میدان دعوت میں کلمۂ خلوص کی اثر انگیزی- oct-dec 2009 - دو ماهي ترجمان السنة

Latest

تعداد زائرين

BANNER 728X90

Wednesday, March 17, 2010

میدان دعوت میں کلمۂ خلوص کی اثر انگیزی- oct-dec 2009

عرفان احمد عبد الواحد صفوی
استاذ جامعہ سراج العلوم کنڈاؤ بونڈ یہار

میدان دعوت میں کلمۂ خلوص کی اثر انگیزی

قلب و ضمیر اللہ رب العالمین کا وہ حیرت انگیز اور تعجب خیز عطیہ ہے ،جسے اللہ تعالیٰ نے انسانی اجسام کے اندر نہایت حفاظت کے ساتھ رکھا ہے۔ اس دل پر غور کرتے ہوئے قدرت الٰہی اور اس کی کرشمہ سازی پر تعجب ہو تا ہے کہ اللہ رب العالمین اسے بدلنے اور پلٹنے پرکس قدر قادر ہے کہ جیسا چاہتا ہے اسے الٹ پلٹ دیتا ہے ۔نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے’’قلوب العباد بین اصبعین من أصابع الرحمٰن یقلبہا کیف یشاء‘‘بندوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، انہیں جیسا چاہتا ہے پلٹتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے ’’اللھم یا مقلب القلوب والابصار ثبت قلبی علی دینک۔‘‘اے دل و نگاہ کو پھیر نے و بدلنے والے میرے دل کو دین پر ثابت رکھ ‘‘۔کتنا خوش نصیب ہے وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ دم واپسی تک دین پر قائم رکھے، اور اسلام پر اس کی موت ہو ۔کتنا خوش بخت ہے وہ آدمی ،جس کو رب کریم کی خصوصی عنایت ملی اور اس نے اپنی راہ حیات تبدیل کرلی، اور طریقۂ زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا ۔اللہ سے دور تھا ،قربت ملی، گمراہیوں میں بھٹک رہا تھا، اس کی ایک نظر کرم نے صراط مستقیم،طریقۂ ہدایت ،سبیل نجات اورراہ سعادت پہ لا کھڑا کیا۔اپنی مخلوقات پر اللہ رب العالمین کا فضل و احسان ہے کہ وہ ایک کلمۂ اخلاص کی بنیاد پر بعض بندوں پر خصوصی احسان کرتا ہے ، ایسا کلمۂ اخلاص جو کسی مخلوق کے منہ سے صادر ہو تا ہے ، خواہ وہ قریبی ہو یا دور کا شناسا ہو یا پھر تمام لوگوں کے لئے اجنبی۔یہ کلمۂ اخلاص نقطۂ انقلاب ثابت ہوتاہے اور دونوں زندگیوں کے درمیان حد فاصل بن جاتا ہے وہ زندگی جو لھو و لعب سے عبارت تھی اور دوسری وہ زندگی جو معرفت، اطاعت، جدو جہد اور صبرو استقامت کا نمونہ ہوتی ہے۔
جب ہم تاریخ کے اپنے عظیم قائدین و مصلحین کی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر یہ راز منکشف ہو تا ہے کہ لہو ولعب کی دنیا چھوڑ کر اصلاح و جد و جہد کی دنیا میں قدم رکھنے کے پس پردہ کسی ایک کلمۂ اخلاص و مخلصانہ جملے کی کار فرمائی رہی ہے ،یا پھر کسی خواب نے ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے ۔درجہ ذیل سطور میں بعض مصلحین و أئمہ ملت کی حیات سعیدہ پرنظر ڈالنے کیکو شش کی جا رہی ہے۔
