کیا ہم خنزیر کھاتے ہیں؟ jan-jun-2010 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Monday, April 5, 2010

کیا ہم خنزیر کھاتے ہیں؟ jan-jun-2010

کیا ہم خنزیر کھاتے ہیں؟

ڈاکٹر ابو عدنان سہیل

تقریباً تین سال قبل روزنامہ ’’ اردو ٹائمز‘‘ ممبئی کے ۶؍ ستمبر ۲۰۰۵ ؁ء کے شمارہ میں ،جو ’’ ایڈوٹیریل‘‘شائع ہواتھا، اس میں ’’نیگ مسلم ڈایجسٹ‘‘ کے مارچ ۲۰۰۵ ؁ء کی اشاعت میں شائع شدہ ڈاکٹر محمد امجد خان کے ایک مضمون کے حوالہ سے، اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ یورپ اور امریکہ کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں جو دنیا کے تمام بڑے بڑے ملکوں میں اپنا کار وبار چلا رہی ہیں اور اپنی مصنوعات کے ذریعہ ہر جگہ مارکیٹ پر چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تمام کمپنیاں جو یہودیوں کی ملکیت ہیں اور ایک منصوبہ بند سازش کے تحت یہ صیہونی کمپنیاں دنیا کے تمام مسلمانوں کو دھڑلیّ سے سور (خنزیر) کی چربی کھلا رہی ہیں۔ بسکٹ اور کیک سمیت بیشتر بیکری ITEMS ٹوتھ پیسٹ، سیونگ کریم، چیونکم، چاکلیٹ(CHOCOLATE ) ٹافی اور کارن فلیک، نیز ڈبہ بند اشیاء غذائی میں ڈبہ بند پھل اور پھلوں کے رس کے علاوہ ملٹی وٹامن کی گولیوں سمیت بیشتر ایلوپتھک دواؤں کے ٹانکوں (TONICS) میں دیگر اجزاء کے علاوہ جو چیز لازماً شامل ہو تی ہے وہ خنزیر کی چربی ہے ۔ڈاکٹر امجد خان کو یہ سنسنی خیز اطلاع ان کے ایک دوست نے دی ہے، جو فرانس کے سرکاری محکمۂ غذاء میں کام کرتے ہیں ،جہاں کھانے میں استعمال ہونے والی تمام اشیاء اور دواؤں کا رجسٹریشن ہو تا ہے۔ غذا کی یہ کوالٹی کنٹرول لیارٹری فرانس کے پیگل (PEGAL) مقام پر واقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف فرانس میں بیالیس ہزار کی تعداد میں (PIG FARMS) ہیں جہاں خنزیر کی پرورش وپرداخت ہوتی ہے۔ چونکہ سور کے جسم میں چربی بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے ساٹھ سال سے پہلے تک فرانسیسی کمپنیاں اس چربی کو جلا کر ضائع کر دیتی تھیں۔ پھر جب یہ کمپنیاں رفتہ رفتہ یہودیوں کے زیر انتظام یا ان کی ملکیت میں آئیں، تو دولت کے لالچی ان یہودیوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد خنزیر کی چربی کا صابن بنانے میں استعمال شروع کردیا۔ اس کے بعد شیونگ کریم میں اس کی آمیزش ہوئی، پھر کچھ عرصے کے بعد خواتین کے افزائش حسن کے سامان جیسے کولڈ کریم ،نیل پالش وغیرہ میں خنزیر کی چربی پگھلا کر ملائی جانے لگی اور ٹوتھ پیسٹ میں بھی اس حرام چیزکا استعمال شروع ہو گیا ۔چونکہ اب بین الاقوامی تجارتی قانون کے تحت تمام اشیاء فروخت کے ڈبہ یا پیکٹ پر یہ لکھنا ضروری ہو تا ہے کہ اس کے اندر کون کون سے اجزاء شامل ہیں،اور اس کی تغذیاتی قوت (NUTRICTIONAL VALUE) کیا ہے؟۔ چنانچہ شروع میں ڈبہ یا ریپر کے اوپر ’’PIG FAT‘‘ لکھا جا تا تھا مگر کچھ لوگوں نے ان کمپنیوں کے ذمہ داروں کی توجہ اس جانب بند دل کرائی کہ تمام دنیا کے مسلمان خنزیر کو نجس العین اور سخت حرام تصور کرتے ہیں اور سو سال پہلے ہندوستان میں 1857 کی جنگ آزادی (جسے سامراج نے غدر کا نام دیا تھا) اسی سور اور گائے کے چربی کے استعمال کے خلاف شروع ہوئی تھی، تو ان مکاّر یہودیوں نے اپنے تجارتی مفاد کے پیش نظر پیکٹ پر PIG FAT کے بجائے ANIMAL FAT لکھنا شروع کر دیا ۔ مگر تیل کی دولت کی عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں بہتات ہوئی اور مغربی ممالک نے بڑے پیمانے پر عرب اور مسلم ممالک میں اپنے کارو بار کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا، تو ان مسلم حکومتوں کے ذمہ داروں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کس حیوان (ANIMAL) کی چربی استعمال کرتے ہیں؟ انہوں نے اپنی فطری مکاّری سے کام لیتے ہوئے جواب دیا کہ ہم ان چیزوں میں گائے اور بھیڑ کی چربی استعمال کرتے ہیں ۔لیکن جب مسلم ممالک نے انہیں آگاہ کیا کہ چونکہ اسلام میں ہر اس حلال جانور کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے، جسے حلال طریقے سے اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا ہو ،لہٰذا ہم ان اشیاء کا استعمال نہیں کر سکتے، تو ان مغربی ممالک اور مکاّر یہودیوں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اشیاء خوردو نوش کے پیکٹ پر خنزیر کی چربی (PIG FAT) اور حیوانی چربی (ANIMAL FAT) کے الفاظ لکھنے کے بجائے ایک مخصوص خفیہ کوڈ’’ ای کوڈ‘‘
(E.CODE) کے نام سے لکھنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر امجد خان کا کہنا ہے کہ ان کے فرانس کی پیگل لیبارٹری میں ملازم اس دولت کی اطلاع کے مطابق E-100سے لے کر E-904تک جتنے کوڈ غذائی اشیاء کے پیکٹ،ریپر یا ڈبے پر درج ہو تے ہیں ان سے مراد سور کی چربی (PIG FAT) ہی ہو تی ہے۔ مثال کے طور پر بریٹانیہ کمپنی کے مختلف بسکٹ جیسے نیوٹری چوائس ،کریم کریکر وغیرہ کے ریپر پر اس میں شامل اجزاء (INGRADIENTS) کی فہرست میں(EMULSIFIER.E-481) بھی درج ہے ساتھ ہی گیہوں کے آٹے،نباتاتی تیل، شکر وغیرہ کی شمولیت کا حوالہ بھی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو آگاہ کیا تھا کہ بازار سے مہر بند اشیاء خوردنی جیسے بسکٹ وغیرہ خریدتے وقت E-No's کے اندراج کو ضرور چیک کر لیا کریں ،کیونکہ E-100 سے لیکر E-904 تک کے تمام کوڈ سے مراد خالص سور کی چربی (PIG FAT )ہی ہو تی ہے۔ انہوں نے اس بات سے بھی آگاہ کیا تھا کہ آج کل جو چائنیز کھانے شوق سے کھا ئے جا رہے ہیں ان میں TAST MAKERکے طور پر جو خاص جزء ( اجینو موتو) شامل کیا جاتا ہے، وہ بھی سور کی چربی سے ہی بنا یا جا تا ہے۔
اس کے بعد ۱۸؍ستمبر ۲۰۰۵ ؁ء کے ’’ممبئی ٹائمز‘‘ شمارے میں لندن کی ’’ڈینش میڈس ایجنسی‘‘ کے محکمہ جاتی سربراہ ’’فن کلیمنس‘‘ کا یہ بیان شائع ہوا ،جس میں انہوں نے مسلمانوں کو یہ انتباہ دیا تھا کہ آج کل دواؤں کے ہر کیپسول اور گولی کی ساخت میں جلے ٹین (GELATINE) شامل ہوتی ہے۔ یورپ،امریکہ،جاپان،کوریا وغیرہ غیر مسلم ممالک میں ’’ حلال‘‘ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہاں جلے ٹین(GELATINE) بنا نے کے لئے گدھے،کتے اور سور (خنزیر) و غیرہ ناپاک اور حرام جانوروں کی خال استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ سور (خنزیر) کے علاوہ دیگر جانوروں میں ایک مخصوص بیماری ’’میڈ کاؤ‘‘ کا خطرہ گذشتہ کئی سالوں سے بڑھ گیا ہے، اور اسی مرض کے جراثیم کے موجود گی کے اندیشہ کے پیش نظر، اب یورپ کی تمام دوا ساز کمپنیاں صرف سور کی کھال سے ہی ’’جلے ٹین‘‘ تیار کر رہی ہیں، اور تیارہ شدہ جلے ٹین شکر کی طرح سفید دانے دار
