فکر و نظر عمرسلطان سلفی
مدیر مدرسہ سعودیہ عربیہ بارہ بنکی
اسی طرح آدم ثانی نوح علیہ السلام نے بھی اپنی اولاد کے لئے اللہ سے کہا اور جب غلطی کا احساس ہوا تو ان الفاظ میں معذرت و ندامت ظاہر کی ’’والا تغفرلی و تر حمنی اکن من الخاسرین‘‘ (ہود:۴۷)
اسی طرح دعائے رحمت یونس علیہ السلام نے بھی مانگی’’ونجنا برحمتک من القوم الکافرین‘‘ (یونس:۸۶) اور اسی طرح موسیٰ علیہ السلام ،سلیمان علیہ السلام اصحابِ کہف اور خود ہمارے رسول ﷺ (فداہ ابی و امّی) نے بھی اسی سے دادرسی کی’’وقل رب اغفر وارحم انت خیر الراحمین‘‘(مومنون:۱۸۸)اور اس طرح بھی اللہ سے مدد طلب کی ’’یا حیّ یا قیوم برحمتک استغیث۔‘‘(نسائی) اللہ کے رسول ﷺ نے مختلف اوقات ،مختلف اسالیب میں اللہ سے دعا کی اور مومنین بھی اسی سے استمداد کر تے ہیں اور کرنے کا حکم ہے’’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب‘‘(بقرہ:۲۸۶)
رحمت کس کو کہتے ہیں:
رحمت کہتے ہیں نرمی بردباری کو ۔’’رقۃ القلب و علفۃ الرحمۃ‘‘ سے لفظ رحمان اور رحیم مشتق ہیں یہ دونوں نام اللہ کے مشہور ناموں میں سے سب سے معروف و مشہور ہیں لفظ اللہ کے بعدسب سے زیادہ انہیں دونوں کا استعمال ہو تا ہے اور تمام سورتوں کے شروع میں لفظ رحمان اور رحیم ذکر ہو ئے ہیں، سوائے سورہ توبہ کے جو بغیر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے نازل ہو ئی ہے۔
رحمٰن اور رحیم کا فرق:
رحمٰن؛ رحیم سے زیادہ مخصوص ہے اور اس سے زیادہ مبالغہ والا ہے، اسی لئے اللہ کے علاوہ کسی کے ساتھ لفظ رحمٰن کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے’’قل ادعواللہ و ادعوالرحمٰن‘‘ (الاسرء:۱۱۰) اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا:’’انا اللہ وانا الرحمٰن خلقت الرحم و شققت لھا من اسمی فمن وصلھا و صلتہ و من قطعھا قطعتہ‘‘(الترمذی)رحمان کے معنی ہیں ایسی رحمت والا جس کی کوئی نظیر مثال نہ ہو اور یہ بندوں کی قدرت سے بعید تر ہے ۔رحمان کی رحمت عالم میں عام ہے ،مومنوں ،کافروں کے لیے نیکوں کاروں بدکاروں کے لیے اسی کی وحدانیت کا اقرار و انکار کر نے والوں کے لئے یعنی تمام کے لئے اس کی رحمت عام ہے ،جب کہ رحیم کی صفت صرف مومنین کے ساتھ خاص ہے’’وکان با لمومنین رحیما‘‘(الاحزاب:۴۳)
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رحمان وہ ہے کہ جب اس سے سوال کیا جائے تو عطا کرے اور رحیم وہ ہے کہ جب اس سے سوال کیا جائے تو غضب ناک ہو ۔چنانچہ اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے رحمت کو ضروری کر دیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے’’ولولا فضل اللہ علیکم و رحمتہ فی الدنیا والأخرۃ لمسکم فی ما فیہ عذاب عظیم‘‘(نور:۱۴) دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ کتب ربکم علیٰ نفسہ الرحمۃ‘‘(انعام:۵۴) مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’لما خلق اللہ الخلق کتب فی کتاب فھو عندہ فوق العرش ان رحمتی سبقت غضبی۔‘‘ اور بخاری کی روایت میں ہے ’’ان رحمتی غلبت غضبی۔ ‘‘بلاشک و شبہ اللہ کا یہ عظیم فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے نفس پر رحم و کرم کو لازم و ضروری و ظلم کو حرام کر لیا ہے جب کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس روئے زمین پر محبت و رحمت کی مختلف شکلیں پیدا کیں ہیں ۔