Oct-dec 2009زخموں کی دیت کے مسائل: اعجاز شفیق ریاضی - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Wednesday, March 17, 2010

Oct-dec 2009زخموں کی دیت کے مسائل: اعجاز شفیق ریاضی

’’تمہارے مال، تمہاری جانیں ،تمہاری عزّتیں ایک دوسرے کے لئے حرام ہیں‘‘ یہ اعلان نبوی حرم مکی سے مسلمانوں کے لئے دستور بن کر ابھرا اور اس نے ان کے درمیان ایک دوسرے کی جان و مال ،عزت و ناموس کے تقدس و احترام،حفاظت و صیانت کے شعور و احساس کو بیدار کیا ۔ پھر اسلام نے ایسے قانون بنائے، جن سے اس دستور کی حقانیت کا نقش لوگوں کے دل و دماغ پر ثبت ہو گیا، اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ اگر انہوں نے کسی مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہونچایا، تو یہ قوانین اس کی زندگی میں وہ نقص و کمی پیدا کردیں گی؛ جو اس نے دوسرے مسلمان کی زندگی میں وپا کر نے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مسلمان کی جان ومال عزت و شخصیت کے بقا کے لئے اسلام نے جو قوانین پیش کئے ان میں جسم انسانی کے کار آمد حصوں کی ٹوٹ پھوٹ اور دیگر زخموں کے قصاص و دیت کے احکام و اصول بھی شامل ہیں۔ زیر مطالعہ مضمون میں ہم اسی موضوع سے متعلق قرآن و حدیث کی رہنمائی پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ ہمارے لئے حق واضح کردے اور ہمیں اس کے اتباع کی توفیق بخشے۔ آمین۔
کسی مسلمان نے دوسرے مسلمان کے اعضاء کو ضائع کردیا ،یا انہیں نقصان پہونچایا مثلاََ آنکھ نکال دی ، پیر کاٹ دیا یا ہاتھ توڑدیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا، الا یہ کہ متاثر شخص اور اس کے ورثاء درگزر کی راہ اختیار کریں ۔ اسی طرح زخموں میں بھی اگر ممکن ہو تو قصاص لیا جائے گا ، ورنہ دیت ادا کرنی واجب ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’و کتبنا علیہم فیہا أن النفس با لنفس والعین با لعین والانف با لانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص‘‘ اور ہم نے یہودیوں کے ذمّے تورات میں یہ فیصلہ طے کر دیا تھاکہ جان کے عوض جان، آنکھ کے عوض آنکھ ،ناک کے عوض ناک ،دانت کے عوض دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ و قصاص ہے۔(سورۂ المائدہ: ۴۵)
اس آیت میں خطاب گر چہ یہود کو ہے، مگر اللہ کے رسول ﷺنے اس حکم کو امت مسلمہ کے لئے بھی
برقرار و ثابت رکھا۔ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکورہ امر کی صراحت کرتی ہے ، فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری کے دانت توڑ دئیے، تو آپ نے متاثر شخص کے سوال و اصرار پر قصاص کا فیصلہ صادر فرمایا (بخاری کتاب تفسیر القرآن ،باب یا ایھا الذین آمنو ا کتب علیکم۔۔۔)
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت میں مذکور قصاص کا حکم امت مسلمہ کے لئے بھی باقی سمجھا جائے گا اور اس کے افراد سے بھی اعضاء اور زخموں میں اگر ممکن ہو تو قصاص لیا جائے گا ،ورنہ دیت نافذ ہوگی ۔ تاہم یاد رہے کہ قصاص لینے کے چند شرائط ہیں؛جن کے بغیر قصاص ممکن نہیں۔ ہم ان شرائط کو شیخ ابو بکر جابر الجزائری کی کتاب ’’اسلامی طرز زندگی‘‘ سے کچھ اضافہ کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔
اعضاء میں قصاص لینے کے شرائط : اطراف و اعضاء میں قصاص لینے کے درج ذیل شرطیں ہیں:
۱۔ قصاص لینے میں حد سے تجاوز کا خطرہ نہ ہو، اگر یہ خطرہ موجود ہے تو قصاص نہیں ہے۔
۲۔ قصاص لینا ممکن ہو، اگر ممکن نہ ہو تو دیت لی جائے گی۔
۳۔ جس عضو کو کاٹنا چاہتے ہیں ،وہ نام اور محل (جگہ) میں ضائع شدہ عضو (حصہ) کے مماثل ہونا چاہئے لہٰذا بائیں کے بدلے دایاں نہیں کاٹا جائے گا اور نہ ہی پاؤں کے بدلے میں ہاتھ اور نہ زائد انگلی کے بدلے میں اصلی انگلی۔
۴۔ دونوں عضو صحت و کمال میں برابر ہونا چاہئے، لہٰذا تندرست ہاتھ کے بدلے شل ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ،اور تندرست آنکھ کے بدلے میں کانی آنکھ نہ لی جائے گی۔
۵۔ اگر زخم سر یا چہرہ پر لگا ہے، جسے شجہ کہتے ہیں تو اس میں قصاص نہیں ہے، اسی طرح ٹوٹی ہڈی اور معدے تک پہونچنے والے زخم میں بھی قصاص نہیں ہے، مگر ان میں دیت واجب ہے۔(اسلامی طرز زندگی:)
شیخ نے انہیں پانچ شرطوں کا ذکر کیا ہے ۔ مگر حدیث کے مطالعہ سے زخم کے سلسلے میں ایک اور شرط کا پتہ چلتا ہے، جسے ہم مع دلیل ہدےۂ قارئین کر رہے ہیں۔
۶۔ زخم کے قصاص کے لئے زخم کا صحیح ہونا ضروری ہے، زخم صحیح ہوئے بغیر قصاص لینا درست نہیں ہے ۔جیسا کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں سینگ چبھو دیا تو وہ شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ: مجھے اس سے قصاص دلوا دیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا :زخم ٹھیک ہو جانے کے بعد آنا۔ وہ شخص پھر آیا اور قصاص کا سوال کیا۔ تب آپﷺ نے قصاص دلوادیا۔ اس کے بعد وہ پھر آکر کہنے
لگا کہ میں لنگڑا ہو گیا ہوں ۔ آپﷺ نے فرمایا :’’ میں نے تجھے منع کیا تھا؛ لیکن تونے میری بات نہ مانی؛ اللہ نے تجھے دور کر دیا پھر :’’ نہٰی رسول اللہﷺا ن یقتص عن جرح حتی یبرأ صاحبہ‘‘ رسول ﷺ نے زخم ٹھیک ہونے سے پہلے قصاص لینے سے منع کردیا۔
(احمد،دارقطنی،بیہقی ۸؍۶۷)
زخم یا اعضاء کے قصاص کے لئے مذکورہ شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے، اگر یہ شرطیں نہ پائی جائیں، تو قصاص نہیں لیا جائے گا، البتہ دیت واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کے قتل یا اس کے کسی عضو کو بے کار کرنے میں ایک جماعت شریک ہو تو قصاص اس پوری جماعت سے لیا جائے گا ، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک آدمی کے پانچ یا سات قاتلوں کو قصاصاً قتل کر نے کا حکم دیا، اور آپ نے فرمایا ’’ لواشترک فیھا أہل صنعاء لقتلتہم بہ‘‘ اگر تمام اہل صنعاء اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں ان سب کو قتل کردیتا (بخاری ،کتاب الدیات ،باب اذا صاب قوم من رجل ھل۔۔)
قبیلہ عرینہ کے لوگوں نے بھی ایک چرواہے کو قتل کیا تھا ؛لیکن رسول ﷺ نے اس کے سارے قاتلوں کو قتل کرادیا(بخاری ، کتاب الطب ،باب الدراء بالبان الابل )
بیعت رضوان بھی ایک ہی شخص کے قتل کا بدلہ جماعت سے لینے کے سلسلے میں ہوئی تھی۔ امام شوکانی سید سابق وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے ، اگر زخم بڑھ جائے تو قصاص اضافہ کے مطابق ہوگا ۔ مثلاً ایک شخص نے کسی کی انگلی کاٹ دی ،زخم درست نہ ہوا اوراس کی وجہ سے ہاتھ شل ہو گیا، تو قصاص یا دیت اس کے مطابق ہوگی۔
دیت کے متعلق بعض قواعد:
(۱) اگر قصوروار اور متاثر شخص اسلام و حریت اور جنس میں برابر ہیں ،یعنی دونوں مسلمان اور دونوں آزاد ہیں، تو مختلف زخموں کی مختلف دیات جو احادیث میں منقول ہیں، مکمل نافذ ہوں گی ۔
(۲) اگر قصور وار مسلمان اور متاثر شخص کافریا اہل کتاب میں سے ہو،تو اس کی دیت مسلمان کی دیت کے نصف ہے، مثلاً ایک زخم میں مسلمان کو دس اونٹ دئے جانے تھے توکافر یا اہل اکتاب کو اس کے آدھے یعنی پانچ اونٹ دینے ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا ’’دےۃ عقل الکافرنصف دےۃ عقل المؤمن‘‘ کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے آدھی ہے۔
(ترمذی،کتاب الدیات باب ماجاء فی دےۃ الکفار ،علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا ’’ان عقل اہل الکتاب نصف عقل المسلمین
وھم الیہود والنصاری‘‘ اہل کتاب جو کہ یہود و نصاری ہیں ان کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہے۔(ابن ماجۃ ،کتاب الدیات،باب دےۃالکافر’’علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘‘)
(۳)عورت کی دیت تہائی تک مرد کے برابر ہے، اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہوجاتی ہے۔ مثلاً کل دیت سو اونٹ ہے اب اگر کوئی ایسا زخم ہے، جس میں مرد کو دیت میں تیس اونٹ ملتے ہیں ، تو عورت کو بھی اس میں تیس اونٹ ملیں گے ،کیوں کہ دیت ابھی کل دیت سو کے تہائی ہی ہے ۔اور اگر کوئی ایسا زخم ہے؛ جس میں مرد کو چالیس یا زائد اونٹ ملتے ہیں، تو عورت کو اسی زخم میں اس کے آدھے بیس اونٹ ملیں گے، کیوں کہ یہاں مرد کی دیت کل دیت ۱۰۰ ؍اونٹ کے تہائی سے زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں حدیث میں یہی فیصلہ وارد ہے، چنانچہ ’’ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ ‘‘کے طریق سے نبی اکرمﷺنے فرمایا ’’عقل المراۃ مثل عقل الرجل حتٰی یبلغ الثلث من دیتہ‘‘ عورت کی دیت مرد کی دیت کے مانند ہے یہاں تک کہ وہ تہائی تک پہونچ جائے، یعنی تہائی تک مرد کے برابر ہے، اس کے بعد نہیں۔(دار قطنی ،نسائی ،شیخ حازم علی قاضی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
دیات کا تعین : بعض زخموں میں مکمل دیت ہے ۔ مکمل دیت کا مطلب ہے ، اونٹ والوں پر سو اونٹ اور گائے والوں پر دو سو گائے اور بکری والوں پر ایک ہزار بکریاں ۔ جابر کی حدیث میں ہے’’ فرض رسول صلی اللہ علیہ وسلم علی اہل الابل ماءۃ من الابل وعلی اہل البقر مائتی بقرۃ و علی اہل الشاۃ الفی شاۃِِ‘‘ آخر الذکردو دیتوں کا ذکر عمروبن شعیب کی روایت میں بھی ہے۔(ابن ماجۃ،کتاب الدیات ،باب دےۃ الخطا’’علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے‘‘)
اور اونٹوں میں سو اونٹ دیت کا تذکرہ عمروبن حزم کی حدیث میں بھی موجود ہے اسی طرح رسول اکرم ﷺنے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق بارہ ہزار درہم اور عمرو بن حزم کی روایت کے مطابق ایک ہزار دینار بھی بطور دیت متعین کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ نے مختلف زخموں کی مختلف دیات بیان کی ہیں ؛جن کو ان زخموں کے تحت ذکر کیا جائے گا ۔
زخم اور ان کی دیت: ایک انگلی کٹنے میں خواہ ہاتھ کی ہو یا پیر کی دس اونٹ دیت ہے ؛کیوں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’دےۃ اصابع الیدین والرجلین سواء عشر من الابل لکل اصبع‘‘(۷) ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کی دیت برابر ہے اور ہر انگلی کے عوض دس اونٹ۔دانت خواہ جو بھی ہوں ایک دانت کی دیت پانچ اونٹ ہے، آپ ﷺنے فرمایا ’’وفی السن خمس من الابل‘‘ ( ابو داؤد ،کتاب الدیات ،باب دےۃ الاعضاء)