سفوف(GRANULES) کی شکل میں تمام دنیا کے دوا ساز اداروں کو فروخت کی جاتی ہے۔
’’جلے ٹین‘‘ نہ صرف ادویات بلکہ بازار میں دستیاب22290 فیصد غذائی اشیاء کا جزء لازم ہے اور ہم یہ جلے ٹین کسی نہ کسی شکل میں روزانہ کھا رہے ہیں۔
جلے ٹین (GELATINE) اگر چہ حلال جانوروں کو با قاعدہ اسلامی طریقے سے ذبح کرنے کے بعد ان کی کھال سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، مگر بد قسمتی سے مسلم ملکوں میں ’’ ملیشیا‘‘ کے علاوہ کسی دوسرے اسلامی ملک یہاں تک کہ سعودی عرب نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی ہے، صرف ’’ملیشیا‘‘ اپنی ادویات کی صنعت اور غذائی ضروریات کے لئے حلال جلے ٹین تیار کرتا ہے۔ اس کا پڑوسی مسلم ملک ’’ انڈونشیا‘‘ اور ’’ ایران‘‘ اپنی ضروریات کے لئے ’’ ملیشیا‘‘ سے جلے ٹین درآمد کرتے ہیں۔ بہرحال ’’ ملیشیا‘‘ کے علاوہ ہر جگہ یورپ سے آمد شدہ خنزیر کی ناپاک اور حرام ’’ جلے ٹین‘‘ دوا استعمال ہوتی ہے۔
ہندوستان میں 30 کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی بے شمار تنظیمیں اور ہزاروں نام و نہاد ’’لیڈر‘‘ اور ’’ قائدین ملت‘‘ موجود ہیں ،لیکن اس مسئلہ پر کسی نے آج تک توجہ نہیں دی جب کے وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں رہتے ہیں ۔ جیسے برظانیہ،امریکہ، فلپائن، زمبابوے، ساؤتھ افریقہ، ہالنیڈ اور برازیل وغیرہ وہاں کے مسلمان ایسے ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہیں جو غذائی اشیاء کے مشمولات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، اور ممکن تحقیق کے بعد مسلمانوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ فلاں چیز کو استعمال کرنا چاہئے یا نہیں اور فلاں چیز حلال اور مارکیٹ کی فلاں چیز حرام ہے۔ اس سے وہاں کے مسلمان بھی کافی حد تک بیدار ہو چکے ہیں اور وہ غذائی اشیاء کے استعمال کے معاملہ میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
چنانچ حال ہی میں انگلینڈ میں آباد مسلمانوں کی ایک ایسی ہی تنظیم نے ’’ انٹرنیٹ‘‘ پر مسلمانوں کی آگاہی کے لئے اپنی ایک SITE قائم کی ہے، جس کا پتہ ’’www.guidedways.com‘‘ ہے۔ اس تنظیم کی فراہم کردہ اطلاعات کے مستند اور
قابل اعتبار ہو نے کا سرٹیفکٹ (AUTHENTICITY CERTIFICATE) دار السلام (DARUS SALAM) اور پاکستان کی حکومتوں نے عطا کیا ہے۔
مغربی ممالک کی صیہونیت زدہ کمپنیوں کی اشیاء خور دو نوش میں خنزیر کی چربی کی ملاوٹ کی خبر اور E-CODEکے ذریعہ اس کو خفیہ رکھنے کی ان کی پالیسی کے انکشاف سے اسلام پسند حلقوں میں تشویش وبے چینی کی لہر دوڑ جانا ایک فطری بات تھی۔ چنانچہ برطانیہ کے مسلمانوں کی قائم کردہ اس تنظیم ’’GUIDED WAY‘‘ نے اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر اس سلسلے میں چوبیش رفت اور چھان بین کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تحقیق کے مطابق متنازعہ E-CODESمیں سے پانچ E-CODESبلاشبہ قطعی طور پر حرام اشیاء سے متعلق ہیں اور نو E-CODES ’’مشکوک کوڈ‘‘ ہیں۔ یعنی اس کے حرام یا حلال ہو نے میں شبہ ہے ۔ لہٰذا حدیث نبویﷺ’’ دع ما یریبک ‘‘ یعنی جو چیز شک و شبہ والی ہے اس کو اس وقت تک ترک کر دینا لازم ہے، جب تک کہ تحقیق و تفتیش کے ذریعہ اس کے حرام یا حلال ہونے کا قطعی فیصلہ نہ ہو جائے۔ کے مطابق مسلمانوں کو ان چیزوں سے بھی حتی الامکان پرہیز کر نا چاہئے۔