چنانچہ ماں باپ کی شفقت و رحمت اپنی اولاد کے لئے ،میاں بیوی کی الفت و محبت ایک دوسرے کے لئے ۔رسول کی محبت اس کی امت کے لئے ،بھائی کی اخوت و محبت بھائی کے لئے ،رشتہ و ناطے کی محبت اس طرح کی لاکھوں اور کروڑوں محبت و الفت اور رحمتیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان سب سے بڑھ کر اپنی مخلوق سے محبت کر تا ہے اور اس پر رحم کر تا ہے۔ دنیا کہ تمام رحمتیں اللہ کی سورحمتوں میں ایک حصہ ہیں۔ ننانوے رحمت کا حصہ اللہ کے پاس محفوظ ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر کتنا بڑا رحمان و مہر بان ہے۔ چنانچہ اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا:’’جعل اللہ رحمۃ ماءۃ جزاء فامسک عندہ تسعۃ و تسعین وانزل فی الارض جزاء واحد فمن ذالک تتراحم الخلائق حتی ترفع الدابۃ حافرھا عن ولدھا خشےۃ انتصیبہ‘‘( اخرجہ الشیخان)
چنانچہ اللہ کی رحمت بہت وسیع و عریض ہے جس کی کو ئی حدود نہیں۔ انسان کے بس میں نہیں ہے اس کا ادراک کر نا، رحمت رحمان تمام بندوں کو فائدہ دیتی ہے تمام پر کشادہ ہے ،اس کے رحم و کرم سے انسان کی زندگیاں ہیں چنانچہ انسان کے وجود سے ہی رحمت ظاہر ہو ئی ہے جب کہ انسان کو اس کا علم بھی نہیں تھا۔ انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت و فضیلت دینا بھی رحمت ہے۔ اور اس پر زیادتی یہ ہے کہ ان کو راہ راست پر لانے کے لئے آسمانی کتب نازل فرمائیں ’’و نزلنا علیک الکتاباً تبینا لکل شئی وھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین‘‘(نمل:۸۹)دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ونزل من القرآن ماہو شفاء و رحمۃ للمومنین‘‘(الاسراء:۸۲) پس قرآن شفاء و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جن کے قلوب زنگ آلود ہو چکے ہیں اور ان کے لئے بھی جو اہل ایمان ہیں کہ ان کے ایمان میں زیادتی ہو تی ہے۔ انسان قرآن کی تلاوت کر کے وسوسوں،بیماریوں سے نجات حاصل کرتا ہے اس سے طمانیت قلب اور رضائے رب حاصل ہو تی ہے، پراگندگی لالچ ،حسد،جھگڑے دور ہو تے ہیں۔
رحمۃ اللعالمین:
اللہ کی رحمتوں میں سے بڑی رحمت نبی ﷺ کی بعثت بھی ہے کہ اپنے نفس سے زیادہ انسانیت کا خیال رکھتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو رحیمانہ سلوک کر نے کی تاکید فرمائی اور یہ میدان دعوت کے لئے اہم ترین ہے ۔یہ بھی رحمت ہے کہ اس نے رحیم رسول بھیجا، جس کے اسوۂ حسنہ سے متاثر ہو کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے اسلام قبول کیا ،ورنہ خدا نخواستہ ہم سب گمراہ ہو تے اور اس کا نتیجہ برا ہو تا ۔ فرمان عالی شان ہے کہ: ’’وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘(انبیاء:۱۸۷) اور دوسری جگہ فرمان ذیشان ہے :’’فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفضو من حولک ‘‘ ( آل عمران:۱۵۱)
اے معبود بر حق ہم تمام مسلمانوں پر اپنی رحمت کو وسیع و عریض کر دے اور ہماری کو تاہیوں کو در گذر فرما ہماری کم ترین عبادتوں کو بھی قبول فرما اور اپنی رحمت سے جنت میں جگہ عنایت فرما۔آمین۔
مدیر مدرسہ سعودیہ عربیہ بارہ بنکی
رحمت رحمان
