔ کہ اس 
بے مثال نسخہ سے دین و دنیا دونوں کی بھلائی حاصل ہوجاتی ہے ، اللہ بھی خوش اور بندہ بھی خوش ۔
ظ کسی کی محبوب چیزپر للچائی ہوئی نظر ڈالنا ؛اس کی نا پسندیدگی اور دشمنی مول لینے کے مترادف ہے ۔
ظ انسان کی نظرمیں فطری طور پر مال کی محبت کا پایا جانا معلوم ہوتا ہے ۔ 
اللہ رب العالمین ہمیں اپنی اور دنیا والوں کی نظر میں محبوب ومنظور اور مقبول بنائے ۔ آمین و صلی اللہ علی النبی الامی الکریم !

No comments:

Post a Comment