اور ابن عباس کی روایت میں آپ ﷺنے فرمایا’’ الاسنان سواء الثنےۃ والضرس سواء‘‘دانت درمیانی ہوں یاداڑہیں ،برابر ہیں(ابو داؤد کتاب الدیات ،باب اسنان الابل)
کوئی ایسا زخم ہو ،جو عقل زائل کردے ،دونوں آنکھیں اس طرح ضائع ہوں کے دیکھنے کی طاقت ختم ہو جائے ، ناک پوری کٹے اور سونگھنے کی طاقت نہ ہو ، دونوں کان کٹنے سے سننے کی قوت مفقود ہو جائے ،زبان کٹے اور بولنے کی قوت سلب ہو جائے ، عضو مخصوص کٹے اور جماع کی طاقت نہ رہے ،پیٹھ کی ہڈی ٹوٹنے سے متاثر شخص اٹھنے بیٹھنے سے معذور ہو جائے ، ان تمام حالتوں میں مکمل دیت واجب ہے۔ کیوں کہ رسولﷺنے فرمایا ’’اِن فی الأنف اذا اوعب جدعہ الدےۃ ،وفی اللسان الدےۃ ،وفی الشفتین الدےۃ، و فی البیضتین الدےۃ، وفی الذکر الدےۃ، وفی الصلب الدےۃ، وفی العینین الدےۃ‘‘ ۔
سرکا زخم ‘‘ کہتے ہیں سلف کے یہاں اس کی دس قسمیں ہیں ،جن میں سے بعض کی دیت رسول اللہ ﷺنے خود بیان کردی ہے اور بعض کی نہیں۔تا ہم علماء نے غیر بیان شدہ زخموں کو ’’موضحہ‘‘ ، نامی زخم پر قیاس کیا ہے ہم ان زخموں کو باختصار درج کر رہے ہیں ۔
۱۔ الموضحۃ: ایسا زخم جو ہڈی واضح کردے، اس کی دیت پانچ اونٹ ہے، کیوں کے رسول اللہ ﷺنے فرمایا’’ فی المواضح خمس من الابل‘‘(ابن ماجہ،کتاب الدیات باب الموضحۃ)
۲۔ الھاشمۃ: وہ زخم جس کی وجہ سے ہڈی ٹوٹ جائے ، اس میں دس اونٹ دیت ہے۔
’’أن النبی أوجب فی الھاشمۃ عشراً من الابل‘‘ (دار قطنی،بیہقی)
۳۔ المنقلۃ: وہ زخم جس کے نتیجہ میں ہڈی اپنی جگہ سے ہٹ جائے اس کی دیت پندرہ اونٹ ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا ’’وفی المنقلۃ خمس عشرۃ من الابل۔‘‘
۴۔ المامومۃ: وہ زخم جو دماغ کی جھلی تک پہونچ جائے ،اس میں کل دیت کا تہائی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا’’وفی المامومۃ ثلث الدےۃ۔‘‘
۵۔ الدامغۃ: جس سے دماغ کی جھلی پھٹ جائے اس کا حکم بھی مامومہ کی طرح ہے۔
یہ وہ زخم ہیں جن کی دیات رسول اللہﷺ نے بیان کی ہیں ان کے علاوہ وہ زخم جو خراش ڈال دیاور خون نہ جاری کرے ، وہ زخم جو چمڑا کاٹ دے اور خون بھی بہائے ، وہ زخم جو گوشت کاٹ دے، مگر گہرا نہ ہو ، وہ زخم جس سے گوشت پورا کٹ جائے البتہ جھلی محفوظ ہو ،ان کو موضحہ پر قیاس کیا جائے گا اور اسی کے مطابق ان کی دیت لی جائے گی۔
رہے وہ زخم جو سر اور چہرہ کے علاوہ کسی اور حصوں میں ہوں انہیں ’’جراح‘‘ کہتے ہیں ، ان میں بازو ، پنڈلی کی ہڈی اور باتھ کی کلائی وغیرہ ٹوٹ کر درست ہو جائیں، تو ان میں دو اونٹ دیت ہے ، صحابہ رضوان اللہ علیہم کا اس سلسلے میں یہی فیصلہ ہے ۔ رہا وہ زخم جو پیٹ کے اندرونی حصہ تک پہونچ جائے، اس میں کل دیت کا تہائی حصہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے ’’ وفی الجائفۃ ثلث الدےۃ‘‘ بقیہ زخموں میں عدالت فیصلہ کرے گی اور انہیں موضحہ پر قیاس کیا جائے گا ۔
زخموں کی دیت کے سلسلے میں یہ ہیں وہ مسائل جنہیں ہم نے اپنے علم کی حد تک حوالۂ قارئین کیا ہے ، جب کہ صحیح بات کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔
******

No comments:

Post a Comment