اللہ تعالیٰ رحمان و رحیم ہے چنانچہ جب سے انسانیت و جود پذیر ہوئی رحمت رحمان ساتھ رہی، اور جب بھی انسانیت کو تکلیف ہوئی تو فوراً انسانیت نے اپنے مالک حقیقی کو پکارا اور اسی طرف مدد طلب نگاہوں سے دیکھا ۔چنانچہ جب آدم و حوا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے بھی اللہ کو پکارا: ’’ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکون من الخاسرین‘‘(الاعراف:۲۲)اسی طرح آدم ثانی نوح علیہ السلام نے بھی اپنی اولاد کے لئے اللہ سے کہا اور جب غلطی کا احساس ہوا تو ان الفاظ میں معذرت و ندامت ظاہر کی ’’والا تغفرلی و تر حمنی اکن من الخاسرین‘‘ (ہود:۴۷)
اسی طرح دعائے رحمت یونس علیہ السلام نے بھی مانگی’’ونجنا برحمتک من القوم الکافرین‘‘ (یونس:۸۶) اور اسی طرح موسیٰ علیہ السلام ،سلیمان علیہ السلام اصحابِ کہف اور خود ہمارے رسول ﷺ (فداہ ابی و امّی) نے بھی اسی سے دادرسی کی’’وقل رب اغفر وارحم انت خیر الراحمین‘‘(مومنون:۱۸۸)اور اس طرح بھی اللہ سے مدد طلب کی ’’یا حیّ یا قیوم برحمتک استغیث۔‘‘(نسائی) اللہ کے رسول ﷺ نے مختلف اوقات ،مختلف اسالیب میں اللہ سے دعا کی اور مومنین بھی اسی سے استمداد کر تے ہیں اور کرنے کا حکم ہے’’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب‘‘(بقرہ:۲۸۶)
رحمت کس کو کہتے ہیں:
رحمت کہتے ہیں نرمی بردباری کو ۔’’رقۃ القلب و علفۃ الرحمۃ‘‘ سے لفظ رحمان اور رحیم مشتق ہیں یہ دونوں نام اللہ کے مشہور ناموں میں سے سب سے معروف و مشہور ہیں لفظ اللہ کے بعدسب سے زیادہ انہیں دونوں کا استعمال ہو تا ہے اور تمام سورتوں کے شروع میں لفظ رحمان اور رحیم ذکر ہو ئے ہیں، سوائے سورہ توبہ کے جو بغیر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے نازل ہو ئی ہے۔
رحمٰن اور رحیم کا فرق:
رحمٰن؛ رحیم سے زیادہ مخصوص ہے اور اس سے زیادہ مبالغہ والا ہے، اسی لئے اللہ کے علاوہ کسی کے ساتھ لفظ رحمٰن کا استعمال نہیں کیا جاتا ہے’’قل ادعواللہ و ادعوالرحمٰن‘‘ (الاسرء:۱۱۰) اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا:’’انا اللہ وانا الرحمٰن خلقت الرحم و شققت لھا من اسمی فمن وصلھا و صلتہ و من قطعھا قطعتہ‘‘(الترمذی)رحمان کے معنی ہیں ایسی رحمت والا جس کی کوئی نظیر مثال نہ ہو اور یہ بندوں کی قدرت سے بعید تر ہے ۔رحمان کی رحمت عالم میں عام ہے ،مومنوں ،کافروں کے لیے نیکوں کاروں بدکاروں کے لیے اسی کی وحدانیت کا اقرار و انکار کر نے والوں کے لئے یعنی تمام کے لئے اس کی رحمت عام ہے ،جب کہ رحیم کی صفت صرف مومنین کے ساتھ خاص ہے’’وکان با لمومنین رحیما‘‘(الاحزاب:۴۳)
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رحمان وہ ہے کہ جب اس سے سوال کیا جائے تو عطا کرے اور رحیم وہ ہے کہ جب اس سے سوال کیا جائے تو غضب ناک ہو ۔چنانچہ اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے رحمت کو ضروری کر دیا ہے۔ اللہ فرماتا ہے’’ولولا فضل اللہ علیکم و رحمتہ فی الدنیا والأخرۃ لمسکم فی ما فیہ عذاب عظیم‘‘(نور:۱۴) دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ کتب ربکم علیٰ نفسہ الرحمۃ‘‘(انعام:۵۴) مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’لما خلق اللہ الخلق کتب فی کتاب فھو عندہ فوق العرش ان رحمتی سبقت غضبی۔‘‘ اور بخاری کی روایت میں ہے ’’ان رحمتی غلبت غضبی۔ ‘‘بلاشک و شبہ اللہ کا یہ عظیم فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے نفس پر رحم و کرم کو لازم و ضروری و ظلم کو حرام کر لیا ہے جب کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس روئے زمین پر محبت و رحمت کی مختلف شکلیں پیدا کیں ہیں ۔چنانچہ ماں باپ کی شفقت و رحمت اپنی اولاد کے لئے ،میاں بیوی کی الفت و محبت ایک دوسرے کے لئے ۔رسول کی محبت اس کی امت کے لئے ،بھائی کی اخوت و محبت بھائی کے لئے ،رشتہ و ناطے کی محبت اس طرح کی لاکھوں اور کروڑوں محبت و الفت اور رحمتیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان سب سے بڑھ کر اپنی مخلوق سے محبت کر تا ہے اور اس پر رحم کر تا ہے۔ دنیا کہ تمام رحمتیں اللہ کی سورحمتوں میں ایک حصہ ہیں۔ ننانوے رحمت کا حصہ اللہ کے پاس محفوظ ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر کتنا بڑا رحمان و مہر بان ہے۔ چنانچہ اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا:’’جعل اللہ رحمۃ ماءۃ جزاء فامسک عندہ تسعۃ و تسعین وانزل فی الارض جزاء واحد فمن ذالک تتراحم الخلائق حتی ترفع الدابۃ حافرھا عن ولدھا خشےۃ انتصیبہ‘‘( اخرجہ الشیخان)
چنانچہ اللہ کی رحمت بہت وسیع و عریض ہے جس کی کو ئی حدود نہیں۔ انسان کے بس میں نہیں ہے اس کا ادراک کر نا، رحمت رحمان تمام بندوں کو فائدہ دیتی ہے تمام پر کشادہ ہے ،اس کے رحم و کرم سے انسان کی زندگیاں ہیں چنانچہ انسان کے وجود سے ہی رحمت ظاہر ہو ئی ہے جب کہ انسان کو اس کا علم بھی نہیں تھا۔ انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت و فضیلت دینا بھی رحمت ہے۔ اور اس پر زیادتی یہ ہے کہ ان کو راہ راست پر لانے کے لئے آسمانی کتب نازل فرمائیں ’’و نزلنا علیک الکتاباً تبینا لکل شئی وھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین‘‘(نمل:۸۹)دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ونزل من القرآن ماہو شفاء و رحمۃ للمومنین‘‘(الاسراء:۸۲) پس قرآن شفاء و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جن کے قلوب زنگ آلود ہو چکے ہیں اور ان کے لئے بھی جو اہل ایمان ہیں کہ ان کے ایمان میں زیادتی ہو تی ہے۔ انسان قرآن کی تلاوت کر کے وسوسوں،بیماریوں سے نجات حاصل کرتا ہے اس سے طمانیت قلب اور رضائے رب حاصل ہو تی ہے، پراگندگی لالچ ،حسد،جھگڑے دور ہو تے ہیں۔
رحمۃ اللعالمین:
اللہ کی رحمتوں میں سے بڑی رحمت نبی ﷺ کی بعثت بھی ہے کہ اپنے نفس سے زیادہ انسانیت کا خیال رکھتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو رحیمانہ سلوک کر نے کی تاکید فرمائی اور یہ میدان دعوت کے لئے اہم ترین ہے ۔یہ بھی رحمت ہے کہ اس نے رحیم رسول بھیجا، جس کے اسوۂ حسنہ سے متاثر ہو کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے اسلام قبول کیا ،ورنہ خدا نخواستہ ہم سب گمراہ ہو تے اور اس کا نتیجہ برا ہو تا ۔ فرمان عالی شان ہے کہ: ’’وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘(انبیاء:۱۸۷) اور دوسری جگہ فرمان ذیشان ہے :’’فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفضو من حولک ‘‘ ( آل عمران:۱۵۱)
اے معبود بر حق ہم تمام مسلمانوں پر اپنی رحمت کو وسیع و عریض کر دے اور ہماری کو تاہیوں کو در گذر فرما ہماری کم ترین عبادتوں کو بھی قبول فرما اور اپنی رحمت سے جنت میں جگہ عنایت فرما۔آمین۔
No comments:
Post a Comment