ابو عبد اللہ زاذان کندی کوفی؛ ایک عظیم تابعی اور ثقہ عالم ہیں ، یہ پہلے گاتے اور دف بجاتے تھے۔اللہ رب العالمین نے انہیں خوش الحان بنایا تھا، ایک مغنی اور گلو کارکی لھو و لعب سے بھر پور زندگی کا آپ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں،مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر نگاہ کرم فرمائی ایک مرتبہ انہیں گاتے ہوئے عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے سن لیا ،قرآن و سنت کے اس متوالے کی زبان سے ایک ہمدردی بھرا جملہ نکلا، جس کے حرف حرف سے خلوص ٹپک رہا تھا، انھوں نے فرمایا ’’ما أحسن ھٰذا الصوت لو کان فی قرأۃ کتاب اللہ‘اگر اس گلے سے کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے، تو اس کی خوش الحانی کا کیا پوچھنا ‘‘ خلوص و ہمدردی سے لبریز یہ جملے اس (سابق) مغنی کے کانوں میں پڑتے ہیں اور اس کے قلب و دماغ کو اسیر بنا لیتے ہیں اور پھر زندگی میں انقلاب آ تا ہے ، بانسری توڑ کر پھینک دیتے ہیں ، گانے بجانے سے توبہ کر لیتے ہیں اور صحابی رسولﷺ کا دامن تھام لیتے ہیں ان سے کبھی جدا نہیں ہوتے ،یہاں تک کہ امام، عالم زمانہ بن جاتے ہیں ، صحیح بات تو یہ ہے کہ پر خلوص دعوتی جملہ انہیں لوگوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ،جو سب سے زیادہ گمراہ مانے جاتے ہیں ، اگر عبداللہ بن مسعودؓ انہیں جھڑک دیتے اور سخت سست کہہ ڈالتے، تو ہمارا یہی خیال ہے کہ وہ اتنا کار گر نہ ہوتا بل کہ عین ممکن تھا کہ الٹا رد عمل ہوتا۔
یہ امام مالک رحمہ اللہ ہیں ، امام دار الھجرۃ کا خطاب ملا ہے،مؤطا جیسی عظیم کتاب حدیث کے مصنف ،شہرت چہار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہے ،دور دراز مقامات سے شائقین علم نبوت دروازہ پر حاضری کے لئے کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ اپنے بارے میں فرماتے ہیں :میں ابن شھاب زہری کے عمر میں تھا ، ایک روز میرے والد نے ہم بھائیوں سے ایک مسئلہ دریافت کیا تو میرے بھائی نے صحیح جواب دے دیا اور مجھ سے غلطی ہو گئی۔
میرے والد نے اس پر کہا : علم کہاں سے حاصل ہوگا تمہیں تو کبوتر بازی سے فرصت ہی نہیں ملتی، برباد ہو گئے تم ، امام صاحب فرماتے ہیں مجھے اس پر غیرت آئی اور علامہ ابن ھرمذ کے پاس علم سیکھنے چلا گیا اور ان کے پاس سات سال رہا ۔
والد کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ امام صاحب کی انقلابی زندگی میں ان کی عقل مند والدہ کا بھی ہاتھ تھا، جو انہیں ہر وقت رہنمائی کرتی رہتی تھیں فر ماتے ہیں: میں حالت جوانی میں مغنیوں کے ساتھ رہتا تھا اور ان سے گانا سیکھنے کا شوقین تھا ۔میری امّی ایک دن کہنے لگیں : بیٹے: بد صورت گلوکارکے گانے کی طرف کوئی دھیان نہیں دینا : تم گانا سیکھنا چھوڑو ! فقہ شریعت کے حصول میں لگ جاؤ ، چنانچہ میں نے مغنیوں کا ساتھ چھوڑا اور فقہاء کے ساتھ رہنے لگا ۔آج اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مقام پر پہونچا دیا ہے ،جہاں تم دیکھ رہے ہو۔
مندرجہ بالا روایت سے پتہ چلتا ہے کہ امام مالک صرف کبوتر بازی ہی کے شوقین نہیں تھے ، اس سے بھی بڑھ کر لھو و لعب کے دلدادہ تھے ۔ذرا غور کریں وہ بھی ماں باپ تھے اور آج کے بھی والدین ہیں ،جو اس قسم کی نصیحتوں میں بخیلی کرتے ہیں اور اپنے جگر گوشوں کو تباہی میں پڑے رہنے دیتے ہیں اور انہیں خیر کثیر سے محروم کردیتے ،بل کہ خود بھی محروم رہتے ہیں اور امت کو بھی محروم رکھتے ہیں ۔