فی الواقع حرام اشیاء کے پانچ E-CODESیہ ہیں: E-120،E-441، E-542،E-920،اور E-921۔
مشکوک اور مشتبہ اشیاء کے E-CODESکی فہرست ہیں: E-111،E-121،E-125، E-126،E-130،E-152،E-316،E-318،E-445۔ شامل ہیں۔
ان کی تشریح اور تفصیل اس طرح ہے:
۱۔ قطعی حرام اور نجس اشیاء کے E-CODESکی تفصیلات:
E-120:۔ اس کا پورا نام یا فارمولہ: COCHINAL,CARMINE ہے۔ یہ کیمیکل مختلف اشیاء خور و نوش کو رنگ دینے کے کام آتا ہے۔ اس کو کیڑوں مکوڑوں کو کچل کر (CRUSHED INSECTS) ان کے عرق سے حاصل کیا جا تا ہے۔ بیشتر انگریزی یعنی
ایلوپتھک دواؤں کے سیرپ جن کا رنگ سرخ ہو تا ہے وہ اسی کیڑے مکوڑوں کے کچلے ہوئے عرق کو شامل کر کے سرخ رنگ کے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے فارمولہ کے ساتھ دیگر دوائی اجزاء کی تفصیلات کے بعد آخر میں اکثر CARMINEREDکے الفاظ لکھے ملتے ہیں، اور کہیں کہیں COCHINALکے الفاظ سے بھی رنگ کی نوعیت کی اطلاع اور اظہار کیا جاتا ہے۔ دواؤں کے علاوہ مختلف پھلوں کے رس رنگین بنا کر بیچنے کے لئے، اسی طرح ICE CANDIESاور SHAMPO وغیرہ کو بنا نے کے لئے بھی یہی رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔ جلے ٹین کے کیپسول بنا تے وقت انہیں رنگین کر نے کے لئے بھی یہی E-120یا CARMINE رنگ استعمال ہوتا ہے۔ کنفیکشنری میں شکر کی خوردنی گولیوں کو رنگین اور خوشنما بنا نے کے لئے جو FOOD COLOURS مستعمل ہیں ان میں بھی اس کا استعمال ہو تا ہے۔ چاول سے بنے ہوئے خوش رنگ مرمرے جو گھی یا تیل میں تل کر پھول جاتے ہیں اور عموماً رمضان وغیرہ میں افطار کے ساتھ کھائے جاتے ہیں وہ بھی اس رنگ کی آمیزش سے تیار کئے جا تے ہیں۔
E-441: یہ کوڈ جلے ٹین (GELATINE) کے لئے مستعمل ہے جو مختلف جانوروں خصوصاً خنزیر کی کھال سے بنا یا جاتا ہے اور جس کی تفصیلات گذشتہ سطور میں بیان کی جا چکی ہیں۔
E-542: یہ BONE PHOSPHATE کا کوڈ ہے۔ یہ جانوروں کی ہڈیوں سے بنا یا جا تا ہے۔ اس کا زیادہ تر استعمال بیکری میں ANTICAKING AGENTکی حیثیت سے آٹے اور دیگر اشیاء کو گوند کر لہدی یا آمیزہ بنا نے (EMULSIFICATION) کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس کا اہم استعمال حسن افزاء اشیاء (COSMATICS) خصوصاً ٹوتھ پیسٹ(TOOTH PASTE) میں ہو تا ہے۔علاوہ ازیں تغذیہ نجش دواؤں اور غذاؤں (FOOD SUPPLIMENTS) میں فاسقدس کی کمی جنم الشانی میں پورا کر نے کے لئے بھی اس کو ملائے ہیں۔
E-920: اس کے فارمولے کا نام L-CYSTEINE HYDROہے۔ یہ
پروٹین یعنی لحمی اجزاء سے حاصل کیا جا تا ہے۔جس میں مختلف جانوروں کے گوشت اور ان کے بال شامل ہیں۔زیادہ تر ان کا حصول خنزیر کے جسم کے حصوں سے کیا جا تا ہے ۔یہ ڈبل روٹی (BREAD) کا خمیر اٹھا نے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ خمیر کے بعد روٹی کو پھلانے (TO ENHANCE) اور پھولی ہوئی کو علیٰ حالہ قائم رکھنے میں یہ کیمیکل بے حد معاون ثابت ہو تا ہے۔