آئے امام شافعی رحمہ اللہ کو دیکھتے ہیں: امام صاحب نے قبیلۂ ھزیل کے ساتھ سات سال صرف کئے، ان کے اشعار اور عربی ادب میں مہارت حاصلکی۔فرماتے ہیں کہ جب میں مکہ واپس آیا، تو اشعار سنانے لگا ، اور عرب کی تاریخ آداب اور واقعات بیان کرنے لگا ،ایک دن بنو زبیر کے ایک چچا زاد بھائی کا گذر ہوا تو وہ کہنے لگا : اس لغت دانی ،فصاحت و بلاغت اور ذکاوت کے باوجود ،جب میں تمہیں علم شریعت سے محروم دیکھتا ہوں ،تو مجھ پر بہت گراں گزرتا ہے، اگر تم علم فقہ حاصل کر لو ،تو اپنے زمانے کے سردار بن جاؤگے۔میں نے کہا :تب کس کے پاس پڑھنے جاؤں: وہ کہنے لگا کہ، مالک بن انس، آج کل کے مسلمانوں کے سردار ہیں ۔تب یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی میں نے مؤ طا پڑھنے کا تہیہ کر لیا ، اس کو مکہ کے ایک آدمی سے عاریتاًمانگ لیا اور نو راتوں میں ازبر کر ڈالا، اس کے بعد گورنر مکہ کے پاس گیا اور ان سے گورنر مدینہ و خود امام مالک کے نام مکتوب لکھوالا یا۔
اس آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ،جو امام شافعی کو ایک شاعر و ادیب سے فقیہ زمانہ ، امام مجتہد، محدث عصر اور علم الاصول کا بانی بنانے کا سبب بنا۔ ہمیں تو اس مخلص آدمی کا نام نہیں معلوم جس کے منہ سے نکلا ہوا ایک جملہ امام شافعی کے دونوں ادوار کے درمیان حد فاصل بن گیا، تا ہم اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے، وہی اس آدمی کو اجر و جزاء سے نوازے گا ۔اس نا معلوم آدمی کے منافع کا کیا اندازہ جواسے یہ کلمہ ادا کرنے پر حاصل ہو گا:ائے ابو عبد اللہ مجھ پر یہ بات بہت شاق گزرتی ہے کہ تم ذکاوت، فصاحت و بلاغت، ادبی مہارت اورلغت دانی کے باوجود علم فقہ سے محروم ہو۔ ابو عبد اللہ اگر تم اسے حاصل کر لو تو اہل زمانہ کے سردار بن جاؤگے، تم امام مالک کے پاس جا کران سے علم فقہ حاصل کرلو۔ اس نا معلوم شخص کو کتنا ثواب ملا ہوگا ،اس کا آپ اور ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں، نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں’’الدال علی الخیر کفا علہ‘‘خیرکی طرف رہنمائی کرنے والے کو اتنا ہی ثواب ملے گا ،جتنااس کے کرنے والے کو ملے گا۔
حقیقت بھی یہی تھی امام صاحب بالیدہ ذہن ،پختہ فکرو ذکاوت حس اور زبردست حافظہ کے مالک تھے۔ یہاں تک کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے ، شافعی دنیا کے لئے سورج اور بدن کے لئے عافیت اور صحت کے مانند ہیں ، اور ان دونوں کے زوال کاکوئی بدل نہیں ہے ۔ اس طرح وہ کہا کر تے تھے، جس کے بھی ہاتھ میں سیاہی ہوگی اس کی گردن پر امام شافعی رحمہ اللہ کا احسان قائم رہے گا ۔
آےئے ایک اور عابد و زاہد کی طرف ،یہ امام مالک بن دینار ہیں(امام مالک بن انس نہیں) ان کی آپ بیتی خود انہی کی زبانی سنئے: میں شروع شروع میں ایک پولیس تھا ،اور اس سے پیشتر فسق وفجور میں مبتلا تھا، میں پہاڑ کی مانند مضبوط ،توانا اور طاقت ور تھا ،بہت شقی القلب تھا ،گویا سینے میں دل نہیں، بلکہ مضبوط اور سخت قسم کی چٹان ہے۔بنا بریں میری مذمت کرنے کی تاب کسی میں نہ تھی اور نہ ہی برائی کی کرنے کی جرأت تھی۔ شرابی تھا انہوں نے مزید اپنی خامیاں بیان کیں۔پھر ایک خواب نے ان کے دل کی دنیا میں زلزلہ برپا کر دیا، ایک انقلاب لے آیا اوروہی خواب ان کے دونوں ادوار کے درمیان حد فاصل بن گیا۔ان کی ایک بچی تھی ،اس کا انتقال ہو گیا اس سے اتنا رنج ہوا کہ مزید شراب نوشی شروع کردی ،ایک روز وہ سو رہے تھے، بہت زیادہ پی چکے تھے، اچانک خواب میں دیکھا کہ قیامت آگئی ہے، جہنم سامنے ہے پیچھے ایک بڑا سا اژدھا ہے ،جو نگلنے کے لئے بڑھتا چلا آ رہا ہے، نجات پانے کی کوئی صورت نہیں ہے اتنے میں فوت شدہ بچی دوڑتی آتی ہے اور اژدھے کو بھگا دیتی ہے، اور کہتی ہے اے اباّ جان ’’الم ےأن للذین أمنوا أن تخشع قلوبھم لذکر اللہ وما نزل من الحق‘‘کیا اہل ایمان کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل نازل شدہ حق اور اللہ کی یاد سے لرز جائیں۔یہ سنتے ہی ان کی نیند کھل گئی اور اسی وقت سچے دل سے توبہ کی اور لوگوں سے صلاح اور مشورہ کے بعد حسن بصری کے پاس چلے گئے ،اور علم حاصل کرتے رہے،یہاں تک کہ ایک دن ان کا شمار علماء اور ائمہ دین میں ہونے لگا ۔
یہ باتیں گزشتہ صدیوں کے لئے خاص نہیں، ایسا واقعہ موجودہ صدی میں سید قطب رحمہ اللہ کے ساتھ بھی پیش آ چکا ہے ۔جب وہ امریکہ میں تھے ایسا ہی ایک واقعہ انہیں مصر واپس لانے کاسبب بنا،جہاں وہ دینی تنظیم میں شامل ہو گئے ۔یہ اس وقت کی بات ہے، جب وہ حسن البناء اور الاخوان المسلمون کے بارے میں کم ہی واقف تھے ، ایک روز راستے سے گزر رہے تھے دیکھا کہ گرجا گھروں کی گھنٹیاں بجائی جا رہی ہیں ،انہیں تعجب ہوا ،کیوں کہ وہ اتوار کا دن نہیں تھا ،وہ تحقیقات میں لگ گئے ،جواب ملا آج مشرق کا سب سے خطرناک آدمی مصر میں الاخوان المسلمون نامی تنظیم کا بانی یعنی حسن البنا مر گیا ہے ۔ سید قطب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جس آدمی کی موت پر گرجا گھروں میں خوشیاں منائی جائیں ،وہ عام آدمی نہیں ہو سکتا ، انہوں نے مصر لوٹنے کا پکا ارادہ کر لیا، اور جماعتی فکر سے آگاہی حاصل کرنے لگے ، یہاں تک کہ اس کے رکن بلکہ عظیم قائدین میں سے ایک قائد بن گئے۔
ہماری اسلامی تاریخ میں اس قبیل کے نمونے بے شمار ہیں ،میں انہی چند نمونوں کے بیان پر اکتفا کرتا ہوں، جن سے ان جملوں ،واقعات اور حالات کا بہ خوبی اندازہ لگ سکتا ہے ، جو ان قائدین ، مصلحین اور ائمہ کی زندگیوں کا دھارا موڑ نے کا سبب بن گئے ،اور جن کی بنا پر ان کی فکر میں زبردست انقلاب برپا ہو گیا ۔کوئی بعید نہیں، اگر آج کے والدین اور خاندان کے بزرگ اپنی اولاد پر معمولی دھیان دیتے ہوئے ان کی تربیت کریں ،تو ان کے بچے امام مالک یا امام شافعی بن جائیں ۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمارے قلوب کو اپنے دین پر قائم رکھے۔ آمین
وآخردعواناان الحمد للہ رب العالمین

No comments:

Post a Comment