E-921: اس کا کیمیاوی نام E-920 سے ملتا جلتا ہے یعنی اس کو L-CYSTINEکے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ خواص بھی اس کے E-920ہی کی طرح ہے۔ البتہ یہ صحت کے لحاظ سے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ جگر کے خلیات کو تباہ کر دیتا ہے۔ صفراء کی نالی یعنی (BILE DUCT) کو نقصان پہنچا تا ہے اور گردوں کو نا کارہ (DAMAGE) کر کے اس کی طبعی افعال میں خلل پیدا
کر نے کا باعث ہو تا ہے۔
۱۔ مشکوک E-CODESجن کے حرام یا حلال ہو نے میں شبہ ہے۔
E-111: اس کا پورا نام ALPHA NAPHTHOLہے۔
E-121: یہ ایک کیمیکل رنگ ہے جو عموماً کائی(LICHEN) سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ سرخی مائل بھورا رنگ ہو تا ہے۔ یہ رنگ جسم انسانی کے اندرونی اعضاء کو نقصان پہچاتا ہے اور اس کے استعمال سے کینسر(CANCER) پیدا ہونے کا امکان ہو تا ہے۔
E-125: کیمیاوی رنگ ہے جو RED AZODYE یا SCARLET رنگ کہلا تا ہے E-126: یہ تیز سرخ رنگ (RED DYE) ہوتا ہے جو کیمیاوی مادوں سے بنایا جاتا ہے۔
E-130: یہ نیلے رنگ (BLUE DYE) کا کیمیاوی مادے کا کوڈ (CODE) ہے۔
E-152: یہ سرخی مائل سیاہ(BROWN BLACK) رنگ کا کوڈ (CODE) ہے۔
E-316: اس کا کیمیاوی نام ( ERYTHORBIC ACID) ہے۔
E-318: اس کا نام (SODIUM ERYTHORBIC ACID) ہے۔
: یہ ایک پیٹر کی ڈال ( WOOD ROSIN) ہے جس کا کیمیاوی نام (GLYCEROL ESTERS) ہے۔ یہ STABLIZERکے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے الرجک ری ایکشن(ALLERGIC REACTION) کا خطرہ ہو تا ہے۔
بہر نوع خنزیر کی چربی اور اس کے اجزاء جسم کی انسانی غذاؤں میں ملاوٹ کی یہ تشویشناک خبر تمام مسلمانوں تک پہونچا دینا اگرچہ ہم سب کی ذمہ داری اور اہم دینی فریضہ ہے۔تاہم موجودہ دور میں مسلمانوں کے دین کے معاملات میں بے حسی،دولت دنیا کمانے کی ہوس اور ذاتی مفاد کا لالچ اس قدر شدید ہے کہ وہ یہ سب پڑھنے اور سننے کے بعد بھی ان خنزیر آلود حرام اشیاء، بسکٹ،ٹافی ،
چیونگ گم،حام،حبیلی اور آئس کریم وغیرہ کی خرید و فروخت سے دست بردار ہو نے پر آمادہ ہو پائیں گے۔بظاہرایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ کیونکہ جو مسلمان خنزیر کی چربی سے بنے بسکٹ،ٹافی وغیرہ کی ایجنسی لے کر کروت دراز سے ان حرام اشیاء کا کاروبار کر رہے ہیں،وہ محض دین کی خاطر اپنے اتنے بڑے اور پھیلے ہوئے نفع نجش کاروبار کو بند کردیں، موجودہ دور کی مفاد پرست ذھنیت کے تناظر میں اس بات کا امکان نہیں کے برابرہے۔حالانکہ وہی امریکہ جس کے افغانستان اور عراق وغیرہ پر مبینہ ظلم و ستم کے واقعات پر ہم دن و رات اس کی مذمت کرتے اور اور اس کو برا بھلا کھتے نہیں تھکتے،وہاں کے لوگوں کی اخلاقی جرأت اور احساس ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ اخباری اطلاع کے مطابق ۱۹۹۹ ؁ء میں امریکہ کے کسی ڈیری فارم میں ایک گائے کو ’’منہ کھری‘‘ کی بیماری ہو گئی تھی۔اطلاع ملتے ہی امریکہ میں دودھ بیچنے والی تمام کمپنیوں نے اپنا خرید کردہ لاکھوں لیٹر تمام دودھ ضائع کر دیا اور عوام کی صحت کے تحفظ کا خیال کرتے ہوئے اپنے کروڑوں روپیوں کے نقصان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ تو کیا ہم ھندوستان کے تمام مسلمان اپنے دین کے تحفظ کے لئے خنزیر کی چربی سے بنی اشیاء کی خرید و فروخت سے پرہیز نہیں کر سکتے؟؟۔
اللہ تعالیٰ حرام اور ناپاک چیزوں سے ہماری حفاظت فرمائے ۔آمین

No comments:

Post a Comment